چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

”یہ دودھ کا گلاس پی لیجیے مگر یہ پہلے بتا دوں کہ اس میں زہر ہے۔” نواب صاحب نے چونک
کر عمار علی کی جانب دیکھا۔
”کیا بک رہے ہو؟”
”آپ کو اوپر کا ٹکٹ پکڑوانے کی جلدی ہے کچھ لوگوں کو۔ ویسے میری بات پر یقین نہ ہو تو پیتے رہیے روز۔ جلد ہی آپ کو پتا چل جائے گا ۔” وہ اسے گھورنے لگے تو عمار علی جلدی سے بولا:
”ارے نہیں نہیں! یہ وہ والا زہر نہیں ہے نواب صاحب! یہ سلو پوائزن ہے۔ آہستہ آہستہ آپ کو موت کے منہ میں لے جائے گا ۔ ویسے بھی آپ کو مرنے کی کونسی ایسی جلدی ہے۔ ہے نا؟ ”
”بکواس بند کرو۔ ” وہ دھاڑے۔
”واہ! نیکی کر دریا میں ڈال ۔ ایک تو اتنی مشکل سے جان بچا کر آپ کی خاطر جاسوسی کرو اوپر سے ڈانٹ بھی سنو۔ ” وہ منہ بنا کر بولا۔
” تم سے کس کمبخت نے کہا ہے کہ یہاں کی جاسوسی کرتے پھرو ۔ اپنے کام سے کام رکھو۔”
”یہ بھی تو میرا کام ہے نا ۔ اب کھانے پینے کی اشیاء میں سے کل کو کچھ ایسا ویسا ملا تو گردن تو میری پھنسے گی ۔ باورچی ہونے کے ناطے ہر چیز فی الوقت میری ذمہ داری ہے ۔ ویسے اس سازش کے پیچھے کون ہے یہ پتا لگانے کے خواہش مند نہیں ہیں آپ؟ ” نواب صاحب اسے مسلسل گھورے جارہے تھے ۔ جتنا کچھ وہ بول چکا تھا اس کا دسواں حصہ بھی کہنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ وہ یس یانو سننے کے عادی تھے کوئی ان کے ساتھ بحث کرے، اس سے انہیں سخت چڑ تھی جبکہ عمار علی مسلسل بولے جارہا تھا۔
”دیکھیے نواب صاحب! آپ کی خدمت کے لیے میں آیا نہیں بلکہ بھیجا گیا ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ میں کوئی جاسوس ہوں یا پھر خفیہ پولیس کا آدمی ۔ ہو سکتا ہے کوئی ایاز ہوں جو محمود احمد غزنوی کی طرح کے بت شکن کے بعد اس کا جانشین بننے آیا ہوں ۔ میں کیا ہوں اور کیا کررہا ہوں اس کو ایک طرف رکھیے۔ جو کہہ رہا ہوں اسے سمجھئے ۔ آپ کی جان کو خطرہ ہے اور میں اس خطرے کے راستے میں ذرہ بکتر بن کر کھڑا ہوں۔بس چپ چاپ تماشا دیکھتے جائیے۔ہاں اپنی طاقت کے بل بوتے پر میرے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیے ۔ جس دن آپ نے میری اصلیت جان لی اس دن ککڑ بن کر ایک ٹانگ پر یہاں سے بھاگ جاؤں گا۔ میرا چیلنج قبول کریں نواب صاحب۔” اس نے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے کردیا۔نواب صاحب نے اس کے ہاتھ کو حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”جس دن تم نے کوئی اہم کارنامہ سر انجام دے دیا اس دن خود کو ہاتھ ملانے کے قابل سمجھنا ۔ ابھی دفع ہو جاو یہاں سے ۔ ” اور وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گیا ۔ نواب صاحب کے لبوں پر پر اسرار مسکراہٹ تھی۔ وہ سازشوں کو سمجھتے تھے اسی لیے انہوں نے کبھی وہ دودھ پیا ہی نہیں تھا۔ وہ اٹھے اور حسبِ عادت سیفی کی جانب سے لایا گیا دودھ کا گلاس اٹھا کر پینے لگے۔ انہیں یقین تھا کہ سارے رشتے بے وفا ہو سکتے ہیں مگر ایک بیٹی کبھی اپنے باپ سے دھوکہ نہیں کرسکتی ۔
٭…٭…٭




”ناظرین! خبردار ہوشیار! اس وقت واٹر پت یعنی پانی پت کی لڑائی شروع ہو چکی ہے۔” سیفی چھت پر سے کمنٹری شروع کرچکا تھا ۔ درحقیقت صحن میدانِ جنگ بن چکا تھا ۔ گلناز نے مہناز کو بالوں سے پکڑا ہوا تھا ۔ جبکہ لمحہ بہ لمحہ آگاہی کے لیے ہمسایوں کو کمنٹری سنائی دے رہی تھی ۔ سیفی بے چینی سے عمار انکل کی آمد کا منتظر تھا۔ وہ اپنی آواز بلند کرتے ہوئے مسلسل بولے جارہا تھا ۔
”ناظرین! اس وقت مہناز آنٹی نے اپنا آپ چھڑوا لیا ہے۔ وہ بھاری پڑ رہی ہیں گلناز مامی کو چاہیے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے بال پکڑ کر کھینچیں۔ اور ناظرین یہ دیکھیے ایک بار پھر مانی آنٹی کو قابو کرلیا گیا۔ لٹل ماموں اور فیٹ ماموں چپ چاپ تماشا دیکھ رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس جنگ میں کود کر شہادت کے رتبے پر فائز ہو جائیں مگر وہ غازیوں میں شامل ہیں ۔ گل آنٹی کو چاہیے کہ وہ باکسرز کی طرح ایک پنچ ماریں اور مانی آنٹی کے دانت توڑ دیں اور ایک بار پھر مانی آنٹی نے اپنا آپ چھڑوا لیا ۔ وہ حیرت سے اپنا قصور پوچھ رہی ہیں جبکہ گل آنٹی کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے ۔ وہ خونخوار آنکھوں سے گھورتے ہوئے آگے بڑھیں آہستہ آہستہ سے وہ اپنے دائو پیچ استعمال کرنے کی کوشش کریں گی ۔ دوسری جانب مانی آنٹی کے چہرے پر حیرت ہے۔ وہ ہانپ رہی ہیں اور ایک بار پھر دونوں گتھم گتھا اور ناظرین اس میچ میں ایک اور اہم موڑ آن پہنچا ہے چیکو اور بے بی اکٹھے گیٹ سے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ انہیں نہیں پتا کہ آگے کیا ہوا ہے ۔ دونوں نے اپنی اپنی امی کو لڑتے دیکھا اور دونوں نے آتے ہی لڑنا شروع کردیا ہے۔ خاندانی بچے ہیں اپنی اپنی امی کی لاج رکھ کر خود بھی گتھم گتھا ہو چکے ہیں۔ اور یہ کیا؟ ارے باپ رے! ناظرین اس وقت عجیب و غریب مناظر آپ کو براہِ راست دکھا رہے ہیں۔ خون خون نہ رہا پانی ہوگیا۔ بچوں کی دیکھا دیکھی اور خواتین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لٹل بوائے اور فیٹ بوائے بھی معانقہ آرائی پر اتر آئے۔ ہمارے ویڑے(صحن) میں اس وقت زنانہ، مردانہ اور بچگانہ کشتی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔اور یہ کیا؟ ماموں جان آپس میں بغل گیر ہیں مگر حقیقت میں نہیں لڑ رہے۔ یہ دھوکہ ہے ناظرین! ”دونوں بیگمات نے یہ کمنٹری سن کر اپنے اپنے ”میائوں” کی جانب گھور کردیکھا اور دوبارہ دوبدو لڑائی پر گامزن ہوگئیں۔ مہناز کو اس معاملے کا علم ہی نہیں تھا مگر جب ”چور کی بچی” اور ”میرا زیور چرانے والی” جیسے الفاظ سنے تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔اس نے اپنی صفائی پیش کرنا چاہی مگر گلناز نے اس کی ایک نہ سنی ۔ یوں اسے بھی اپنا جسمانی دفاع کرنا تھا باقی باتیں بعد کی تھیں۔ جسمانی لحاظ سے وہ گلنار کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔ابھی طوفانِ بدتمیزی جاری تھا کہ ایک آواز گونجی،نواب چنگیزی کی آواز۔
”یہ کیا ہو رہا ہے؟” سیفی سمیت سب چابی والے کھلونے کی مانند یک دم رک گئے۔مگر پھر سب سے پہلے سیفی کا قہقہہ ابھرا ۔ عمار علی گیٹ سے داخل ہورہا تھا جس نے نواب صاحب کی آواز نکالی تھی۔ وہ مسکراتا ہوا ان کے قریب سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔سب نے سکون کا سانس لیا وگرنہ آج مرے تھے۔ سیفی ایک بار پھر چلایا:
”ناظرین! ذرا سی بریک کے بعد ایک بار پھر یہ جنگِ عظیم شروع ہوچکی ہے اور اس بار ایک شاندار پنچ مانی آنٹی کی طرف سے گل آنٹی کی ناک پر۔” اور پھر گلناز زخمی ہاتھی کی طرح دھڑام سے گھاس پر چاروں شانے چت ہو گئی۔آواز سے یوں لگا تھا جیسے کوئی دوسری منزل سے بھینس نیچے آگری ہو۔ خون اس کی ناک سے بہہ رہا تھا جبکہ سیفی کی کمنٹری کو بریک لگ چکی تھی ۔ اس کی ماں رضیہ اور نانا کسی کام کے سلسلے میں شہر گئے ہوئے تھے۔اچانک سب کو ہوش آیا۔گلناز کا خون دیکھ کر اس کے بیٹے نے زوردار چیخ ماری ۔ معاملات سنجیدہ رخ اختیار کر چکے تھے اس لیے سیفی بھی نیچے اتر آیا تھا ۔ اس کے اندر گو کہ قہقہے پھوٹ رہے تھے اور چیکو کے رونے بلکہ مینڈھے کی مانند رینگنے پر ہنسی روکنا مشکل ہورہی تھی مگر وہ سنجیدگی سے ممانی کو اٹھوانے میں مدد کررہا تھا۔ ملازمین میں سے کسی مرد کا آنا نامناسب تھا اس لیے عورتوں کو بلایا گیا۔ اب اتنی بڑی مخلوق کو اٹھانے کے لیے کرین تو لائی نہیں جاسکتی تھی۔ اٹھاتا کون۔ سب نے مل کر زور لگایا مگر بے سود۔ اس مشکل مرحلہ پر سیفی نے عقل مندی سے کام لیا۔ اس کا بس اتنا ہی کہنا تھا کہ ”نانا جان آگئے بھاگو۔” تو بے ہوشی کا ناٹک کرنے والی گلناز بھاگنے والوں میں سب سے پہلے اندر پہنچی اور پھر اپنا لال لال منہ لیے باتھ روم میں گھس گئی۔وقتی طور پر سیز فائر ہونے کے باعث یہ جنگ ٹل چکی تھی مگر سیفی اور عمار علی جانتے تھے کہ:
”پکچر ابھی باقی ہے۔”
٭…٭…٭
”ایک مشورہ دینا تھا آپ کو نواب صاحب!” عمار علی اس انداز میں بولا جیسے کوئی لنگوٹیا دوسرے کو مخاطب کرتا ہے ۔
”سب سے پہلے تو کھڑے ہو جاؤ۔” وہ غصے سے بولے۔
” اور تم نے کیا اپنے اپنے آپ کو گھر کا مالک سمجھ لیا ہے؟ یوں مسخروں جیسی حرکتوں سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ ”
” ارے مالک تو آپ ہیں مائی باپ!” وہ لجاجت سے بولا۔
”ہم تو بس اتنی سی عرضی کرنے کو حاضر ہوئے تھے کہ اگر ایک فیملی کو دوسری منزل پر جبکہ دوسرے کنبے کو تیسری منزل پر بھیج دیا جائے تو کیسا رہے گا ۔ اب دیکھیے نا یہ گرائونڈ فلور تو علم و ادب کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کے کمروں کو لائبریری کا درجہ ملنا چاہیے تاکہ آپ کی آنے والی نسل علم کے زیور سے مستفید ہو سکیں۔” اس نے نواب صاحب کے گھورنے کے باوجود اپنی بات پوری کی تو ان کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا ۔ پھر وہ اپنی رعب دار آواز میں گرجے:
” میں پوچھتا ہوں تم ہو کون جو اس میرے اصولوں کے برخلاف فیصلے کرو۔”
”میں کون ہوں، یہ جاننا تو آپ کا کام تھا۔ ہاں اگر آپ ہار مان کر یہ کہہ دیں کہ نواب چنگیزی کا اثر و رسوخ اور حافظہ بلکہ عقل اب پہلے جیسی نہیں رہی تو پھر میں ایک منٹ میں بتا دوں گا کہ کون ہوں۔ویسے ایک بات تو طے ہے کہ خاکسار کوئی ایلین نہیں ہے بلکہ انسان ہے ۔” اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر نواب صاحب کا خون کھول رہا تھا ۔ وہ دل ہی دل میں اس بات کے معترف ہوگئے تھے کہ کمبخت مشورے بڑے کارآمد دے رہا ہے۔ شاید چہرہ شناس بھی تھا اور سمجھ چکا تھا کہ اس وقت ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ اسی لیے بولا:
”آپ جتنا مرضی اپنا چنگیزی پن لے آئیں مگر میں جانتا ہوں کہ یہ تجویز آپ کے دل کو لگی ہے۔ اصل میں آپ کی تقدیر ہی خراب ہے اس وجہ سے آپ کو کوئی پڑھا لکھا مجھ سا سمجھدار بندہ ملا ہی نہیں۔ غالباً آپ بیٹوں کی نالائقی کا غصہ اس طریقے سے نکال رہے ہیں کہ اپنے ارد گرد پڑھے لکھے ملازمین رکھ رہے ہیں حالانکہ یہ قصور آپ کے بچوں کا نہیں آپ کا اپنا ہے۔آپ خود اس کے ذمہ دار ہیں نواب صاحب! ” اس کی آواز یک دم بلند اور لہجہ تلخ ہو گیا ۔ نواب صاحب نے غصے سے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر اس نے اشارے سے روک دیا۔
”سنیے نواب صاحب! آج سن لیجیے۔ اگر آپ کو ساری دنیا کو سنانے کی عادت ہے تو کچھ نہ کچھ سننے کی بھی عادت ڈالئے۔ آپ اولاد کو کیوں دوش دے رہے ہیں؟ قصوروار تو آپ خود ہیں بلکہ قصوروار نہیں بدعا دئیے ہوئے اور ٹھکرائے ہوئے۔ جس نے ایک پڑھی لکھی لڑکی کی زندگی تباہ کردی تھی۔ آپ تو گڑیا اور اس کے نومولود بچے کو بھلا کر وقت کے نواب بن بیٹھے مگر یہ بھول گئے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔” نواب صاحب کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے ۔ وہ کسی خزاں رسیدہ پتے کی مانند لرز رہے تھے ۔ ان کے اوپر یک دم بڑھاپا طاری ہو گیا تھا ۔ عمار علی وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا تھا مگر ان کے دماغ پر ہتھوڑے برس رہے تھے ۔ ایک ہی لفظ تازیانے کی مانند اس کے دل پر وار کررہا تھا۔ گڑیا، گڑیا، گڑیا۔ انہیں محسوس بھی نہ ہوا کہ کب ان کی آنکھوں سے وہ قطرے نکل کر ان کی سفید داڑھی میں گم ہو گئے۔”
”آہ! گڑیا،کہاں ہو تم” وہ زیرِ لب بڑبڑائے اور پھر ماضی کا وہ حصہ ان کی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا ۔ اسد اور گڑیا کی پریم کہانی۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عشق من محرم — علینہ ملک

Read Next

صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!