پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۹

پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد اس نے ڈاکٹر سبط علی کے توسط سے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں جاب شروع کردی تھی۔ اس کی جاب بہت اچھی تھی اور پہلی بار اس نے مالی طورپر بھی خود مختاری حاصل کرلی تھی۔ یہ ویسی زندگی نہیں تھی جو وہ اپنے والدین کے گھر گزارتی تھی نہ ہی ویسی تھی جیسی زندگی کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی مگر یہ ویسی بھی نہیں تھی جن خدشات کا وہ گھر سے نکلتے ہوئے شکار تھی۔ وہ ہر ایک کے بارے میں نہیں کہہ سکتی مگر اس کے لئے زندگی معجزات کا دوسرا نام تھی۔ سالار سکندر جیسے لڑکے سے اس طرح کی مدد… ڈاکٹر سبط علی تک رسائی… سعیدہ اماں جیسے خاندان کا ملنا… تعلیم کا مکمل کرنا اور پھر وہ جاب… صرف جلال انصر تھا جس کا خیال ہمیشہ اسے تکلیف میں مبتلا کردیتا تھا اور شاید وہ اسے مل جاتا تو وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتی۔
آٹھ سالوں نے اس میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کردی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت وہ جانتی تھی کہ اب دنیا میں اس کے نخرے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اسے کسی سے کوئی توقعات وابستہ کرنی تھیں نہ ہی ان کے پورانہ ہونے پر تکلیف محسوس کرنی تھی۔ اس کا رونا دھونا بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا گیا تھا۔ بیس سال کی عمر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوف زدہ اور پریشان ہونے والی امامہ ہاشم آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی گئی تھی۔ نئی نمودار ہونے والی امامہ زیادہ پر اعتماد اور مضبوط اعصاب رکھتی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت زیادہ محتاط بھی ہوگئی تھی۔ ہر چیز کے بارے میں، اپنی گفتگو کے بارے میں، اپنے طوراطوار کے بارے میں۔
ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں دونوں کے خاندانوں نے اسے بہت محبت اور اپنائیت دی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ وہ کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے، جو انہیں قابل اعتراض یا ناگوار لگے۔ ہاشم مبین کے گھر میں اسے یہ ساری احتیاطیں نہیں کرنی پڑتی تھیں مگر وہاں سے نکل کر اسے یہ سب کچھ سیکھنا پڑا تھا۔
سعیدہ اماں کی گمشدگی کے دوران وہ آفس میں تھی۔ چار بجے کے قریب جب وہ گھر آئی تو گھر پر تالا لگا ہوا تھا۔ اس کے پاس اس تالے کی دوسری چابی تھی، کیونکہ اس سے پہلے بھی سعیدہ اماں کئی بار ادھر ادھر چلی جایا کرتی تھیں۔ اسے تشویش نہیں ہوئی۔
لیکن جب مغرب کی اذان ہونے لگی تو وہ پہلی بار فکر مند ہوئی کیونکہ وہ شام کو بتائے بغیر کبھی یوں غائب نہیں ہوئی تھیں۔ ساتھ والوں کے ہاں پتا کرنے پر اسے پتا چلاکہ ان کا بیٹا انہیں بلال کے گھر صبح چھوڑ کر آیا تھا۔ سعیدہ اماں پہلے بھی اکثر وہاں آتی جاتی رہتی تھیں، اس لئے امامہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتی تھی۔ اس نے وہاں فون کیا تو اسے پتا چلاکہ وہ دوپہر کو وہاں سے جاچکی تھیں اور تب پہلی بار اسے صحیح معنوں میں تشویش ہونے لگی۔
اس نے باری باری ہر اس جگہ پتا کیا جہاں وہ جاسکتی تھیں مگر وہ کہیں بھی نہیں ملیں اور تب اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اطلاع دی۔ اس کی حالت تب تک بے حد خراب ہوچکی تھی۔ سعیدہ اماں کا میل جول اپنے محلے تک ہی تھا۔ وہ اندرون شہر کے علاوہ کسی جگہ کو اچھی طرح نہیں جانتی تھیں۔ انہیں کسی دوسری جگہ جانا ہوتا تو وہ ہمسایوں کے کسی لڑکے ساتھ جاتیں یا پھر امامہ کے ساتھ اور یہی بات امامہ کو تشویش میں مبتلا کررہی تھی۔
دوسری طرف سالار اندرون شہر کے سوا شہر کے تمام پوش علاقوں سے واقف تھا۔ اگر اسے اندرون شہر کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات بھی ہوتیں تب بھی وہ سعیدہ اماں کے ادھورے پتے کے باوجود کسی نہ کسی طرح ان کے گھر تک پہنچ جاتا۔
ڈاکٹر سبط علی نے رات گئے اسے سعیدہ اماں کی خیریت سے اپنے کسی جاننے والے کے پاس ہونے کی اطلاع دی اور امامہ کی جیسے جان میں جان آئی۔
مزید ایک گھنٹے کے بعد دروازے کی بیل بجی تھی اور اس نے تقریباً بھاگتے ہوئے جاکر دروازہ کھولا۔ دروازے کی اوٹ سے اس نے سعیدہ اماں کے پیچھے کھڑے ایک خوش شکل آدمی کو دیکھا، جس نے دروازہ کھلنے پر اسے سلام کیا اور پھر سعیدہ اماں کو خدا حافظ کہتے ہوئے مڑگیا اور اس دوسرے دراز قامت شخص کے پیچھے چلنے لگا جس کی امامہ کی طرف پشت تھی۔ امامہ نے اس پر غور نہیں کیا وہ تو بے اختیار سعیدہ اماں سے لپٹ گئی تھی۔
سعیدہ اماں اگلے کئی دن اس کے سامنے ان دونوں کا نام لیتی رہیں، سالار اور فرقان۔ امامہ کو پھر بھی شبہ نہیں ہواکہ وہ سالار… سالار سکندر بھی ہوسکتا تھا… مردہ لوگ زندہ نہیں ہوسکتے تھے اور اسے اگر اس کی موت کا یقین نہ بھی ہوتا تب بھی سالار سکندر جیسا شخص نہ تو ڈاکٹر سبط علی کا شناسا ہوسکتا تھا نہ ہی اس میں اس طرح کی اچھائیاں ہوسکتی تھیں جن اچھائیوں کا ذکر سعیدہ اماں وقتاً فوقتاً کرتی رہتی تھیں۔
اس کے کچھ عرصے بعد اس نے جس شخص کو اس رات سعیدہ اماں کے ساتھ سیڑھیوں پہ کھڑے دیکھا تھا اس شخص سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔ فرقان اپنی بیوی کے ساتھ ان کے ہاں آیا تھا۔ اسے وہ اور اس کی بیوی دونوں اچھے لگے تھے پھر وہ چند ایک بار اور ان کے گھر آئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی شناسائی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
اسے جاب کرتے تب دوسال ہوچکے تھے۔ کچھ وقت شاید اور اسی طرح گزر جاتا۔ اگر وہ اتفاقاً ایک روز اس سڑک سے نہ گزرتی جہاں جلال کے بنائے ہوئے ہاسپٹل کے باہر اس کا نام آویزاں تھا۔ جلال انصر کا نام اس کے قدم روک دینے کے لئے کافی تھا مگر کچھ دیر تک ہاسپٹل کے باہر اس کا نام دیکھتے رہنے کے بعد اس نے طے کیا تھا کہ وہ دوبارہ اس سڑک پر کبھی نہیں آئے گی۔
جلال شادی کرچکا تھا۔ یہ وہ گھر چھوڑتے وقت ہی سالار سے جان چکی تھی اور وہ دوبارہ اس کی زندگی میں نہیں آنا چاہتی تھی مگر اس کایہ فیصلہ دیر پا ثابت نہیں ہوا۔
دو ہفتے کے بعد فارماسیوٹیکل کمپنی کے آفس میں ہی اس کی ملاقات رابعہ سے ہوئی۔ رابعہ وہاں کسی کام کے لئے آئی تھی۔ چند لمحوں کے لئے تو اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کا ردِعمل ظاہر کرے۔ یہ مشکل رابعہ نے آسان کردی۔ وہ اس سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملی تھی۔
”تم یک دم کہاں غائب ہوگئی تھیں۔ کالج اور ہاسٹل میں تو ایک لمبا عرصہ طوفان مچارہا۔”
رابعہ نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”بس میں گھر سے چلی گئی تھی۔ کیوں گئی تھی تم تو جانتی ہی ہوگی۔” امامہ نے مختصراً کہا۔
”ہاں، مجھے کچھ اندازہ تو تھا ہی مگر میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔ ویسے ہم لوگوں کی بڑی کم بختی آئی۔ میری، جویریہ، زینب، سب کی… پولیس تک نے پوچھ گچھ کی ہم سے۔ ہمیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا تمہارے بارے میں، مگر ہاسٹل اور کالج میں بہت ساری باتیں پھیل گئی تھیں تمہارے بارے میں۔”
رابعہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی مسلسل بولے جارہی تھی۔
”تم اکیلی ہی گئی تھیں؟” اس نے بات کرتے کرتے اچانک پوچھا۔
”ہاں۔” امامہ انٹر کام پرچائے کا کہتے ہوئے بولی۔
”مگر گئی کہاں تھیں؟”
”کہیں نہیں، یہیں لاہور میں تھی۔ تم بتاؤ، تم کیا کررہی ہو آج کل اور جویریہ… باقی سب۔” امامہ نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
”میں پریکٹس کررہی ہوں لاہور میں۔ جویریہ اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ شادی ہوگئی ہے اس کی ایک ڈاکٹر سے۔ میری بھی فاروق سے ہوئی ہے۔ تمہیں تو یاد ہوگا کلاس فیلو تھا میرا۔”
امامہ مسکرائی۔” اور زینب؟” اس کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔
”ہاں، زینب آج کل انگلینڈ میں ہوتی ہے۔ ریزیڈنسی کررہی ہے وہاں اپنے شوہر کے ساتھ۔ اس کے بھائی کے ہاسپٹل میں ہی فاروق پریکٹس کرتے ہیں۔”
امامہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔” جلال انصر کے ہاسپیٹل میں؟”
”ہاں، اسی کے ہاسپٹل میں۔ وہ اسپیشلائزیشن کرکے آیا ہے کچھ عرصے پہلے لیکن بے چارے کے ساتھ بڑی ٹریجڈی ہوئی ہے۔ چند ماہ پہلے طلاق ہوگئی ہے۔ حالانکہ اچھا بندہ ہے مگر۔”
امامہ اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹاسکی۔
”طلاق…! کیوں؟”
”پتا نہیں، فاروق نے پوچھا تھا اس سے۔ کہہ رہا تھا انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوئی۔ بیوی بھی بڑی اچھی تھی اس کی۔ ڈاکٹر ہے وہ بھی لیکن پتا نہیں کیوں طلاق ہوگئی۔ ہم لوگوں کا تو خاصا آنا جانا تھا ان کے گھر میں۔ ہمیں کبھی بھی اندازہ نہیں ہواکہ ایسا کوئی مسئلہ ہے دونوں کے درمیان۔ ایک بیٹا ہے تین سال کا۔ وہ جلال کے پاس ہی ہے۔ اس کی بیوی واپس امریکہ چلی گئی ہے۔”
رابعہ لاپروائی سے تمام تفصیلات بتارہی تھی۔
”تم اپنے بارے میں بتاؤ۔ یہ تو میں جان گئی ہوں کہ یہاں جاب کررہی ہو، مگر اسٹڈیز تو تم نے مکمل نہیں کی۔”
”ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔”
”اور شادی وغیرہ؟”
”وہ ابھی نہیں۔”
”پیرنٹس کے ساتھ تمہارا جھگڑا ختم ہوا یا نہیں؟”
امامہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔
”نہیں۔” پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھی رہی پھر چلی گئی۔ امامہ باقی کا سارا وقت آفس میں ڈسٹرب رہی۔ اس نے جلال انصر کو کبھی بھلایا نہیں تھا۔ وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھی۔ اس نے صرف اپنی زندگی سے اس کو الگ کردیا تھا مگر وہاں بیٹھے ہوئے اس دن اسے احساس ہواکہ یہ بھی ایک خوش گمانی یا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ جلال انصر کو اپنی زندگی سے الگ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ صرف اس کی زندگی میں داخل ہو کر اسے کسی پریشانی سے دوچار کرنا چاہتی تھی نہ ہی اس کی ازدواجی زندگی کو خراب کرنا چاہتی تھی لیکن اب یہ جاننے کے بعد کہ اس کی ازدواجی زندگی پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے اور وہ ایک بارپھر اکیلا تھا۔ اسے یاد آیا آٹھ سال پہلے وہ کس طرح اس شخص کے حصول کے لئے بچوں کی طرح مچلتی رہی تھی۔ وہ اسے حاصل نہیں کرسکی تھی۔ تب بہت سی دیواریں، بہت سی رکاوٹیں تھیں جنہیں وہ پار کرسکتی تھی نہ جلال انصر ہٹاسکتا تھا۔
مگر اب بہت وقت گزرچکا تھا۔ ان رکاوٹوں میں اسے اب کچھ بھی ان دونوں کے درمیان نہیں تھا۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ وہ ایک شادی کرچکا تھا یا اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔
”مجھے اس کے پاس ایک بارپھر جانا چاہئے، شاید وہ اب بھی میرے بارے میں سوچتا ہو شاید اسے اب اپنی غلطی کا احساس ہو۔” امامہ نے سوچا تھا۔
اس نے آخری بار فون پر بات کرتے ہوئے اس سے جو کچھ کہا تھا، امامہ اس کے لئے اس کو معاف کرچکی تھی۔ جلال کی جگہ جو بھی ہوتا وہ یہی کہتا۔ صرف ایک لڑکی کے لئے تو کوئی بھی اتنے رسک نہیں لیتا اور پھر اس کا کیرئیر تھا جسے وہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کے پیرنٹس کی اس سے کچھ امیدیں تھیں جنہیں وہ ختم نہیں کرسکتا تھا۔ میری طرح وہ بھی مجبور تھا۔ بہت سال پہلے کہے گئے اس کے جملوں کی بازگشت نے بھی اسے دلبرداشتہ یا اپنے فیصلے پر دوبارہ غورکرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
”مجھے اس کے پاس جانا چاہئے۔ ہوسکتا ہے یہ موقع مجھے اللہ نے ہی دیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ نے میری دعاؤں کو اب قبول کرلیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ کو مجھ پر اب رحم آگیا ہو۔”
وہ باربار سوچ رہی تھی۔
”ورنہ اس طرح اچانک رابعہ میرے سامنے کیوں آجاتی۔ مجھے کیوں یہ پتا چلتا کہ اس کی بیوی سے علیحدگی ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے اب میں اس کے سامنے جاؤں تو…” وہ فیصلہ کرچکی تھی۔ وہ جلال انصر کے پاس دوبارہ جانا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
”میں ڈاکٹر جلال انصر سے ملنا چاہتی ہوں۔” امامہ نے ریسپشنسٹ سے کہا۔
”اپائنٹمنٹ ہے آپ کی؟” اس نے پوچھا۔
”نہیں، اپائنٹمنٹ نہیں ہے۔”
”پھر تو وہ آپ سے نہیں مل سکیں گے۔ اپائنٹمنٹ کے بغیر وہ کسی پیشینٹ کو نہیں دیکھتے۔” اس نے بڑے پروفیشنل انداز میں کہا۔
”میں پیشنٹ نہیں ہوں، ان کی دوست ہوں۔” امامہ نے کاؤنٹر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔
”ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ آپ اس وقت ان سے ملنے آئیں گی؟” ریسپشنسٹ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”ایک منٹ، میں ان سے پوچھتی ہوں۔” اس نے ریسیور اٹھاتے ہوئے کہا۔
”آپ کا نام کیا ہے؟” وہ ریسپشنسٹ کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”آپ کا نام کیا ہے؟” اس نے اپنا سوال دہرایا۔
”امامہ ہاشم۔” اسے یاد نہیں اس نے کتنے سالوں بعد اپنا نام لیا تھا۔
”سر! کوئی خاتون آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ آپ کی دوست ہیں۔ امامہ ہاشم نام ہے ان کا۔”
وہ دوسری طرف سے جلال کی گفتگو سنتی رہی۔
”اوکے سر۔” پھر اس نے ریسیور رکھ دیا۔
”آپ اندر چلی جائیں۔” ریسپشنسٹ نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
وہ سرہلاتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ جلال انصر کا ایک مریض باہر نکل رہا تھا اور وہ خود اپنی میز کے پیچھے کھڑا تھا۔ امامہ نے اس کے چہرے پر حیرت دیکھی تھی۔ وہ اپنے دھڑکتے دل کی آواز باہر تک سن سکتی تھی۔ اس نے جلال انصر کو آٹھ سال اور کتنے ماہ کے بعد دیکھا تھا۔ امامہ نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ اسے یاد نہیں آیا۔
What a pleasent surprise Imama” ”(کیسا خوشگوار سر پرائز ہے امامہ!)۔
جلال نے آگے بڑھ کر اس طرف آتے ہوئے کہا تھا۔
”مجھے یقین نہیں آرہا۔ تم کیسی ہو؟”
”میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟”
وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر بولی۔ پچھلے آٹھ سال سے یہ چہرہ ہر وقت اس کے ساتھ رہا تھا اور یہ آواز بھی۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں، آؤ بیٹھو۔”
اس نے اپنی ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ خود ٹیبل کے دوسری جانب اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔
وہ ہمیشہ سے جانتی تھی۔ وہ جلال انصر کو جب بھی دیکھے گی اس کا دل اسی طرح بے قابو ہوگا مگر اتنی خوشی، ایسی سرشاری تھی جو وہ اپنے رگ وپے میں خون کی طرح دوڑتی محسوس کررہی تھی۔
”کیا پیوگی؟ چائے، کافی، سوفٹ ڈرنک؟” وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
”جو آپ چاہیں۔”
”اوکے، کافی منگوالیتے ہیں۔ تمہیں پسند تھی۔”
وہ انٹر کام اٹھاکر کسی کو کافی بھجوانے کی ہدایات دے رہا تھا اور وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر داڑھی اب نہیں تھی۔ اس کا ہیر اسٹائل مکمل طورپر تبدیل ہوچکا تھا۔ اس کا وزن پہلے کی نسبت کچھ بڑھ گیا تھا۔ وہ پہلے کی نسبت بہت پر اعتماد اور بے تکلف نظر آرہا تھا۔
”تم آج کل کیا کررہی ہو؟” ریسیور رکھتے ہی اس نے امامہ سے پوچھا۔
”ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں کام کررہی ہوں۔”
”ایم بی بی ایس تو چھوڑدیا تھا تم نے۔”
”ہاں، ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔”
”کون سی کمپنی ہے؟” امامہ نے نام بتایا۔
”وہ تو بہت اچھی کمپنی ہے۔”
وہ کچھ دیر اس کمپنی کے بارے میں تعریفی تبصرہ کرتا رہا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
”میں اسپیشلائزیشن کرکے آیا ہوں۔”
وہ اپنے بارے میں بتانے لگا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر کسی معمول کی طرح اسے دیکھتی رہی۔ بعض لوگوں کو صرف دیکھنا ہی کتنا”کافی” ہوتا ہے۔ اس نے اسے بات کرتے دیکھ کر سوچا تھا۔
”ایک سال ہوا ہے اس ہاسپٹل کو شروع کئے اور بہت اچھی پریکٹس چل رہی ہے میری۔” وہ بولتا رہا۔ کافی آچکی تھی۔
”تمہیں میرا پتا کیسے چلا؟” وہ کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے بولا۔
”میں نے آپ کے ہاسپٹل کے بورڈ پر آپ کا نام پڑھا تھا پھر رابعہ سے ملاقات ہوئی۔ آپ جانتے ہوں گے۔ زینب بھی واقف تھی اس سے۔”
”رابعہ فاروق کی بات کررہی ہو۔ بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس کا شوہر ڈاکٹر فاروق میرے ساتھ کام کرتا ہے۔” اس نے کافی پیتے ہوئے کہا۔
”ہاں، وہی… پھر میں یہاں آگئی۔”




Loading

Read Previous

کیوئیں جاناں میں کون — مصباح علی سیّد

Read Next

معصوم سوال — ناہید حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!