وہ گیٹ کے باہر کھڑی زوار کی گاڑی کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ انداز میں حیرت اور تجسس تھا۔
”ہمارے ایک مہمان آئے ہیں۔“
جیمو ماموں مسکرا کر بولے۔
”ایسا کون سا مہمان ہے؟“
عطیہ کو بھی تجسس ہوا۔
”اند رآئیں …… مرسیڈیز والے مہمان سے آپ کو ملوا دیتے ہیں۔“
جیمو ماموں نے خوشدلی سے کہا اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اندر چلے گئے۔
ثمن عشنا کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی کہ اُن دونوں کو بڑوں کی باتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔
رانیہ کو بھی پتا چل گیا تھا کہ عقیل ماموں کی فیملی بھی آچکی ہے۔
ڈرائننگ روم سے سب کے ہنسنے بولنے اور قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
پہلے اس نے سوچا کہ جاکر عقیل ماموں کو سلام ہی کرلے پھر اس نے سرجھٹک دیا۔ اس کا موڈ بے حد آف ہوچکا تھا۔
کسی نے کچن میں جھانکا تک نہیں تھا اور ونہ ہی کسی کو کھانے کی فکر تھی۔ یہ سب کچھ زوار آفندی کی وجہ سے ہورہا تھا۔ اُس کے گھر والے اُس کے پاس سے اٹھنے کو تیار ہی نہیں تھے۔
سارا کھانا تیار ہوچکا تھا اب وہ کچن سمیٹنے میں مصروف تھی کہ یکدم کونے میں پڑا اُس کا موبائل تھرتھرایا۔
اُس نے سلیب صاف کرتے ہوئے موبائل اٹھا کر دیکھا تو زوار کا میسج آیا ہوا تھا۔
”اُف۔“ وہ بے زار ہوگئی۔ وہ اُسی کے ڈرائننگ روم میں بیٹھا اُسے ہی میسجز کررہا تھا۔ وہ پریشانی سے سوچنے لگی کہ آخر اس آدمی سے کیسے پیچھا چھڑائے۔ یہ تو اس کے گھر تک پہنچ گیا تھا اور اُس کے گھر والوں کو متاثر کرچکا تھا۔ وہ اُس کے گھر میں اپنی جگہ بنا چکا تھا…… وہ جگہ جو فارس نہیں بناپایا۔
وہ اِنہی سوچوں میں گم الماری سے برتن نکالنے لگی۔ اُس نے موبائل پر وقت دیکھا تو ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔
وہ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا رہی تھی جب سب لوگ ڈائننگ روم میں داخل ہوئے۔
زوار کی نظر اُس پر پڑی تو ٹھہر گئی۔ بالاآخر وہ نظر آہی گئی تھی۔ اُس کے حلیے سے لگتا تھا کہ وہ سارا دن کاموں میں ہی مصروف رہی ہے۔
”کیسی ہیں آپ؟ آپ نے تو آج بہت محنت کی ہے، میں نے آپ کو مصروف کردیا۔“
وہ اُس کے بالکل قریب پڑی کرسی کھینچتے ہوئے بہت مدھم آواز میں بولا پھر وہ میزپر موجود انواع و اقسام کے کھانوں کو دیکھ کر مسکرایا۔
”ظاہر ہے کہ گھر میں دعوت ہو تو انسان مصروف ہی ہوتا ہے۔“
رانیہ نے سپاٹ سے انداز میں جواب دیا پھر وہ دانستہ اُس کے پاس سے ہٹ گئی۔
سب لوگ اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔
”رانیہ! تم بھی تو بیٹھو۔“
امی نے اُسے ایک کونے میں کھڑے دیکھ کر آہستہ آواز میں کہا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔ آپ بیٹھیں سب کے ساتھ کھانا کھائیں۔“
وہ آہستہ مگر ناراض سے انداز میں بولی۔
امی خفا ہوئیں۔
”کیسی باتیں کررہی ہو۔ مہمان آئے ہوئے ہیں اور میزبان کہہ رہا ہے کہ مجھے بھوک نہیں ہے…… چلو بیٹھو سب کے ساتھ۔“
انہوں نے اُسے ڈپٹ دیا۔
ناچار اُسے سب کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔
ثمن اور عشنا بھی آچکی تھیں اور اپنی اپنی پلیٹ میں اپنی من پسند ڈشز ڈال رہی تھیں۔
عشنا زوار کو دیکھ کر چونکی۔
”یہ بندہ کون ہے؟“
اس نے نوڈلز پلیٹ میں ڈالتے ہوئے ثمن کے کان میں سرگوشی کی۔
”رانیہ باجی کا کولیگ ہے۔“
ثمن نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
عشنا یہ جواب سن کر کھانے کی طرف متوجہ ہوگئی۔ سب لوگ ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ کھانے میں مصروف تھے۔
جیمو ماموں کی کرسی روشنی کے ساتھ تھی۔
”آپ کے میاں نہیں آئے؟“
انہوں نے روشنی کو چاولوں کی ڈش پکڑاتے ہوئے پوچھا۔
”بس آپ کو تو پتا ہے کہ وہ کہاں میرے خاندان میں کہیں آتے جاتے ہیں۔“
روشنی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”آجاتے تو اچھا ہوتا، ان سے بھی گپ شپ ہوجاتی۔“ماموں مروتاً بولے۔
”میں نے تو اصرار کیا تھا مگر انہیں کہیں اور جانا تھا۔“
روشنی نے کہا۔
”کہاں ……؟“
جیمو ماموں چونک گئے۔
ان کے اس سوال میں بڑی معنی خیزی تھی۔
روشنی خاموش رہیں۔ فردوسی خالہ اِدھر ہی متوجہ تھیں۔
”ارے میاں، وہ اپنے کسی کام دھندے میں مصروف ہوگا۔ ورنہ آجاتا ہمارے ساتھ…… بیٹے کی تو خوب خیر لے سکتی ہوں۔ مگر داماد اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے۔ ان سے سوال جواب نہیں کئے جاسکتے۔“
جواب فردوسی خالہ نے دیا۔
”چلیں کوئی بات نہیں اگر وہ کسی وجہ سے نہیں آسکے، روشنی میں ثاقب بھائی کے لئے کھانا، پیک کرکے دے دوں گی…… تم ساتھ لے جانا۔“
امی نے کہا۔
روشنی انکار بھی نہ کرسکی۔ ان کے میاں نے انہیں یہی ہدایت کی تھی کہ ان کا کھانا پیک کروا کر ساتھ لے کر آئے اور صرف امی ہی نہیں خاندان کا ہر فرد ثاقب کی فطرت سے واقف تھا۔
کھانے کے دوران ہلکی پھلکی باتیں ہوتی رہیں۔
زوار گاہے بگاہے رانیہ پر بھی نظر ڈال لیتا۔ وہ سپاٹ اور سنجیدہ سے انداز میں بیٹھی سرجھکائے خاموشی سے کھانا کھارہی تھی۔
شاید وہ بہت تھک گئی تھی۔ اُس کے گھر والے اتنی دیر سے زوار کے ساتھ بیٹھے رہے تھے تو ظاہر ہے کہ سارا کام رانیہ کو ہی کرنا پڑا تھا۔
اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے زوار کو اندازہ ہوا کہ وہ تھکی ہوئی نہیں تھی بلکہ ڈسٹرب تھی۔
زوار کو افسوس سا ہوا۔ خواہ مخواہ اُس نے ایک لڑکی کو خوفزدہ کردیا تھا۔
اُسے یاد آیا یہ پچھلی بار تھیٹر میں جب اُس کی ملاقات رانیہ سے ہوئی تھی تو وہ زوار کی باتیں سن کر حیران پریشان رہ گئی تھی۔ پھر شاید اس کا لحاظ کرکے خاموش ہوگئی تھی۔ اس نے اسے میسجز بھی کئے۔ مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اب وہ اس کے گھر میں بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا اور شاید وہ اسی وجہ سے ڈسٹرب تھی۔
اس کے چہرے پر اداسی بھری سنجیدگی تھی۔
زوار نے اُسے دیکھ کر سوچا کہ اگر وہ اُسے اتنا ہی ناپسند کرتی تھی تو وہ اپنے گھر والوں کو منع کرسکتی تھی کہ زوار کو نہ بلایا جائے۔ مگر شاید وہ اپنی فیملی سے اپنی کوئی بھی بات منوا نہیں سکتی تھی…… کیوں ایسا کیوں تھا۔
بھلا…… زوار یہ سوچتے ہوئے ذرا سنجیدہ ہوگیا۔
کھانے کے بعد زوار نے اپنے موبائل کا کیمرہ آن کرلیا۔
”کیا میں اس شاندار دعوت کی تصویریں بنوا سکتا ہوں۔“
اس نے پراعتما د مگر اپنائیت بھرے انداز میں کہا۔
”ہاں ضرور…… کیوں نہیں۔“
سب لوگ ایکسائیٹڈ انداز میں یک زبان ہوکر بولے۔
رانیہ کے گھر والے تو پہلے ہی سیلفیوں کے شوقین تھے۔ وہ کسی کو منع بھی نہیں کرسکی۔
کھٹاکھٹ تصویریں بنتی رہیں۔
رانیہ برتن سمیٹنے میں مصروف ہوگئی۔
عنایا اس کی مدد کررہی تھی۔
ثمن، عشنا اور ٹیپو ثمن کے کمرے میں چلے گئے۔
گیارہ بجے کے قریب عقیل ماموں جانے کے لئے اُٹھے۔ زوار کا تو ابھی بھی اٹھنے کا ارادہ نہیں تھا مگر مجبوری تھی۔
رانیہ کے گھر آکر بھی وہ اس سے صحیح طرح بات نہیں کرپایا تھا۔ نہ وہ اس کے پاس آکر بیٹھی تھی اور نہ اس نے ان لوگوں کی گفتگو میں حصہ لیا تھا۔ اسے تو کچن سے ہی فرصت نہیں ملی تھی۔
گیٹ کے پاس کھڑا منتظر نظروں سے گھ رکے اندرونی حصے کی جانب دیکھ رہا تھا۔
”بڑا کام کرنا پڑا آج رانیہ کو۔“
اس نے ہمدردی سے سوچا۔
عشنا بھی مدھم آواز میں باتیں کرتے ہوئے ثمن اور ٹیپو کے ساتھ گیٹ کے پاس آگئی۔
عقیل ماموں نے مسکرا کر زوار کی طرف دیکھا۔
”امید ہے آپ سے دوبارہ بھی ملاقات ہوگی۔“
”اور پھر ہم آپ کی مرسیڈیز میں سیر بھی کریں گے۔“
عطیہ نے مسکرا کر اپنائیت سے کہا۔
اتنی سی دیر میں وہ سب لوگ زوار کے ساتھ فری ہوچکے تھے۔
”ضرور…… یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے۔ آپ اسے اپنی ہی مرسیڈیز سمجھئے۔“
وہ اپنائیت بھرے انداز میں بولا۔
”لگتا ہی نہیں ہے کہ ہم اتنے بڑے آدمی سے بات کررہے ہیں۔ ذرا بھی غرور نہیں ہے تم میں بیٹا…… بس میرے سوشل ورک کو ضرور یاد رکھنا۔ اچھی بات ہے کہ کسی غریب کا بھلا ہوجائے۔“
فردوسی خالہ نے شفقت بھرے انداز میں کہا۔
”آپ کے سوشل ورک کے لئے مجھ سے جو بھی ہو سکا وہ کروں گا۔“
وہ مسکرا کر بولا۔
”جیتے رہو بیٹا۔“
وہ خوشی سے نہال ہوگئیں۔“
زوار کو فون نمبر تو وہ پہلے ہی لے چکی تھیں بلکہ اُسے اپنے سوشل ورک کی تفصیلات بھی بتاچکی تھیں۔
”آپ کا نام بھی آپ کی طرح شاندار ہے……زوار آفندی۔“
عقیل ماموں نے مسکرا کر کہا۔
ثمن کے ساتھ باتیں کرتی عشنا بری طرح چونک گئی، اور حیرت سے زوار کو دیکھنے لگی۔
وہ پلکیں جھپکنا بھول گئی۔
”چلو عشنا …… چلنا نہیں ہے کیا؟“
ثمن نے اُسے یوں ساکت کھڑے دیکھ کر اُس کا بازو ہلایا۔
عشنا تو بھول ہی گئی تھی کہ اُسے واپس بھی جانا ہے۔
اُس نے بے اختیار ثمن کے کان میں سرگوشی کی۔
”کون ہے یہ زوار آفندی؟“
”بتایا تو تھا تمہیں کہ رانیہ باجی کے کولیگ ہیں۔“
ثمن نے کہا۔
”ہاں ……“
عشناکو یاد آیا۔
”زوار آفندی……“
اس کے اردگرد اسی نام کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔
یہی تو وہ بند ہ تھا جسے ڈھونڈنے کے لئے و ہ پاکستان آئی تھی۔
٭……٭……٭
رانیہ تھیٹر کے ہال میں بیٹھی تھی۔ جب شزا ایک ہاتھ میں موبائل پکڑے ہوئے اُس کی طر ف آئی۔
اُس کی آنکھوں میں عجیب سا تاثر تھا۔
”رانیہ! تم تو کہہ رہی تھی کہ تم زوار آفندی کو نہیں جانتی…… اُس نے تو تمہارے گھر میں تمہاری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر تصویریں بنوائی ہوئی ہیں۔ یہ دیکھو…… تم بھی تو ان تصویروں میں نظر آرہی ہو۔“
شزا نے موبائل اس کے سامنے کرتے ہوئے اسے ثبوت بھی پیش کردیا۔
وہ لاجواب ہوگئی۔
اس کے گھر پر زوار نے جو تصویریں بنائی تھیں۔ وہ انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کرچکا تھا۔ فیس بک پر وہ زیڈ آفندی کے نام کا پروفائل رکھتا تھا۔ وہ گڑبڑا گئی۔
”ہاں …… زوار آفندی میری بہن کی این جی او سے بھی منسلک ہے۔ اسی لئے ہمارے گھر بھی آیا تھا۔“
اس نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔
”واقعی؟ ویسے عجیب اتفاق ہے…… ہے نا ……!“
شز ا نے یوں کہا۔ جیسے اُسے اس بات پر یقین نہ آیا ہو۔
”ہاں …… ویسے بھی میں نے تویہ تصویریں اپ لوڈ بھی نہیں کیں۔“
رانیہ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
”ہاں، میں نے دیکھا ہے کہ وہ تمہارے علاوہ تمہارے باقی گھر والوں کی فرینڈ لسٹ میں موجود ہے۔“
وہ بھی ایک کائیاں تھی۔پوری معلومات تھیں اُس کے پاس۔
”اُف یہ لوگوں کا تجسس…… ان کی معلومات ……!“
رانیہ بے زار ہوگئی۔
وہ تو پہلے ہی زوار آفندی سے کافی تنگ آئی ہوئی تھی۔
”کافی مہمان تھے تمہارے گھر۔ کافی بڑی دعوت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔“
شزا ایک کے بعد ایک تصویر دیکھتی جارہی تھی۔
”ہاں …… میرے کچھ رشتہ دار کینیڈا سے بھی آئے ہوئے ہیں۔“
رانیہ نے کہا۔ وہ اس قسم کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کوفت محسوس کررہی تھی۔
”ہاں …… میں دیکھ رہی ہوں تمہارے کینیڈا کے رشتہ داروں کو…… کافی فرینک لگتے ہیں زوار کے ساتھ……“
شزا نے بظاہر عام سے انداز میں کہا۔اس کا کمال تھا کہ وہ بہت سی ذومعنی باتیں عام سے انداز میں کہہ دیتی تھی۔
”میں چلتی ہوں۔“
وہ شزا کی باتوں سے اکتا گئی تھی۔
وہ تیز تیزقدموں سے باہر چلی گئی۔ وہ زوار آفندی کے بارے میں مزید کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھی۔
رانیہ گھر پہنچی تو اس نے لاؤنج میں عشنا کو بیٹھے دیکھا۔ عشنا اُسے دیکھ کر مسکرائی مگر رانیہ کو امی کے جملے نے حیران کیا۔
”رانیہ! دیکھو عشنا تم سے ملنے آئی ہے۔“
وہ چونک کر مسکراتی ہوئی عشنا کو دیکھنے لگی۔ بھلا عشنا اس سے ملنے کیوں آئی تھی۔ عشنا تو ثمن کی دوست تھی اور اُسی کی ہم عمر تھی، اور ابھی کل رات ہی تو وہ دعوت پر یہاں آئی تھی اور ا س سے مل کر گئی تھی۔
”کیسی ہیں آپ رانیہ باجی! میں کب سے آپ کا انتظار کررہی ہوں۔“
اس کے اس جملے نے رانیہ کی حیرت میں مزید اضافہ کیا۔
”ہاں صبح سے آئی بیٹھی ہے بار بار تمہارا پوچھ رہی ہے۔“
امی نے کہا۔
”کیوں؟“
وہ حیران ہوکر بولی۔ آخر ایک ہی دن میں ایسی کیا بات ہوگئی تھی۔
”میں نے آپ کے تھیٹر ڈرامے کی تصویریں دیکھی ہیں …… اتنی اچھی اور خوبصورت تصویریں ہیں، کب ہے آپ کا تھیٹر ڈرامہ؟“
اس نے اشتیا ق سے پوچھا۔
”اگلے ہفتے۔“
رانیہ نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
”میں تو ضرور دیکھنے آؤں گی۔ مجھے تھیٹر دیکھنے کا بہت شو ق ہے۔“ عشنا نے ایکسائیٹڈ سے انداز میں کہا۔
”ہاں …… ضرور…… میں تمہیں بتادوں گی۔“
وہ کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
وہ تھکی ہوئی آئی تھی کچھ دیر آرام کرنا چاہتی تھی۔ عشنا اس کے پیچھے اس کے کمرے میں آگئی۔
”آؤ عشنا!“
رانیہ ذرا چونک کر بولی۔ پھر غور سے اُسے دیکھنے لگی۔
”کیا میں آپ کے پاس بیٹھ سکتی ہوں رانیہ باجی؟“
عشنا نے اپنائیت سے کہا۔ بھلا وہ کب رانیہ سے اتنی فرینک تھی کہ اُس کے کمرے میں آکر اُس کے پاس بیٹھ جاتی۔
”ہاں بیٹھو! کوئی خاص بات کرنا چاہتی ہو عشنا؟“
رانیہ نے اُسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کو کیسے پتا چلا؟“
عشنا نے اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔ وہ ایک کم عمر اور ٹین ایجر لڑکی تھی۔ جو بھی سوچتی اُس کے چہرے پر صاف نظر آجاتا۔ ابھی اُسے اپنے احساسات اور تاثرات چھپانے نہیں آتے تھے۔
”رانیہ باجی!“