پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۹

”آپ کے والد ہاشم مبین صاحب سے میں واقف ہوں۔ جماعت کے بہت سرگرم اور بارسوخ لیڈر ہیں اور آپ کا ان کے مذہب سے تائب ہوکر اس طرح گھر سے چلے آنا ان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ آپ کو ڈھونڈنے اور واپس لے جانے کے لئے وہ زمین آسمان ایک کردیں گے۔”
”مگر میں کسی بھی قیمت پر واپس نہیں جاؤں گی۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔”
”گھر آپ نے چھوڑدیا ہے۔ اب آپ آگے کیا کریں گی؟” امامہ کو اندیشہ ہواکہ وہ اسے کورٹ میں جانے کا مشورہ دیں گے۔
”میں کورٹ میں نہیں جاؤں گی۔ میں کسی کے بھی سامنے آنا نہیں چاہتی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہی کہ سامنے آکر میرے لئے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔”
”پھر آپ کیا کرنا چاہتی ہیں؟” انہوں نے بغور اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”سامنے نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میڈیکل کالج میں اپنی اسٹڈیز جاری نہیں رکھ سکیں گی۔”
”میں جانتی ہوں۔” اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
”میں ویسے بھی خود تو میڈیکل کی تعلیم افورڈ کر بھی نہیں سکتی۔”
”اور اگر کسی دوسرے میڈیکل کالج میں کسی دوسرے شہریا صوبے میں آپ کی مائیگریشن کروادی جائے تو؟”
”نہیں، وہ مجھے ڈھونڈ لیں گے۔ ان کے ذہن میں بھی سب سے پہلے یہی آئے گا کہ میں مائیگریشن کروانے کی کوشش کروں گی اور اتنے تھوڑے سے میڈیکل کالجز میں مجھے ڈھونڈنا بہت آسان کام ہے۔”
”پھر…؟”
”میں بی ایس سی میں کسی کالج میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہوں مگر کسی دوسرے شہر میں… لاہور میں وہ ایک ایک کالج چھان ماریں گے اور میں اپنا نام بھی بدلوانا چاہتی ہوں… اگر آپ ان دونوں کاموں میں میری مدد کرسکیں تو میں بہت احسان مند رہوں گی۔”
ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔
”امامہ! ابھی کچھ عرصہ آپ کو یہیں رہنا چاہئے، پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں۔ چند ہفتے انتظار کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں آگے کیا کرنا ہے۔ آپ اس گھر میں بالکل محفوظ ہیں… آپ کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ آپ کورٹ میں نہیں جانا چاہتیں؟ میں آپ کو اس کے لئے مجبور بھی نہیں کروں گا اور آپ کو یہ ڈر نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی یہاں تک آجائے گا یا آپ کو زبردستی یہاں سے لے جائے گا۔ آپ کے ساتھ کوئی بھی کسی بھی طرح کی زبردستی نہیں کرسکتا۔”
انہوں نے اس رات اسے بہت سی تسلیاں دی تھیں۔ اسے ڈاکٹر سبط علی کی شکل دیکھ کر بے اختیار ہاشم مبین یاد آتے رہے۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن ڈاکٹر سبط علی شام پانچ بجے کے قریب اپنے آفس سے آئے تھے۔
”صاحب آپ کو اپنی اسٹڈی میں بلارہے ہیں۔”
وہ اس وقت مریم کے ساتھ کچن میں تھی جب ملازم نے آکر اسے پیغام دیا۔
”آؤ امامہ! بیٹھو!” اسٹڈی کے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہونے پر ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا وہ اپنی ٹیبل کی ایک دراز سے کچھ پیپرز نکال رہے تھے وہ وہاں رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
”آج میں نے کچھ معلومات کروائی ہیں آپ کے بارے میں کہ آپ کے گھروالے آپ کی تلاش میں کہاں تک پہنچے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔”
انہوں نے دراز بند کرتے ہوئے کہا۔
”یہ سالار سکندر کون ہے؟”
ان کے اگلے سوال نے اس کے دل کی دھڑکن کو چند لمحوں کے لئے روک دیا تھا۔ وہ اب کرسی پر بیٹھے اسے بغور دیکھ رہے تھے۔ اس کے چہرے کی فق ہوتی ہوئی رنگت نے انہیں یہ بتادیا کہ وہ نام امامہ کے لئے اجنبی نہیں تھا۔
”سالار…! ہمارے ساتھ… والے… گھر… میں… رہتا… ہے۔” اس نے اٹکتے ہوئے کہا۔
”اس نے میری بہت مدد کی ہے۔ گھر سے نکلنے میں… اسلام آباد سے لاہور مجھے وہی چھوڑ کرگیا تھا۔”
وہ دانستہ رک گئی۔
”کیا اس کے ساتھ نکاح کے بارے میں بھی بتانا چاہئے؟” وہ گومگو میں تھی۔
”آپ کے والد نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے، آپ کو اغوا کرنے کے الزام میں۔”
امامہ کے چہرے کی رنگت اور زرد ہوگئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ سالار سکندر اتنی جلدی پکڑا جائے گا اور اب اس کے گھر والے یقینا جلال انصر تک بھی پہنچ جائیں گے اور وہ نکاح اور اس کے بعد کیا وہ یہاں آجائیں گے۔”
”کیا وہ پکڑا گیا؟” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
”نہیں… یہ ٹریس آؤٹ کرلیا گیا تھا کہ وہ اس رات کسی لڑکی کے ساتھ لاہور تک آیا تھا لیکن اس کا اصرار ہے کہ وہ آپ نہیں تھیں۔ کوئی دوسری لڑکی تھی۔ اس کی کوئی گرل فرینڈ… اور اس نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔”
ڈاکٹر سبط علی نے دانستہ طورپر یہ نہیں بتایا کہ وہ لڑکی کوئی طوائف تھی۔
”پولیس اسے گرفتار اس کے اپنے والد کی وجہ سے نہیں کرسکی۔ اس کے ثبوت دینے کے باوجود آپ کے گھر والوں کا یہی اصرار ہے کہ آپ کی گمشدگی میں وہی ملوث ہے۔ امامہ! کیسا لڑکا ہے یہ سالار سکندر؟”
ڈاکٹر سبط علی نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے اچانک پوچھا۔
”بہت برا۔” بے اختیار امامہ کے منہ سے نکلا۔” بہت ہی برا۔
”ہاں، اس نے میری مدد کی ہے مگر وہ بہت برے کردار کا لڑکا ہے۔ میری مدد شاید اس نے اس لئے کی ہے کیونکہ میں نے ایک بار اسے فرسٹ ایڈ دی تھی۔ اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی تب… اور شاید اس لئے بھی اس نے میری مدد کی ہوگی کیونکہ میرا بھائی اس کا دوست ہے۔ ورنہ وہ بہت برا لڑکا ہے۔ وہ ذہنی مریض ہے۔ پتا نہیں عجیب باتیں کرتا ہے۔ عجیب حرکتیں کرتا ہے۔”
امامہ کے ذہن میں اس وقت کے ساتھ کئے گئے سفر کی یاد تازہ تھی جس میں وہ پورا راستہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی رہی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے سرہلایا۔
”پولیس آپ کی فرینڈز سے بھی پوچھ گچھ کررہی ہے اور صبیحہ کے گھر تک بھی پولیس گئی ہے۔ صبیحہ پشاور سے واپس آگئی ہے، مگر مریم نے صبیحہ کو یہ نہیں بتایا کہ آپ ہمارے یہاں ہیں۔ آپ اب صبیحہ سے رابطہ مت کریں۔ اسے فون بھی مت کریں کیونکہ ابھی وہ اس کے گھر کو انڈر آبزرویشن رکھیں گے اور فون کو بھی وہ خاص طورپر چیک کریں گے، بلکہ آپ اب کسی بھی دوست سے فون پر کانٹیکٹ مت کرنا، نہ ہی یہاں سے باہر جانا۔”
انہوں نے اسے ہدایات دیں۔
”میرے پاس موبائل ہے۔ اس پر بھی کانٹیکٹ نہیں کرسکتی؟”
وہ چونکے۔
”آپ کا موبائل ہے؟”
”نہیں، اسی لڑکے سالار کا ہے۔”
وہ سالار تک پہنچ گئے تو موبائل تک بھی پہنچ جائیں گے۔” وہ بات کرتے کرتے رک گئے۔
”جو کال آپ نے ہمارے گھر کی تھی وہ اس موبائل سے کی تھی؟” اس بار ان کی آواز میں کچھ تشویش تھی۔
”نہیں، وہ میں نے صبیحہ کے گھر سے کی تھی۔”
”آپ اب اس موبائل پر دوبارہ کوئی کال کرنا نہ کال ریسیو کرنا۔”
وہ کچھ مطمئن ہوگئے۔
٭…٭…٭
اگلے کچھ دنوں میں اسے ڈاکٹر سبط علی سے اس کی تلاش کے سلسلے میں اور خبریں موصول ہوتی رہی تھیں۔ ان کے ذرائع معلومات جو بھی تھے مگر وہ بے حد باوثوق تھے۔ اسے ہر جگہ ڈھونڈا جارہا تھا۔ میڈیکل کالج، ہاسپٹل، کلاس فیلوز… ہاسٹل، روم میٹس اور فرینڈز… ہاشم مبین نے اسے ڈھونڈنے کے لئے نیوز پیپر کا سہارا نہیں لیا تھا۔ میڈیا کی مدد لینے کا نتیجہ ان کے لئے رسوا کن ثابت ہوتا۔
وہ جس حد تک اس کی گمشدگی کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرسکتے تھے کررہے تھے، مگر وہ پولیس کی مدد حاصل کئے ہوئے تھے۔ ان کی جماعت بھی اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کررہی تھی۔
وہ لوگ صبیحہ تک پہنچ گئے تھے مگر وہ یہ جان نہیں پائے تھے کہ وہ لاہور آنے کے بعد اس کے گھر گئی تھی۔ شاید یہ صبیحہ کے ان دنوں پشاور میں ہونے کا نتیجہ تھا جن دنوں امامہ اپنے گھر سے چلی آئی تھی۔
ورنہ شاید صبیحہ اور اس کے گھر والوں کو بھی کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔
مریم نے صبیحہ کو امامہ کی اپنے ہاں موجودگی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس نے مکمل طورپر یوں ظاہر کیا تھا جیسے امامہ کی اس طرح کی گمشدگی باقی اسٹوڈنٹس کی طرح اس کے لئے بھی حیران کن بات تھی۔
٭…٭…٭

چند ہفتے گزرجانے کے بعد جب امامہ کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی کے ہاں محفوظ ہے اور کوئی بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تو اس نے سالار سکندر کو فون کیا۔ وہ اس سے نکاح کے پیپرز لینا چاہتی تھی اور تب پہلی بار یہ جان کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ سالار نے نہ تو طلاق کا حق اسے تفویض کیا تھا اور نہ ہی وہ اسے طلاق دینے کا کوئی ارادہ رکھتا تھا۔
ڈاکٹر سبط علی کے گھر پہنچنے کے بعد اس نے پہلی بار موبائل کا استعمال کیا تھا اور وہ بھی کسی کو بتائے بغیر اور سالار سے فون پر بات کرنے کے بعد اسے اپنی حماقت کا شدت سے احساس ہوا… اسے سالار جیسے شخص پر کبھی بھی اس حدتک اعتماد نہیں کرنا چاہئے تھا اور اسے پیپرز کو دیکھنے میں کتنا وقت لگ سکتا تھا جو اس نے انہیں دیکھنے سے اجتناب کیا اور پھر آخر اس نے پیپرز کی ایک کاپی فوری طور پر اس سے کیوں نہیں لی۔ کم از کم اس وقت جب وہ اپنے گھر سے نکل آئی تھی۔
اسے اب اندازہ ہورہا تھا کہ وہ شخص اس کے لئے کتنی بڑی مصیبت بن گیا تھا اور آئندہ آنے والے دنوں میں… وہ اب ہر بات پر پچھتارہی تھی۔ اگر اسے اندازہ ہوتا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی جیسے آدمی کے پاس پہنچ جائے گی تو وہ کبھی بھی نکاح کرنے کی حماقت نہ کرتی اور سالار جیسے آدمی کے ساتھ تو کبھی بھی نہیں۔
اور اگر اسے یقین ہوتا کہ ڈاکٹر سبط علی ہر حالت میں اس کی مدد کریں گے تو وہ کم از کم سالار کے بارے میں ان سے جھوٹ نہ بولتی پھر وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے، مگر اب جب وہ انہیں بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ یہ یقین دلاچکی تھی کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ کسی بھی طرح انوالو نہیں تھی تو اس نکاح کا انکشاف اور وہ بھی اس لڑکے کے ساتھ… جس کی برائیوں کے بارے میں وہ ڈاکٹر سبط علی سے بات کرچکی تھی اور جس کے بارے میں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ امامہ کے والدین نے اس کے خلاف اغوا کا کیس فائل کیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اگر اب ڈاکٹر سبط علی کو یہ حقائق بتانے کی کوشش کرے گی تو ان کا ردعمل کیا ہوگا اور وہ کم از کم اس وقت وہ واحد ٹھکانہ کھونے کے لئے تیار نہیں تھی۔
اگلے کئی دن اس کی بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی۔ مستقبل یک دم بھوت بن گیا تھا اور سالار سکندر… اسے اس شخص سے اتنی نفرت محسوس ہورہی تھی کہ اگر وہ اس کے سامنے آجاتا تو وہ اسے شوٹ کردیتی۔ اسے عجیب عجیب خدشے اور اندیشے تنگ کرتے رہتے۔ پہلے اگر اسے صرف اپنے گھر والوں کا خوف تھا تو اب اس خوف کے ساتھ سالار کا خوف بھی شامل ہوگیا تھا اگر اس نے بھی میری تلاش شروع کردی تو اور اس کے ساتھ ہی اس کی حالت غیر ہونے لگی۔
اس کا وزن یک دم کم ہونے لگا تھا۔ وہ پہلے بھی خاموش رہتی تھی مگر اب اس کی خاموشی میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ شدید ذہنی دباؤ میں تھی اور یہ سب کچھ ڈاکٹر سبط علی اور ان کے گھر کے افراد سے پوشیدہ نہیں تھا۔ ان سب نے اس سے باری باری ان چانک آنے والی تبدیلیوں کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن وہ انہیں ٹالتی رہی۔
”تم پہلے بھی اداس اور پریشان لگتی تھی مگر اب ایک دوہفتے سے بہت زیادہ پریشان لگتی ہو۔ کیا پریشانی ہے امامہ؟”
سب سے پہلے مریم نے اس سے اس بارے میں پوچھا تھا۔
”نہیں، کوئی پریشانی نہیں۔ بس میں گھر کو مس کرتی ہوں۔”
امامہ نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”نہیں، میں یہ نہیں مان سکتی۔ آخر اب اچانک اتنا کیوں مس کرنے لگی انہیں کہ کھانا پینا بھول گئی ہو۔ چہرہ زرد ہوگیا ہے۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑنے لگے ہیں اور وزن کم ہوتا جارہا ہے۔ کیا تم بیمار ہونا چاہتی ہو؟”
وہ مریم کی کہی ہوئی کسی بات کو رد نہیں کرسکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ظاہری حالت دیکھ کر کوئی بھی اس کی پریشانی کا اندازہ بآسانی لگا سکتا تھا اور شاید یہ اندازہ بھی کہ پریشانی کسی نئے مسئلے کا نتیجہ تھی مگر وہ اس معاملے میں بے بس تھی۔ وہ سالار کے ساتھ ہونے والے نکاح اور اس سے متعلقہ خدشات کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی تھی۔
”مجھے اب اپنے گھروالے زیادہ یاد آنے لگے ہیں۔ جوں جوں دن گزررہے ہیں وہ مجھے زیادہ یاد آرہے ہیں۔”
امامہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا اور یہ جھوٹ نہیں تھا، اسے واقعی اب اپنے گھروالے پہلے سے زیادہ یاد آنے لگے تھے۔
وہ کبھی بھی اتنا لمبا عرصہ ان سے الگ نہیں رہی تھی اور وہ بھی مکمل طورپر اس طرح کٹ کر۔ لاہور ہاسٹل میں رہتے ہوئے بھی وہ مہینے میں ایک بار ضرور اسلام آباد جاتی اور ایک دوبار وسیم یا ہاشم مبین لاہور اس سے ملنے چلے آتے اور فون تو وہ اکثر ہی کرتی رہتی تھی مگر اب یک دم سے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ سمندر میں موجود کسی ویران جزیرے پر آن بیٹھی ہو۔ جہاں دور دور تک کوئی تھا ہی نہیں اور وہ چہرے… جن سے اسے سب سے زیادہ محبت تھی وہ خوابوں اور خیالوں کے علاوہ نظر آ ہی نہیں سکتے تھے۔
پتا نہیں مریم اس کے جواب سے مطمئن ہوئی یا نہیں مگر اس نے موضوع بدل دیا تھا۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ اس طرح اس کا ذہن بٹ جائے گا۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر سبط علی کی تین بیٹیاں تھیں، مریم ان کی تیسری بیٹی تھی۔ ان کی بڑی دونوں بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی۔ جب کہ مریم ابھی میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے امامہ کو اپنی بڑی دونوں بیٹیوں سے بھی معتارف کروایا تھا۔ وہ دونوں بیرون شہر مقیم تھیں اور ان کا رابطہ زیادہ تر فون کے ذریعہ ہی ہوتا تھا مگر یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ امامہ کے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے دوران وہ دونوں باری باری کچھ دنوں کے لئے وہاں آئیں۔
امامہ سے ان کا رویہ مریم سے مختلف نہیں تھا۔ ان کے رویے میں اس کے لئے محبت اور مانوسیت کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن امامہ کو انہیں دیکھ کر ہمیشہ اپنی بڑی بہنیں یاد آجاتیں اور پھر جیسے سب کچھ یاد آجاتا۔ اپنا گھر… بابا… بڑے بھائی… وسیم… اور سعد… سعد سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ ان کی جماعت کے بااثر خاندان اپنے گھروں میں اولاد ہونے کے باوجود بے سہارا یا یتیم بچوں میں سے کسی ایک لڑکے کو گود لینے لگے تھے۔ یہ اپنی جماعت کے افراد کی مستقبل میں تعداد بڑھانے کے لئے کوششوں کا ایک ضروری حصہ تھی۔ ایسا بچہ ہمیشہ عام مسلمانوں کے بچوں میں سے ہی ہوتا اور ہمیشہ لڑکا ہوتا۔ سعد بھی اسی سلسلے میں بہت چھوٹی عمر میں اس کے گھر آیا تھا۔ وہ اس وقت اسکول کے آخری سالوں میں تھی اور اسے گھر میں ہونے والے اس عجیب اضافے نے کچھ حیران کیا تھا۔
”ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرنے کے لئے سعد کو گودلیا ہے، تاکہ ہم بھی دوسروں لوگوں پر احسانات کرسکیں اور نیکی کا یہ سلسلہ جاری رہے۔”
اس کی امی نے اس کے استفسار پر اسے بتایا تھا۔
”تم سمجھو، وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے۔”
تب اسے اپنے بابا اور امی پر بہت فخر ہوا تھا۔ وہ کتنے عظیم لوگ تھے کہ ایک بے سہارا بچے کو اچھی زندگی دینے کے لئے گھر لے آئے تھے، اسے اپنا نام دے رہے تھے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کے ساتھ بانٹ رہے تھے۔ اس نے تب غور نہیں کیا تھا کہ ایسا ہی ایک بچہ اس کے تایا اعظم کے گھر پر بھی کیوں تھا۔ ایسا ہی ایک بچہ اس کے چھوٹے چچا کے گھر پر کیوں تھا؟ ایسے ہی بہت سے دوسرے بچے ان کے جاننے والے کچھ اور بااثر خاندانوں کے گھر پر کیوں تھے؟ اس کے لئے بس یہی کافی تھا کہ وہ ایک اچھا کام کررہے تھے۔ ان کی جماعت ایک”اچھے کام” کی ترویج کررہی تھی۔ یہ اس نے بہت بعد میں جانا تھا کہ اس”اچھے کام” کی حقیقت کیا تھی؟
سعد اس سے بہت مانوس تھا۔ اس کا زیادہ وقت امامہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ وہ شروع کے کئی سال امامہ کے کمرے میں اس کے بیڈ پر ہی سوتا رہا۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد میڈیکل کالج سے وہ جب بھی اسلام آباد آتی، وہ سعد کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بتاتی رہتی۔ وہ اتنا چھوٹا تھاکہ کسی چیز کو منطقی طریقے سے نہیں سمجھایا جاسکتا تھا مگر وہ اس سے صرف ایک بات کہتی رہی۔
”جیسے اللہ ایک ہوتا ہے اسی طرح ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ایک ہی ہیں۔ ان سا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔”
وہ اسے ساتھ یہ تاکید بھی کرتی رہتی کہ وہ ان دونوں کی آپس کی باتوں کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتائے اور امامہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی یہ کوشش بے کار تھی۔ سعد کو بچپن ہی سے مذہبی اجتماعات میں لے جایا جانے لگا تھا اور وہ اس اثر کو قبول کررہا تھا۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتی رہتی کہ وہ میڈیکل کی تعلیم کے بعد سعد کو لے کر اپنے گھر والوں سے الگ ہوجائے گی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ کس قدر مشکل کام تھا۔




Loading

Read Previous

کیوئیں جاناں میں کون — مصباح علی سیّد

Read Next

معصوم سوال — ناہید حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!