میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

”آج رات کو تمہارا نکاح ہے ارمغان کے ساتھ، تھوڑی دیر تک بیوٹیشن آجائے گی تمہیں تیار کرنے کے لیے۔” امی نے روکھے سے انداز میں مجھے اطلاع دی تو میں حیرت سے انہیں دیکھ کر ہ گئی۔
”ارمغان سے؟”
”ہاں احسان کر رہا ہم پر تمہیں اپنا کے۔ قیامت تک کے لیے مقروض ہو گئے ہیں اس کے ہم تو۔” امی کی آنکھوں میں ہنوز ناراضی تھی۔
”امی کیا آپ بھی یہی سمجھتی کہ میرا کردار داغ دار ہے؟” میں نے روہانسی ہوتے ہوئے پوچھا۔
”ہمارے یقین نہ کرنے سے کیا ہو گا؟ عظام کی بات سب کے لیے وزن رکھتی ہے۔”
”اور میں لڑکی ہوں اِس لیے سچ بول کے بھی موردِالزام ٹھہری ہوں؟”
”میں کوئی بحث نہیں سننا چاہتی۔ ارمغان کا احسان مانو اور اسے کبھی دھوکا نہ دینا جیسے عظام کو دیا۔” امی کے جلتے الفاظ میرا سینہ اور بھی چھلنی کر گئے۔ اپنی بر باد قسمت پر نوحہ کناں ہونے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
٭…٭…٭
مجھے یقین تھا کہ جب میں ارمغان کو ساری حقیقت بتائوں گی تو وہ ضرور مجھے سمجھے گا۔ وہ عظام کی طرح غصیلا اور جلد باز نہیں تھا۔ سہمی دھڑکنوں کے ساتھ میں ارمغان کے کمرے میں بیٹھی تھی۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو دل کی دھڑکنیں معمول سے زیادہ تیزہو گئیں۔ میں خوف زدہ تھی کہ وہ میرے ساتھ کس انداز میں پیش آئے گا۔
”میں نے جب سے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا، تو دل میں تمہاری محبت کا ستارہ جگمگاتے دیکھا۔ اِس سے پہلے کہ اپنے بے قرار دل کی بے تابیاں تم سے بیان کرتا، تم عظام کا ہاتھ تھام چکی تھیں۔ میں نے اپنے دل کو صبر کی مضبوط سل رکھ کے اس میں اٹھتے جذبات کو دبادیا، لیکن قسمت دیکھو، تم میرے مقدر میں لکھی تھیں، لیکن بدنامی کا بد نما ٹیکا اپنے ماتھے پر سجا لینے کے بعد۔ مجھے اس بے داغ وریشہ سے محبت تھی جو پاک دامن تھی، لیکن آج جو وریشہ میرے سامنے بیٹھی ہے اِسے میں سوائے نفرت کے کچھ نہیں دے سکتا اور نہ ہی اِس سے زیادہ تم مجھ سے کوئی امید رکھنا ۔” یہ کہہ کر وہ نفرت سے منہ پھیر کر لیٹ گیا۔ میں اسے یقین دلاناچاہتی تھی کہ میرا دامن پاک ہے اور یہ کہ میں عمر بھر اس کے اعتبار کو نہیں ٹوٹنے دوں گی ۔میں یہ عزم لے کرنکاح کرنے کو تیار ہوئی تھی کہ اسے عزت کے ساتھ ساتھ محبت دینے کی بھی کو شش کروں گی، مگر وہ مجھے اپنالینے کے بعد بھی ٹھکرا کے سو چکا تھا۔
وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ بڑے ماموں کا کیا لگتا تھا؟یہ سوال بچپن میں میرے معصوم ذہن میں کلبلاتے تھے کیوں کہ امی بتاتی تھیں کہ وہ میراسگا کزن نہیں ہے، لیکن بڑے ماموں ،ممانی اور مریم آپی اس سے بے حد محبت کرتے تھے۔ مریم آپی بڑے ماموں کی ایک ہی بیٹی تھیں۔ پھر پتا چلا کہ ارمغان بڑے ماموں کو زخمی حالت میں ملے اور ان کا علاج کروانے کے بعد وہ انہیں گھر لے آئے تھے۔ تین سالہ ارمغان کوممانی نے جب گود میں لیا، تو جیسے ان کے بیٹے کی خواہش پوری ہوگئی، لیکن ماموں نے ہر اخبار، ٹی وی اور ریڈیو پر اشتہار دیے اور کئی دن تک دیتے رہے۔ جب کوئی انہیں لینے نہ آیا، تو انہوں نے ارمغان کو اپنے بیٹے کے طور پر اپنا لیا۔ ارمغان جیسے ہی بڑا ہوا، اسے علم ہوگیا کہ وہ بڑے ماموں کا سگا بیٹا نہیںہے، لیکن پھر بھی وہ ماموں اور ممانی کو اپنے والدین کی طرح سمجھتا اور مریم آپی کی بڑی بہن کی طرح عزت کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔ میرے دل نے مجھے یہ باور کروا دیا تھا کہ وہ میرے لیے کوئی خاص جذبہ رکھتا ہے، مگر عظام کے لیے میری پسندیدگی جان کر وہ خاموش ہو گیا۔ میرا گمان تھا کہ شاید میرے ساتھ رہنے سے اس کا جذبہ پھر سے بے دار ہو جائے اور وہ میری بے گناہی کا یقین ہو جانے کے بعد اپنے دل میں میرے لیے گنجائش پیداکر لے گا۔ میں خوش گمانیوں سے اِس لمحے اپنے دل کے ویران گوشوں کو منور کرنے کی کوشش کررہی تھی، مگرڈیڑھ سال بعد بھی مجھے وہ لمحہ میسر نہیں آیا کہ ارمغان کے دل اور آنکھوں میں اپنے لیے چاہت کی ہلکی سی رمق بھی دیکھ پاتی۔ وہ اُلٹا اپنے آفس کی لڑکیوں کو لیے گھومتا رہتا، صرف اور صرف میرا دل جلانے اور مجھے دکھ پہنچانے کے لیے۔ اس کی بے اعتنائی اور جھگڑوں سے اپناذہن ہٹانے کے لیے میں نے اولڈ ایج ہوم میں جاب کرلی۔ یہاں مہربان بن کے ریحان مجھے مل گئے۔ وہ نہ جانے کب اور کیسے مجھے چاہنے لگے۔ میرے گال پر ارمغان کے تھپڑ کا گہرا نشان دیکھ کر انہوں نے اپنائیت سے پوچھا، تو نہ جانے انہیں کیوں میں وہ سب درد انہیں بتاتی رہی جو اتنے عرصے سے میرے اندر انگاروں کے مانند سلگ رہے تھے۔ ان کے دیے حوصلے سے میں خود کو اذیت کی گہرائیوں سے نکال پائی تھی ۔اب میں ایسے مطمئن رہتی تھی کہ ارمغان بھی میرا بدلا ہوا رویہ دیکھ کے حیرت سے مجھے تکتا رہ جاتا۔
٭…٭…٭




”وریشہ تم چاہے جانے کے قابل ہو، یوں بے مول ہونے کے لیے نہیں ہو۔” ریحان، ارمغان کے ساتھ رہنے کے میرے حتمی فیصلے کو جان کر مجھے سمجھاتے ہوئے بولے۔
”سر! جب قسمت نے اس کا ساتھ لکھ دیا ہے، تو میں کیسے قدرت کے اِس فیصلے کے خلاف جاسکتی ہوں؟” میں نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے کہا۔
”پاگل مت بنو! اس کے ساتھ گزرے لمحات ڈرائونے خواب کی طرح بھول جائو۔ آگے بڑھو، تمہیں ایک ایسے انسان کا ساتھ ملنا چاہیے جو سچی نیت اور دل سے تمہیںچاہے۔” ان کا اشارہ اپنی طرف تھا۔
”میں آپ کے جذبات کی قدر کرتی ہوں سر، لیکن میں نہیں چاہتی کہ کل کو آپ کہیں کہ جو عورت میرے لیے اپنا شوہر چھوڑ سکتی ہے وہ اور کیا کیا نہیں کر سکتی؟ مجھے ارمغان ہی قبول ہے۔ اس کی آنکھوں سے کبھی تو نفرت اور کدورت کے بادل چھٹیں گے۔ ایک نہ ایک دن ان کے دل کے شیشے سے ساری دھول مٹ جائے گی۔ پھر انہیں میری پاکیزگی اور سچائی کا یقین ہو جائے گا۔”
”اوہ! تو میری غیر موجودگی میں یہاں محبت کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں ۔ بہت دن سے سن رہا تھا آس پڑوس سے کہ میرے آفس کے لیے نکلتے ہی تم گھر سے نکل جاتی ہو۔ آج تمہیں رنگے ہاتھوں پکڑ ہی لیامیں نے۔” ارمغان کی آواز پر میں گھبرا کے کرسی سے کھڑی ہو گئی۔
”آپ جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں پلیز اسے غلط مت سمجھیے گا، ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں تو بس یہاں…” میری بات ختم ہونے سے پہلے ہی وہ غصے سے میرے منہ پر زور دار طمانچہ جڑ چکا تھا۔ میں درد سے سسک کے رہ گئی۔
”مسڑ ارمغان! یہ میرا آفس ہے اور یہاں آپ کو ہمت کیسے ہوئی کہ…”
”خاموش! یہ میرا اور میری بیوی کا معاملہ ہے۔” ارمغان چلاتے ہوئے بولا۔
”لیکن یہ میرا آفس ہے اور میں آپ کو یہاں کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کی اجازت نہیں دے سکتا۔” ریحان نے بھی دو بہ دو جواب دیا۔ مسٹر اور مسز احتشام بھی آفس کے اندر آ کے صورتِ حال سمجھنے کی کو شش کر رہے تھے۔
”چلو تم میرے ساتھ گھر، تم نے آج ایک مرتبہ پھر میری نظروں میں خود کو بے اعتبار ثابت کردیا ہے۔” وہ مسز احتشام کے ہاتھوں سے میرا بازو چھڑاتے ہوئے بولا۔
”کون ہو تم بیٹا؟ کیا نام ہے تمہارا؟ احتشام دیکھیں! یہ لڑکا تو ہو بہ ہو آپ کی کاپی لگتا ہے۔” مسزاحتشام نے محبت سے ارمغان کے چہرے کو چھوتے ہوئے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”ہٹ جائیے راستے سے، کیا ڈراما کرنے کی کوشش کر رہی ہیں آپ؟”وہ میرے بازو کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے مسز احتشام سے بولا۔
”ارے بیٹا! آئینے میں خود کو دیکھ لو، اِس شخص سے تمہاری شکل کتنی ملتی ہے۔” وہ محبت سے ا س کے چہرے کو دیکھ کر بولیں۔
”بس کرو زرینہ! ایسے اتفاقات ہو جاتے ہیں، تم جو سوچ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے۔” مسٹر احتشام نے سنبھلے ہوئے انداز میں کہا۔
”یہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔”مسز احتشام نے یقین سے کہا۔
”راستہ دیں پلیز! اِس کے بعد اپنا ڈراما جاری رکھیے گا ۔”وہ اب تیوری چڑھا کے بولا۔
”تم جانے دو مگر میں اسے نہیں جانے دوں گی ۔” مسز احتشام نے مجھے اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا۔ تو ارمغان ایک غصیلی نگاہ مجھ پر ڈالتے ہوئے باہر نکل گیا۔ جب میں نے مسز احتشام سے ان کے بیٹے کی گم شدگی کاسنا اور انہیں ارمغان کاماموں کے گھر آنا، ان کا ہر جگہ اشتہار دینا اور کسی کا اسے نہ لینے آنے سے لے کر اس کی زندگی کی ہر چھوٹی بڑی بات ان لوگوں کو بتائی تو اگلے ہی دن انکل احتشام وہ سبھی پرانے اخبارات اٹھا لائے جس میں ارمغان کی گم شدگی کے حوالے سے انہوں نے اشتہارات دے رکھے تھے۔ یہ سب سُن کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ ارمغان ہی ان کا کھویاہوا بیٹا ہے۔
٭…٭…٭
احتشام صاحب اور ان کی مسز، ارمغان کے آفس میں آکر ہنگامہ کرنے کی اگلی شام ہی مجھے لے کر ارمغان کے پاس پہنچ گئے۔
”بہت جلد تنگ آ گئے اِس سے، کچھ دن تو پاس رکھ کے دکھاتے اِسے آپ لوگ۔” مجھے گھر کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر وہ روکھائی سے احتشام صاحب اور ان کی مسز سے بولا۔
”اندر آنے کو نہیں کہو گے ہمیں بیٹا؟”مسٹر احتشام نے نرمی سے پوچھا۔
”کل بڑی بی مجھے آپ سے مشابہت دے رہیں تھیں اور آج آپ مجھیبیٹا بنانے آ گئے؟” ارمغان نے نخوت سے کہا۔
”بیٹے کو بیٹا ہی کہیں گے نا ارمغان۔” ارمغان نے آنکھیں سکیڑ کر پہلے مجھے اور پھر اِن دونوں کودیکھا۔
”انکل احتشام بالکل سچ کہہ رہے ہیں ارمغان۔” یہ کہہ کر میں انکل اور آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر گھر کے اندر داخل ہو گئی اور ارمغان کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں ہمیں اندر جاتا دیکھ کر رہ گیا۔ انکل احتشام اور ان کی مسز نے اخبارات کا وہ تمام پلندہ ارمغان کے سامنے رکھ دیا۔ ارمغان پہلے تو بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھتا رہا اور حقیقت جان کر بے ساختہ ان کے گلے لگ گیا۔ بہت دیر تک اشکوں کی بارش میں تینوں کے بھیگتے رہنے کے بعد محبت کی قوسِ قزح سے ان کی آنکھیں اور چہرے جھلملا رہے تھے۔ آج کافی عرصے بعد میں ارمغان کے چہرے پر سچی خوشی اور مسکراہٹ سجی دیکھ رہی تھی اور دل سے اس کی خوشیاں قائم رہنے کی دعا کر رہی تھی۔
٭…٭…٭
بڑے ماموں اور ممانی، انکل آنٹی سے مل کر بے حد خوش تھے تو انکل اور آنٹی ان کے بے حد ممنون اور شکر گزار۔ فیملی کے سبھی افراد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دمک رہے تھے۔ وہ قدرت کے اِس معجزے پر حیران تھے، تو ساتھ ہی زبان پر شکر کے کلمات جاری تھے۔ ارمغان نے ہمیشہ اِس فیملی کی محبتوں اور احسانات کے بدلے میں ہمیشہ دیا ہی دیا تھا، لیا کچھ بھی نہیں تھا۔ مجھ سے شادی کے بعد ارمغان نے الگ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو ماموں نے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اسے تحفتاً دینا چاہا، تو اس نے انکار کر دیا، مگر ماموں نے اسلام آباد والی برانچ بہ دستور اسے سنبھالنے کو کہا جسے وہ محنت اور لگن سے کام یابی کی شاہراہ پر گامزن کیے ہوئے تھا۔ سب کے چہروں پر خوشی رقصاں تھی۔ اک میرا دل تھا کہ خوشی کے ساتھ ساتھ ارمغان کی نظر میں اک بار پھر گر جانے کے غم سے چور تھا۔
٭…٭…٭
صبح ہمیں اسلام آباد کے لیے واپس نکلنا تھا۔ سب ہی ہمیں گاڑی تک الودع کہنے جمع تھے۔ عظام کل ہی سے چپ چپ تھا۔ اسے اپنی جانب آتا دیکھ کر میرا دل ٹھٹکا کہ کہیں آج پھر سے کوئی ہنگامہ نہ کھڑا کر دے، مگر وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔
”مجھے معاف کر دو وریشہ! میں نے جو کچھ تمہارے ساتھ کیا، وہ غلط تھا۔ بہت ہی غلط۔ سب کے سامنے تمہیں بدکردار ظاہر کیا۔ اس دن غصہ میں، میں نے نہ جانے کیوں تمہیں اس گناہ کے جرم کی سزا دی جو تم نے کیا ہی نہیں تھا۔”وہ ہاتھ جوڑے اور آنکھوں میں آنسو لیے کہہ رہا تھا۔
”اب وہ گزرا ہوا قصہ بن چکا ہے۔ اس ناکردہ گناہ کی جتنی سزا میں نے بھگتنی تھی، بھگت لی۔ امید ہے کہ اِس خزاں زدہ موسم میں جلد ہی فصلِ گل کھلے گا۔” میں نے کن انکھیوں سے ارمغان کو اک نظر دیکھا جو عظام کو غصیلی نظروں سے گھور رہا تھا۔
”تمہارے نکاح کے دس دن بعد ہی اچانک میری فریحہ کے بھائی سے ملاقات ہوگئی۔ ساری سچائی ٹھنڈے دل سے سننے کے بعد مجھے تمہاری بے گناہی کا یقین آ گیا تھا۔ بہت چاہا کہ تمہیں کال یا میسج کر کے سوری بول دوں، مگر نہ ہمت تھی اور نہ ہی تمہارا سامنا کرنے کی سکت۔” وہ مجرم بنا نظریں جھکائے کھڑا تھا۔
”کاش یہ سچائی تم نے تھوڑی ہمت کر کیپہلے بتا دی ہوتی عظام تو میرے دل میں پنپتی وریشہ کے لیے نفرت اب تک محبت میں بدل چکی ہوتی ۔” ارمغان یہ سب ایک ہارے ہوئے انسان کی طرح کہہ کر گاڑی میں جا بیٹھا تھا۔ اس کی تقلید میں انکل، آنٹی اور میں بھی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے۔
راولپنڈی سے گھر پہنچنے تک ارمغان خاموش ہی بیٹھا رہا۔ بس کسی وقت انکل اور آنٹی کی کسی کسی بات کا جواب دے دیتا۔ گھر پہنچ کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نوٹ کر رہی تھی کہ وہ مجھ سے نظریں نہیں ملا پا رہا۔ رات کے دس بج رہے تھے، انکل اور آنٹی جب سونے کے لیے چلے گئے تو میں بھی اپنے کمرے میں چلی آئی۔ وہ کمرے میں اندھیرا کیے لیٹا تھا، لائٹ جلاتے ہی بولا:
”یہ لائٹ بند ہی رہنے دو وریشہ، میںتم سے نظریں نہیں ملا سکتا۔”
”لیکن مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ارمغان۔ ہاں اس بات کا دکھ ہے کہ آپ نے مجھے اپنی نظر سے نہیں بلکہ عظام کی نظر سے دیکھا۔ اس نے غصے میں آکر میرا کردار سب کے سامنے داغ دار کیا اور آپ اس کے کہے لفظوں پر ایمان لے آئے۔ آپ نے ماموں کی فیملی کے احسانات کے بوجھ تلے دب کر مجھ سے نکاح تو کر لیا، مگر میرے دامن پر لگے داغ کی وجہ سے مجھے دل سے قبول نہ کر سکے۔ آپ میرے سامنے نئی نئی عورتیں لاتے رہے، ان سے مسکرا کر باتیں کرتے رہے، مگر میں نے آج تک آپ کے کردار کو غلط نگاہ سے نہیں دیکھا ۔مجھے پتا تھا کہ آپ یہ سب مجھے دکھ اور تکلیف دینے کے لیے کر رہے ہیں۔” میں ارمغان کی آنکھوں سے بازو ہٹا کر بولی تو وہ بنا کوئی بات کیے نگاہیں جھکائے سنتے رہے۔
”میں بہت شرمندہ ہوں تم سے۔ میں ہر دعا، میں صرف تمہیں مانگا کرتا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا ممکن نہیں، مگر خدا سے مسلسل تمہیں مانگتا رہا۔ تمہاری منگنی عظام کے ساتھ ہونے کے بعد بھی بس تمہاری طلب تھی دل کو جو شب کے آخری پہر آنکھ کھلنے پر بھی میرے لبوں سے دعا کی صورت نکلتی تھی اور جب خدا نے تمہیں مجھے عطا کر دیا ،تو میں اس کی اِس نعمت کا شکر گزار ہونے کے بہ جائے اِس نعمت کے عطا ہونے پر نا شکری کرتا رہا۔ وہ ارمغان جسے زندگی کی کسی مشکل پر میں نیکبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، وہ آج میرے سامنے آنسوئوں سے تر چہرہ لیے اپنی محبت کا اعتراف کر رہا تھا۔
”جو ہونا تھا وہ ہو چکا ارمغان، ابھی وقت ہمارے ہاتھ سے نکلا نہیں ہے۔ ابھی خوشیوں اور محبتوں کے بہت سے پل ہمارے منتظر کھڑے ہیں ۔یہ رات نئی صبح کے ساتھ طلوع ہوگی اور ہماری محبت کا سورج کل آسماں پر جگمگائے گا ۔ بہار ہماری زندگی کو رنگ برنگ پھولوں سے مہکا دے گی۔” ہمیں رات کی اس تاریکی پر کڑھنے کی بہ جائے نئے طلوع ہوتے سورج کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔”میں نے اس کے ہاتھوں کو نرمی سے دباتے ہوئے کہا، تو اس کے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ در آئی۔
”اور خزاں کی اِس آخری رات میں، میں تم سے عہد کرتا ہوں کہ اب کبھی بھی تمہاری راہ گزر سے خزاں کے کسی موسم کو نہیں گزرنے دوں گا۔ ہماری زندگی میں اب بہار مسلسل ٹھہری رہے گی۔” اس نے محبت سے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے کہا، تو میں نے دل کی گہرائیوں سے ”آمین” کہا۔
وہ چاند جو ہمیشہ مجھے اپنی زندگی کے آسمان سے پرے لگتا تھا، آج کھڑکی سے اپنی چاندنی مجھ پر نچھاور کر رہا تھااور میں ارمغان کا ساتھ پا لینے پر اللہ کی شکر گزار تھی۔ بے شک وہی انسان کے لیے بہتر ہوتا ہے جو فیصلہ خدا اپنے کم زور اور ناتواں بندے کے لیے کرتا ہے ۔ انسان کی خوشی تو بس راضی رہنے میں ہی مضمر ہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!