”ناظرین! سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ نانا جان کی جائیداد میں سے کس کو کیا کیا ملے گا، یہ فیصلہ سب سے پہلے سیفی نیوز کے ذریعے آپ تک پہنچے گا۔” سیف الرحمن سیفی کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔
”چپ کر کمبخت مارے! اگر کسی نے سن لیا تونئی مصیبت گلے پڑ جائے گی ۔”رضیہ خاتون نے کم سن سیفی کو ڈانٹ پلائی مگر سیفی کہاں باز آنے والا تھا۔ وہ ہاتھ میں مائیک نما لکڑی کا ٹکڑا پکڑے بولتا رہا۔
”ناظرین ویلکم بیک! نانا جان کے واپس آنے تک ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا رابطہ لٹل بوائے اور فیٹ بوائے یعنی چھوٹے ماموں اور موٹے ماموں سے ہو جائے۔” اچانک اسے بریک لگانی پڑی کیونکہ امی کی چپل نے اس کے سر پر بوسہ دے دیا تھا۔
”ناظرین! میڈیا پر حملہ ہو چکا ہے۔ امی کی جانب سے ڈرون طیارے مسلسل سیفی نیوز پر بم برسا رہے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ آزادانہ صحافت کی راہ میں مزید ڈرون پھینکے جائیں اور ہم کھبے سجے ہو کر ان سے اپنا آپ نہ بچاسکیں، یہاں سے بھاگ رہے ہیں ۔ کیمرہ مین کالو ماسی کے ساتھ سیف الرحمن سیفی…” وہ سچ مچ وہاں سے بھاگ کر سیڑھیوں کے ذریعے چھت پر پہنچ گیا۔ رضیہ کے لبوں پر مسکراہٹ تھی ۔
”اللہ بچائے تیری شرارتوںسے سیفی۔” وہ زیرِ لب بڑبڑائی ۔
٭…٭…٭
نواب اسد علی خان تقسیم سے پہلے بھی نواب ابنِ نواب تھے اور بعد میں بھی ان کا شمار رؤسا میں ہوتا تھا ۔ پرانے وقتوں کے اصلی گھی والے بوڑھے تھے اسی لیے زندگی کی اسی بہاریں دیکھ کر بھی چاق و چوبند تھے ۔ دوستوں نے حرکتوں کے پیشِ نظر نام تبدیل کرکے نواب چنگیزی رکھ دیا تھا۔ پوتے پوتیوں تک سب انہیں چنگیزی دادا یا نواب چنگیزی ہی کہتے تھے ۔ شجرۂ نسب چنگیز خان سے ملتا تھا یا نہیں، مگر حرکتیں ویسی ہی تھیں۔ ان کی موجودگی میں تمام پھنے خان کونے کھدروں میں چھپ جاتے تھے اور کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان سے نظر ملا کر بات کرسکے۔
جوانی میں نجانے کونسا ایسا گناہ کیا تھا جو اولادِ نرینہ کی صورت میں اللہ میاں کی دو گائے ان کے پلے پڑ گئیں ۔ خلیل اور عقیل کی جوڑی بچپن ہی سے سب کی توجہ کا مرکز بنی رہی ۔ اپنی حرکتوں سے جو کسر بچی تھی، وہ ڈیل ڈول نے پوری کردی ۔ خلیل جسمانی لحاظ سے اتنا کمزور تھا کہ سب ترڈّا پہلوان یعنی ٹڈا پہلوان کہتے تھے جبکہ عقیل صحت کے معاملے میں اتنا خودکفیل تھا جتنا کرپشن کے معاملے میں وطن عزیز کے سیاستدان ۔ پورے گاؤں میں دونوں لٹل بوائے اور فیٹ بوائے یعنی چھوٹے خان اور موٹے خان کے نام سے مشہور تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے معاملے میں ان کا نقطہ نظر یہی تھا کہ تعلیم ایک زیور ہے اور زیور مردوں پر حرام ہے ۔ پس انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے فقط پرائمری اسکول تک ہی جانا گوارا کیا ۔ اولادِ نرینہ کے لیے بیسیوں منتیں مانی گئی تھیں اس لیے جب یکے بعد دیگرے دو بچوں کی پیدائش ہوئی تو نواب صاحب ففٹی کرچکے تھے۔ شادی کے بارے میں نواب صاحب کا فلسفہ تھا کہ یہ ایک بے وقوفی ہوتی ہے جو بیوقوفی کی عمر میں ہو جائے تو بہتر رہتا ہے ۔ اسی لیے دونوں کی شادی جلد ہی کردی گئی تھی کہ ممکن ہے سدھر جائیں مگر بے سود… آوارہ گردی اور صحبت کا اثر کبھی کبھار زندگی بھر کا روگ بنا جاتا ہے۔ ان دونوں کی عمر ابھی تیس سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ بال بچے دار ہو چکے تھے۔ یہ الگ بات تھی کہ خود بچوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔ زمین، جائیداد، بینک بیلنس اور گاڑیوں کی کوئی کمی نہ تھی ۔ دولت گھر کی باندی تھی مگر عقل و دانش کے معاملے میں خاندان کا کوئی ایک فرد بھی نواب صاحب کا دل نہ جیت سکا تھا ۔ انہیں یہ دکھ کے ان کے بعد اس جائیداد کا کیا ہوگا جس کی ہر شاخ پہ الو بیٹھا تھا جبکہ بہو اور بیٹوں کو یہ دکھ کہ نواب صاحب کا رام رام ست ہو اور وہ آزادی سے سکون کا سانس لے سکیں۔ اپنا اپنا دکھ تھا اپنی اپنی سوچ تھی۔ نواب صاحب کی قابلِ رشک صحت دیکھ کر دور دور تک ان کے اگلے جہان جانے کا امکان نظر نہیں آتا تھا۔ یوں دونوں جانب آگ برابر لگی تھی ۔ اس رسہ کشی میں رضیہ ایک سایہ دار درخت تھی جسے بیوہ ہونے کے بعد نواب صاحب نے حویلی میں بلالیا تھا ۔ نواب چنگیزی کے اس فیصلے پر دونوں بہوؤں نے ناک بھوں تو چڑھائی مگر ان سمیت کسی کی اتنی مجال نہ تھی کہ کسی قسم کا احتجاج کرسکیں چنانچہ دل کے ارماں سینے میں ہی رہ گئے ۔ سیف الرحمن سیفی کو نانا سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ واحد فرد تھا جو بچہ ہو کر بھی ہر بات نواب صاحب سے کہہ
دیتا تھا ۔ اسی لیے اکثر لوگ اس کے سامنے کوئی بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ نواب صاحب تک نہ پہنچا دے۔ خلیل کے دو بیٹے تھے جبکہ عقیل کا ایک ہی بیٹا تھا اور حسبِ فطرت دونوں افراد کے بیٹے بھی اپنے اپنے والد کی فوٹو کاپی تھے۔ دونوں بھائیوں کی بیویاں آپس میں بہنیں تھیں ۔ شادی سے پہلے گلناز اور مہناز دونوں صحت مند ضرور تھی مگر شادی کے بعد کام کاج نہ کرنے اور بے فکری سے کھانے پینے کے باعث موٹاپے کا شکار ہو چکی تھیں ۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کے باعث بقول سیفی، دور سے دونوں جگالی کرنے والی بھینسیں لگتی تھیں ۔ نوکر چاکر تو کافی سارے تھے اور وقتاً فوقتاً مزید بھی آتے رہتے تھے ۔ مالی کی ضرورت تھی تو نواب چنگیزی نے باقاعدہ اخبار میں اشتہار دے دیا تھا کہ پر کشش تنخواہ پر ایک مالی کی ضرورت ہے جس کی تعلیمی قابلیت کم از کم ایف اے ہونی چاہیے۔ گریجویشن والے کو ترجیح دی جائے گی ۔ اشتہار سب کے لیے باعثِ حیرت تھا۔ کچھ منچلے تو شوقیہ انٹرویو دینے چلے گئے جبکہ کچھ مالی حالات سے مجبور لوگ بھی قسمت آزمائی کرنے پہنچے ۔ نواب صاحب کو جاننے والوں نے ہر ایک کو منع کردیا تھا کہ ان کے ہاں ملازمت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ نواب صاحب کی طبیعت کے آگے ملازمت کرنے سے بھوکے مر جانا بہتر سمجھتے تھے لوگ۔ اب کے بار کس کی شامت آنے والی تھی یہ فیصلہ اتوار کی شام تک ہو جانا تھا۔ انٹرویو کے دوران کسی کو دادا جان کے کمرے کے ارد گرد بنا بلائے آنے کی اجازت نہیں تھی۔ تمام احکامات ایسے صادر کئے گئے تھے جیسے گھر کے اندر صدر یا وزیراعظم کی آمد ہو۔ نواب صاحب کے اصول و ضوابط ایسے ہی عجیب ہوتے تھے ۔ اور آخر کار اتوار کا دن آن پہنچا۔
٭…٭…٭
گلناز اور مہناز کی اماں جان اپنی ہونہاربیٹیوں سے ملنے چنگیزی ہاؤس پہنچ چکی تھیں۔ زیرِ بحث مسئلہ جبکہ دونوں نکھٹو داماد بھی ان کے ساتھ کمرے میں موجود تھے۔ قصہ چہار درویش کے چاروں درویشوں کی طرح وہ باری باری سب کی بپتا سننے سے پہلے ہی وہ اپنی کہے جارہی ہیں ۔اپنا تکیہ کلام ”میری بات غور سے سنو۔” ان کی زبان سے نکلا تو چھوٹا بول پڑا۔
”اماں جی! ہم ہمہ تن خرگوش ہیں، آپ کہیے جو کہنا ہے۔”
”ہمہ تن گوش ہوتا ہے بیٹا! کب آئے گا تم لوگوں کو بول چال کا طریقہ، مجھے تو ڈر ہے سچ مچ نواب صاحب عاق ہی نہ کردیں تم لوگوںکی سادگی دیکھ کر۔”
” وہ اماں تمہیں تو پتہ ہے نا چھوٹے کی پیدائش زرا کمزور ہے دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے اکثر اوقات اسی لیے کچھ کا کچھ بول جاتا ہے ۔”
”اے ہے بیٹا! یک نہ شد دو شد! یہ پیدائش نہیں یادداشت ہوتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نمونے ہو تم دونوں ۔ اللہ بخشے تمہاری ماں اگر زندہ ہوتی تو… خیر چھوڑو میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی۔ تو میں کیا کہہ رہی تھی؟”
”اماں آپ کی بھی پیدائش کمزور ہو گئی ہے۔” مہناز نے قہقہہ لگایا تو وہ دونوں دیدے پھاڑے دونوں بہنوں کو دیکھنے لگیں۔
” لو کر لو بات! تم لوگوں کو بھی ساتھ رہ رہ کر یہی بونگیاں مارنے کی عادت ہوچکی۔ اوہ ہاں! یاد آیا۔ میں کہہ رہی تھی کہ میری بات غور سے سنو ۔ چپ چاپ تماشہ دیکھنے سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آنے کا۔” سب بڑھیا کی باتیں سننے لگے ۔
٭…٭…٭