آج یہ سب دربار سے ہٹ کر پیر صاحب کے ذاتی آستانے پر گئے۔ صدف نے بادل نہ خواستہ بابا جی کی جانب دیکھا جنہوں نے اپنی چُنی سی آنکھوں میں سرمے کی ڈوئیاں بھر بھر کر انہیں بڑا کرنے کی بدترین کوشش کی تھی صدف کو ان کی لال انگارہ اور گدلی آنکھوں کو دیکھ کر یہی لگا۔
”حق اللہ“ وہ پیر و مرشد کا جائزہ لینے میں محو تھی کہ ان کے اچانک سر جھٹکنے سے وہ بدک کر اچھلی جب کہ وہ تسبیح پر اپنے ہاتھ مسلسل چلاتے منہ میںکچھ پڑھتے جارہے تھے ۔ پھر انہوں نے سر کو ہلکا سا خم دیا، ایک بار، دوسری بار…. تیسری بار وہ نا سمجھی سے کبھی پیر اور کبھی کنیز بیگم کو دیکھتی، پھر اچانک ہی انہوں نے صدف کے سر پر اپنا بھاری ہاتھ رکھا اور اپنے چیلے کے کان میں سرگوشی کی۔
”پیر و مرشد فرما رہے ہیں کہ مریض کے سوا باقی سب یہاں سے چلے جائیں۔“
چیلے نے حکم جوں کا توں ان کے گوش گزارکردیا جس سے کنیز اور شائستہ تو آرام سے اٹھ کر جانے لگیں جب کہ صدف نے سہم کر ان دونوں کی جانب دیکھا مگر، پیر صاحب کے بھاری ہاتھ تلے جکڑا اپنا سر نہ ہلا سکی۔ اور پھر جس طرح سے عظیم ہستی والے پیر و مرشد نے اس کا علاج کیا، وہ کئی راتوں تک اس کے ذہن سے جا نہ سکا۔ اور یہ علاج آخری بار نہیں ہوا تھا، اسے ہر ماہ ہی جانا تھا، یہ پیر و مرشد کا فرمان اور کنیز بیگم کا حکم تھا….
٭….٭….٭