چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

”نام کیا ہے تمہارا؟”
”جناب آپ ڈاکومنٹس ملاحظہ فرمائیں ساری تفصیلات ان میں ہیں۔” وہ اطمینان سے بولا۔
”جتنا پوچھا ہے اتنا ہی جواب دو زیادہ شوخیاں مجھے قطعی ناپسند ہیں۔”
”چلیں زیادہ نہیں پسند نا! تھوڑی سی تو کر سکتا ہوں؟” وہ شرمندہ ہونے کے بجائے ترکی بہ ترکی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا تونواب صاحب نے گھور کر اسے دیکھا۔
”عمار علی ولد اسد علی۔” وہ بڑبرائے توعمار علی نے شاعرانہ انداز میں شکریہ اداکیا ۔
” والد کیا کرتے ہیں؟”
” جنت میں جا کر بندہ کیا کرتا ہوگا ویسے؟ میرا مطلب ہے کہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ۔ والدہ حیات ہیں جو درزن ہیں ۔ میں پچھلے پندرہ سال سے ایم اے کرکے محنت مزدوری کررہا ہوں ۔ دیٹس آل یورآنر۔” وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔
” کوئی نوکری کیوں نہیں کی؟”
” نوکری اور چھوکری اس وطنِ عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ ہے بلکہ آپس میں لازم و ملزوم بھی ۔ دونوں کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے جو کہ کررہا ہوں ۔ ویسے آپ مالی سے لے کر منشی تک ہر جگہ مجھے فٹ کرسکتے ہیں ۔ بندۂ حقیر آلو کی طرح ہے۔ جیسے آلو ہر سبزی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرلیا ہے۔ ویسے ہی آپ ہرکام مجھ سے کروا سکتے ہیں بقلم خود۔”
”یہ خواہ مخواہ دانتوں کی نمائش کا کیا مقصد ہے جو ہر بات کے آخر میں ضروری سمجھتے ہو۔ اور ہاں یہاں نوکری کی کوئی خاص وجہ؟”
” ایک سو ایک وجوہات ہیں جن میں سے سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ مجھے اکثر لوگوں نے یہاں نوکری سے منع کیا ہے کہ نواب صاحب کے آگے ٹگنا تمہارے بس کی بات نہیں ۔ بس یہی بات ہم نے چیلنج کے طور پر لے لی۔بھلا یہ کیا ہوا؟ نواب صاحب نہ ہوئے ڈائنوسار ہوگئے ۔”
”تہذیب کے لہجے میں رہ کر بات کرو نہیں تودھکے دے کر نکلوا دوں گا ۔” نواب صاحب تقریباً دھاڑتے ہوئے بولے۔
” یہ تو ذیادتی ہوگی نا گھر بلا کر نکلوانا ۔ خیر! آپ کیا نکلوائیں گے ہم خود ہی جارہے ہیں ۔ آپ کے ہاں تو آزادیٔ اظہار رائے کی بھی پابندی ہے۔ بائے بائے ٹاٹا۔”
”رکو!” وہ ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھاکہ عقب سے آواز آئی ۔
”جی؟”
”کل سے کام پر آجانا۔”
”ہیں جی؟” وہ دیدے پھاڑ کر نواب صاحب کی جانب دیکھنے لگا۔
”میں نے فارسی نہیں بولی۔” وہ دھاڑے تو عمار علی بھاگ کر باہر نکل گیا ۔ گیٹ سے باہر نکلتے ہی اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
٭…٭…٭




تین منزلہ حویلی کی چھت پر سیفی کا کبوتر خانہ تھا۔ عمار علی کی عمر تیس اور چالیس سال کے درمیان تھی مگر عمر چور لوگوں کی طرح دس سال چھوٹا دکھائی دیتا تھا۔ سیفی کی طرح وہ بھی کبوتروں کا جنون کی حد تک شوقین تھا ۔ کبوتروں کی وہ وہ عادات و اطوار جانتا تھا جو سیفی کے لئے قطعاً نئی تھیں ۔ کبوتروں سے فارغ ہو کر دونوں چھت پر کرسیاں ڈالے باتیں کرتے رہتے تھے ۔ اسے آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔ اس دوران باورچی کی ہاں بچے کی ولادت متوقع تھی جس کے پیشِ نظر وہ چھٹی لے کر گاؤں چلا گیا تھا ۔ باغ کے ساتھ ساتھ اس نے کچن بھی سنبھال لیا تھا۔ اس کے پکے کھانے کھا کر نواب صاحب سمیت ہر کوئی انگشت بدنداں تھا ۔ سیفی نے دوسرے ہی دن چھت پر سے اپنی رپورٹنگ اس سمیت شروع کردی تھی ۔
”ناظرین بریکنگ نیوز! سیفی نیوز کے نئے اینکر پرسن عمار علی نے بھی ہمارا نیوز چینل جوائن کرلیا ۔ اب آپ دن میں دو بار بریکنگ نیوز سن سکیں گے۔”
”یہ کیا ہوتا ہے سیفی بابا؟” اس نے تعجب سے پوچھا تھا ۔
”بس عمار انکل یہ جو ہر نیوز چینل کرتا ہے میں بغور جائزہ لیتا ہوں اور پھر وہی انداز اپنانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ میرا اپنا چینل ہو اور ساری دنیا کے کرتوت میں سرعام دکھائوں ۔”
”ارے! ابھی تو آپ اتنے چھوٹے سے منے ہیں۔ ابھی پڑھائی پر توجہ دیں یہ بعد کی باتیں ہیں۔”
”پڑھائی بھی اپنا جگہ ٹھیک ہے یہ تو فارغ اوقات میں کرتا ہوں ۔” یہ تھی ان کی باقاعدہ پہلی ملاقات اور پھر روزانہ ان کی نشست چھت کے اوپر ہوتی۔نواب صاحب کو براہ راست دن کے وقت عمار علی سے کوئی کام نہیں ہوتا تھا اس لیے راوی کافی حد تک اس کی قسمت میں چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔ مگر وہ چین سے بیٹھنے نہیں آیا تھا۔
٭…٭…٭
”عمار انکل! یہ گھر نہیں ایک چڑیا گھر ہے جس میں عجیب و غریب کردار آپ کو ملیں گے ۔ چھوٹے ماموں اور موٹے ماموں سے تو آپ مل چکے ہیں ۔ ان کے ساتھ ہر وقت جگالی کرتی بھینسیں بھی آپ کو نظر آگئی ہوں گی۔ ایک بی ہتھنی بھی کبھی کبھار اس چڑیا گھر میں آ وارد ہوتی ہیں ۔ دونوں بیٹیوں کے کان پھرتی ہیں اور اڑن چھو ہو جاتی ہیں ۔”
”اور آپ کے نانا جان اور آپ؟” عمار علی، سیفی کی تشبیہات پر مسکرا رہا تھا ۔
”نانا جان تو اس چڑیا گھر میں ببر شیر ہیں جن سے سارا ہی گھر سہما رہتا ہے ۔ اور میں تو بے چارہ معصوم سا خرگوش… جو گاجر کھاکر سو جاتا ہے۔”
”ارے واہ! اتنے معصوم نہیں ہو پورے جاسوسِ اعظم ہو۔ بلکہ وہ کیا کہتے ہیں شرلاک ہومز۔”
”وہ تو زرا ہم ارد گرد کی خبر رکھنے کو ایسا کرتے ہیں تاکہ سچی اور کھری خبر میڈیا کو دی جاسکے۔”وہ ہنس کر بولا ۔
” اچھا تو کیا کیا خاص خبریں ہیں آج کی تازہ ترین اور پرانی؟”
” تازہ ترین اور پرانی خبروں کا نچوڑ یہی ہے کہ بڑی ہتھنی نے آکر مزید پٹیاں پڑھانی شروع کردی ہیں اپنے دامادوں اور بیٹیوں کو کہ جلد از جلد نانا جان کی جائیداد حاصل کریں ۔ اس کے لیے ایک بھرپور پلاننگ بھی سامنے آئی ہے ۔ کافی عرصہ سے گھر میں یہی کھچڑی پک رہی ہے جس کی ماسٹر مائنڈ بڑی ہتھنی ہے۔”
” بری بات سیفی بابا! ایسے نہیں بولتے بڑوں کو۔”
”تو پھر کمینگی کرتے ہی کیوں ہیں یہ بڑے؟ میرا بس چلے تو… انکل پلیز کوئی حل بتائیں ان سارے نمونوں سے نمٹنے کا۔ خاص طور پر ممانیوں کو سبق سکھانے کا تاکہ وہ بھی یاد رکھیں۔”
” حل تو بہت سے ہیں مگر ان کے لیے اچھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ۔”
” تو پھر بتائیں کوئی حل تاکہ اتنے دنوں سے چھائی بوریت بھی ختم ہو اور سبق بھی سکھایا جائے۔”
” کچھ کرتے ہیں سیفی بابا! بس ایک نکتہ ذہن نشین کر لو ۔ اگر دشمنوں کی تعداد ایک سے زائد ہو تو انہیں آپس میں ہی لڑوا دو اور بیٹھ کر تماشا دیکھو ۔ کیا سمجھے؟”
”بالکل ککھ سمجھ نہیں آئی ذرا وضاحت کیجیے ۔” عمار علی نے اسے سارا پلان سمجھانا شروع کیا تو اس کے چہرے پر دبادبا جوش نظر آنے لگا۔
”زبردست انکل! اب آئے گا مزہ!” وہ عمار کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے پرجوش انداز میں بولا۔
٭…٭…٭
گلناز کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے ۔ عین اس وقت جب دونوں بہنوں نے کسی عزیز کی شادی میں جانا تھا، گلناز کی ہیرے کی انگوٹھی اور گلے کا ہار نہیں مل رہا تھا۔ وہ ہار اسے منہ دکھائی میں ملا تھا اور انگوٹھی منگنی کی تھی ۔ نواب صاحب کے شادی کے بعد فضولیات پر قدغن لگائے جانے پر زیورات خریدنے کے لیے رقم کی فراہمی نہ ہونے کے باعث وہ دو چیزیں نہایت اہم تھیں۔مہناز تو سج دھج کر لال لگام ڈالے تیار کھڑی تھی مگر گلناز نے گھر کا کونا کونا چھان مارا تھا۔ ان چیزوں کی نمائش کا شوق اس قدر تھا کہ ان کے بغیر جانے کا تصور بھی اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔ مہناز اور اس کا شوہر تنگ آکر اپنی گاڑی میں مع اہل و عیال روانہ ہوگئے تھے کیونکہ گلناز نے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ شوہر پر برس رہی تھی کہ اس کی کوتاہی سے یہ سب ہوا۔ وہ منہ پھلائے بیٹھی تھی کہ اسے چھت پر سے سیفی کی آواز آئی:
”ناظرین! اس وقت چھوٹی ممانی جی کا پارہ کے ٹو کو چھو رہا ہے ۔ آخر سوال اٹھتا ہے کہ ان کے کمرے سے زیور کہاں گیا؟ اس حرکت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اس کا پتہ چلانا پولیس کا کام ہے مگر ہم آپ کو لمحہ بہ لمحہ آگاہی دیتے رہیں گے ۔ کیا ممانی اب بنا زیور کے شادی میں جائیں گی؟ ہم بات کرتے ہیں موٹے ماموں سے۔”
”اوئے الو کے پٹھے بھاگتا ہے یہاں سے یا آکر نیچے پھینک دوں۔” ممانی نیچے سے گلا پھاڑ کر لائوڈ اسپیکر کے مانند چلائی تو سیفی اپنا مائیک لیے پیچھے بھاگ گیا۔ اچانک عمار علی گیٹ سے اندر داخل ہوا تو اندر کی صورتحال کشیدہ پا کر دنگ رہ گیا۔
”ارے! آپ لوگ گئے نہیں ابھی تک؟ نواب صاحب کا حکم تھا کہ ایک بجے سے پہلے پہلے دونوں خاندانوں کا پہنچنا لازمی ہے ۔” اس نے کہا تو موٹے خان سمیت ان کی اہلیہ نے چونک کر اسے یوں دیکھا جیسے پھانسی کی سزا سنائی جارہی ہو۔
” ہائے میں مر جاؤں۔ میرا سب کچھ لٹ گیا۔” وہ سینہ کوبی کرنے لگی جسے دیکھ کر بمشکل عمار نے اپنی ہنسی روکی۔
”کچھ گم ہوا ہے کیا؟”
” زیور کسی نے چوری کرلیا ہے اماں کا۔” چھوٹا شوبی منمنایا تو ماں نے گھور کر اسے دیکھا تو وہ اور سہم گیا۔
”ارے! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ خیر ہمیں کیا ہم تو کبھی اس جانب آئے ہی نہیں۔” وہ کندھے اُچکاتے ہوئے چھت پر جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا کہ اچانک واپس مڑا۔
”چھوٹا منہ بڑی بات! ایک بات عرض کروں اگر آپ برا نہ مانیں۔ وہ کل جب آپ لوگ مارکیٹ گئے تھے تو…”
”تو؟ آگے بکو کیا کہنے چاہتے ہو۔”وہ غراتے ہوئے بولی۔
” وہ دوسری بی بی مطلب آپ کی بہن صاحبہ کافی دیر آپ کے کمرے میں گھس کر دروازہ اندر سے بند کئے بیٹھی رہی۔مجھے نواب صاحب نے آپ کے کمرے میں کسی کام سے بھیجا تھا ۔ میں جب یہاں پہنچا تو کنڈی کھول کر وہ باہر نکلی اور آپ کے بارے میں بتایا کہ موجود نہیں ہیں ۔”
”دیکھ چوہے! اگر یہ سب جھوٹ نکلا تو میں تیری ہڈیوں کا سرما بنا دوں گی ۔”گلناز کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی جبکہ باقی اہلِ خانہ تھر تھر کانپ رہے تھے ۔ بادل نخواستہ مہناز کے کمرے کا تالا توڑا گیا۔ اور پھر اگلے چند منٹوں میں اس کے ڈبل بیڈ کے گدے کے نیچے سے سب کچھ برآمد ہو چکا تھا ۔ گلناز کی حالت مزید خراب تھی۔ اس کی بینگن جیسی رنگت مزید بھیانک نظر آرہی تھی۔ عمار وہاں سے سیڑھیوں کے ذریعے چھت پر پہنچ چکا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو ان دونوں نے چھت پر سے ہاتھ ہلا کر گاڑی کو بائے بائے کیا ۔ اور پھر ایک قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔
”مشن سکسیسفل۔” سیفی نے وکٹری کا نشان بنایا۔
”ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اپنا کیمرہ تیار کرلیجے رپورٹر صاحب۔ وہاں تو نواب صاحب کے سامنے کچھ نہیں ہوگا لیکن یہاں ان کی عدم موجودگی میں جنگِ عظیم سوم کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے ۔” عمار علی نے کہا تو سیفی ہنسنے لگا ۔
” مان گئے انکل آپ کی چالاکی کو۔ ” دونوں مزید ہنگاموں کی پلاننگ کرنے لگے ۔
یک نہ شد دو شد کے مترادف اب دو آفتیں اکٹھے ہو کر اس گھر کے مکینوں پر قہر بن کر اتر گئی تھیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عشق من محرم — علینہ ملک

Read Next

صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!