چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

بخدمت جناب جانِ غالب نورِ قلب و روشن بلب
جنابِ عالی!

مؤدبانہ گزارش ہے کہ کچھ دنوں سے سائل کو یوں محسوس ہوریا ہے جیسے زندگی میں پہلی بار کوئی ایسی تبدیلی آئی ہے جو دل کے اندر لالٹین چھوڑ گئی ہے ۔ سائل بیک وقت ایک روشن خیال اور دل جلا بن چکا ہے ۔ اب اس دل میں کسی اور کا خیال آنا ناممکن ہے۔ اس لیے مہربانی فرما کر سائل کے حق میں اپنا چنا منا سا دل عنایت فرمائیں ۔
جناب کی عین نوازش ہوگی
بے غرض
آپ کی خیریت کا طالب
اسد اللہ خاں غالب

یہ وہ پہلا خط تھا جو اسد علی نے ثمرہ عرف گڑیا کو لکھا تھا ۔ اسد علی دل پھینک نہیں تھے ۔شرارتی طبیعت بچپن ہی سے تھی۔پکی عمر تک پہنچ کر بھی وہ اپنی طبیعت کی شوخی ختم نہ کرپائے تھے۔ نام کا اثر تھا اس لیے طبیعت میں بھی شاعرانہ رنگ موجود تھا ۔ خود کو غالب کہلوانا پسند کرتے تھے۔ عام طور پر آم پسند نہیں کرتے تھے مگر جب سے پڑھا تھا کہ غالب آموں کے شوقین تھے تو اکثر آموں کا ذکر چھیڑ دیتے تھے۔ نوجوانی کا دور خاصہ کٹھن اس لیے بھی تھا کہ تقسیم کے دنوں میں ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل غم زدہ ۔ پیسے کی کمی نہ تھی مگر طبیعت میں وہی شانِ بے نیازی جو اصلی غالب کی زندگی کا حصہ تھی۔ وہ دوستوں کا دوست تھا۔اس لیے ہر وقت ایک مجمع لگا رہتا تھا آس پاس ۔ آزادی کے کئی سال بعد اچانک ایک دن انہیں پیار ہوگیا۔پہلی نظر میں ہی وہ اس کے دل کو بھا گئی۔ انہیں بڑے نواب صاحب نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی بھیجا تھا مگر وہ بجائے تعلیم کے عشق کے سمندر میں غوطہ زن ہو گیا۔ وہ اپنے مدرسے کے بجائے گرلز سکول کے آگے منڈلاتا رہتا۔ہاتھ کھلا رکھ کر دوستوں میں خرچ کرنے کا عادی تھا اس لیے الٹے سیدھے مشورے دینے والوں نے اس کا دماغ خراب کردیا تھا۔ آخر کار ایک دن اس نے دل کا حال اس تک پہنچانے کا فیصلہ کرہی لیا۔
ایک خط نما درخواست یا درخواست نما خط تحریر کرکے اس نے گڑیا کی جانب بھیجا اور پھر نامہ بر کی کامیابی کے لیے دعا کرنے لگا۔خط پڑھ کر گڑیا کا کیا حال ہوا، یہ تو اسے خبر نہ تھی مگر جونہی گڑیا اور اس کی سکھیاں ایک ٹولی کی صورت میں اس کے قریب سے گزرتیں ایک فلک شگاف قہقہہ پڑتا۔وہ ایک نظر اسد پر ڈالتی اور اسد کا چہرہ سو واٹ کے بلب کی مانند روشن ہو جاتا۔ خط کا جواب نہ آنے پر پوری کابینہ ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئی ۔ اب کے بار گڑیا سے براہِ راست بات کرنے کی کوشش کرنے کا مشورہ دیا گیا۔یہ مرحلہ کافی مشکل تھا۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ذمہ داری اسد کے نازک کاندھوں پر تھی ۔ اس نے بمشکل ایسی جگہ بات کرنے کی ٹھانی جہاں گڑیا کے ساتھ صرف ایک ہی سہیلی بچتی تھی ۔ وہ پہنچا اور بات کرنے سے پہلے ہکلانے لگا۔اسے ان کاموں کا کوئی تجربہ نہ تھا اس لیے وہ وہ میں میں کرنے لگا۔اس کی سہیلی کافی سمجھدار تھی، اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر اتنے ہی ترم خان ہو تو اپنے اپنا کوئی مقام پیدا کرو ۔ ایسے للو پنجو تو ہر جگہ پھرتے نظر آتے ہیں ۔ اس کے جی میں آیا کہ کہہ دے میرے باپ کے پاس اتنی دولت ہے کہ آدھا کراچی خرید لے مگر وہ نہ کہہ سکا ۔ اسے یہ بات پسند نہ تھی کہ کوئی اس کی دولت پر مرے۔
وہ وہاں بڑے بڑے دعوے کرکے چلا آیا تھا کہ آسمان سے تارے توڑ لائوں گا اور پھر اگلے خط میں اس نے سنجیدگی سے اپنے بارے میں سب کچھ لکھ ڈالا ۔ بس اپنی امیری اور نوابی کا تذکرہ گول کرگیا اور خود کو ایک عام سا درمیانے طبقے کا فرد ظاہر کیا۔ اس دن اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب اسے پہلی بار خط کا جواب موصول ہوا۔ خط کیا تھا دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیا گیا تھا ۔ مگر پھر اس کی راہ میں ظالم زمانہ تب حائل ہوا جب اسے اچانک واپس بلوا لیا گیا ۔اس کی والدہ کی بیماری کی وجہ سے اسے اچانک بلوایا گیا تھا۔والدہ کے علاج کے سلسلے میں اسے اپنے والد اور والدہ کے ساتھ بیرونِ ملک جانا تھا۔ وہ وقتی طور پر کراچی میں گزرے حالات بھول گیا تھا۔ اسی بیچ جنگ کی وجہ سے ملک کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا ۔ جنگِ ستمبر کے بعد اسے گھر والوں نے کراچی بھیجنے سے انکار کردیا تھا ۔ وہ بہت عرصہ تڑپتا رہا مگر ملکی اور سیاسی حالات موافق نہ ہونے کے باعث وہ کچھ نہ کرسکا ۔ اس کا رابطہ خطوط کے ذریعے اپنے دوستوں کے ساتھ تھا جو گڑیا کی خیر خبر دیتے تھے۔ چند سال یوں گزرے تو آخر کار اس نے تعلیم کی غرض سے دوبارہ کراچی جانے کے لئے گھر والوں کو راضی کرنا شروع کیا۔ آخر کار اس کی محنت رنگ لائی اور اسے اجازت مل گئی ۔
٭…٭…٭




وہی دن لوٹ آئے تھے۔وہ اب کافی حد تک سمجھدار ہوچکا تھا ۔ مگر کم بخت محبت ایسی بلا ہے جو جب چمٹ جائے تو پھر کسی قابل نہیں چھوڑتی۔ وہ بھی گڑیا کی محبت میں گوڈے گوڈے دھنس چکا تھا ۔ اب کی بار وہ تخت یا تختہ کا فیصلہ کرنے کو آیا تھا ۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ہر صورت شادی کرے گا ۔ ثمرہ کی کل کائنات ایک بوڑھی ماں تھی۔ اس سے بات کی گئی ۔ وہ بے چاری مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق جوان بیٹی کا بوجھ برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتی تھی۔ اس نے اپنے بارے میں سب سچ بتایا اور جلد از جلد اسے اپنے گاؤں لے جانے کا وعدہ کیا۔ اسی وعدے کے بدلے اس نے کراچی میں ہی گڑیا سے نکاح کرلیا۔ وہ ہاسٹل میں رہتا تھا مگر نکاح کے بعد وہ گڑیا کے گھر رہنے لگا۔ان ہی دنوں اس کے والد کی طبیعت خراب ہونے کے باعث اسے واپس بلوالیا گیا۔اس کے واپس پہنچنے کے اگلے دن ہی بڑے نواب صاحب اسے روتا چھوڑ کر دوسری دنیا میں پہنچ گئے ۔ یک دم ہی اس پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باعث حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے تھے ۔ اس کے کاندھوں پر دوگنا ذمہ داری آگئی تھی ۔ وہ ان ہی ذمہ داریوں میں اتنا پھنسا ہوا تھا کہ ایک دن اس کی ماں نے اسے ایک اور خبر سنائی ۔ موت سے قبل اس کے والد نے اس کا رشتہ اس کی پھوپھی زاد سے طے کردیا تھا۔ اب اسے والد کی آخری خواہش سمجھ کر قبول کرنا تھا۔ وہ بہت رویا مگر ماں نے اسے جذباتی بلیک میل کیا جس کے باعث اس نے ہار مان لی۔ گڑیا کی یاد اس کے دل سے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں نکل پائی تھی۔ اس کی شادی کو ماں نے بھی آخری خواہش کہہ کر اسے جکڑ لیا۔چاروناچار اسے ہار ماننا پڑی اور پھر شادی کے ایک ماہ بعد ہی وہ مکمل لاوارث ہوگیا۔اس کے سر پر سے سایہ دار درخت کٹ گیا۔ماں کی موت نے اسے کافی عرصہ تک غمگین رکھا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا ۔ اب وہ ہر چیز کا مالک و مختار تھا۔ روک ٹوک کا ڈر نہ تھا ۔ بیوی اللہ میاں کی گائے تھی ۔ لہٰذا وہ کراچی جانے کے بارے میں سوچنے لگا۔اس نے وہاں موجود دوستوں سے رابطہ کیا مگر حالات کی خرابی کے باعث خطوط کا جواب نہ مل سکا ۔ وہ خود کراچی یاترا کے لیے پر تولنے لگا۔سانحہ مشرقی پاکستان گزر چکا تھا ۔ اس نے کئی دن سوچ بچار کی اور پھر بوریا بستر باندھے کوئے یار پہنچ گیا مگر وہاں پہنچ کر قسمت میں وصال یار نہ تھا۔ نہ خدا ملا نہ وصالِ صنم۔ اس علاقے میں مکان جلا دیے گئے تھے ۔ ایسے میں اس گھر کے مکینوں کا پتا چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ وہ ایک ہفتہ جھک مار کر واپس آنے کی سوچ رہا تھا کہ اسے ایک پرانا دوست ملا جس کے مطابق غنڈہ گردی کی وجہ سے کون سلامت رہا کون نہیں، کسی کو معلوم نہ تھا۔ یوں غالبِ ثانی بے آبرو ہو کر اس کوچے سے واپس لوٹ آیا۔اس کے بعد اس نے بہتیرے کوشش کی مگر گڑیا یا اس کی ماں کا نام و نشاں تک نہ ملا۔آہستہ آہستہ وہ نارمل زندگی کی جانب لوٹ تو آیا مگر طبیعت کی شگفتگی نے کرختگی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ یوں اسد اللہ خان غالب، نواب چنگیزی بن گیا ۔ ایک کھڑوس بڈھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

عشق من محرم — علینہ ملک

Read Next

صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!