نیل گری — افتخار چوہدری

”محترم یہ کیس واقعی میرے بس سے باہر ہے بلکہ اب تو یہ اس خبیث عامل کے بس میں بھی نہیں رہا کے اس کا توڑکر سکے۔ اب سوائے صبرکے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔” انہوں نے حتمی لہجے میں جواب دیا۔
”کیا آپ اس شیطان کا نام بتا سکتے ہیں؟” صفدر نے غصیلے لہجے میں پوچھا ۔ شاہ صاحب کچھ دیر تک غور سے اس کی طرف دیکھتے رہے اور پھر گویا ہوئے۔
”بیٹے جب اپنے ہی دشمن بنے ہوں، تو انسان غیروں سے کہاں تک لڑ سکتا ہے اور میرے نام بتانے سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید خون خرابے کا شکا ر ہو جائے گا، ہاں اگر کسی طرح آریا ئی قبیلے کے پروہت کو راضی کیا جائے اور وہ اس عمل کی کاٹ کرنے پر راضی ہوجائے تو پھر یہ بچی بھی ٹھیک ہو سکتی ہے اورجس کسی نے بھی یہ عمل کروایا ہے وہ خود اس مسئلے کا شکار ہو جائے گا، مگر آج کل وہاں جانا تقریباًنا ممکن ہے کیوں کے دراس کا دنیاکے سرد ترین مقام میں شمار ہوتا ہے۔ برف باری کی وجہ سے تمام راستے بند ہیں جو اگلے کئی ماہ تک برف میں دبے رہیں گے۔ اس وقت تو وہاں جانے کے بارے میں سوچنا بھی خود کشی کے مترادف ہے۔” انہوں نے جواب دیا، تو ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ واقعی یہ ایک ناممکن کام ہے۔
”چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے میں اپنی بہن کو بچانے کے لیے دراس ضرور جاؤںگا۔” صفدر نے حتمی اور فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
”جذباتی پن میں سوائے نقصان اٹھانے کے تمہیں اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آگے تمہاری مرضی۔” شاہ صاحب نے واپسی کے لیے اٹھتے ہوئے کہا، تو ڈاکٹر انہیں باہر تک چھوڑنے ساتھ ہو لیا۔





دراس کے سب سے اونچے اور یخ بستہ پہاڑ پر موجود آریائی قبیلے کا مذہبی معبد کافی بڑی غار نما کھوہ میں بنا ہوا تھاجس کا اختتام ایک ہال جیسے کمرے میں ہورہا تھا۔ غار کے دھانے پر لکڑی کے جنگلے سے بنا دروازہ لگا ہوا تھا جس میں بڑی بڑی درزیں موجود تھیں۔ ان درزوں سے سرد ہوا کو اندر آنے سے روکنے کے لیے دروازے پر کسی جانور کی بد بو دار کھال لٹکائی گئی تھی۔ غار کے اندر ایک طرف لکڑیوں کی انگیٹھی جل رہی تھی جس سے اندر کا ماحول گرمائش لیے ہوئے تھا جب کہ دیواروں پر جلتی ہوئی مشعلوں کی پرُاسرار زرد روشنی نے ماحول میں وحشت سی پھیلا رکھی تھی۔ ہال نما کمرے کے وسط میں نیل گری دیوی کا مجسمہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ استادہ تھا۔ اس کو تراشنے والے کاریگر نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کیا تھا۔ مجسمے کو پہلی نظر دیکھنے پر ایسااحساس ہوتا تھا جیسے اسے نیلے کانچ سے تراشا گیا ہو، آلتی پالتی مارے پتلے پتلے نقش والی حسینہ کا مجسمہ یوگا کے پدم اسٹانس کا آسن جمائے مراقبے کی حالت میں تھا۔ فراخ پیشانی، چھوٹی سی ستواں ناک اور صراحی جیسی لمبی گردن کے ساتھ بالکل سیدھی کمر اس انمول شاہکار کے رعب میں اضافہ کر رہی تھی، جب کہ بڑی بڑی بند آنکھیں دیکھ کر گمان گزرتا تھا جیسے ابھی آنکھوں کے جھروکے کھول کر اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس وقت مجسمے کے سامنے سارے گاؤں والے سجدہ ریز تھے۔ مذہبی پروہت ان سب سے آگے دیوی کے عین قدموں میں سجدے کی حالت میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ وہ سب پچھلے ایک گھنٹے سے اسی حالت میں تھے ،مزید کچھ دیر بعد پروہت گرج دار آواز میں جے نیل گری کا نعر ہ لگاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہو ا۔ سب نے اس کی تقلید کی۔ بوڑھے پروہت کے چہرے پر سلوٹوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور گلے میں سُچے موتیوں کی مالا اسے دوسروں سے ممتاز کر رہی تھی۔
”اے مہان یوگی ، میری بیٹی آرسی کے بارے میں کچھ معلوم ہوا کے نہیں؟” گاؤں کے ادھیڑ عمر مکھیا نے رکوع کی حالت میں اسے تعظیم دیتے ہوئے پوچھا، اس کا چہرہ حزن و ملال کی تصویر بنا ہوا تھا۔
”تین دن پہلے ان کے مخالف قبیلے کے دو نوجوان آرسی کو اغوا کر کے لے جارہے تھے، تو وہ ان کے چنگل سے نکل بھاگی تھی ، مگر ابھی تک نہ تو وہ واپس قبیلے میں پہنچی تھی اور نہ ہی اس کا کہیں کوئی سراغ مل رہا تھا ، جب کہ اغوا کار قبیلے کے محافظوں سے تصادم میں مارے گئے تھے۔ جپالا ، دیوی نیل گری ہم سے سخت ناراض ہے جس کی وجہ سے میرا علم کام نہیں کر رہا ۔ اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کے کسی آریائی مخالف شخص کی بھینٹ دے کر دیوی کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ شاید اس طرح وہ راضی ہو کر میری طاقت لوٹا دے، تو میں آرسی بیٹی کے بارے میں کچھ معلوم کر سکوں۔” پروہت نے مکھیا کو اس کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا، تو اس کی آواز سرگوشی سے مشابہ تھی۔ اس سے پہلے کہ جپالا کچھ کہتا غار کے دہانے پر شور سا اٹھا، تو سب چونک کر اس طرف متوجہ ہوگئے۔ اگلے ہی لمحے لکڑی کا دروازہ چرچرا کر کھلا اور قبیلے کے محافظوں کا جتھا اندر داخل ہوا۔ انہوں نے ایک شہری نوجوان کی مشقیں کس کر اسے ڈنڈا ڈولی کے انداز میں اٹھایا ہو ا تھا۔ نوجوان بری طرح کسمسا رہا تھا۔ محافظوں نے اسے لا کر مکھیا کے سامنے پٹخا، تو تکلیف سے اس کی چیخیں نکل گئیں۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی تکلیف پر قابو پا کر وحشت بھری نظروں سے اردگرد کھڑے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ پھر جوں ہی اس کی بھٹکتی ہوئی نظریں نیل گری کے مجسمے پر پڑی، تو وہ آنکھیں جھپکانا بھول گیا۔ حیرت اور خوف سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔
”سردار، ہم نے اس مشکوک نوجوان کو قبیلے کی جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا ہے۔ مجھے لگتاہے جفنائی والوں نے اسے بھیجا ہو گا۔” ایک لمبے تڑنگے نوجوان نے تفصیل بتائی۔ جپالا نے زبان سے کچھ کہے بغیر سر کو اثبات میں ہلایا اور آگے بڑھ کر نوجوان کے پاس بیٹھ گیا۔
”کیا نام ہے تمہارا اور کیوں جاسوسی کر رہے تھے؟” کیا جفنائی قبیلے والے اب اتنی گھٹیا حرکتوں پر اتر آئے ہیں کہ پہلے میری بیٹی کو اغوا کر نے کی کوشش کی اوراب جاسوسی ، آخر چاہتے کیا ہو؟” اس نے غراتے ہوئے کرخت لہجے میں پوچھا۔
”جناب میر ا نام صفدر ہے آپ لوگوں کو میرے بارے میں شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نہیں جانتا یہ جفنائی قبیلے والے کون ہیں اور آپ کی بیٹی کو کس نے اغوا کیا ہے ۔میں تو خود اپنی بہن کی زندگی کی بھیک مانگنے حاضر ہوا ہوں۔” صفدر نے جاسوسی کے الزام کی تردید کرتے ہوئے اپنا تعارف کروادیا اور پھر نان اسٹاپ یہاں تک پہنچنے کی روداد بھی سنا دی۔
”یہ تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اپنے چیلے کے عمل کی کاٹ کردوں گا،تم یہ کیوں نہیں مان لیتے کے تم جفنائی قبیلے کے جاسوس ہو۔ اب ہم تمہاری بھینٹ نیل گری کو دیں گے تاکہ اسے خوش کر سکیں اور آرسی بھی واپس آسکے۔” پروہت نے غصیلے لہجے میں جواب دیا اور محافظوں کو قربانی کرنے کے بارے میں ہدایات دینے لگا۔ مذہبی پروہت کا فیصلہ سن کر وہاں پر موجود لوگوں میں ہیجان اور جوش برپاہوگیا جس کے اظہار میں وہ اچھل کود کرنے لگے۔ غار جے نیل گری کے نعروں سے گونجنے لگا۔ ان سب کے برعکس مکھیا کے چہرے پر تفکر کے آثار گہرے ہوتے چلے جارہے تھے۔ وہ شاید اس طرح ایک بے بس اور بے گناہ انسان کو مارنے کے حق میں نہیں تھا ،مگر پروہت کے حتمی فیصلے کی وجہ سے وہ چپ کر گیا تھا۔ صفدر خود کی قربانی کا سن کر بوکھلاہٹ اوربد حواسی کا شکار ہوگیا۔
میں بے ضرر انسان ہوں آپ لوگ کیوں میری جان کے دشمن بنے ہیں ،میں تو اپنی مظلوم بہن کی شفایابی کے لیے آپ کے پاس بہت امید لے کر آیا تھا ،مگر مجھے علم نہیں تھا کہ اس قبیلے میں مہمانوں سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔ آپ بھی تو کسی بیٹی کے باپ ہیں۔ آپ کو تو میرے جذبات سمجھنا چاہئیں۔” اس نے گھگیاتے ہوئے التجا کی تو جپالا کے چہرے پر تذبذب کی کیفیت ابھرآئی۔ اس دوران محافظ صفدر کو اٹھا کر مجسمے کے قدموں میں لے آئے تھے اور جلاد نما شخص تلوار لیے اس کے سر پر آن کھڑا ہوا۔ موت کو سامنے دیکھ کر صفدر کے حواس اس کا ساتھ چھوڑتے چلے جا رہے تھے۔ اس نے بے بسی سے اردگر د نظریں دوڑائیں تو ایک عورت کو دیکھ کر اسے جھٹکا سا لگا۔ اسے لگا جیسے وہ اس کو پہلے کہیں دیکھ چکا ہے۔ اس نے دماغ پر دباؤ ڈالا، تو اس کے ذہن کی سکرین پر برف میں دبی ہوئی لا ش کی شبیہ ابھر آئی جو ہو بہو اس عورت کی کاپی تھی بس عمر کا فرق تھا۔
”کیا یہ عورت تمہاری بیوی ہے اور تمہاری بیٹی کی شکل اپنی ماں سے ملتی ہے؟” اس نے ذہن میں در آنے والے ایک خیال کے تحت مبہم امید سے پوچھا۔ اس کی بات سن کر جپالا سمیت وہاں پرموجود تمام لوگ چونک اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ جپا لا نے ایک ہاتھ اٹھا کر جلاد کو رکنے کا اشارہ کیا جس نے وار کرنے کے لیے تلوار کو سر سے بلند کر لیا تھا۔
”تمہیں کیسے معلوم ہو ا کہ یہ میری بیوی ہے اور آرسی کی شکل اپنی ماں سے ملتی ہے؟” اس نے حقیقی حیر ت سے پوچھا۔
”میں بھی تھوڑا بہت علم جانتا ہوں اگر تم مجھ سے ایک ڈیل کر لو تو میں اپنے علم کے بل پر تمہاری بیٹی کو ڈھونڈنے میں مدد کر سکتا ہوں۔” صفدر نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ ترتیب دیتے ہوئے کہا ۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر اس نے سیدھے سبھاؤ انہیں بتا دیا کہ اس نے راستے میں حادثاتی طور پر آرسی کی لا ش دیکھی ہے، تو ہو سکتا تھا جپالا اس پر اعتبار کرنے کے بجائے مخالف قبیلے کا جاسوس ڈیکلیئر کرکے اسے موت کے گھا ٹ اتار دیتا۔
”میں اپنے چیلے کے کیے ہوئے عمل کی کاٹ ہرگز نہیں کرسکتا۔” اس سے پہلے کے جپالا جواب دیتا، پروہت نے اپنی سرخ آنکھیں نکالتے ہوئے غصے سے کہا۔ اسے صفدر کی بات سن کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کس قسم کی ڈیل کرنا چاہتا ہے۔
”اے مہان گیانی ،میں اور میری بیوی پچھلے تین دن سے اپنی بیٹی کی جدائی میں تڑپ رہے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ آپ اس کی بہن پر کیے ہوئے عمل کو ختم کریں تاکہ یہ آرسی کو ڈھونڈنے میں ہماری مدد کرے۔” جپالا نے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے التجا کی تو پروہت کے چہرے پر تذبذب کر آثار ابھر آئے۔ وہ چند لمحے سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر ایک طرف بڑھ گیاجہاں دیوار کے ساتھ لکڑ ی کا بکس رکھا تھا۔ اس نے بکس کھول کر اندر سے کچھ نکالا اور واپس مڑآیا اس کے ایک ہاتھ میں کپڑے سے بنا ہوا پتلا تھا جب کہ دوسرے میں ایک لمبی سوئی تھی۔ وہ نیل گری کے مجسمے کے سامنے پہنچا اور رکوع کی حالت میں جھک کر کسی اجنبی زبان میں منتر پڑھنے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی اور کانپتے ہوئے جسمانی اعضا سے لگ رہا تھا جیسے اس پر جنون کی سی کیفیت طاری ہو رہی ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے سیدھا ہوتے ہوئے سوئی والا ہاتھ بلند کیا اور ایک جھٹکے سے سوئی کو پُتلے کے سر میں گھونپ دیا ۔ حیرت انگیز طور پر سفید پُتلے کے سر سے خون نکلنے لگاجس سے وہ چند لمحوں میں ہی سارے کا سارا بھیگ کر سرخ ہوگیا۔
”لو ، تمہاری بہن ٹھیک ہوچکی ہو گی اور جس نے یہ عمل میرے چیلے سے کروایا تھا وہ خود اسی اذیت میں مبتلا ہو گیا ہو گا جسے ٹھیک کرنا اب میرے بس میں بھی نہیںہے۔ وعدے کے مطابق اب تم اپنے علم کے ذریعے بتاؤ کہ آرسی ہمیں کہاں ملے گی؟” پروہت نے خون آلود پُتلے کو ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا ۔ اس دوران جپالا صفدر کی مشقیں کھول چکا تھا۔
” تم لوگوں نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ اب میں تمہاری مدد ضرور کروں گا۔” صفدر نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے وہ مراقبے میں جا رہا ہو۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ جپالا کو کیسے بتائے کہ اس کی بیٹی اب زندہ نہیں ہے۔ اسے اندیشہ تھا کہ آرسی کے مرنے کی خبر سن کر کہیں قبیلے والے ہتھے سے ہی نہ اکھڑ جائیں۔ وہ کافی دیر تک آنکھیں بند کیے سوچتا رہا، مگر اسے کوئی ترکیب سجھائی نہ دی ۔ آخر کب تک مراقبے کا نا ٹک کرتا اسے آنکھیں کھولنی ہی پڑیں۔
”کچھ پتا چلا میری بیٹی کا؟” جپالا نے بے صبری سے پوچھا ۔ صفدر نے آہستگی سے کھانس کر گلا صاف کیااور پھر محتاط الفاظ میں گویا ہو ا۔
”میرے علم کے مطابق آرسی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔” اس کی بات پوری ہوتے ہی جپالا کی بیوی دہاڑیں مار کر بچھاڑیں کھانے لگی، تو وہاں پر موجودخواتین اسے سنبھالنے لگیں۔
”یہ تو ہمیں بھی اندازہ ہے کہ کوئی اتنے شدید موسم میں باہر زندہ نہیں رہ سکتا ۔کیا اس کی لاش مل سکتی ہے تاکہ اس کی آخری رسومات ادا کر کے ہمیں کچھ سکون مل سکے۔” جپالا نے گلوگیر لہجے میں پوچھا، تو صفدر ایک گہر ا سانس لے کر رہ گیا۔ اس کے اندیشے غلط ثابت ہوگئے تھے۔ قبیلے والوں نے آرسی کی موت کا سن کر اسے کوئی گزند پہنچانے کی کو شش نہیں کی تھی۔
”میرے ساتھ چلو مجھے امید ہے کہ میں تم لوگوں کو اس تک لے جاؤں گا۔” صفدر نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”اس بات کی کیا گارنٹی ہے تم ہمیں لاش تک لے جانے کی بجائے دھوکا دے کر فرار ہونے کی کوشش نہیں کروگے۔” پروہت نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ اس کا شکی لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ ابھی تک صفدر کو ناقابلِ اعتبار سمجھ رہا ہے۔
”میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں کہ اتنے مسلح محافظوں کے ہوتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش میں موت کو گلے لگا لوں۔” صفدر نے اعتماد بھرے لہجے میں جواب دیا اور غار کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا جب کہ جپالا سمیت قبیلے کے تمام مرد اس کے پیچھے تھے۔
٭….٭….٭
صفدر لمبے سفر سے واپسی پر تھکے ہوئے قدموں سے اپنی گلی میں داخل ہوا، تو چونک گیا۔ گھر کے سامنے لوگوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا جب کہ ایک ایمبولینس بھی کھڑی تھی۔ وہ وسوسوں میں گھیرا ہوا تیزی سے آگے بڑھا، تو اسی لمحے گھر کے اندر سے عظمیٰ کو سڑیچر پر ڈال کر باہر لایا جا رہا تھا ،جب کہ اکرم شدید پریشانی کے عالم میں اسے سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ عظمیٰ جنونی انداز میں چیخیں مار رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اس پر پاگل پن کا دورہ پڑگیا ہو۔ ایمبولینس چند لمحوںہی میں اسے لے کر وہاں سے روانہ ہو گئی۔ صفدر سمجھ گیا کہ دوسروں کو برباد کرنے والے خود مکافاتِ عمل کا شکار ہوچکے ہیں ۔اس کی نظر دروازے میں پریشان کھڑے امی ابو پر سے ہوتی ہوئی ان کے پیچھے کھڑی اپنی معصوم بہن نوشی پر پڑی، تو اس کے چہرے پر زندگی کی رونق دیکھ کر اسے اپنے دل میں سکون کی لہر پھوٹتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

نبھانا — نعمان اسحاق

Read Next

سوءِ بار — میمونہ صدف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!