پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۹

امامہ کو اچانک محسوس ہوا جیسے اس عورت کے لہجے میں یک دم تجسّس پیدا ہوگیا تھا۔
امامہ کو پتا نہیں کیوں اس کی آواز شناسالگی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اچانک اس عورت نے بڑی پرجوش آواز میں کہا۔ ‘امامہ بی بی! آپ امامہ بی بی ہیں؟”
ایک کرنٹ کھا کر امامہ نے بے اختیار کریڈل دبا دیا۔ وہ کون تھی جس نے اسے صرف آواز سے پہچان لیا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی… اور اتنی جلدی اور وہ بھی سالار سکندر کے گھرپر۔۔۔۔
کچھ دیر اس کے ہاتھ کانپتے رہے۔ وہ پی سی اوکے اندر والے کیبن میں تھی اور کچھ دیر ریسیور اسی طرح ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی۔
”جو بھی ہو مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اسلام آباد سے اتنی دور ہوں کہ یہاں مجھ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ مجھے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
اس نے سوچا اور پی سی اوکے مالک کو ایک بارپھر کال ملانے کے لئے کہا۔
فون کی گھنٹی بجنے پر اس بارفون فوراً اٹھالیا گیا تھا مگر اس بار بولنے والا کوئی مرد تھا اور وہ سالار نہیں تھا۔ وہ وہ آواز سنتے ہی جان گئی تھی۔
”میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔”
”آپ امامہ ہاشم ہیں؟”
مرد نے کھردری آواز میں کہا۔ اس بار امامہ کو کوئی شاک نہیں لگا۔
”جی…” دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔
”آپ ان سے میری بات کروادیں۔”
”یہ ممکن نہیں ہے۔” دوسری طرف سے اس مرد نے کہا۔
”کیوں؟”
”سالار زندہ نہیں ہے۔”
”کیا…؟” بے اختیار امامہ کے حلق سے نکلا۔
”وہ مرگیا؟”
”ہاں۔۔۔۔”
”کب…؟”
اس بار مرد خاموش رہا۔
”آپ سے آخری بار ان کا رابطہ کب ہوا؟”
اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس آدمی نے کہا۔
چند سال پہلے… ڈھائی سال پہلے۔”
”ایک سال پہلے اس کی ڈیتھ ہوئی ہے۔ آپ۔۔۔۔
امامہ نے کچھ بھی اور سننے سے پہلے فون بند کردیا۔ کچھ کہنے اور سننے کی ضرورت نہیں تھی… وہ آزاد ہوچکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک انسان کے طورپر اسے اس کی موت پر افسوس ہونا چاہئے تھا مگر اسے کوئی افسوس نہیں تھا۔ اگر اس نے اس طرح اسے طلاق دینے سے انکار نہ کیا ہوتا تو وہ یقینا اس کے لئے دکھ محسوس کرتی مگر اس وقت ڈھائی سال کے بعد اسے بے اختیار سکون اور خوشی کا احساس ہورہا تھا۔ وہ تلوار جو اس کے سر لٹکی ہوئی تھی وہ غائب ہوچکی تھی۔
اسے اب ڈاکٹر سبط علی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ صحیح معنوں میں آزاد ہوچکی تھی وہ اس کا وہاں ہاسٹل میں آخری دن تھا اور اس رات اس نے سالار سکندر کے لئے بخشش کے لئے دعا کی۔
وہ اس کی موت کے بعد اسے معاف کرچکی تھی اور وہ اس کی موت پر بے پناہ خوش تھی۔
٭…٭…٭
اس سے فون پر بات کرنے والی وہی ملازمہ تھی جو سالار کے ساتھ ساتھ اس کے گھر میں بھی کام کرتی رہی تھی اور اس نے امامہ کی آواز کو فوراً پہچان لیا تھا۔ امامہ کے فون بند کرتے ہی وہ کچھ اضطراب اور جوش وخروش کے عالم میں سکندر عثمان کے پاس پہنچ گئی۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس دن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھے۔
”ابھی کچھ دیر پہلے ایک لڑکی کا فون آیا ہے… وہ سالار صاحب سے بات کرنا چاہتی تھی۔”
”تو تم بات کروا دیتیں۔” سکندر عثمان نے قدرے لاپروائی سے کہا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ سالار بھی ان دنوں پاکستان آیا ہوا تھا اور گھر پر ہی موجود تھا۔ ملازمہ کچھ ہچکچائی۔
”صاحب جی! وہ امامہ بی بی تھیں۔”
سکندر عثمان کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹتے بچا، وہ یک دم حواس باختہ نظر آنے لگے۔
”امامہ ہاشم… ہاشم مبین کی بیٹی؟” ملازمہ نے اثبات میں سر ہلادیا۔ سکندر عثمان کا سر گھومنے لگا۔
”تو کیا سالار ہر ایک کو بے وقوف بنارہا ہے۔ وہ ابھی تک امامہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ جانتا ہے کہ وہ کہاں ہے۔ تو پھر یقینا وہ اس سے ملتا بھی رہا ہوگا۔” انہوں نے بے اختیار سوچا۔
”اس نے تمہیں خود اپنا نام بتایا؟” انہوں نے چائے کا کپ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں… میں نے ان کی آواز پہچان لی اور جب میں نے ان کا نام لیا تو انہوں نے فون بند کردیا۔” ملازمہ نے سکندر عثمان کو بتایا” مگر مجھے یقین ہے وہ ان ہی کی آواز تھی۔ مجھے کم از کم اس بارے میں کوئی دھوکہ نہیں ہوسکتا۔” اس سے پہلے کہ سکندر عثمان کچھ کہتے انہوں نے فون کی گھنٹی سنی مگر اس بار وہ ڈائننگ روم میں موجود ایکسٹینشن کی طرف بڑھ گئے اور انہوں نے فون اٹھالیا۔ دوسری طرف موجود لڑکی ایک بارپھر سالار سکندر کا پوچھ رہی تھی۔ ان کے استفسار پر اس نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ وہ امامہ ہاشم ہی تھی۔ وہ نہیں جانتے کیوں مگر بے اختیار ان کے دل میں آیا کہ وہ اسے سالار کے مرنے کی خبر دے دیں، تاکہ وہ دوبارہ کبھی ان کے گھر فون نہ کرے۔ انہیں اس سے بات کرکے یہ اندازہ تو ہوہی چکا تھا کہ وہ بہت عرصے سے سالار کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکی ہے اور اس کے پاس ان کے بیان کی صداقت کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ دوبارہ رابطہ نہ کرتی تو ان کی جان اس سے ہمیشہ کے لئے چھوٹ سکتی تھی۔ وہ ابھی تک اس ایک سال کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکے تھے۔ جب امامہ کی گمشدگی کے فوراً بعد سالار پرشبہ ہونے کی وجہ سے ہاشم مبین احمد نے ان کے لئے ہر قسم کی پریشانی کھڑی کی تھی۔
بہت سے سرکاری دفاتر جہاں پہلے ان کی فرم کی فائلز بہت آسانی سے نکل آتی تھیں۔ مہینوں پھنسی رہیں۔ ان کے گھر دھمکی آمیز کالز اور خط آتے رہے۔ کئی لوگوں نے بالواسطہ طورپر ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہاشم مبین احمد کی بیٹی کی واپسی کے لئے ان کی مدد کریں۔ ایک لمبے عرصے تک سالار کی نگرانی کی گئی اور نگرانی کا یہ سلسلہ صرف پاکستان ہی نہیں باہر بھی جاری رہا، مگر جب کسی طرح بھی امامہ سے اس کے رابطے کا کوئی ثبوت یا سراغ نہیں ملاتو رفتہ رفتہ یہ تمام سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔
سکندر عثمان کی بے پناہ کوشش کے باوجود بھی ہاشم مبین کے ساتھ ان کے تعلقات بحال نہیں ہوئے مگر ان کی طرف سے عدم تحفظ کا اندیشہ ختم ہوگیا تھا اور اب ڈھائی سال بعد وہ لڑکی ایک بارپھر سالار سے رابطہ کرنا چاہتی تھی وہ کسی صورت بھی دوبارہ ان حالات کا سامنا نہ خود کرنا چاہتے تھے نہ ہی سالار کو کرنے دینا چاہتے تھے۔
اگر وہ ہاشم مبین احمد کی ٹکر کے آدمی نہ ہوتے تو اب تک وہ اس سے زیادہ نقصان اٹھاچکے ہوتے، جتنا نقصان انہوں نے اس ایک سال اور خاص طورپر شروع کے چند ماہ میں اٹھایا تھا۔ وہ امامہ کو اس طلاق نامے کی ایک کاپی بھجوانا چاہتے تھے، جو سالار کی طرف سے انہوں نے تیار کیا تھا اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ جائز تھا یا نہیں۔ وہ صرف امامہ کو یہ یقین دلادینا چاہتے تھے کہ سالار یا اس کے خاندان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہونا چاہئے نہ ہی ہوگا۔
اگر کچھ تھا بھی تو وہ سالار کی موت اور اس سے بھی پہلے کے تحریر شدہ اس طلاق نامے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا مگر یہ ایک اور اتفاق تھا کہ امامہ نے ان کی بات مکمل طورپر سنے بغیر فون بند کردیا انہوں نے فون کو ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ملتان کے ایک پی سی اوکا ثابت ہوا۔ سالار ایک ہفتہ کے بعد واپس امریکہ جانے والا تھا اور انہوں نے اس ایک ہفتہ اس کی مکمل طورپر نگرانی کروائی۔ وہ ملازموں کو ہدایات دے چکے تھے کہ کسی کا بھی فون آئے وہ کسی بھی صورت سالار سے بات نہ کروائیں، چاہے فون کسی مرد کا ہویا عورت کا جب تک وہ خود یہ جان نہ لیتے کہ فون کرنے والا کون تھا۔ ملازمہ کو بھی وہ سختی کے ساتھ منع کرچکے تھے کہ وہ سالار کو امامہ کی اس کال کے بارے میں نہ بتائے۔ ایک ہفتے کے بعد جب سالار واپس امریکہ چلاگیا تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔
سرپر آئی ہوئی آفت ایک بار پھر ٹل گئی تھی۔ سالار کی واپسی کے چند ہفتے کے بعد انہیں ایک لفافہ موصول ہوا تھا۔
امامہ نے لاہور واپس پہنچنے کے بعد وہ موبائل بیچ دیا تھا۔ وہ اسے واپس نہیں بھجواسکتی تھی اور سالار کی وفات کے بعد اب یہ امکان نہیں تھا کہ کبھی اس کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کی صورت میں وہ اسے وہ موبائل واپس دے سکے گی۔ اس نے موبائل بیچنے سے ملنے والی رقم کے ساتھ اپنے پاس موجود کچھ اور رقم شامل کی۔ وہ اندازاً ان کالز کے بل کی رقم تھی، جو ڈھائی تین سال سالار نے ادا کئے ہوں گے اور چند دوسرے اخراجات جو اپنے گھر قید کے دوران اور وہاں سے لاہور فرار کے دوران سالار نے اس پرکئے تھے۔ اس کے ساتھ سکندر عثمان کے نام ایک مختصر نوٹ بھجوایا تھا۔ ٹریولرزچیکس۔ اس کے سر پر موجود اس آدمی کا قرض بھی اترگیا تھا۔
اس رقم اور اس کے ساتھ ملنے والے نوٹ سے سکندر عثمان کو تسلی ہوگئی تھی کہ وہ دوبارہ اس سے رابطہ نہیں کرے گی اور یہ بھی کہ اس نے واقعی ان کی بات پر یقین کرلیا تھا۔
٭…٭…٭
ملتان سے بی ایس سی کرنے کے بعد وہ لاہور چلی آئی تھی۔ اسے گھر چھوڑے تین سال ہونے والے تھے اور اس کا خیال تھا کہ اب کم از کم اس طرح اسے تلاش نہیں کیا جائے گا، جس طرح پہلے کیا جاتا رہا تھا۔ اگر کیا بھی گیا تو صرف میڈیکل کالجز پر نظر رکھی جائے گی۔ اس کا یہ اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
اس نے پنجاب یونیورسٹی میں کیمسٹری میں ایم ایس سی کے لئے ایڈمیشن لے لیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ بے حد محتاط تھی۔ یہ لاہور تھا یہاں کسی بھی وقت کوئی بھی اسے پہچان سکتا تھا۔ ملتان میں وہ صرف چادر اوڑھ کر کالج جاتی تھی۔ لاہور میں اس نے نقاب لگانا شروع کردیا۔
لاہور میں دوبارہ واپسی کے بعد وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نہیں رہی تھی، وہ سعیدہ اماں کے پاس رہنے لگی تھی۔
٭…٭…٭
سعیدہ اماں سے اس کی پہلی ملاقات ڈاکٹر سبط علی نے ملتان جانے سے پہلے لاہور میں کروائی تھی۔ سعیدہ اماں کے بہت سے عزیز واقارب ملتان میں رہتے تھے۔ ڈاکٹر سبط علی، امامہ کو ان سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ ملتان میں قیام کے دوران کسی بھی ضرورت یا ایمرجنسی میں وہ ان کی مدد لے سکے۔
سعیدہ اماں ایک پینسٹھ سترسالہ بے حد باتونی اور ایکٹیو عورت تھیں۔ وہ لاہور کے اندرون شہر میں ایک پرانی حویلی میں تنہا رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا جبکہ دوبیٹے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں مقیم تھے۔ وہ دونوں شادی شدہ تھے اور ان کے بے حد اصرار کے باوجود سعیدہ اماں باہر جانے پر تیار نہیں تھیں۔ وہ دونوں بیٹے باری باری ہرسال پاکستان آیا کرتے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس چلے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سبط علی سے ان کی قرابت داری تھی۔ وہ ان کے کزن ہوتے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے امامہ کے بارے میں پہلے ہی سعیدہ اماں کو بتادیا تھا، اسی لئے جب وہ ان کے ساتھ ان کے گھر پہنچی تو وہ بڑی گرم جوشی سے اس سے ملی تھیں۔ انہوں نے ملتان میں موجود تقریباً اپنے ہر رشتے دار کے بارے میں تفصیلات اس کے گوش گزار کردی تھیں اور پھر شاید اس سب کو ناکافی جانتے ہوئے انہوں نے خود ساتھ چل کر اسے ہاسٹل چھوڑ آنے کی آفر کی جسے ڈاکٹر سبط علی نے نرمی سے رد کردیا تھا۔
”نہیں آپا! آپ کو زحمت ہوگی۔” ان کے بے حد اصرار کے باوجود وہ نہیں مانے تھے۔
”بہتر تو یہ ہے بھائی صاحب کہ آپ اسے میرے بھائیوں میں سے کسی کے گھر ٹھہرادیں۔ بچی کو گھر جیسا آرام اور ماحول ملے گا۔”
انہیں اچانک ہاسٹل پر اعتراض ہونے لگا اور پھر انہوں نے ہاسٹل کی زندگی کے کئی مسائل کے بارے میں روشنی ڈالی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی اور خود وہ بھی کسی کے گھر میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ہاسٹل بہترین آپشن تھا۔
٭…٭…٭
سعیدہ اماں سے اس کی دوسری ملاقات ملتان جانے کے چند ماہ بعد اس وقت ہوئی تھی، جب ایک دن اچانک اسے کسی خاتون ملاقاتی کی اطلاع ہاسٹل میں دی گئی تھی۔ کچھ دیر کے لئے وہ خوف زدہ ہوگئی تھی۔ وہاں اس طرح اچانک اس سے ملنے کون آسکتا تھا اور وہ بھی ایک خاتون… مگر سعیدہ اماں کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ وہ اس سے اسی گرم جوشی سے ملی تھیں، جس طرح لاہور میں ملی تھیں۔ وہ تقریباً دو ہفتے ملتان میں رہی تھیں اور ان دو ہفتوں میں کئی بار اس سے ملنے آئیں۔ ایک بار وہ ان کے ساتھ ہاسٹل سے ان کے بھائی کے گھر بھی گئی۔
پھر یہ جیسے ایک معمول بن گیا تھا۔ وہ چند ماہ بعد ملتان آتیں اور اپنے قیام کے دوران باقاعدگی سے اس کے پاس آتی رہتیں۔ وہ خود جب مہینے میں ایک بار لاہور آتی تو ان سے ملنے کے لئے بھی جاتی۔ کئی بار جب اس کی چھٹیاں زیادہ ہوتیں تو وہ اسے وہاں ٹھہرنے کے لئے اصرار کرتیں۔ وہ کئی بار وہاں رہی تھی۔ سرخ اینٹوں کا بنا ہوا وہ پرانا گھر اسے اچھا لگتا تھا یا پھر یہ تنہائی کا وہ احساس تھا، جو وہ ان کے ساتھ شیئر کررہی تھی۔ اس کی طرح وہ بھی تنہا تھیں۔ اگرچہ ان کی یہ تنہائی ان کے ہمہ وقت میل جول کی وجہ سے کم ہوجاتی تھی مگر اس کے باوجود امامہ ان کے احساسات کو بنا کوشش کئے سمجھ سکتی تھی۔
لاہور واپس شفٹ ہونے سے بہت عرصہ پہلے ہی انہوں نے امامہ سے یہ جان لینے کے بعد کہ وہ ایم ایس سی لاہور سے کرنا چاہ رہی ہے، اسے ساتھ رکھنے کے لئے اصرار کرنا شروع کردیا۔
اسی عرصے کے دوران ڈاکٹر سبط علی کی سب سے بڑی بیٹی ان کے پاس اپنے بچوں سمیت کچھ عرصہ کے لئے رہنے چلی آئیں۔ ان کے شوہر بی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کے بھتیجے تھے۔ جانے سے پہلے وہ اپنی فیملی کو ان کے ہاں ٹھہرا گئے۔ ڈاکٹر سبط علی کے گھر میں جگہ کی کمی نہیں تھی مگر امامہ اب ان کے گھر میں رہنا نہیں چاہ رہی تھی۔ وہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی کے احسانات کا بوجھ پہلے ہی اسے زیربار کررہا تھا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ان کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرے اور اس کے بعد اس کے جاب کرنے پر بھی وہ اسے کہیں اور رہنے نہ دیتے لیکن اگر وہ پہلے ہی علیحدہ رہائش اختیار رکھتی تو اس کے لئے ان سے اپنی بات منوانا آسان ہوتا۔ سعیدہ اماں کا گھر اسے اپنی رہائش کے لئے بہت مناسب لگا تھا۔ وہ جاب شروع کرنے پر انہیں مجبور کرکے کرائے کی مد میں کچھ نہ کچھ لینے پر مجبور کرسکتی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی شاید یہ سب کبھی گوارا نہ کرتے۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر سبط علی کے لئے اس کا فیصلہ ایک شاک کی طرح تھا۔
”کیوں آمنہ! میرے گھر پر کیوں نہیں رہ سکتیں آپ؟” انہوں نے بہت ناراضگی سے اس سے کہا۔” سعیدہ آپا کے ساتھ کیوں رہنا چاہتی ہیں؟”
”وہ بہت اصرار کررہی ہیں۔”
”میں انہیں سمجھادوں گا۔”
”نہیں، میں خود بھی ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میں ان کے ساتھ رہوں گی تو ان کی تنہائی دور ہوجائے گی۔”
”یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ آپ ان کے پاس جب چاہیں جاسکتی ہیں، مگر ساتھ رہنے کے لئے نہیں۔”
”پلیز، آپ مجھے وہاں رہنے کی اجازت دے دیں، میں وہاں زیادہ خوش رہوں گی۔ میں اب آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔”
ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”پیروں پر کھڑے ہونے سے کیا مراد ہے آپ کی؟”
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
”میں آپ پر بہت لمبے عرصے تک بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ پہلے ہی میں بہت سال سے آپ پر انحصار کررہی ہوں، مگر ساری زندگی تو میں آپ پر بوجھ بن کر نہیں گزارسکتی۔”
وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ اسے لگا اس کے آخری جملے نے ڈاکٹر سبط علی کو تکلیف دی تھی۔ اسے پچھتاوا ہوا۔
”میں نے کبھی بھی آپ کو بوجھ نہیں سمجھا آمنہ! کبھی بھی نہیں۔ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں اور میرے لئے آپ ایک بیٹی کی طرح ہیں پھر یہ بات… مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔”
”میں جانتی ہوں ابو! مگر میں صرف اپنی فیلنگز کی بات کررہی تھی۔ دوسرے پر ڈیپینڈنٹ ہونا بہت تکلیف دہ بات ہے۔ میں سعیدہ اماں کے ساتھ رہ کر زیادہ پرسکون رہوں گی۔ میں انہیں پے (Pay) کروں گی۔ آپ کو میں کبھی پے(Pay)کرنا چاہوں بھی تونہ کرسکوں گی۔ شاید مجھے دس زندگیاں بھی ملیں تو میں آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکتی مگر اب بس… اب اور نہیں…میں نے زندگی کو گزارنے کے سارے طریقے ابھی سیکھنے ہیں۔ مجھے سیکھنے دیں۔”
ڈاکٹر سبط علی نے اس کے بعد اسے دوبارہ اپنے گھر میں رہنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے لئے بھی ان کی احسان مند تھی۔
سعیدہ اماں کے ساتھ رہنے کا تجربہ اس کے لئے ہاسٹل میں یا ڈاکٹر سبط علی کے ہاں رہنے سے بالکل مختلف تھا۔ اسے ان کے پاس ایک عجیب سی آزادی اور خوشی کا احساس ہوا تھا۔ وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں۔ صرف ایک ملازمہ تھی جو دن کے وقت آکر گھر کے کام کردیا کرتی تھی اور شام کو واپس چلی جایا کرتی تھی۔ وہ بے حد سوشل لائف گزارتی تھیں۔ محلے میں ان کا بہت آنا جانا تھا اور نہ صرف محلے میں بلکہ اپنے رشتے داروں کے ہاں بھی اور ان کے گھر بھی اکثر کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا۔
انہوں نے محلے میں ہر ایک سے امامہ کا تعارف اپنی بھانجی کہہ کر کروایا تھا اور چند سالوں کے بعد یہ تعارف بھانجی سے بیٹی میں تبدیل ہوگیا تھا، اگرچہ محلے والے پچھلے تعارف سے واقف تھے، مگر اب کسی نئے ملنے والے سے جب وہ امامہ کو بیٹی کی حیثیت سے متعارف کرواتیں تو کسی کو کوئی تجسّس نہیں ہوتا تھا۔ لوگ سعیدہ اماں کی عادت سے واقف تھے کہ وہ کتنا محبت بھرا دل رکھتی تھیں۔ ان کے بیٹے بھی امامہ سے واقف تھے، بلکہ وہ باقاعدگی سے فون پر سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے اس کا حال احوال بھی دریافت کرتے رہتے تھے۔ ان کی بیوی اور بچے بھی اس سے بات چیت کرتے رہتے تھے۔
ان کے بیٹے ہرسال پاکستان آیا کرتے تھے اور ان کے قیام کے دوران بھی امامہ کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا، جیسے وہ ان کی فیملی کا حصہ نہیں تھی، بعض دفعہ اسے یوں ہی لگتا جیسے وہ واقعی سعیدہ اماں کی بیٹی اور ان کے بیٹوں کی بہن تھی۔ ان دونوں کے بچے اسے پھوپھو کہا کرتے تھے۔




Loading

Read Previous

کیوئیں جاناں میں کون — مصباح علی سیّد

Read Next

معصوم سوال — ناہید حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!