میں، محرم، مجرم — افراز جبین

بیٹیاں تو اپنی رخصتی کے بعد بھی ماں باپ کی فکروں میں رہتی ہیں، رخصت ہو بھی جائیں تو بھی ماں باپ کی پریشانیاں رخصت نہیں ہوتیں۔ فرخندہ بیگم کو بیٹیاں بیاہنے کی جتنی جلدی تھی، ان کی رخصتی کے بعد سب سے زیادہ اداس بھی وہی تھیں۔ گھر بھر میں خاموشی سی چھا گئی۔ بہنوں کے پردیسی ہونے پر بلال جو پہلے خوش تھا، اب سب سے زیادہ اداس بھی وہی تھا۔ اس کی شام و سحر بغیر کسی کو چھیڑے گزرتی ہی نہ تھیں۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر فرخندہ بیگم نے اس کی خوب منت سماجت کرکے ایک قریبی پرائیویٹ سیکٹر میں اس کا انٹرمیڈیٹ میں ایڈمیشن کروا دیا۔ بلال پڑھائی تو کیا، زندگی میں کوئی بھی کام سنجیدگی سے نہ کرتا۔ خیر! بہت دھکے سے انٹرمیڈیٹ بھی ہو ہی گیا۔
احمد علی ریٹائر ہوگئے۔ فرخندہ بیگم کے گھٹنوں میں درد رہنے لگا۔ عثمان، سلمیٰ اور فاخرہ کے پاس امریکا چلا گیا۔ علیشبہ اور اکبر دونوں پڑھائی میں اچھے تھے۔ احمد علی کی پنشن، عثمان کے بھیجے ہوئے پیسے اور اکبر کی پارٹ ٹائم جاب سے مالی حالات میں قدری بہتری آگئی تھی۔ زندگی میں اب تھوڑا سا سکون تھا۔ اس پر سکون زندگی میں ایک بلال میاں ہی تھے جو اپنی حرکتوں سے گھر سر پر اُٹھائے رکھتے۔ احمد علی اور فرخندہ بیگم سر پکڑ کر رہ جاتے۔ احمد علی کو اب بڑھتی عمر نے نہایت ہی کم زور کردیا تھا۔ وہ آئے روز بیمار رہنے لگے۔ فرخندہ بیگم کو ان کی طرف سے ہر وقت دھڑکا ہی لگا رہتا۔ ایسے میں بلال کی حد سے زیادہ بے پروائی انہیں بے حد پریشان کردیتی۔ اسی کش مکش میں امریکا سے ایک روز عثمان بنا بتائے ملنے چلا آیا۔ پردیسی بابو کا رنگ روپ دیکھ کر فرخندہ بیگم کے دل کو جہاں تسکین ملی وہاں احمد علی کے کم زور ہوتے شانوں کو ایک سہارا سا مل گیا۔ عثمان چھٹیوں پر آیا تھا۔
”گھر بھر کے لیے تحفے، چاکلیٹس، آئی پیڈ اور نجانے کیا کچھ اٹھا لائے ہو؟” فرخندہ بیگم ہر روز یہی کہتیں اور وہ صرف تھکی تھکی ہنسی ہنس کر خاموش ہوجاتا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ان کے دل میں بہولانے کا ارمان جاگا۔
”عثمان بیٹا اگر تمہیں کوئی پسند نہیں تو میں خود تمہارے لیے کوئی ڈھونڈوں!”




”کیا چیز امی؟” عثمان اور وہ اس وقت کمرے میں اکیلے ہی تھے جب انہوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر بیٹے کے دل کی بات معلوم کرنا چاہی۔
”بیٹا چیز نہیں! لڑکی… تمہارے لیے۔”
”امی! بھائی کے لیے آپ پریشان نہ ہوں ایک دن آپ کو ایک فون آئے گا اور وہ آپ کو بتائے گا کہ آپ کا عثمان احمد دلہا بن کر نہایت ہی خوب صورت لگ رہا ہے ایک انگریز حسینہ کے ساتھ۔ پھر ڈھیر ساری تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ ہوں گی۔” بلال جو کہانی کو مزید آگے گڑھتا کمرے میں داخل ہوا، فرخندہ بیگم نے پاس رکھا پلاسٹک کا گلاس اس کے منہ پردے مارا۔
”تم کہاں سے آگئے؟ بات کرنے دو بھائی سے۔ ہر وقت ہر بات میں ٹانگ اڑانا ضروری نہیں۔” مگر وہ بلال ہی کیا جو ایک دفعہ منع کرنے پر باز آجائے اور خاموشی سے ٹل جائے۔ وہ وہیں ماں کے پاس ہی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”امی ابھی نہیں، پہلے ہم اپنا گھر بنالیں۔ ویزے اور پاسپورٹ کے لیے جو قرضہ لیا تھا ابھی اس کی بھی ادائی نہیں ہوئی ہے۔” عثمان نے دھیرے سے مگر بہت ہی ٹھوس لہجے میں کہا۔ فرخندہ بیگم بیٹے کی سمجھ داری اور ذمے داریوں کے احساس پر روہانسی سی ہوگئیں۔
٭…٭…٭
رقیہ بانو کے جانے کے بعد زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آگئی۔ گھر کی دیواریں اب بھی اُداس تھیں۔ بچے اسکول کالج چلے جاتے۔ واپس آکر انعم اور دونوں چھوٹی بہنیں صفائی کرتیں اور کھانا پکاتیں۔ جلدی جلدی میں کبھی روٹی کا کنارہ کچارہ جاتا اور کبھی چاولوں میں نمک کم ہوجاتا۔ ذیشان صاحب تو بیٹیوں کی مدد کرتے اور ان کو امورِ خانہ داری سکھاتے مگر اسد اپنے اکلوتے پن کا مکمل فائدہ اٹھاتا۔ کھانوں میں بلاوجہ نقص نکالتا اور باہر کا کھانا بہنوں کو چڑا چڑا کر کھاتا۔ بہن بھائیوں کی نوک جھوک سے گھر میں پھیلی اداسی لمحے بھر کو کم ہوجاتی۔ کسی بات پر رقیہ بانو کا ذکر نکل آتا اور غم کی چادر پھر اس گھر کے مکینوں کو اپنے حصار میں لپیٹ لیتی۔
٭…٭…٭
مدثر کے شام وسحر اب بدل رہے تھے۔ وہ صبح دیر سے اٹھتا، کچھ دیر آفس میں گزارتا اور اکثر رات کو نشے کی حالت میں دھت دیر سے گھر داخل ہوتا ۔ اس کی حالت اتنی ابترہوتی کہ انعم چاہ کر بھی اس کے کمرے میں نہ جاپاتی۔ اکثر اذانوں کے وقت اس کے دوست اس کو ڈراپ کر جاتے جو خود بھی جوانی اور نشے کے جوش میں ہر فرق کو بھولے ہوئے ہوتے۔ انعم کبھی اس کا موڈ اچھا دیکھتی تو اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی، مگر وہ سنی ان سنی کردیتا اور کبھی اٹھ کر ہی چلا جاتا۔
”اگر آج کے بعد آپ میرے کمرے میں آئیں یا میرے کسی بھی معاملے میں مداخلت کی تو میں آپ کو کمرے سے نکال دوں گا، سمجھیں آپ؟” انعم مصلے پر بیٹھی اپنے گناہوں کی معافی کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہی تھی جب مدثر کمرے میں آکر اس پر دھاڑا۔
”It’s my life آپ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں…” اس نے چلاتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔
”تمہارے باپ کو بھی مجھ سے یہی گلہ تھا۔ کیا میرا اتنا بھی حق نہیں کہ تمہیں صحیح یا غلط کے بارے میں سمجھا سکوں۔” وہ خالی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر بڑبڑائیں۔
وہ اس کا جواب سُنے بغیر ہی دروازہ زور سے بند کرتا ہوا باہر چلا گیا۔
٭…٭…٭




انعم اور اسد باقی دونوں بہنوں کے مقابلے میں پڑھائی میں اچھے تھے۔ اسد نے انٹر کے لیے لاہور جانے کی اجازت مانگی تو انعم نے بھی لاہور کی کسی یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کی ضد پکڑلی۔ ذیشان صاحب کی یہ مرضی ہرگز نہ تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ انعم کی شادی رقیہ بانو کی بہن کے بیٹے سے ہوجائے اور وہ اس فرض سے سبک دوش ہوجائیں۔
”لڑکیوں کے لیے انٹر تک تعلیم کافی ہے انعم۔”
”ابو! میں ہرگز اس موٹے سے شادی نہیں کروں گی اور خالہ کا گھر کتنا چھوٹا ہے صرف تین کمرے ہیں۔” انعم نے ناک بھوں چڑاتے ہوئے کہا۔
”بیٹا ہمارا گھر کون سا محل ہے۔ یہ سب نصیبوں کی باتیں ہوتی ہیں۔” ذیشان صاحب کو اپنی بیٹی کی بات پر قدرے حیرانی ہوئی۔
”تین مرلے کے گھر میں رہنے والوں کا نصیب بھی کھوٹا ہی ہوتا ہے۔” انعم نے باپ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”انعم! تمہارے دماغ میں یہ سب خرافات کہاں سے آگئی ہیں؟” انہوں نے شکوہ کناں نگاہوں سے بیٹی کو گھورا۔
”ابو! انسان کو زندگی میں آگے بڑھنا چاہیے۔ مجھے آگے بڑھنا ہے، پڑھنا ہے اور کچھ بننا ہے۔ اگر آپ میری شادی کردیں گے تو میں کچھ نہیں کر پاؤں گی۔ ابو پلیز! مجھے ایک چھوٹے سے گھر سے مزید چھوٹے گھر میں نہیں جانا۔ پلیز ابو آپ مجھے سمجھیں۔”
”لیکن تمہارا اور اسدکا خرچہ۔ گھر کا خرچہ اور پھر دونوں چھوٹیوں کا خرچہ، میں ان سب میں کچھ کمی نہیں کرسکتا۔ ابھی تم لوگوں کی…”
”ابو میں کر لوں گی۔ میں ٹیوشن پڑھا لوں گی، جاب کرلوں گی۔ یونیورسٹیز میں اچھے مارکس آجائیں تو سکالرشپ بھی لگ جاتی ہے۔ فیس میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔ ابو پلیز بس آپ مان جائیں نا۔” وہ ذیشان صاحب کو راضی کرنے کے لیے ہر حربہ آزما رہی تھی۔
کئی دن کی بحث دتکرار کے بعد بالآخر ذیشان صاحب نے ہار مان لی۔ اسد اور انعم لاہور آگئے۔
انعم اور اسد لاہور آکر الگ الگ ہاسٹلز میں رہنے لگے۔ اسد لاہور کی فضا میں ایسا ڈھلا کہ صرف عید کی چھٹیوں پر ہی میانوالی جاتا، باقی ساری چھٹیاں دوستوں کے ساتھ لاہور میں گزارتا۔ اس کے نمبرز اور Over all پرفارمنس بہت اچھی جارہی تھی۔ کالج کے ٹیچرز اس سے مطمئن تھے تو ذیشان صاحب بھی ذرا نرمی ہی رکھتے۔
جہاں تک انعم کا سوال تھا۔ وہ ایک آزاد پنچھی کی طرح اُڑنا چاہتی تھی۔ لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر اس نے اپنے خوابوں کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا مگر اس کی خوابوں سے بھری آنکھیں اکثر نم ہوجاتیں جب وہ اپنے اردگرد یونیورسٹی میں لڑکیوں کو برانڈڈ اور جدید کپڑوں میں دیکھتی۔ اکثر کے پاس نئے موبائل ہوتے اور وہ بھی جدید ماڈلز کے۔ خوب صورت تراش خراش والے بالوں اور چست جینز میں ملبوس لڑکیاں جب لڑکوں کے ساتھ کینٹین سے گزرتیں اور باقی ادھر ادھر بیٹھے لڑکے سر سے پیر تک ان کا ایکسرے کرتے تو اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ وہ بھی ہر روز اتنا ہی تیار ہوکر یونیورسٹی آئے۔ کوئی لڑکا اس کے ساتھ چل رہا ہو اور کوئی اسے ساتھ چلانے کا خواہش مند ہو، مگر ایک سادہ سا برقع دیتے ہوئے ابو نے اُسے ہر جگہ پہن کر جانے کی تلقین کی تھی۔ اس میں تو اس کا وجود اس طرح چُھپ جاتا کہ کلاس کے لڑکے اسے ”کالی دنیا” کہہ کر پاس سے گزر جاتے۔
٭…٭…٭
”بھائی! میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟ مجھے مہندی کا فنکشن بہت اچھا لگتا ہے۔ سلمیٰ اور فاخرہ آپی تو مجھے ہرجگہ اپنے ساتھ لے جاتی تھیں، آپ بھی لے چلیں۔” بلال صبح سے عثمان کے پیچھے پیچھے تھا۔ عثمان کے ایک دوست کی شادی تھی اور اس کے بے حد اصرار پر اس نے واپسی کے دن بھی آگے بڑھا دیے تھے اور اب بلال اس کے سر پر تھا۔
”مجھے بھی جانا ہے، میں بور ہورہا ہوں، بھائی، پلیز لے چلیں نا۔” اس نے معصوم سی شکل بنا کر کہا تو عثمان کا دل بھی پسیج گیا۔
”اچھا چلو! مگر وہاں زیادہ اوور نہ ہوجانا۔ علی کے ابو تھوڑے غصّے والے ہیں مگر پہلے اپنے بال کٹواؤ ڈاڑھی مونچھیں سب ٹھیک کرواؤ پھر چلتے ہیں۔”
”اوکے!” بلال خوشی سے چھلانگیں لگاتا تیاری کرنے لگا۔ جتنا بلال خوش تھا، اتنا ہی احمد علی کا بی پی ہائی ہورہا تھا۔
”آپ کو کیا ہورہا ہے؟ کیوں اپنی طبیعت خراب کررہے ہیں؟” فرخندہ بیگم ان کو بار بار پہلو بدلتے دیکھ کر جھنجھلائیں۔
”صبح یونیورسٹی جاتے ہوئے تو اس کی آنکھ کھلتینہیں ، پہلے سمسٹر میں تین مضامین میں فیل ہیں جناب اور کسی پرائے کی شادی میں جانے کے لیے ان کی خوشیاں دیکھو۔”
”بچہ ہے، خوش ہونے دیں۔” وہ بڑبڑائیں۔
”عثمان سے کہوں گا اس کو سمجھائے کچھ۔ اکبر بھی اس کا ہی بھائی ہے۔ مجال ہے جو کبھی اس نے شکایت کا موقع دیا ہو۔ کتنے عرصے سے وہ پارٹ ٹائم جاب کررہا ہے۔ علیشبہ لڑکی ہوکر بھی اتنی محنتی ہے اور یہ…” انہوں نے کسی قدر فکر مندی سے کہا تو فرخندہ بیگم سر جھٹک کر وہاں سے اُٹھ گئیں۔
٭…٭…٭
”اس کے بازو بہت چھوٹے ہیں صدف! میں نے ایسے کپڑے کبھی نہیں پہنے۔” اس نے منہ بنایا۔
”میرے پاس کوئی شادی میں پہننے والا جوڑا نہیں ہے۔ میں اس بار گھر جائوں گی تو کچھ فینسی کپڑے لے آؤں گی۔” انعم نے التجائیہ انداز میں صدف سے کہا۔
”تم چُپ کرکے یہ پہنو اور تیار ہوجاؤ۔ محسن باہر انتظار کررہا ہے اور ہمیں دیر ہورہی ہے۔” صدف ہاسٹل میں نئی لڑکی تھی۔ جگہ کم ہونے کی وجہ سے اسے انعم کے ساتھ کمرا شیئر کرنا پڑرہا تھا۔
صدف ایک نہایت ہی ہنس مکھ، ملنسار اور باتونی لڑکی تھی۔ جلد ہی اس کی انعم سے دوستی ہوگئی۔ حسنِ اتفاق دونوں کی یونیورسٹیز بھی ایک تھیں مگر فیلڈز مختلف۔ آج صدف نے اپنی دوست کی مہندی پر جانا تھا اور وہ انعم کو ساتھ لے کر جانا چارہی تھی۔ اسے ساتھ لے جانے کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ میڈم اکیلی لڑکی کو رات کا فنکشن اٹینڈ کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں، اس لیے اس نے انعم کو راضی تو کر لیا تھا مگر اب انعم کپڑوں کی وجہ سے تھوڑا پریشان تھی۔ صدف نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنے ایک جوڑے سے اسے نوازا۔ پہلے خود فرصت سے تیار ہوئی اور پھر انعم کو بھی تیار کردیا۔ دونوں سہیلیاں بڑی بڑی چادریں لپیٹ کر ہاسٹل سے باہر نکلیں۔ محسن اُن کا گاڑی میں انتظار کررہا تھا۔ وہ انعم کی اطلاعات کے مطابق یا کم از کم صدف کا بھائی تھا، اس نے یہی بتایا تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی صدف نے چادر اتار کر پیچھے پھینک دی۔




Loading

Read Previous

کباڑ — صوفیہ کاشف

Read Next

موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

One Comment

  • …Keep it up Ma’am ………………………………………..Excellent as well as amazing

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!