میں بے زباں —- رفا قریشی

”اور کیا ہورہا ہے کوئی نئی تازی؟” اس نے پوچھا۔
”کچھ خاص نہیں! کڑی پکائی تھی، گھر قریب ہوتا تو تمہیں بھی بھیج دیتی۔ خیر! وہ منال کے اسکول والے پکنک پر لے جارہے ہیں اجازت نامے پہ دست خط کروانے آئی ہوئی تھی وہ۔”
“کوئی ضرورت نہیں اسے پکنک پر بھیجنے کی، بہت خراب دور آگیا ہے، لڑکیوں کو بھٹکتے دیر نہیں لگتی اور ہاں! اپنے میاں کو بتانے کی بھی ضرورت نہیں، وہ تو فوراً اجازت دے دے گا۔ تمہارے سسرال میں لڑکیوں کو بہت آزادی دی گئی ہے۔ سمجھ رہی ہو نہ میری بات؟” کامل نے اس کی بات کاٹ کر اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
اس نے بھائی کی بات پر عمل کرتے ہوئے شوہر کو کچھ نہیں بتایا اور ماموں کا ڈراوا دے کر منال کو بھی اس بات کا ذکر باپ سے کرنے سے منع کردیا جس پر وہ بہت روئی۔
دوسروں کے آنکھوں سے دیکھنا، دوسروں کے دماغ سے سوچنا… سنعیہ کی شخصیت کا خاصہ تھا۔
٭…٭…٭
اسکول میں عید کی چھٹیاں ہونے میں دو دن باقی تھے۔ بائیولوجی کی کلاس ختم ہوئی تھی اور اب انگلش کا پیریڈ شروع ہوا تھا۔
”آج انگلش کے سر نہیں آئے یہ پیریڈ تو سمجھو فری گیا۔” انا نے ساتھ بیٹھی منال سے کہا۔
”یہ حاشر پوری کلاس کو کیا بانٹ رہا ہے؟” اس نے آہستہ سے انا کے کان میں سوال کیا۔ تبھی وہ انا کے قریب آیا اور ایک کارڈ انا کو دیا اور دوسرا منال کو دیتے ہوئے ان کے پیچھے بیٹھ گیا۔
”یار یہ تو عید کارڈ ہے۔” منال نے لفافہ کھول کر اس میں سے عید کارڈ نکالتے ہوئے کہا۔
”وہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے۔” انا نے کارڈ دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں اسے گھر لے کر جاؤں گی تو امی پوچھیں گی کہ کسی لڑکے نے تمہیں کارڈ کیوں دیا؟ ”اس نے فکرمندی سے کہا۔
”کم آن یار! وہ ہمارا کلاس فیلو ہے۔ اور تم میں کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے اور نہ کلاس میں تم واحد لڑکی ہو جسے اُس نے کارڈ دیا ہو۔ اس نے اپنی خوشی سے پوری کلاس کو کارڈ دیا ہے۔” انا نے کارڈ بیگ میں رکھتے ہوئے ناگواری سے کہا۔
”میں گھر جاکر یہ کارڈ پھاڑ کے پھینک دوں گی۔” کارڈ بیگ میں رکھتے ہوئے منال نے دل میں سوچا۔
٭…٭…٭





وہ اسکول سے آکر کھانا کھا کر سوگئی تھی۔
ذکاء دن میں سوتا نہیں تھا بلکہ اپنا ہوم ورک کیا کرتا تھا۔ مولوی صاحب سے قرآن پاک پڑھتا اور رات میں کھانا کر جلدی سوجاتا۔ ابھی وہ ہوم ورک کرنے بیٹھا تھا اور پنسل نہیں مل رہی تھی۔
”ایسا کرتا ہوں آپی کے بیگ سے نکال لیتا ہوں، آپی کے اٹھنے سے پہلے رکھ دوں گا۔” یہ سوچتے ہوئے اس نے منال کا بیگ کھولا جہاں اسے عید کارڈ نظر آیا۔
”امی کو دکھاتا ہوں آپی کو کسی لڑکے نے کارڈ دیا ہے، کتنا مزہ آئے گا جب امی آپی کو ڈانٹیں گی بہت رعب جماتی ہیں مجھ پر۔” ذکاء نے یہ سوچ کر وہ کارڈ لاکر سنعیہ کو تھما دیا۔
وہ عصر کی نماز پڑھ کر اُٹھی تھی۔ پہلا خیال جو اس کے دماغ میں آیا وہ کارڈ کا تھا۔
”اس کارڈ کو پہلی فرصت میں پھاڑوں اس سے پہلے کہ کسی کی نظر پڑے اور تفتیش شروع ہوجائے۔” یہ سوچتے ہوئے منال جلدی سے اپنے بیگ کی طرف دوڑی۔
”اسے تلاش کرہی ہو..” وہ جھک کر بیگ میں کارڈ دھونڈ رہی تھی جب پیچھے سے سنیعہ نے کہا۔
”کیا چکر ہے تمہارا حاشر کے ساتھ؟ تمہارا کیا لگتا ہے وہ؟ اس کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں کارڈ دینے کی؟” سنعیہ کا پارہ چڑھتا ہی جارہا تھا۔
”امی وہ..وہ…” منال کی زبان جیسے خشک ہوگئی تھی۔ اس سے کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا۔
”ہم تمہیں اسکول پڑھنے بھیجتیں ہیں یا لڑکوں سے دوستیاں کرنے؟ سنعیہ نے اس کا جواب سنے بغیر ایک زوردار تھپڑ اس کے رخسار پہ پر مارا۔
”امی اس لڑکے نے پوری کلاس کو عید کارڈ دیا تھا۔” منال یہ بات سوچتے ہوئے اپنا گال پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی تھی۔
٭…٭…٭
منال اب دسویں کلاس میں آگئی تھی۔ نانی کے گھر اب وہ صرف ملنے جایا کرتی تھی، رہتی نہیں تھی۔
”امی اسکول میں فیئرویل پارٹی ہے۔ ٹیچر نے کہا ہے کہ ہر اسٹوڈنٹ کو ہزار روپے لانے ہیں۔”سنعیہ کچن میں سلاد کے لئے کھیرے کاٹ رہی تھی جب منال نے کچن کے ساتھ اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”کوئی ضرورت نہیں فیئرویل میں جانے کی، نہ ہی میں کوئی پیسے دوں گی تمہیں۔” سنعیہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔
”امی ٹیچر نے کہا ہے کہ جو آنا چاہے آئے، نہ آنا چاہے نہ آئے لیکن پیسے سب کو دینے ہیں۔” منال نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
”منال میں نے منع کردیا ناں۔ میں جانتی ہوں اچھی طرح farewell میں جاکر جو تم نے آوارہ گردیاں کرنی ہیں۔ تمہیں بہت پر نکل رہیں ہیں تمہارے۔” سنعیہ نے درشت لہجے میں کہا۔
”امی اگر آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں تو آپ کل اسکول فون کرکے میری ٹیچر سے بات کر لیجئے گا۔” منال نے منمنانے والے انداز میں کہا لیکن سنعیہ اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
٭…٭…٭
آج وہ بہت دن بعد ماں کے گھر رہنے آئی تھی۔ منال اپنی دادی کے پاس رُک گئی تھی جب کہ ذکاء اس کے ساتھ آیا تھا۔
”پتا ہے ماموں؟ آپی کو کسی لڑکے نے عید کارڈ دیا تھا۔” ذکا نے کامل کو بتایا۔
”ذکا!!” سنیعہ نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے باہر لائونج میں جانے کا کہا۔
”تمہاری بیٹی ایک دن ضرور کوئی گل کھلائے گی دیکھنا۔” کامل نے زہر خند لہجے میں کہا۔
”یہ میٹرک کرلے تو اس کی شادی کی فکر کرو سنعیہ، کہیں یہ لڑکی ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔” نورجہاں بیگم نے بھی مشورہ دے کر اپنا فرض ادا کیا۔
”کرتی ہوں بات اس کے پاپا اور دادی سے” سنعیہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”صبوحی..!! پانی پلادو۔” کامل نے اپنی نو سالہ بیٹی کو آواز دی۔
”پاپا آپ خود اُٹھ کر پی لیں میں نہیں لارہی۔” صبو جو گیم کھیلنے میں مصروف تھی، ٹکا سا جواب دیتے ہوئے بولی۔
وہ جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ابھی پچھلے دنوں جب منال نے فیئرویل کے لئے رقم مانگی تھی تو اس نے اسے کتنی غلط باتیں سنائی تھیں کیوں کہ اسکول کال کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ وہاں کا اصول ہے کہ فیئرویل کے لئے پیسے ہر اسٹوڈنٹ کو دینا ہوتے ہیں، چاہے اسٹوڈنٹ فیئرویل میں آئے یا نہ آنا۔ اس دن وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھی۔
٭…٭…٭
”امی.. پاپا دبئی سے سیمینار اٹینڈ کرکے واپس کب آئیں گے؟” کچن کے کیبنٹ سے ڈرائی فروٹس کا جار نکالتے ہوئے منال نے پوچھا۔
”فون پر تمہارے پاپا پرسوں واپسی کا بتا رہے تھے۔ اچھا سنو! آج رات تمہارے ماموں کے ساتھ میں ثمن کی بیٹی کی شادی میں جاؤں گی۔ تم اندر سے کنڈی بند کردینا، چابی ہے میرے پاس۔ میرا موبائل اپنے پاس رکھنا، میں تمہیں کامل کے موبائل سے مس کال دوں گی تو تم اندر کی کنڈی کھول دینا۔” سنعیہ نے اسے تاکید کرتے ہوئے کہا اور منال ”جی امی” کہہ کر چپ ہوگئی۔
٭…٭…٭





ٹی وی دیکھتے دیکھتے رات کافی گزر گئی تھی۔ اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا جب باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی موبائل پر ماموں کی کال آنا شروع ہوگئیں۔
”امی آگئیں” اس نے جھٹ سے دروازے کی کنڈی کھولی۔
”موبائل پر کال آرہی تھی اور امی نے تو کہا تھا صرف مس کال دیں گی۔ یہ سوچ کر اس نے کال کاٹ دی۔
“The number u have dialed is busy at the moment”
”لے بھئی سنعیہ! تمہاری بیٹی موبائل پر کسی کے ساتھ مصروف ہے۔” کامل نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بہن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم اتنی رات کو موبائل پہ کس سے بات کرہی تھیں؟” سنعیہ نے اندر داخل ہوتے ہی منال سے تیز لہجے میں پوچھا۔
”میں! میں تو کافی دیر سے ٹی وی دیکھ رہی تھی امی۔” اس نے حیرانی سے جواب دیا۔
”جھوٹ نہیں بولو، کامل کب سے موبائل پر کال کر رہا تھا، موبائل busy جا رہا تھا۔” اس نے تڑاخ سے ایک تھپڑ اس کے رخسار پر لگاتے ہوئے کہا۔
”امی میں سمجھی آپ نے صرف مس کال دینے کا کہا تھا، اس لئے میں نے کال کاٹ دی تھی۔ کیا میں آپ کو ایسی لگتی ہوں؟ آپ کو سب کی بات سہی لگتی ہے بس ایک مجھ پر بھروسہ نہیں۔” اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا اور قدم آگے بڑھاتی سنعیہ جیسے اپنی جگہ تھم سی گئیں۔
یہ کیا کہہ دیا تھا منال نے؟؟؟ کیا واقعی اسے اپنی اولاد پر، اپنی تربیت پر بھروسہ نہیں تھا؟ اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا جہاں منال کھڑی سسکیوں کے ساتھ بے تحاشا رو رہی تھی سنیعہ نے لپک کر اسے گلے لگایا۔
”میں ایسی نہیں ہوں امی۔” وہ ماں کے گلے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
”مجھے پتا ہے میری بیٹی ایسی نہیں ہے آئی ایم سوری بیٹا” ان کی بے اعتباری نے منال کی شخصیت کو بری طرح توڑ دیا تھا۔ اب وہ بھی منال سے لپٹ کر رو رہی تھی۔ وہ ساری باتیں جو اُس نے منال سے کی تھیں، اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔ وہ دل ہی دل میں شرمندہ ہورہی تھی۔
”بس آج کے بعد میں اپنی معصوم بیٹی کی کردار کشی کا حق کسی کو نہیں دوں گی۔” اس نے دل میں حتمی فیصلہ کیا۔
٭…٭…٭
وہ ابھی ہاسپٹل سے لوٹی تھی۔ وہ شہر کے سب سے مشہور ہسپتال کی بہترین سائیکاٹرسٹ تھی اور ابھی دو مہینے پہلے اس کی بات انہوں نے زیان سے پکی کی تھی اور شادی سال بعد ہونی تھی۔
”کھانا گرم کروں بیٹا؟” سنعیہ نے اسے گھر میں داخل ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں امی! کھانا ہسپتال میں کھا لیا، صرف چائے لادیجئے۔ جب تک میں فریش ہو لوں۔” اس نے اپنے موبائل پر فیس بک میں اپنی ٹائم لائن چیک کرتے ہوئے کہا۔
وہ چائے لے کر اس کے کمرے میں آئی واش روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی، منال ابھی تک واش روم میں تھی۔
اس کا موبائل بستر پر پڑا تھا۔ چائے میز پر رکھ کر وہ اس کے بستر پر آبیٹھی اور اس کا موبائل اٹھالیا۔ موبائل پر اس کی ٹائم لائن دیکھتے دیکھتے ایک تصویر پر وہ ٹھٹھکی… وہ صبوحی تھی، کامل کی بیٹی۔ وہ تصویر کے ساتھ لکھی تحریر پڑھنے لگیں:
“enjoying picnic at sandspit with friends.”
”اور جب میری بیٹی کے پکنک پہ جانے کا وقت تھا تو اس وقت کامل کہتا تھا دور خراب ہے، لڑکیوں کو بہکتے دیر نہیں لگتی اور آج اس کی اپنی جوان بیٹی پکنک پوائنٹ پر جینز شرٹ پہنے لڑکوں کے گلے میں ہاتھ ڈالے کھڑی ہے اور اماں… انہیں میری بیٹی کی چھوٹی قمیص پر اعتراض تھا، آج ان کی پوتی بغیر دوپٹہ کے اس لباس میں؟ بہو کا اتنا بھی کیا خوف؟” وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔
”چھوڑیں امی! سب کی اپنی زندگی ہے، اچھے برے کی پہچان ہے انہیں، یہ کوئی بچے نہیں ہیں۔ آپ اپنا دل چھوٹا نہ کریں، ان کے لئے بس اللہ سے ہدایت کی دعا کیجئے۔” منال نے ماں کے آنکھوں سے بہتے موتی کو اپنے ہاتھوں سے چنتے ہوئے کہا اور پیار سے ان کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ سنعیہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھنے لگی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

میری پری میری جان — اقراء عابد

Read Next

مارو گولی — سارہ قیوم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!