چاند میری زمین، پھول میرا وطن — زاہدہ عروج تاج

چپس پیک کرتے کرتے بھی اسے دس منٹ لگ چکے تھے ۔فیض بھی آج بخار کی وجہ سے نہ جا رہا تھا۔چوںکہ سکول سے دیر ہو چکی تھی اس لیے اس نے سکول کے عقبی جانب سے شارٹ کٹ کا انتخاب کیاتھا اپنے سے کافی آگے جاتے دو اور لڑکوں کو دیکھ کر اس کی تسلی ہوئی کہ چلو شکر ہے ابھی اور بھی بچے جا رہے ہیں لڑکے اسمبلی گرائونڈ میں جمع ہونا شروع ہو چکے ہوں گے اس نے سوچا اوراپنا پسندیدہ نغمہ ’’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘‘ گنگناتے ہوئے تیزی سے قدم بڑھادیئے۔ اسی لمحے اس کی نظر ایک آدمی پر پڑی اچھا خاصا موٹا آدمی تھا اور اچک اچک کر سکول کے اندر کا جائزہ لے رہا تھا اسی لمحے اس آدمی نے دائیں بائیں سمت دیکھا”ارے یہ تو بھنڈی ہے”اعتزاز چونک اٹھا ۔۔۔بھنڈی تو آج حلوہ کدو بنی ہوئی ہے ۔۔حسب عادت اس نے سوچا اور پھر جیسے اس کے ذہن میں جھماکا ہوا اتنے دنوں سے ایک اجنبی کا سکول کے اردگرد منڈ لانا اور آج ایک مختلف جسمانی ہییت کے ساتھ سکول میں جھانکنا۔اگر وہ پہلے اس آدمی کو نہ دیکھ چکا ہوتا اور اپنی عادت کے تحت اسے نام نہ دے چکا ہوتا تو شائد وہ نہ چونکتا ۔۔۔کچھ دنوں سے ٹی وی اور اخبارات میں آنے والے اشتہارات میں خود کش حملہ آوروں کے بارے میں عوام کو بریفنگ دیتے ہوئے جو خود کش جیکٹ دکھائی گئی تھی وہ پہن کر انسان ایسا ہی تو موٹاموٹا لگتا تھا۔۔اس کا دل ایک لمحے میں اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔ ” کون ہو اور ادھر کیا کر رہے ہو ؟” اس نے بے اختیار چیخ کر پوچھا تھا ۔ آواز کے ساتھ ہی آدمی نے بغیر پیچھے دیکھے آگے کی جانب دوڑ لگا دی تھی ۔اعتزاز کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اس کی ٹانگوں میں کرنٹ دوڑا ۔دوڑتے ہوئے اس نے باری باری لنچ بکس اور بیگ پھینکے تھے ۔وہ اس آدمی کو پکڑ کر روک لینا چاہتا تھا۔اسی اثنا میںسکول کی عقبی دیوار کے ساتھ مٹی کا ایک ڈھیر آیا جس پر چڑھ کر وہ آدمی سکول کے اندر کود گیا ۔اعتزاز کے لیے بھاری جسم کے ساتھ دیوار پر چڑھنا ممکن نہیں تھا اس نے ایک لمحے کو سوچا اور گیٹ کی جانب دوڑ لگا دی جو کہ دائیں جانب مڑتے ہی چند قدم کے فاصلے پر تھا اور گیٹ سے اندر استقبالیہ گرائونڈ کراس کر کے بائیں جانب اسمبلی گرانڈ تھا۔سکول کی عقبی طرف ایک وسیع میدان تھا جس میں سالانہ کھیلیں اور دوسری غیر نصابی سرگرمیاںوغیرہ منعقد ہوتی تھیں اس کے بعد ہائی کلاسوں کے کمرے تھے اس کے بعد سکول کے سامنے والے رخ پر مڈل کی کلاسسز تھیں۔بائیں جانب اسمبلی گرائونڈ اور کلاسسز کے درمیان پرنسپل کا دفتر تھا یوں عقبی طرف سے اسمبلی گرائونڈ میں پہنچنا ممکن نہیں تھا اگر وہ شخص آتا تو دائیں جانب سے ہی آسکتا تھا اور کلاسسزسے عبور کرکے گیٹ والے پہلے گرائونڈ میں ہی آنکلتا ۔اسمبلی کی وجہ سے اس وقت تقریبا سارا سکول اس جانب سے خالی ہی ہوتا تھا ۔ “ان شااللہ !وہ گیٹ سے داخل ہو کر اسے روک لے گا ۔کیا پتا ایسی کوئی بات سرے سے ہوہی نہیں اور وہ ایسے ہی کوئی چور اچکا ہو۔۔۔”بعد میں سب اس کا کتنا مذاق اڑائیں گے”۔سوچیں اس کے قدموں سے بھی آگے بھاگ رہی تھیںاور امکانات نے اس کے قدموں کو ایک لمحہ کے لیے آہستہ کیا تھا مگر پھر آخر آج اس کے کپڑوں کے نیچے ایسا کیا تھا جو وہ موٹا موٹا لگ رہا تھا ایک انجانی وحشت نے پھر سے اس کے قدموں کو مہمیز کیا اسے دوڑنے کی عادت نہیں تھی سو سانس بے تحاشہ پھول چکی تھی ۔مگر اس کا ایک لمحے کا رکنا کئی صدیوں کے زیاں کا باعث ہو سکتا تھا ۔اسے اس شخص سے پہلے گیٹ سے اندر داخل ہوتھا اور اس کے بعد کیا کرنا ہے یہ فیصلہ سامنا ہونے پر ہی ہونا تھا۔ اعتزازکو اتنی تیزی سے بھاگتے آتے دیکھ کر چوکیدار بابا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی مگر اس کے چہرے پر اُڑنے والی ہوائیاں اور بغیر بیگ کے آنا وہ سمجھ نہ سکے اور اچنبھے سے اسے دیکھنے لگے جس کا رُخ اسمبلی گرائونڈ کی بہ جائے وہ عقبی طرف جاتی گیلری کی طرف تھا۔اعتزازکا سانس اس قدر پھول چکا تھا کہ وہ بول کر کسی کو خبردار بھی نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی اس بات کا وقت تھا ۔ اساتذہ اور بچے اسمبلی گرائونڈ میں جمع ہو چکے تھے کئی ایک نے حیرت سے اندھا دھند بھاگتے اعتزاز کو دیکھا۔پی ٹی ٹیچر نے زور سے سیٹی بھی بجائی۔ “اوہ ۔۔”راہداری خالی پڑی تھی ادھر تو کوئی بھی نہیں تھا۔دائیں راہداری کے سرے پر پہنچ کے وہ ٹھٹھکا۔ اس نے تپتے چہرے کو تھپتھپایا میں بھی کیا کیا سوچ بیٹھا تھا ۔لگتا تھا سانس آپس میں الجھ گئے ہیں خون ابلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے مڑکر محبت سے اسمبلی گرانڈ پر نظر دوڑائی اور پھر ساری سکول کی عمارت پرمیری پیاری مادر علمی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لمحے اعتزاز کواپنے بالکل سامنے والے کلاس روم کے دروازے سے کالے کپڑوں کی جھلک دکھائی دی۔ اس شخص نے کلاس روم کی کھڑکی سے اندر چھلانگ لگا کر دروازے سے دوسری طرف نکل کر اسمبلی کی طرف دوڑ لگا دی تھی اس نے راہداری والا راستہ نہیں استعمال کیا تھا۔ اعتزاز نے ایک لمحہ سوچے بغیراس کی طرف دوڑ لگا دی تھی ۔جس وقت وہ آدمی اسمبلی گرائونڈ والی روش پہ آیا چوکیدار کی بھی اس پر نظر پڑ چکی تھی اور معاملہ جیسے اسے سمجھ آگیاتھااس نے بھی اپنی گن سیدھی کر کے دوڑ لگائی تھی مگر وہ ابھی بہت دور تھا۔چند ایک اساتذہ کا رخ بھی ادھر کو ہوا مگر اسمبلی سے ایک گرانڈ پہلے اعتزاز نے ایک لمبی جمپ لگا کر اس آدمی کو جا لیا تھا۔اس کی حالت ایسی تھی کہ خون جیسے اُبل رہا ہو وہ اس سے لڑ نہیں سکتا تھا سردیوں کا موسم ہونے کے باوجود وہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا، گلے میں جیسے کانٹے اُگ آئے تھے اور کانوں سے دھواں نکل رہا تھا اعتزاز کے ہاتھ میں اس کی ایک ٹانگ آگئی وہ بُری طرح سے اس سے چمٹ گیا تھا کہ وہ آدمی بھاگ نہیں سکتا تھا کالے کپڑوں والے نے بہت کوشش کی تھی خود کو چھڑوانے کی مگر بے سود ۔ اعتزازکی گرفت مضبوط تھی گواسے محسوس ہو رہا تھاکہ اس کا دل اس کے کانوں ،آنکھوں، گردن، ہاتھوں اور پائوں میں دھڑک رہا ہے اور ابھی جسم سے باہر آجائے گا اس کی آنکھیں بند تھیں مگر اس نے اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی تھی ۔اعتزاز کی بھاری جسامت کے ساتھ اس آدمی کے لیے گھسٹنا بھی ممکن نہیں رہا تھا سو اس نے وہ کام کر ڈالا جس کے لیے وہ آیا تھا ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا تھا اعتزاز کو لگا بے شمار پرندے شور مچاتے درختوں سے اڑے ہوں۔ قیامت کا شور تھا مگر یہ ایک لمحے کا احساس تھا اور پھر ایک سکوت طاری ہوتا چلا گیا۔”چاند میری زمیں،پھول میرا وطن” گنگنانے والے نے اپنا خون پتیوں کی مانند ارضِ پاک پر نچھاور کر دیا تھا ۔اس نے اپنی جان دے کر اپنے پیارے ساتھیوں اور اساتذہ اور اپنی مادرِ علمی کو دشمن کے ناپاک ارادوں سے بچا لیا تھا چھپکلی سے ڈرنے والے اعتزاز نے پاک سر زمیں کے استحکام کے لیے اپنا خون پیش کر کے یہ ثابت کر دیا تھا کہ دشمن یہ جان لے ارضِ پاکستان کا بچہ بچہ اپنے وطن کی طرف اٹھنے والے ناپاک عزائم والے قدموں کے سامنے آہنی دیوار ہے۔ اعتزازحسین پاک آرمی میں تو نہ جاسکا مگر شہادت کے مرتبے پر ضرور فائز ہو گیا۔
(نوٹ) جنوری 2014 ء کو خیبر پختوںخوا کے ضلع ہنگو میں ایک دہشت گرد نے اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے اسی اسکول کے طالبعلم اعتزاز حسین نے دروازے پر ہی روک لیا اور دہشت گرد نے اسی جگہ پر خودکش دھماکا کردیا جس کے نتیجے میں ایک بہادر نوجوان طالب علم شہید ہوگیا۔ اعتزاز حسن نے خود شہید ہوکر اس وقت اسکول میں موجود دیگر طلبہ کے لیے اپنی جان قربان کردی۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ اعتزازحسین کی اس قربانی کو قبول کر کے اس کے درجات بلند کرے آمین۔
(کہانی میں موجود تمام مکالمے اور سچویشنز فرضی ہیں ہیرو اعتزاز حسین کا کردار اور کارنامہ اصلی ہے، جسے ہم نے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تخیل کی آنکھ سے دیکھتے ،سوچتے اور کھوجتے آپ کے لیے قلم بند کیا ہے ۔)

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

لال فیتا — امینہ عنبرین

Read Next

الفاظ کا احتجاج — ہما شہزاد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!