لاہور پہنچنے کے بعد اس کے لیے اگلا مرحلہ کسی کی مدد حاصل کرنے کا تھا مگر کس کی؟ وہ ہاسٹل نہیں جاسکتی تھی۔ وہ جو یریہ اور باقی لوگوں سے رابطہ نہیں کرسکتی تھی، کیوںکہ اس کے گھر والے اس کے دوستوں سے واقف تھے اور چند گھنٹوں میں وہ اسے لاہور میں ڈھونڈنے والے تھے، بلکہ ہوسکتا تھا اب تک اس کی تلاش شروع ہوچکی ہو اور اس صورت حال میں ان لوگوں سے رابطہ کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس کے لئے صبیحہ کی صورت میں واحد آپشن رہ جاتا تھا، مگر وہ اسے بات اس واقف نہیں تھی کہ وہ ابھی پشاور سے واپس آئی تھی یا نہیں۔
صبیحہ کے گھر پر ملازم کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ لوگ ابھی پشاور میں ہی تھے۔
”واپس کب آئیں گے؟” اس نے ملازم سے پوچھا۔ وہ اسے جانتا تھا۔
”یہ تو مجھے معلوم نہیں ہے مگر ایک دو دن تک آجائیں گے۔” اس نے امامہ کو بتایا۔
”کیا آپ کے پاس وہاں کا فون نمبر ہے؟” اس نے قدرے مایوسی کے عالم میں پوچھا۔
”جی، وہاں کا فون نمبر میرے پاس ہے۔” ملازم نے اس سے کہا۔
”وہ آپ مجھے دے دیں۔ میں فون پر اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔”
اسے کچھ تسلی ہوئی۔ ملازم اسے اندر لے آیا۔ ڈرائنگ روم میں اسے بٹھا کر اس نے وہ نمبر لادیا۔ اس نے موبائل پر وہیں بیٹھے بیٹھے صبیحہ کو رنگ کیا۔ فون پشاور میں گھر کے کسی فرد نے اٹھایا تھا اور اسے بتایا کہ صبیحہ باہر گئی ہوئی ہے۔
امامہ نے فون بند کردیا۔
”صبیحہ سے میری بات نہیں ہوسکی۔ میں کچھ دیر بعد اسے دوبارہ فون کروں گی۔” اس نے پاس کھڑے ملازم سے کہا۔
”تب تک میں یہیں بیٹھوں گی۔”
ملازم سرہلاتے ہوئے چلاگیا۔ اس نے ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ صبیحہ کو فون کیا۔ وہ اس کی کال پر حیران تھی۔
اس نے اسے مختصر طورپر اپنا گھر چھوڑ آنے کے بارے میں بتایا۔ اس نے اسے سالار سے اپنے نکاح کے بارے میں نہیں بتایا کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی صبیحہ اس سارے معاملے کو کس طرح دیکھے گی۔
”امامہ! تمہارے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ تم اس معاملے میں کورٹ سے رابطہ کرو۔ تبدیلی مذہب کے حوالے سے پروٹیکشن مانگو۔” صبیحہ نے اس کی ساری گفتگو سننے کے بعد کہا۔
”میں یہ کرنا نہیں چاہتی۔”
”کیوں؟”
”صبیحہ! میں پہلے ہی اس مسئلے کے بارے میں بہت سوچ چکی ہوں۔ تم میرے بابا کی پوزیشن اور اثرور سوخ سے واقف ہو۔ پریس تو طوفان اٹھادے گا۔ میری فیملی کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں یہ تو نہیں چاہتی کہ میرے گھر پر پتھراؤ ہو، میری وجہ سے میرے گھر والوں کی زندگی کو خطرہ ہو اور آج تک جتنی لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے کورٹ پروٹیکشن لینے کی کوشش کی ہے ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ کورٹ دارالامان بھجوادیتی ہے۔ جو کہ جیل بھجوانے کے مترادف ہے۔ کیس کا فیصلہ کتنی دیر تک ہو، کچھ پتا نہیں۔
گھر والے ایک کے بعد ایک کیس فائل کرتے رہتے ہیں۔ کتنے سال اس طرح گزر جائیں، کچھ پتا نہیں ہوتا اگر کسی کو کورٹ آزاد رہنے کی اجازت دے بھی دے تو وہ لوگ اتنے مسئلے کھڑے کرتے رہتے ہیں کہ بہت ساری لڑکیاں واپس گھر والوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ میں نہ تو دارالامان میں اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہوں نہ ہی لوگوں کی نظروں میں آنا چاہتی ہوں۔ میں نے خاموشی کے ساتھ گھر چھوڑا ہے اور میں اسی خاموشی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔”
”میں تمہاری بات سمجھ سکتی ہوں امامہ! لیکن مسائل تو تمہارے لئے ابھی بھی کھڑے کئے جائیں گے۔ وہ تمہیں تلاش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے اور ان لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے جو تمہیں پناہ دیں گے اور وہ جب تمہیں ڈھونڈنا شروع کردیں گے تو مجھ تک پہنچنا تو ان کے لئے بہت آسان ہوگا۔ تمہاری مدد کرکے ہمیں بہت خوشی ہوگی مگر میرے ابو یہی چاہیں گے کہ مدد چھپ کر کر نے کے بجائے کھل کر کی جائے اور کورٹ اس معاملے میں یقینا تمہارے حق میں اپنا فیصلہ دے گا۔ تم ابھی میرے گھر پر ہی رہو۔ میں اس بارے میں ملازم کو کہہ دیتی ہوں اور آج میں اپنے ابو سے بات کرتی ہوں ہم کوشش کریں گے، کل لاہور واپس آجائیں۔”
امامہ نے ملازم کو بلا کر فون اس کے حوالے کردیا۔ صبیحہ نے ملازم کو کچھ ہدایات دیں اور پھر رابطہ منقطع کردیا۔
”میں صبیحہ بی بی کا کمرہ کھول رہا ہوں، آپ وہاں چلی جائیں۔” ملازم نے اس سے کہا۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں چلی آئی مگر اس کی تشویش اور پریشانی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ صبیحہ کے نقطہء نظر کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقینا یہ نہیں چاہتی تھی کہ خود صبیحہ اور اس کی فیملی پر کوئی مصیبت آئے۔ اس معاملے میں صبیحہ کے اندیشے درست تھے۔ اگر ہاشم مبین کو یہ پتا چل جاتا کہ اسے صبیحہ کی فیملی نے پناہ دی تھی تو وہ ان کے جانی دشمن بن جاتے۔ شاید اس لئے صبیحہ نے اس سے قانون کی مدد لینے کے لئے کہا تھا مگر یہ راستہ اس کے لئے زیادہ دشوار تھا۔
جماعت کے اتنے بڑے لیڈر کی بیٹی کا اس طرح مذہب چھوڑ دینا پوری جماعت کے منہ پر طمانچے کے مترادف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس سے پورے ملک میں جماعت اور خود ان کے خاندان کو کتنی زک پہنچے گی اور وہ اس بے عزتی سے بچنے کے لئے کس حدتک جاسکتے تھے، امامہ جانتی نہیں تھی، مگر اندازہ کر سکتی تھی۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں داخل ہورہی تھی جب اس کے ذہن میں ایک جھما کے کے ساتھ سیدہ مریم سبط علی کا خیال آیا تھا۔ وہ صبیحہ کی دوست اور کلاس فیلو تھی۔ وہ اس سے کئی بار ملتی رہی تھی۔ ایک بار صبیحہ کے گھر پر ہی مریم کو اس کے قبول اسلام کا پتا چلا تھا۔ وہ شاید صبیحہ کی واحد دوست تھی جسے صبیحہ نے امامہ کے بارے میں بتا دیا تھا اور مریم بہت حیران نظر آئی تھی۔
”تمہیں اگر کبھی میری کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو مجھے ضرور بتانا بلکہ بلا جھجک میرے پاس آجانا۔”
اس نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ امامہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ بعد میں بھی امامہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں وہ ہمیشہ اس سے اسی گرم جوشی کے ساتھ ملتی رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے اس کا کیوں خیال آیا تھا یا وہ کس حد تک اس کی مدد کرسکتی تھی مگر اس وقت اس نے اس سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے موبائل سے فون کرنا چاہا مگر موبائل کی بیٹری ختم ہوچکی تھی۔ اس نے اسے ری چارج کرنے کے لئے لگایا اور خود لاؤنج میں آکر اپنی ڈائری سے مریم کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
فون ڈاکٹر سبط علی نے اٹھایا تھا۔
”میں مریم سے بات کرنا چاہتی ہوں، میں ان کی دوست ہوں۔”
”اس نے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے پہلی بار مریم کو فون کیا تھا۔
”میں بات کرواتا ہوں۔” انہوں نے فون ہولڈ رکھنے کا کہا۔ کچھ سیکنڈز کے بعد امامہ نے دوسری طرف مریم کی آواز سنی۔
”ہیلو۔۔۔”
”ہیلو مریم! میں امامہ بات کررہی ہوں۔”
”امامہ… امامہ ہاشم؟” مریم نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔”
وہ اسے اپنے بارے میں بتاتی گئی۔ دوسری طرف مکمل خاموشی تھی جب اس نے بات ختم کی تو مریم نے کہا۔
”تم اس وقت کہاں ہو؟”
”میں صبیحہ کے گھر پر ہوں، مگر صبیحہ کے گھرپر کوئی نہیں ہے۔ صبیحہ پشاور میں ہے۔”
اس نے صبیحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں اسے نہیں بتایا۔
”تم وہیں رہو۔ میں ڈرائیور کو بھجواتی ہوں۔ تم اپنا سامان لے کر اس کے ساتھ آجاؤ… میں اتنی دیر میں اپنی امی اور ابو سے بات کرتی ہوں۔”
اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔ یہ صرف ایک اتفاق تھا کہ اس نے ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی جانے والی کال سالار کے موبائل سے نہیں کی تھی ورنہ سکندر عثمان ڈاکٹر سبط علی کے گھر بھی پہنچ جاتے اور اگر امامہ کو یہ خیال آجاتا کہ وہ موبائل کے بل سے اسے ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ لاہور آکر ایک بار بھی موبائل استعمال نہ کرتی۔
یہ ایک اور اتفاق تھاکہ ڈاکٹر سبط علی نے اپنے آفس کی گاڑی اور ڈرائیور کو اسے لینے کے لئے بھجوایا تھا، ورنہ صبیحہ کا ملازم مریم کی گاڑی اور ڈرائیور کو پہچان لیتا کیونکہ مریم اکثر وہاں آیا کرتی تھی اور صبیحہ کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی یہ جان جاتے کہ وہ صبیحہ کے گھر سے کہاں گئی تھی۔
٭…٭…٭
آدھ گھنٹہ کے بعد ملازم نے ایک گاڑی کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ اپنا بیگ اٹھانے لگی۔
”کیا آپ جارہی ہیں؟”
”ہاں۔۔۔”
”مگر صبیحہ بی بی تو کہہ رہی تھیں کہ آپ یہاں رہیں گی۔”
”نہیں… میں جارہی ہوں… اگر صبیحہ کا فون آئے تو آپ اسے بتادیں کہ میں چلی گئی ہوں۔”
اس نے دانستہ طورپر اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ مریم کے گھر جارہی تھی۔
٭…٭…٭
وہ پہلی بار مریم کے گھر گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسے وہاں جاکر ایک بارپھر مریم اور اس کے والدین کو اپنے بارے میں سب کچھ بتانا پڑے گا۔ وہ ذہنی طورپر خود کو سوالوں کے لئے تیار کررہی تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
”ہم لوگ تو ناشتہ کرچکے ہیں تم ناشتہ کرلو۔”
مریم نے پورچ میں اس کا استقبال کیا تھا اور اسے اندر لے جاتے ہوئے کہا۔ اندر لاؤنج میں ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی سے اس کا تعارف کروایا گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے۔ امامہ کے چہرے پر اتنی سراسیمگی اور پریشانی تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو اس پر ترس آیا۔
”میں کھانا لگواتی ہوں۔ مریم تم اسے اس کا کمرہ دکھادو… تاکہ یہ کپڑے چینج کرلے۔” سبط علی کی بیوی نے مریم سے کہا۔
وہ جب کپڑے بدل کر آئی تو ناشتہ لگ چکا تھا۔ اس نے خاموشی سے ناشتہ کیا۔
”امامہ! اب آپ جاکر سوجائیں۔ میں آفس جارہا ہوں، شام کو واپسی پر ہم آپ کے مسئلے پر بات کریں گے۔”
ڈاکٹر سبط علی نے اسے ناشتہ ختم کرتے دیکھ کر کہا۔
”مریم! تم اسے کمرے میں لے جاؤ۔” وہ خود لاؤنج سے نکل گئے۔
وہ مریم کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی آئی۔
”امامہ! اب تم سوجاؤ… تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے کہ تم پچھلے کئی دنوں سے نہیں سوئیں۔ عام طورپر تھکن اور پریشانی میں نیند نہیں آتی اور تم اس وقت اس کا شکار ہوگی۔ میں تمہیں کوئی ٹیبلٹ لاکر دیتی ہوں اگر نیند آگئی تو ٹھیک ہے ورنہ ٹیبلٹ لے لینا۔”
وہ کمرے سے باہر نکل گئی، کچھ دیر بعد اس کی واپسی ہوئی، پانی کا گلاس اور ٹیبلٹ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
”تم بالکل ریلیکس ہوکر سوجاؤ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ تم سمجھوکہ تم اپنے گھر میں ہو۔” وہ کمرے کی لائٹ آف کرتی ایک بارپھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
صبح کے ساڑھے نوبج رہے تھے مگر ابھی تک باہر بہت دھند تھی اور کمرے کی کھڑکیوں پر پردے ہونے کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا کچھ اور گہرا ہوگیا تھا۔ اس نے کسی معمول کی طرح ٹیبلٹ پانی کے ساتھ نگل لی۔ اس کے بغیر نیند آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ذہن میں اتنے بہت سے خیالات آرہے تھے کہ بیڈپر لیٹ کر نیند کا انتظار کرنا بہت مشکل ہوجاتا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے اپنے اعصاب پر ایک غنودگی طاری ہوتی محسوس کی۔
٭…٭…٭
وہ جس وقت دوبارہ اٹھی اس وقت کمرہ مکمل طور پر تاریک ہوچکا تھا۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر دیوار کی طرف آئی اور اس نے لائٹ جلادی، وال کلال رات کے ساڑھے گیارہ بجارہا تھا۔ وہ فوری طورپر اندازہ نہیں کرسکی کہ یہ اتنی لمبی نیند ٹیبلٹ کا اثر تھی یا پھر پچھلے کئی دنوں سے صحیح طورپر نہ سوسکنے کی۔
جو کچھ بھی تھا وہ صبح سے بہت بہتر حالت میں تھی۔ اسے بے حد بھوک لگ رہی تھی، مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ گھر کے افراد اس وقت جاگ رہے ہوں گے یا نہیں۔ بہت آہستگی سے وہ دروازہ کھول کر لاؤنج میں نکل آئی۔ ڈاکٹر سبط علی لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر انہوں نے سراٹھا کر دیکھا اور اسے دیکھ کر مسکرائے۔
”اچھی نیند آئی؟” وہ بڑی بشاشت سے بولے۔
”جی…!” اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”اب ایسا کریں کہ وہ سامنے کچن ہے،وہاں چلی جائیں۔ کھانا رکھا ہوا ہے۔ گرم کریں۔ وہاں ٹیبل پر ہی کھالیں اس کے بعد چائے کے دوکپ بنائیں اور یہاں آجائیں۔”
وہ کچھ کہے بغیر کچن میں چلی گئی۔ فریج میں رکھا ہوا کھانا نکال کر اس نے گرم کیا اور کھانے کے بعد چائے لے کر لاؤنج میں آگئی۔ چائے کا ایک کپ بناکر اس نے ڈاکٹر سبط علی کو دیا۔
وہ کتاب میز پر رکھ چکے تھے۔ دوسرا کپ لے کر وہ ان کے بالمقابل دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ اندازہ کرچکی تھی کہ وہ اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے۔
”چائے بہت اچھی ہے۔”
انہوں نے ایک سپ لے کر مسکراتے ہوئے کہا وہ اتنی نروس تھی کہ ان کی تعریف پر مسکراسکی نہ شکریہ ادا کرسکی۔ وہ صرف انہیں دیکھتی رہی۔
”امامہ! آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے صحیح ہونے میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی مگر فیصلہ بہت بڑا ہے اور اتنے بڑے فیصلے کرنے کے لئے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طورپر اس کم عمری میں، مگر بعض دفعہ فیصلے کرنے کے لئے اتنی جرأت کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ان پر قائم رہنے کے لئے ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ عرصہ بعد اس کا اندازہ ہوگا۔”
وہ بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
”میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا مذہب کی تبدیلی کا فیصلہ صرف مذہب کے لئے ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہے۔”
وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔
”میرا خیال ہے مجھے زیادہ واضح طورپر یہ سوال پوچھنا چاہئے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کسی لڑکے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس کے کہنے پر یا اس کے لئے آپ نے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہو یا مذہب بدلنے کا۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے آپ یہ مت سوچنا کہ اگر ایسی کوئی وجہ ہوگی تو میں آپ کو برا سمجھوں گا یا آپ کی مدد نہیں کروں گا۔ میں یہ صرف اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر مجھے اس لڑکے اور اس کے گھر والوں سے بھی ملنا ہوگا۔”
ڈاکٹر سبط علی اب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس وقت امامہ کو پہلی بار مریم سے اتنی دیر سے رابطہ کرنے پر پچھتاوا ہوا اگر سالار کے بجائے ڈاکٹر سبط علی، جلال سے یا اس کے گھر والوں سے بات کرتے تو شاید…” اس نے بوجھل دل سے نفی میں سرہلادیا۔
”ایسا کچھ نہیں ہے۔”
”کیا آپ کو واقعی یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے؟” انہوں نے ایک بارپھر پر سکون انداز میں اس سے کہا۔
”جی… میں نے اسلام کسی لڑکے کے لئے قبول نہیں کیا۔” وہ اس بار جھوٹ نہیں بول رہی تھی، اس نے اسلام واقعی جلال انصر کے لئے قبول نہیں کیا تھا۔
”پھر آپ کویہ اندازہ ہونا چاہئے کہ آپ کو کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
”مجھے اندازہ ہے۔”