ٹیپو نے امی کی بات کو اپنے ہی انداز میں مکمل کیا۔
”سچ میرا تو کینیڈا واپس جانے کا دل ہی نہیں چاہ رہا۔“
عشنا نے کہا۔
”تو پھر اپنی جگہ پھپھو اور فردوسی خالہ کو بھیج دو۔ کینیڈ، گھوم پھر کر واپس آجائیں گی۔“
ثمن کے لہجے میں شرارت تھی۔
”پہلے اپنا پاس پورٹ تو بنوالیں، پھر جہاں چاہیں گھومنے پھرنے چلی جائیں۔“
عنایا نے ہنسی کے دوران کہا۔
؎”رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آپھر سے مجھے چھور کے جانے کے لئے آ“
ماموں لہک لہک کر غزل گاتے جارہے تھے۔
”ارے ختم بھی کرو اس منحوس غزل کو……“
امی کا صبر جواب دے گیا۔
”آنٹی……آپ بھی کلاسیکل میوزک کو انجوائے کریں نا! دیکھیں تو سہی، جیمو ماموں کی آواز میں کتنا ردھم ہے……!“
عشنا نے امی کی خفگی کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس کا لحاظ کرکے چپ ہوگئیں۔
رانیہ کونے میں پڑی کرسی پر خاموش بیٹھی رہی۔ اور عشنا کے سوائے کسی نے بھی اُس کی اس خاموشی کو نوٹ نہیں کیا تھا۔
٭……٭……٭
Macbethکے آخری شو والے دن رانیہ دانستہ اپنے گھر سے کسی کو لے کر نہیں آئی تھی۔
شو کے ختم ہوتے ہی وہ فوراً ہی چینج کرکے باہر آگئی۔ آج اُسے ہر صورت میں زوار سے بات کرنی تھی۔
اس ڈرامے کی کامیابی کی خوشی میں زوار آفندی نے سب اداکاروں کے لباس، جیولری اور دیگر چیزیں انہیں تحفتاً ہی دے دی تھیں۔ مگر رانیہ اتنی قیمتی، چیزیں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ اس نے ایک لفافے میں تاج سمیت یہ سب چیزیں ڈالیں اور شکریے کے ساتھ وہ لفافہ ڈائریکٹر کو لوٹا دیا۔ اب وہ کچھ عرصے کے لئے تھیٹر چھوڑ دینا چاہتی تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ کوئی جاب کرلے گی۔ اب اسے اپنے لئے کسی اور پروفیشن کا انتخاب کرنا ہوگا۔ موسم ابر آلود تھا۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔
وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ہال کے دروازے کے پاس کھڑے زوار کی طرف آئی۔ وہ اپنے ساتھ کھڑے لوگوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ اس نے رانیہ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو قدرے حیران ہوا پھر ان لوگوں سے معذرت کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔
”مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔“
رانیہ نے وقت ضائع کئے بغیر ہی اپنا مدعا بیان کردیا۔
وہ ہلکا سا چونکا پھر ابرو اچکا کر غور سے اس کی طرف دیکھا …… رانیہ کو اس سے کوئی ضروری کام تھا اُسے تو اپنی خوش قسمتی پر یقین ہی نہ آیا۔
”آئیے…… کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔“
زوار نے خوشگوار حیرت کے ساتھ کہا۔
”باہر تو بارش ہورہی ہے۔ ہم تھوڑی دیر کیفے میں بیٹھ جاتے ہیں۔“
رانیہ کے چہرے پر سنجیدہ سی مسکراہٹ تھی۔
”چلیں۔“
وہ مسکرا کر بولا۔
پھر وہ دونوں تھیٹر کے ساتھ ہی بنے کیفے میں چلے گئے۔
کافی کا آرڈر دینے کے بعد وہ اُس کی طرف متوجہ ہوا۔ اب اُسے اس کی ضروری بات سننے کی جلدی تھی۔
وہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس تھی۔ بالوں پر جابجا پانی کے قطرے چمک رہے تھے۔ چہرے پر بھی بارش کے پانی کی نمی تھی۔
”میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں مگر مجھے نہیں معلوم کہ آپ میری بات سنیں گے یا نہیں!“
رانیہ نے سنجیدہ سے انداز میں تمہید باندھی وہ اس کے انداز پر ٹھٹک گیا۔
”آپ تھیٹر کے سلسلے میں کوئی بات کرنا چاہتی ہیں۔“
اس نے اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں تھیٹر کے سلسلے میں نہیں …… میں آپ سے کچھ اور بات کرنا چاہتی ہوں مگر آپ کو مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا کہ آپ میری پوری بات سنیں گے۔ مجھے کسی کو جواب دینا ہے۔“
رانیہ نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ اس کی بات بہت توجہ سے سن رہا تھا۔
”کس کو جواب دینا ہے آپ نے؟“
وہ اس کے اس انداز پر الجھ گیا۔
”اپنی کزن عشنا کو۔“
رانیہ نے اسی انداز میں جواب دیا۔
اس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔
”عشنا کو؟“
وہ اس کی بات نہیں سمجھا۔ عشنا ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی تھی۔ رانیہ نے اُسے بھلا کیا جواب دینا تھا۔ اس کا بھلا یہاں کیا ذکر……
”میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔“
وہ اُلجھ کر بولا۔
رانیہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئی۔ پھر اس نے سرجھکا کر سنجیدگی سے کہا۔
”عشنا کینیڈا میں ہائی سکول میں پڑھتی ہے۔ اس کی کلا س میں ایک لڑکی پڑھتی ہے۔ جو اس کی بیسٹ فرینڈ بھی ہے۔“
”اچھا! پھر؟“
زوار گہری سنجیدگی کے ساتھ اُسے دیکھ رہا تھا۔
رانیہ اس بات کو جتنا آسان سمجھ رہی تھی، یہ بات اتنی آسان ثابت نہیں ہوئی تھی۔ وہ زوار کی آنکھوں میں دیکھ کر بات نہیں کر پارہی تھی۔
اُس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
اس لڑکی کا نام سارہ ہے…… سارہ آفندی۔“
کہتے ہوئے اس کی آواز مدھم پڑگئی۔
بارش یکدم تیز ہوگئی تھی۔ کیفے کی کھڑکیوں سے باہر کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ برستی بار ش میں سارے منظر دھندلے پڑگئے تھے۔
زوار کے چہرے کے تاثرات یکلخت بدل گئے۔
”میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ میری پوری بات سنیں گے۔“
رانیہ نے اس کے چہرے کی سردمہری دیکھ کر فوراً کہا۔
”سن رہا ہوں۔ اگر آپ سے وعدہ نہ کیا ہوتا تو میں یہ بات کبھی نہ سنتا۔“
اس نے سرد انداز میں کہا۔
رانیہ کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو زوار کا رویہ مختلف ہوتا۔ مگر اب وہ مجبور تھا۔
رانیہ دھیمی آواز میں اُسے کچھ بتاتی جارہی تھی۔ وہ خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔ ایک لفظ بھی نہیں بولا۔
رانیہ کو اس کی خاموشی نے خوفزدہ کیا تھا۔ مگر اس کے لئے یہی بہت تھا کہ وہ اس کی بات سن رہا تھا۔
اسی کیفے میں ذرا فاصلے پر شزا اور اس کی بہن بھی بیٹھی تھیں اور عجیب سی نظروں سے زوار اور رانیہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
”اوہو…… رانیہ…… اور زوار آفندی کے ساتھ!“
شزا ان دونوں کو بیٹھے دیکھ کرحیران ہوئی۔
”کوئی کسی کے لئے سونے کا تاج ایسے ہی نہیں بنواتا۔“
شزا کی بہن نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”ہاں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ مگر رانیہ کا تو منگیتر بھی ہے۔“
شزا نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
”کیا پتا اس کی منگنی ختم ہوگئی وہ۔“
شزا کی بہن نے خیال ظاہر کیا۔
شزا سوچ میں پڑگئی۔
”ہاں ہو بھی سکتا ہے…… مگررانیہ نے تو ہمیشہ انکار ہی کیا ہے کہ وہ زوار کو زیادہ نہیں جانتی۔“
شزا نے سوچتے ہوئے کہا۔
اس کی بہن نے سرجھٹکا۔
”رہنے دو…… رانیہ اور اس کی چالاکیاں! اگر وہ زوار کو جانتی ہی نہیں ہے تو اس کے ساتھ بیٹھی کافی کیوں پی رہی ہے۔ اسے کون سے قصے کہانیاں سنارہی ہے۔“
اس کی بہن چمک کر بولی۔
”مجھے تو رانیہ کی سمجھ نہیں آتی۔ آخر وہ کرنا کیا چاہ رہی ہے؟“
شزاکو رانیہ پر تاؤ آیا۔
”چلو…… چلتے ہیں ان کے پاس۔“
اس کی بہن نے آنکھیں گھما کر کہا۔
شزا خائف ہوگئی۔
”رہنے دو…… کہیں زوار مائنڈ نہ کرے…… یاد نہیں اس دن بھی اس نے ہمیں بڑا عجیب سا جملہ کہا تھا۔ میرے تھیٹر ڈرامے کا Financer ہے…… ایسا نہ ہو اگلی بار مجھے کاسٹ ہی نہ کرے۔“
شزا نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم سے تو اچھی رانیہ ہے…… اس نے ایک امیر کبیر آدمی کو اپنے جال میں پھنسا لیا ہے اور تم بس یہاں بیٹھ کر انہیں کافی پیتے ہوئے دیکھتی رہو۔“
شزا کی بہن نے شزاکو جھاڑ دیا۔
شزا چپ ہوگئی۔
رانیہ اپنی بات مکمل کرچکی تھی۔ اب اسے زوار کے جواب کا انتظار تھا۔
یہ جواب اس نے عشنا تک پہنچانا تھا اور عشنا نے سارہ تک……
وہ شیشے کی کھڑکیوں کے پار بھیگتے ہوئے منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کی پیشانی پر لکیریں تھیں، آنکھوں میں سنجیدگی بھری سر د مہری تھی۔
جب وہ کافی دیر کچھ نہ بولا تو رانیہ نے اسے سمجھانا اپنا فرض سمجھا۔
”زوار آفندی، یوں تو یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے مگر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ انسان کو اتنا سنگ دل بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کو معاف ہی نہ کرپائے۔ دوسروں کو معاف کرنا انتقام لینے سے کہیں زیادہ افضل ہوتا ہے۔ بعض دفعہ انسان کو دوسروں کی خوشی کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے۔“
”قربانی؟“
وہ بڑی دیر بعد سرد سی آواز میں بولا۔
اس کے چہرے پر عجیب ساتاثر تھا۔
”جی ہاں ……“
رانیہ کو اس سے خوف محسوس ہوا۔
اس نے اسی تاثر کے ساتھ رانیہ کی آنکھوں میں جھانکا۔
”جو قربانی آپ مجھ سے مانگ رہی ہیں وہ قربانی آپ خود کیوں نہیں دے دیتیں رانیہ۔“
اس نے سرد آواز میں کہا۔
رانیہ الجھی۔
”میں؟“
وہ اس کی بات سمجھ نہیں پائی۔
اس نے بے اختیار کرسی سے ٹیک لگالی۔
”آپ جو چاہتی ہیں، میں وہ کردوں گا مگر میری ایک شرط ہے۔“
وہ مدھم مگر سرد آواز میں بولا۔
”کیسی شرط؟“
وہ چونک گئی۔
”آپ کو مجھ سے شادی کرنی پڑے گی…… کریں گی آپ مجھ سے شادی؟“
وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
وہ ششدر رہ گئی۔
اُسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کے سامنے کوئی ایسی شرط رکھے گا۔
FREEZE