محسن اس کی زندگی میں کیا آیا اس کی زندگی میں تو بہار ہی آگئی۔ وہ ایک امیر باپ کا بیٹا تھا۔ اپنے باپ کا ہی کاروبار سنبھالتا تھا۔ اچھی کھاتی پیتی مضبوط فیملی تھی اور صدف اس کی دور کی رشتہ دار۔ صدف سے اس کی دوستی ایک خاندانی شادی میں ہوئی تھی۔ جب سے ہی دونوں دوست تھے۔ جب صدف ملتان سے لاہور آئی تو محسن ہاسٹل کے پہاڑ جیسے اصولوں کے سامنے ایک نیک شریف بھائی کی صورت اس کی ہر عیاشی کا پردہ دار تھا۔
صدف اور محسن کے مابین کیا کچھ تھا، انعم کو اس سے کوئی غرض نہ تھی بلکہ اب اسے مزہ آنے لگا تھا۔ محسن کے ساتھ اس کی باتوں سے اور ان سب چیزوں کا مزہ جس کے نہ ہونے سے وہ خود کو دنیا کی محروم اور بے بس ترین لڑکی سمجھتی تھی۔ وہ تمام برانڈڈ کپڑے اور پراڈکٹس جو وہ دوسروں کو پہنا دیکھ کر ترستی تھی اب اس کے پاس تھے۔ ہر برانڈ کی نئی کلیکشن کے جوڑے سب سے پہلے اس کے پاس آتے اور اس کے بدلے صرف اسے محسن کے ساتھ کچھ وقت گزارنا ہوتا۔ اس کے دوستوں کی پارٹیز میں محسن کے ساتھ سگریٹ اور شیشے کے کش لینا ہوتے۔
٭…٭…٭
”کاش ہم نہ ہی ملتے!” بلال نے میسج کیا۔
”کیوں؟ یہ کیا بات ہوئی؟” بلال کی بات پر وہ بُری طرح الجھ گئی اور رپلائی کے بجائے فون کر ڈالا۔
”تم سے مل کر بہت بے چین ہوگیا ہوں؟” اس کی آواز میں بہت بے چینی تھی۔ وہی ہنسی جس نے بلال کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔
”مجھے ایک ضروری بات شیئر کرنی ہے تم سے۔” اس کی بات لمبی تھی اس لیے دوبارہ ملاقات طے پائی۔ وہی پارک جس کی خوش بو بھی بلال کی معصوم محبت کی ایک گواہ بن گئی تھی۔
”بلال میں ٹیوشن پڑھانا چاہتی ہوں؟ ابو سے اتنے اخراجات نہیں اُٹھائے جاتے۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نہ ان کی کمپنی کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ مجھے اپنے اخراجات خود ہی اٹھانے ہیں۔ اگر تم مجھے کچھ اچھی سی ٹیوشنز ڈھونڈ دو تو نہایت ہی آسانی ہوجائے گی۔” آج ان گہری آنکھوں میں چمک کچھ ماند لگ رہی تھی۔
”اگر تم کہو تو I can share my pocket money” بلال اس کی بات سُن کر تڑپ گیا تھا مگر اس نے سہولت سے انکار کردیا۔ بلال نے اپنے دوستوں۔ اور ملنے والوں کو کہہ کر بالآخر اس کے لیے دو ہوم ٹیوشنز ڈھونڈ ہی دی تھیں۔
٭…٭…٭
”امی ابو! وہ اچھے گھر کی لڑکی ہے۔ اس کے ابو ایک کمپنی میں جاب کرتے ہیں۔ دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ اگر وہ ایسی ویسی لڑکی ہوتی تو مجھ سے پیسے لے لیتی مگر وہ خود محنت کرکے اپنی پڑھائی کا خرچہ اٹھا رہی ہے۔” بلال ان کے سامنے بیٹھا کہہ رہا تھا اور بیگم فرخندہ اس کا منہ دیکھ رہی تھیں۔
”یہ سب باتیں ٹھیک ہیں مگر تم نے اسے ہاسٹل اور پھر ٹیوشن سینٹر چھوڑنے اور لینے کی کیا پخ لگالی ہے؟” فرخندہ بیگم نے بھی آج اسے آڑے ہاتھوں لیا۔
”امی! وہ اکیلی ہے، کیا رکشوں میں دھکے کھائے؟ میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ وہ رکشوں میں دھکے کھائے۔ میں ابھی خود کسی قابل نہیں ہوں اور نہ ہی اس کی پیسوں سے مدد کرسکتا ہوں مگر اس کی سائے کی طرح حفاظت کرنا چاہتا ہوں۔ زندگی کی ہر دھوپ میں اس کے لیے ایک گھنا درخت بننا چاہتا ہوں۔” بیٹے کی آنکھوں سے جھلکتی محبت نے ذیشان صاحب اور فرخندہ بیگم کو گنگ سا کردیا تھا۔
٭…٭…٭
حسبِ معمول وہ اسے ایک ٹیوشن سے دوسری ٹیوشن لے کر جارہا تھا، جو ہاسٹل اور بلال کے گھر کے راستے میں آتا تھا۔ بلال ہونٹوں میں کوئی مدھر سی دھن گنگنا رہا تھا۔
”بلال! مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔”
”ہاں بولو!” وہ تھوڑا حیران ہوا۔
”بلال ہم کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں بلکہ اسی پارک میں جہاں ہم ملے تھے۔ آج ٹیوشن کی چھٹی کرلیتی ہوں۔” وہ کچھ دیر توقف کے بعد بولی۔تو وہ فوراً تیار ہوگیا اور اسی پارک میں لے آیا۔
”ہاں بولو بھی! کیا خاموش کوئین بنی ہوئی ہو۔” بلال کو حد درجہ یقین تھا کہ اس کے کسی سبجیکٹ میں مارکس کم آئے ہوںگے یا گھر کی کوئی ٹینشن ہوگی، اسی لئے اتنی چُپ چُپ ہے۔
”بلال! میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔” اس نے آنکھیں چُراتے ہوئے کہا۔
”جھوٹ! کون سا جھوٹ؟” بلال تھوڑا چونکا۔
”بلال میں رابعہ نہیں انعم ہوں، انعم ذیشان! میں نے اپنا اصل نام تم سے چھپایا۔ facebook پر جس اکائونٹ سے تم نے مجھے add کیا ہوا ہے وہ بھی میرا fake account ہے، جو نمبر تمہارا میرے پاس ہے وہ بھی میرا اصل نمبر نہیں۔” انعم اسے ساری سچائی بتا رہی تھی اور وہ حیرت کے سمندر میں ڈوبتا جارہا تھا۔
”تم مذاق کررہی ہونا؟” آخر کار بلال نے بے یقینی کی کیفیت میں کہا۔
”نہیں! میں نے تمہیں address، بہن، بھائیوں اور ہر چیز کے بارے میں بتاتے ہوئے جھوٹ بولا تھا۔”
”مگر کیوں؟” بلال نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔
”صدف کی دوست کی شادی میں جب تمہاری میری ٹکر ہوئی تھی اور بعد میں جب ڈھول کی تھاپ پر تم رقص کررہے تھے، تب مجھے تم بہت کیوٹ لگے۔ اس زمانے میں میرے لیے ہر چیز نئی تھی، یہ آزاد ماحول، اس شہر کے لوگ۔” انعم نے بات ادھوری چھوڑی۔
”لیکن تم اب یہ سب کچھ مجھے کیوں بتا رہی ہو؟ کون ہو تم؟ اور کیا ہے یہ سب؟” بلال نے چہرے پر موجود پسینے کو ہاتھ کی ہتھیلی سے صاف کیا۔
”تم ڈانس کرتے ہوئے آرہے تھے۔ صدف کی نظر تمہارے بھائی پر تھی اور میری نجانے کیوں تم پر۔ ڈانس کرتے ہوئے تمہارا موبائل نیچے گرا۔ ہجوم میں تم آگے بڑھ گئے اور میں نے تیزی سے تمہارا موبائل اٹھا کر اپنا نمبر ڈائل کیا اور پھر تمہیں یاد ہے میں تمہیں تمہارا موبائل دینے سٹیج تک آئی تھی؟” بلال نا سمجھی کی کیفیت میں اسے دیکھ رہا تھا۔
”اتنا جھوٹ کیوں؟” وہ تڑپ سا گیا تھا۔
”مجھے ڈر لگتا تھا۔ تم یقین کر ونہ کرو، تم میری زندگی میں آنے والے تم پہلے شخص تھے۔ مجھے اچھا لگتا تھا جب تم مجھے بنا جانے پکارتے تھے؟ ایسا لگتا کہ مجھے کسی اپنے نے پکارا ہے۔” وہ اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھی مگر بلال نے اپنا سر تھام لیا۔ اب اس میں مزید سننے کی سکت نہیں تھی۔
٭…٭…٭
محسن کی دوستی سے اُسے ہر مہنگی چیز ملتی مگر اسے فیس ادائی کے لیے ٹیوشن کی ضرورت تھی۔ ابو کے بھیجے پیسوں سے وہ ہوسٹل کے اخراجات ادا کردیتی۔ جب وہ پہلی بار بلال سے ملی تو وہ خاصی مایوس ہوئی تھی۔ وہی مڈل کلاس فیملی کا struggler۔ مگر بلال سے اس کا رابطہ اس لیے مضبوط ہوگیا کہ وہ کوئی ڈیمانڈ نہیں کرتا تھا۔ بس ایک انتہائی احساس کرنے والے ساتھی کی طرح ہر وقت اس کے ساتھ رہتا۔ ایسا نہیں تھا کہ محسن اسے ٹیوشنز نہیں دلواسکتا تھا۔ وہ شاید اس سے بھی مہنگی دلوادیتا، مگر محسن اور بلال میں فرق تھا۔ محسن کو اس نے خوابوں کی سیڑھی کی طرح استعمال کیا تھا۔ اگر وہ اسے ٹیوشنز کا کہتی تو وہ اسے کبھی بھی نہ کرنے دیتا بلکہ بغیر کہے ہر ماہ اس کی مٹھی پر ایک بھاری رقم رکھ جاتا جس کا معاوضہ وہ راتوں میں سود کے ساتھ وصول کرتا۔ اس لیے اس نے بلال کو استعمال کیا جو معصوم لڑکا اسے اپنی محبت کہتا تھا۔ جتنی دیر وہ ٹیوشنز پڑھاتی۔ وہ کبھی سڑک ، کبھی پارک میں اور کبھی گیراج میں گھنٹوں بیٹھا رہتا اور بدلے میں صرف چند میٹھے بول۔ انعم بلال سے سب کچھ چُھپا سکتی تھی، مگر بلال کا اس کی زندگی میں عمل دخل اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس نے حفظِ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی سب کچھ بتا دیا۔
بلال کو قابو کرنا انعم کے لیے مشکل نہ تھا۔ چند کالز، کچھ میسجز، جینے مرنے کی قسمیں اور پھر زندگی کی وہی ڈگر۔ وہ اکثر ہنس کر کہتی:” بلال تو بچہ ہے۔ کھلونے کی آس میں ہی بہل جاتا ہے۔
”یہ لڑکا کون ہے جو تمہیں اپنی ٹوٹی پھوٹی بائیک پر شہر کی گلیوں میں گھماتا پھراتا ہے؟” محسن کے سوال پر انعم بری طرح چونکی تھی۔ اس کے منہ سے جھوٹ بھی اتنی صفائی سے نکلتا تھا کہ اچھا خاصا سمجھ دار بندہ بھی اس پر اعتماد کرلیتا، مگر اس بار مقابل محسن تھا۔
”رشتہ دار۔” انعم نے اپنا تمام خوف چھپاتے ہوئے کہا جس پر محسن اسے کافی دیر تک گھورتا رہا۔
”اُسے صرف رشتے دار ہی رہنا چاہیے۔” محسن تیزی سے کہتا ہوا انعم کو تانے بانے میں الجھتا چھوڑ کر چلا گیا۔
٭…٭…٭
حسبِ معمول انعم بچوں کو ٹیوشن پڑھانے گھر میں داخل ہوگئی اور بلال نے وقت گزاری کے لیے اس سے ضد کرکے اس کا موبائل لے لیا۔ وہ Candy Crush کھیلنے میں برُی طرح مگن تھا جب ”محسن” نامی لڑکے کے میسجز آنا شروع ہوگئے۔ ان میسجز میں ہونے والی باتیں اور بے تکلف زبان نے بلال کو ہوش و حواس سے بیگانہ کردیا اور انعم کے باہر نکلتے ہی اس نے انعم پر چڑھائی کردی۔
”دیکھو بلال! وہ صرف صدف کا بھائی ہے۔” انعم اس کو یقین دلاتے دلاتے تھک گئی تھی۔
”کیا بھائیوں سے ایسی زبان میں بات کرتے ہیں۔” بلال درشت لہجے میں تقریباً دھاڑتے ہوئے بولا۔ ابھی ان دونوں کے درمیان بحث و تکرار کا سلسلہ جاری تھا کہ انعم کے موبائل پر دوبارہ محسن کے میسجز آنا شروع ہوگئے۔
”اب یہ کیا ہے؟ بول دو کوئی جھوٹ۔ کبھی نام کا جھوٹ کبھی پہچان غلط! جب تم جانتی ہو۔ تمہیں مجھ سے اور مجھے تم سے محبت ہے تو پھر تمہیں کسی اور تعلق کی کیا ضرورت ہے” موبائل پر دوبارہ New Message کا نوٹیفکیشن آیا۔
”محبت اور وہ بھی تم سے؟” انعم کے لہجے میں طنز تھا۔
”محبت تو شاید مجھے محسن سے بھی نہیں ہے، مگر مجھے زندگی میں کبھی تمہیں اور محسن میں سے کسی ایک کو چننا پڑا تو یہ بات طے ہے کہ میں محسن کو تم پر ترجیح دوں گی۔”
اُس دن کے بعد بلال کا کوئی میسج نہیں آیا۔ ایک طرح سے سکون تھا، مگر اسے اس کی عادت سی ہوگئی تھی۔ اب اُسے خود ہی بینک جانا پڑتا اور باقی سارے کام جو بن کہے بلال کردیتا تھا، اسے وہ سب خود کرنا پڑتے۔
٭…٭…٭
”آپ سے کوئی ملنے آیا ہے؟” ہاسٹل کی آیا نے آکر پیغام دیا۔
”اس وقت؟” اس وقت گھڑی رات کے دس بجا رہی تھی۔
”ابو اور اسد تو ہو نہیں سکتے۔ توپھر ہے کون؟ اور میڈم نے اجازت دے دی اس وقت؟” وہ بہت تھکی ہوئی تھی۔ بلال کی ناراضی نے رکشوں کے دھکے دوبارہ یاد کرا دیے تھے۔ وہ انتہائی بکھرے حلیے میں ویٹنگ روم میں داخل ہوئی۔
”آپ؟” وہ برُی طرح چونکی تھی۔
”جی! السلام علیکم۔” سامنے موجود خاتون نے دھیمے سے لہجے میں سلام کیا۔
”آنٹی آپ؟”
”ہاں بیٹا! اگر میں غلط نہیں تو آپ ہی انعم ہو، میں بلال کی امی ہوں۔” ادھیڑ عمر عورت نے بھیگی ہوئی آواز میں کہا۔
”جی آنٹی! آپ یہاں خیریت ہے۔” وہ بلال کی ماں بلکہ پورے خاندان کو تصویروں میں دیکھ چکی تھی۔
”بیٹا آپ کا اور بلال کا کوئی جھگڑا ہوا ہے؟” انہوں نے پوچھا۔
”جی وہ بس…” اس نے نظریں چرا کر کہا۔
”بیٹا! جس رات آپ کا بلال کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اس نے خود کشی کی کوشش کی۔ اس نے نیند کی گولیاں زیادہ مقدار میں کھالی تھیں۔” یہ جملہ مکمل ہونے پر وہ اپنے آنسوؤں پر ضبط نہ کر پائیں۔
”What?” وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی۔
”Is he alright?” انعم کا لہجہ اس کی حیرانی اور پریشانی کا گواہ تھا۔
”بیٹا اسے ہوش آگیا ہے۔ پہلے سے بہتر ہے، مگر…”
One Comment
…Keep it up Ma’am ………………………………………..Excellent as well as amazing