انعم نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس اپنے گھر میں قدم رکھا۔ وہاں حالات اب بھی وہی تھے۔ ابو کی صحت تیزی سے گررہی تھی۔ بہر حال اسد کو اچھی جاب مل گئی تھی۔
ذیشان صاحب بچے نہیں تھے۔ انعم کی حالت، اُلٹیاں اور آنکھوں کے گرد حلقے دیکھ کر خاموش تو تھے مگر کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے شکاری میدان نہیں چھوڑ دیتا۔ اسی شش و پنج میں ان کی راتوں کی نیندیں بھی حرام ہوگئی تھیں۔
”افضل میں نے الٹراساؤنڈ کروایا ہے۔ اب تو آجاؤ، مجھ سے گناہ کا یہ بوجھ اب نہیں اٹھایا جارہا، ویسے بھی Its a baby boy۔” انعم بات کرتے کرتے پلٹی تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، سامنے ذیشان صاحب کھڑے تھے۔
٭…٭…٭
بلال نے پاکستان واپس آکر انعم سے رابطہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہاسٹل والے کسی بھی قسم کی معلومات نہیں دے رہے تھے۔ بلال صدف کو بھی Trace نہیں کر پارہا تھا۔
اس کی راتیں سگریٹ کے دھوئیں اور تکیے کو بھگو بھگو کر بھی ختم نہیں ہوتی تھیں۔
٭…٭…٭
شان دار عمارت میں قدم رکھتے ہی بلال کو لگا وہ دوبارہ دبئی کے کسی آفس میں آگیا ہے۔ ہر چیز جدید اور بہترین۔ ریسپشن پر اس نے انعم کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ کچھ دن پہلے ریزائن دے کر جاچکی ہیں۔ کب اور کہاں؟ کا اس جواب تو کسی کے پاس نہیں تھا۔
”یار جہاں بھی چلا جاؤں! اس کم بخت کا خیال دل سے نہیں جاتا۔ وہ ایک لڑکی ہی تو تھی۔ ایک عام سی لڑکی جس سے میں نے محبت کی تھی اور اس سے پہلے کہ ہم کسی رشتے میں بندھتے وہ چلی گئی سب کچھ چھوڑ کر۔” بلال سگریٹ کا کش لیتے ہوئے ابو بکر سے کہہ رہا تھا، ابو بکر اس کا کندھا تھپکنے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔
٭…٭…٭
”انعم میرا مان، میرا بھروسا کہاں توڑ آئی۔ کیسے داغ دار ہوگئی!” ذیشان صاحب شریف آدمی تھے اور شریف آدمی کی شرافت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے تو جسم سے روح کا رشتہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ایک عزت ہی تو تھی وہ بھی ان کی بیٹی گنوا آئی تھی۔ بنا کوئی سوال جواب انہوں نے اسی رات خاموشی سے دنیا چھوڑ دی۔
٭…٭…٭
”کیا آپ کو افضل علی خان قبول ہیں۔” مولوی صاحب نے اس کا اور افضل کا نکاح پڑھایا اور وہ میکے سے بغیر دعاؤں کے رخصت ہوگئی۔ رخصتی کے وقت اسد نے اس کے کان میں کہا:
”انعم! اس رات ابو کے ساتھ میں نے بھی تمہاری بات سُن لی تھی۔ آج کے بعد تمہارا ہم سے اور اس گھر سے کوئی تعلق نہیں۔ یاد رکھو آج یہاں سے تمہاری ڈولی نہیں جنازہ اُٹھ رہا ہے۔ ہمیشہ کے لیے۔ خدا حافظ!” اسد کے الفاظ اس کی سماعتوں پر ہتھوڑا بن کر پڑے۔ دولت کی چاہ میں وہ آہستہ آہستہ سارے رشتے گنوا رہی تھی۔
٭…٭…٭
احمد علی اور فرخندہ بیگم کے بہت سمجھانے پر بلال کچھ دن کے لیے بہلتا اور پھر اتنی برُی طرح ٹوٹتا کہ سنبھالے نہ سنبھلتا۔ عثمان کی شادی ہوگئی۔ اکبر بھی ایک کمپنی میں اچھی پوسٹ پر فائز ہوگیا۔ علیشبہ کی پڑھائی کے بھی آخری چند مہینے تھے۔ سلمیٰ اور فاخرہ بھی امریکا سے کچھ دنوں کے لیے آئیں اور بھائی کو سمجھا کر مایوس لوٹ گئیں۔
”اس کی شادی ہوگئی۔ وہ اپنی کمپنی کے CEO میں انٹرسٹڈ تھی۔ کیوں، کیا، کیسے؟ میں آپ کو کوئی وضاحت نہیں دوں گی لیکن آپ بھی آگے بڑھییبھول جایئے کیوں کہ وہ کبھی آپ کے لیے نہیں رکی۔” صدف کو فیس بک پر کیے گئے بے پناہ میسجز کے بعد بلال کو یہ جواب عمر بھر کے لیے تہی دامن کر گیا۔
٭…٭…٭
”یار! وہ لڑکی میرا سب کچھ تھی۔” مدثر نے ساتھ بیٹھی چوبیس سالہ خوب صورت لڑکی جو منہ میں سگریٹ دبائے ہوئے تھی، کے سامنے اپنا دل کھول دیا۔
”میں اور وہ ایک ہی کالج اور پھر ایک ہی یونیورسٹی میں تھے۔ وہ گاؤں سے آئی تھی۔ اس کی ماں کو بہت شوق تھا کہ وہ پڑھے آگے بڑھے لیکن…” وہ کچھ کہتے کہتے چپ ہوگیا۔
”کالج کی پسند یونیورسٹی جاکر محبت میں بدل گئی۔ ہر وقت ساتھ دیکھ کر لوگ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ دیکھ کر دیوانہ کہتے تھے۔” مدثر کی آواز بھیگی۔ بات ایک بار پھر ادھوری رہ گئی تھی۔
وہ اکثر اپنے گاؤں کی تنگ نظری کا ذکر کرتی تھی اور پھر اک دن غائب ہوگئی۔ ہوسٹل یونیورسٹی ہر کسی سے پوچھا مگر وہ نہیں ملی۔ میں نے تنگ آکر اپنے سارے ذرائع لگائے اور اس کے گاؤں پہنچا اور وہ…” بات ایک بار پھر ادھوری رہ گئی تھی۔
”اور جب میں اس کے گھر پہنچا تو اس کی ماں مجھے اس کی قبر پر لے گئی۔ اس کے خاندان والے زبردستی وٹے سٹے میں اس کی شادی کررہے تھے۔ اس لیے اس نے بے وفائی کی جگہ موت کو گلے لگا لیا، اس نے خود کشی کرلی۔” مدثر نے رُک رُک کر آہستگی سے کہا۔
”وہ چلی گئی… وہاں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔”
٭…٭…٭
رخصت ہوکر وہ افضل علی کے ساتھ اس کے گلبرگ والے بنگلے میں آئی تھی۔ وہ ایک ایسی دلہن تھی جس کا استقبال سسرال میں کسی نے بھی نہیں کیا۔ افضل اس کو دروازے پر اُتار کر میٹنگ کے لیے چلا گیا ۔ وہ خود ہی گھر میں داخل ہوئی۔ گھر کافی دنوں سے بند تھا مگر اس میں ہر سہولت موجود تھی۔ افضل نے اس کے لیے ایک دو ملازم بھی رکھ دیے تھے۔ زندگی بالکل ویسے ہی ہوگئی جس کی وہ خواہش مند تھی۔ بڑا گھر، نوکرجاکر، پیسے کی ریل پیل، فرینڈز اور پارٹیز … مگر اب جب سب کچھ تھا تو اسے محسوس ہوا کہ یہ سب کتنا کھوکھلا ہے۔ چند مرلوں میں رہنے والے لوگ دلوں کے قریب ہوتے ہیں اور کنالوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے دلوں کے بھی سوداگر ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭
وہ مجنوں بن گیا تھا۔ لمبے بال، ڈاڑھی، آنکھوں میں نمی، اسے خوشی کا احساس تھا اور نہ ہی غم کا۔ احمد علی تو اس کو یوں دیکھ کر خود بھی ہر غم سے بے نیاز ہوگئے اور فرخندہ بیگم نے چارپائی پکڑ لی۔ باقی سب بہن بھائی اور یار دوست اپنی دنیا میں مگن ہوگئے۔
٭…٭…٭
اس کی رسائی صرف افضل علی تک تھی۔ مدثر کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے مکمل یقین تھا کہ افضل علی کے ماں باپ بھی اسے قبول کرلیں گے، آخر کار وہ انہیں وارث دے چکی تھی۔ مگر اس کی خوش فہمی جلد ہی ختم ہوگئی جب افضل علی کی دوسری بیوی شادی کے دس سال بعد امید سے ہوگئی اور دوجڑواں بیٹے دے کر انعم کا پلڑا ہلکا کرگئی۔ خاندانی بیوی سے جب وارث ہوجائے تو غیر خاندان کی لڑکیاں نہ بہوئیں بنتی ہیں اور نہ ہی سہاگنیں، وہ بھی صرف افضل علی کی بیوی بنی تھی اور مدثر کی ماں۔
کبھی کبھی وہ واپس مڑ کر دیکھنا بھی چاہتی تو کچھ نہیں تھا۔ افضل علی اس کے پاس کبھی بھٹکتا ہوا آجاتا اور کبھی پاس بیٹھ کر بھی اسے نظر انداز کردیتا۔ اس کی زندگی اس کی کل کائنات صرف مدثر تھا، صرف مدثر۔
٭…٭…٭
”میں نے بھی موت کو گلے لگانے کی کوشش کی، مگر میری بے بسی پر اسے ترس نہیں آتا۔ مدثر نے آسمان کی طرف اشارہ کلو گیر لہجے میں کہا۔
افضل علی نے اپنی وسیع و عریض جائداد سے سے مدثر اور انعم کو حصہ دے کر باقی تمام جائداد اپنے خاندانی بچوں کے نام کردی تھی۔ انعم میں اس کی دل چسپی ختم ہو گئی تھی اور مدثر پر اس نے دل کھول کر پیسا بہایا تھا کہ وہ ساری عمر بیٹھ کر کھا سکتا تھا۔
تمام کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد افضل علی نے اس کے ہاتھ میں ”طلاق نامہ” پکڑا کر خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہر ذمے داری اور رشتے سے آزاد کرالیا تھا۔
”مجھے سکون کہاں ملے گا؟” آخر مدثر اسی سوال کو نشے میں دھت دہراتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔
٭…٭…٭
اسے داتا دربار میں قدم رکھتے ہی ایسا لگا کہ اس کی ماں نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اور اس نے وہی سفید شلوار قمیص پہنی ہوئی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ دربار میں داخل ہوئی۔ ٹھنڈی ہوا اور وہ بھی گرمیوں میں ہر کسی کو تراوٹ دے رہی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے ہوئے آگے بڑھی اور پھر جیسے اس کے قدم پتھر کے ہوگئے۔
وہ کالے لمبے کرتے میں جو جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، گردن میں لمبی لمبی تسبیحوں کی مالا۔ سر پر سفید اور کالے بال وہ کوئی اور نہیں بلال تھا۔ بلال، جس کا دل اس نے توڑا تھا، جس سے وفا کا وعدہ کرکے وہ بھول گئی تھی۔
وہ مست سا فقیر بلال تھا۔ اس نے دھیرے سے قدم بڑھانے کی کوشش کی مگر وہ ایک قدم بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا پائی۔ کتنے ہی لمحے کتنے ہی گھنٹے گزر گئے، وہ وہیں ساکت کھڑی تھی اور وہ مستانہ اپنی فقیری میں مگن۔
”باجی! پرے ہوجاؤ، لنگر کُھل گیا ہے۔” ایک بچی کی آوازسے وہ واپس دنیا میں آئی اور معصوم بچے کی طرح بلال کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ… یہ” اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک کر زمین پر آرہے تھے۔
”باجی! یہ ملنگ ہے۔ عرصے سے یہیں رہتا ہے۔ بے چارے کا کوئی نہیں ہے مگر اس کی دعا میں بڑا اثر ہے۔ دور دور سے لوگ اس سے دعا کروانے آتے ہیں۔” وہ بچی یہ کہہ کر رکی نہیں بلکہ آگے بڑھ گئی۔
ایسا نہیں تھا کہ بیتے برسوں میں اسے بلال یاد نہیں آیا۔ آخر کو وہ اس کی عادت تھا، مگر وہ اتنی برُی الجھی تھی کہ پرانے رشتوں کے دھاگے اس نے دوبارہ سلجھائے ہی نہیں۔ جو الجھ گیا تھا وہ ویسا ہی رہا اور زندگی گزرتی رہی۔
آہستگی سے اس نے بلال کی جانب قدم بڑھائے۔ جتنے قدم وہ اس کی طرف بڑھا رہی تھی اتنی تیزی سے ہوا اس کو چھو کر ماضی کی ہر یاد اپنے ساتھ لا رہی تھی۔
وہ اب اکثر داتا دربار آتی ہے۔ مستانہ فقیر کہتی ہے یہ دنیا بلال کو۔ وہ کوشش کرتی ہے کہ وہ بھی اس سے بات کرے۔ اس کے لیے دعا کرے۔ لوگ کہتے ہیں اس کی دعا قبول ہوتی ہے مگر وہ اس کی طرف نہیں دیکھتا۔ اس کی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ جب وہ اس کی جانب دیکھتی ہے تو وہ نظریں چُرا لیتا ہے۔پھر بھی اسے کیوں لگتا ہے کہ جس دن وہ پہلی بار آئی تھی وہ اسی دن اسے پہچان گیا تھا۔ وہ اسے پہچانا تھا یا نہیں، مگر وہ یہ ضرور پہچان گئی تھی کہ دوسروں کے دلوں کوبرباد کرکے، انہیں استعمال کرکے چین تو آپ کے دل کو بھی نہیں ملتا۔
جو کچھ اس نے بلال کے ساتھ کیا تھا، جتنا وہ تڑپا تھا۔ اتنا ہی اس کا بیٹا بھی تڑپتا ہے۔ وہ بلال کی مجرم تھی اور مدثر کی محرومیوں، اداسیوں، اور بے راہ رویوں کا سبب۔ وہ سب کچھ حاصل کرنے کی چاہ میں، سب کچھ گنوا بیٹھی تھی۔
٭…٭…٭
One Comment
…Keep it up Ma’am ………………………………………..Excellent as well as amazing