میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

”اور غصہ؟ ماری جائے گی بے چاری۔”آپی نے کہا تو وہ شوخی سے بولا۔
”دیکھیے گا کیسے محبت سے رکھوں گا اسے، سب حیران رہ جائیں گے۔”
”ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ وہ تمہارا غصہ اور نخرا برداشت کر لے جو بھی ہو راج کرے میرے بھائی کے دل پر ۔” اس بار آپی محبت سے بولیں۔
”اور تیسری بہو کیسی لائیں گی اِس گھر کے لیے؟” ارمغان جو سب کے درمیان بیٹھے ہوئے بھی کہیں کھویا ہوا تھا، میری بات پر چونک کر مجھے دیکھنے لگا۔
”ارے ارمغان! تومیرا سپر ہیرو ہے، اِس کے ساتھ تو کوئی سپر گرل ہی سوٹ کرے گی۔ ہر لحاظ سے مکمل انسان ہے میرا بھائی۔” مریم آپی نے محبت سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا، تو اس کے لبوں پہ گہری مسکراہٹ پھیل گئی اور عظام تلملا کر رہ گیا۔
٭…٭…٭
”ارمغان آخر کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں آپ مجھ سے؟ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی؟ کچھ مجھے بھی پتا چلنا چاہیے۔” آج ارمغان کا اپنی دوست کے سامنے مجھے ڈی گریڈ کرنا میرا صبر کا پیمانہ چھلکا گیا۔
”مجھ سے یہ پوچھنے سے پہلے اپنے داغ دار ماضی میں جھانک لو۔ تمہیں خود ہی جواب مل جائے گا۔” وہ نفرت اور نخوت سے پھنکارتے ہوئے بولا۔
”بار بار میرے ماضی کا حوالہ دیتے ہو۔ عورت ہوں تب ہی زہر میں ڈبو ڈبو کے لفظوں کے وار کرتے ہو مجھ پر اور خود جو آوارہ اور بدقماش لڑکیوں کو مجھے اذیت پہنچانے کے لیے لاتے ہو، اپنے اِس عمل کو کیا کہو گے؟ تم مرد ہو،تب ہی تم سے پاک دامنی کا سوال نہیں کیا جاسکتا اور میں ایک عورت ہوں اِس لیے میرے ماضی کا تاریک ورق تم روز میرے سامنے ڈھٹائی سے کھولتے اور دہراتے ہو ۔آخر کیوں؟ عورت کا گناہ تو گناہ لگتا ہے تم مردوں کو، مگر اپنا دامن علی الاعلان ناپاک کر کے بھی پاک اور صاف دامن ہی کہلاوانا چاہتے ہو؟”
”اپنی زبان قابو میں رکھو بدذات عورت۔” اک زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر جڑتے ہوئے وہ دہاڑا اور اپنے ساتھ آئی لڑکی کا بازو پکڑ کر باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭




”ان گجروں کو ہمیشہ سنبھال کے رکھنا وریشہ۔ اِن گجروں میں مہکنے والی خوش بو ہماری محبت کی ہے اور میں چاہتا ہوں یہ خوش بو ہمیشہ تمہاری سانسوں کو مہکائے رکھے۔”
”تمہارا دیا ہوا ہر تحفہ میں ہمیشہ اپنی قیمتی متاع سمجھ کر سنبھال کے رکھتی ہوں عظام۔” وریشہ نے گجروں کی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارتے ہوئے کہا۔
”بس اک میری ذات اور میرے دیے تحفے ہی تمہارے لیے قیمتی متاع ہونے چاہئیں وریشہ۔ میں اپنی ذات کے ساتھ کسی قسم کی شیئر نگ برداشت نہیں کر سکتاجو چیز میری ہے، وہ بس میری ہی ہے پھر چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر کیوں نہ ہو جائے ۔”اس کی آنکھوں میں اپنا حق جتاتے ہوئے ہمیشہ ہی اک عجب سی جنونیت ہوتی جو مجھے دہلا کے رکھ دیتی۔
”میرے لیے بھی تم سے بڑھ کر نہ کوئی اہم ہے، نہ ہوگا۔” اس کی آنکھوں سے خوف زدہ ہوتے ہوئے میں نے اسے یقین دلایا۔
”ہونا بھی نہیں چاہیے، نہیں تو دونوں کو زمین میں زندہ گاڑ دوں گا۔” اس کا یہ نرالا روپ میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ہمارے رشتے کی بات طے ہو جانے کے بعد آج پہلی بار وہ مجھے گجرے دینے گھر آیا تھا۔ امی نماز پڑھ رہی تھیں اور ابو کسی دوست سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ اس کے مضبوط ہاتھوں میں جکڑی میری کلائیاں درد کرنے لگیں۔ میں چھڑانے کی سعی بھی نہیں کر پا رہی تھی۔
”وریشہ کچھ کھانے کو بھی دیا عظام کو یا نہیں؟” امی نے کمرے سے ہی آواز لگائی تو عظام نے ایک جھٹکے سے میری کلائیاں چھوڑ دیں۔
”پھپھو! بڑی کنجوس ہے آپ کی بیٹی، دیکھیے گا شادی کے بعد بھوکا ہی مارے گی مجھے۔” وہ کہتا ہوا امی کی طرف بڑھ گیااور میں اپنی کلائیاں سہلاتی رہ گئی۔
٭…٭…٭
”اِن سے ملو وریشہ ،مسڑ اینڈ مسز احتشام صدیقی۔”
”السلام علیکم انکل۔”میں نے ان کی جانب بڑھتے ہوئے سلام کیا۔
”جیتی رہو بیٹی۔”انہوں نے باری باری پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”آئو بیٹھو۔”مجھے آفس ساتھ چلنے کا اشارہ کر کے ریحان نے کمرے میں اندر داخل ہوتے ہی مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
”وریشہ! سر احتشام میرے ٹیچر ہیں۔ آج اگر میں یہ ادارہ چلا رہا ہوں، تو یہ صرف اِن کی تربیت کی وجہ سے ہے۔” ریحان نے عقیدت سے دونوں کو دیکھ کر کہا۔
”جزاک اللہ انکل! آپ نے بہت اچھے کام کی ترغیب دلائی سر ریحان کو۔”
”کل رات ہی سر اور میم عمرہ کر کے آئے ہیں، اپنے گھر کا آدھے سے زیادہ حصہ انہوں نے اولڈ ایج ہوم کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ یوں سمجھو اِن کاگھر ہی اصل میں اولڈ ایج ہوم ہے ۔زیادہ وقت اِن دونوں کا یہیں گزرتا ہے سب کے ساتھ۔” سر ریحان کے بتانے پر میں نے عزت اور احترام سے اِن بزرگ ہستیوں کو دیکھا جو خود بھی فرشتے نما انسان لگ رہے تھے۔
”سر! یہ وریشہ ہیں، حال ہی میں انہوں نے ہمارا ادارہ جوائن کیا ہے ۔”سر ریحان نے انہیں میرا تعارف کرواتے ہوئے بتایا۔
”سلامت رہو بیٹی! خدا تمہیں اِس نیکی کا اجرِ عظیم عطا کرے۔”انکل احتشام نے محبت سے دعا دی۔
”بیٹی! خدا تمہیں زندگی کی ہر خوشی دے۔” مسز صدیقی نے پیار سے میرے گال تھپتھپا کر کہا، تو گویا اک سکون سا میرے دل میں اتر گیا۔ ریحان سے اسے پتا چلا کہ انکل احتشام نے تمام عمر نا صرف پڑھانے میں صرف کی بلکہ غریب طلبا کی تعلیم کا سارا خرچ بھی خود برداشت کیا۔ سر ریحان بھی ایک ایسے غریب طالب علم تھے جن کی قسمت سر صدیقی نے سنواری تھی ۔ ان کی ہمت اور حوصلے کو میں نے دل کی گہرائیوں سے سلا م پیش کیا۔ اب میرا ہر دن ان دونوں کی معیت اور صحبت میں بہت خوب صورت گزر رہاتھا۔میرا حوصلہ بڑھاتے وہ بوڑھے بازو مجھے شجرِ سایہ دار سے کم نہیں لگتے تھے۔
٭…٭…٭
”عظام فنکشن ختم ہوتے ہی میں تمہیں کال کردوں گی۔” میں نے میرج ہال کے سامنے اترتے ہوئے کہا۔
”اوکے! ”اتناکہہ کر اُس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ اسے اپنی کلاس فیلو کی شادی میں شرکت کرنے کی بہ مشکل اجازت ملی تھی۔ بابا شہر سے باہر تھے تو ماموں نے امی اور مجھے اپنے گھر بلوا لیا تھا۔ آج اجازت بھی بس دو گھنٹے کی ملی تھی مگر عظام نے راستے ہی میں کہہ دیا تھا کہ فنکشن ختم ہوتے ہی میں اسے کال کردوں، گھر پر وہ سب خود سنبھال لے گا۔
موسم شام ہی سے ابر آلود تھا اور کچھ دیر بعد تیز بارش شروع ہو گئی۔ شادی کا فنکشن کافی دیر چلتے رہنے کا پروگرام تھا، مگر تمام رسمیں ادھوری چھوڑ کر فریحہ کی رخصتی کر دی گئی۔ وہ جاتے جاتے اپنے بھائی کو کہہ گئی کہ مجھے گھر تک چھوڑ دے ۔عظام کا فون مسلسل آف جا رہا تھا اور فریحہ کے بھائی کے ساتھ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ کافی شریف معلوم ہوتا تھا۔ اس نے سوائے گھر کا ایڈریس پوچھنے کے سارے راستے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ تیز طوفانی بارش اور کڑکتی بجلیاں دل کو ہولا رہی تھیں کہ اچانک گاڑی رک گئی۔ دل کو کسی خوف نے آن گھیرا۔ بہت کوشش کرنے کے بعد بھی گاڑی ٹھیک نہیں ہو پائی فریحہ کا بھائی اپنی سی کوشش کر کے بھیگے کپڑوں کے ساتھ ہی گاڑی میں آ بیٹھا۔
”آپ مطمئن رہیں، گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔آپ بھی میرے لیے فریحہ جیسی ہی ہیں۔ آپ کال کر کے کسی گھر والے کو بلا لیجیے۔” اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ میں نے موبائل دیکھا تو وہ آف ہو چکا تھا۔اب بارش رکنے کے انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ گھر والوں کی پریشانی کا سوچ کر دل واہموں میں گھرا تھا کہ عظام کو گاڑی سے اترتے اوراِس گاڑی کی طرف آتے دیکھ کر آنکھوں میں خوشی کی چمک در آئی۔ اسے آتا دیکھ فریحہ کا بھائی گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر ا اور عظام کی جانب ہاتھ بڑھایا، مگر عظام نے اک زور دار مکا اس کے منہ پہ جڑ دیا اور مجھے بازو سے پکڑ کر گھیسٹتے ہوئے بولا:
”آوارہ لڑکی!جھوٹ بولتی ہو کہ فرینڈ کی شادی ہے اور یہاں اس غیر مرد کے ساتھ گل چھرے اُڑا رہی ہو۔” اس نے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر مجھے دھکا دیتے ہوئے کہا۔
”تم غلط سمجھ رہے ہو عظام! موسم کی خرابی کی وجہ سے فریحہ کا بھائی مجھے چھوڑنے آرہا تھا کہ بدقسمتی سے گاڑی خراب ہوگئی۔ تمہیں کال کی مگر تمہارا نمبر آف تھا۔”میں نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔
”تو ہال کے باہر رک کر میرا انتظار کر لیتیں، مگر غیرمرد کے ساتھ کبھی نہ نکلتیں اور شاید وہ غیر نہیں تھا تمہارے لیے، تب ہی تو بے جھجک بیٹھ گئیں اس کی گاڑی میں۔ سچ سچ بتا کب سے میری پیٹھ پیچھے یہ کھیل کھیل رہی ہو تم ؟”عظام غصہ سے چیختے ہوئے بولا ۔
”تم غلط سمجھ رہے عظام ، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔” میں نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
”کیسے مان لوں وریشہ؟ اپنی آنکھوں دیکھا کیسے جھٹلا دوں؟” اس نے گھر کے سامنے گاڑی کو یک دم بریک لگائی۔
”میرے اعتماد، میری محبت کے ساتھ یہ کھیل کیوں کھیلا تم نے ؟”ا س کی شعلے برساتی نگاہیں میرے وجود کو جلا رہی تھیں۔ میں روتے ہوئے اسے یقین دلا رہی تھی، مگر وہ شک کی دبیز پٹی اپنی آنکھوں پر باندھ چکا تھا۔ گاڑی گیراج میں کھڑی کر کے وہ مجھے بازو سے گھسیٹتا ہوا اندر لے آیا۔ گھر کے سب افراد ہمارے انتظار میں ابھی تک جاگ رہے تھے۔ اندر آتے ہی اس نے مجھے فرش پر پٹخ دیا۔
”پوچھیے پھوپھو اپنی لاڈلی سے، میری پیٹھ پیچھے کسی اور کے ساتھ چکر کیوں چلاتی رہی؟ میرے نام سے منسوب ہو کر بھی کسی اور کے ساتھ سپنے کیوں سجاتی رہی؟ ایسی تربیت کی ہے آپ نے اس کی؟” سب ہکا بکا مجھے اور کبھی عظام کو دیکھ رہے تھے ۔وہ سب کے سامنے ہماری پانچ سالہ محبت اور تین سالہ منگنی کے رشتے کے پرخچے اڑا رہا تھا اور میں مجرم نہ ہو کے بھی نگاہیں جھکائے مجرم بنی بیٹھی تھی۔ اس نے سارا واقعہ سب کے سامنے بیان کیا ۔سب کی سوالیہ نظروں کا میرے پاس ایک ہی جواب تھا کہ عظام کو غلط فہمی ہوئی ہے، لیکن وہ مرد تھا، اس کی گواہی معنی رکھتی تھی، مگر میری بے گناہی کے ثبوت میں میرے کہے الفاظ بے معنی تھے۔
”میں ابھی اور اِسی وقت وریشہ سے اپنا رشتہ توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس بے وفا لڑکی کا ساتھ مجھے ہر گز قبول نہیں، وہ منگنی کی انگوٹھی میرے سامنے پھینک کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ سب کی نفرت بھری نگاہیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ میں اگر کسی آنکھ میں اپنے لیے رحم اور اعتبار دیکھنے کی امید کر رہی تھی تو وہ صرف ارمغان تھا، مگر میری نگاہ اس پر پڑتے ہی وہ بھی منہ پھیر کر چل دیا ۔ میں نے تب جانا کہ عورت کس قدر کم زور ہے کہ اک جھوٹی بات سے وہ سب کی نظروں میں اعتبار کھو بیٹھتی ہے۔ آج میری ساکھ، میرا اعتبار سب کے سامنے پارہ پارہ ہو چکا تھا۔ میں قسمت کی اِس ستم ظریفی پر صرف آنسو بہا سکتی تھی، آہ و بکا کر سکتی تھی، مگر معتبر ہو کر بھی سب کی نظروں میں پھر سے نہیں اُٹھ سکتی تھی۔
٭…٭…٭
”وریشہ یہ اُداسی آپ پر بالکل نہیں جچتی۔ اِس خوب صورت چہرے کو ہمیشہ گلاب کی طرح کھلا کھلا رہنا چاہیے۔” ریحان نے اپنے آفس میں بلا کر مجھے چائے پیش کرتے ہوئے کہا۔
”جب دل درد اور غم کی آما جگاہ بن جائے تو چہرہ کیسے گلاب جیسا ہوسکتا ہے؟ چہرہ تو دل کا آئینہ ہوتا ہے، چہرے پر وہی دکھے گا جو دل میں ہوگا۔” میں نے کپ کے کنارے پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔
”آپ کی زندگی کی ساری کہانی سن لینے کے بعد میں اتنا جان چکا ہوں کہ وریشہ ایک بہادر، سلجھی ہوئی اور حالات کو اپنے اوپر حاوی کر کے اک کونے میں دبک کے بیٹھ جانے والی لڑکی کا نام نہیں بلکہ وریشہ ایسی لڑکی ہے جو حالات کا بہادری سے مقابلہ کر کے اِس معاشرے میں اپنا الگ مقام بنانے کی اہلیت رکھتی ہے ۔” ریحان نے میری محنت اور کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا۔
”میں جتنی مضبوط نظر آتی ہوں اتنی ہی اندر سے کم زور اور ڈر پوک ہوں سر۔ صبر و شکر کی تصویر نظر آنے والی وریشہ رات کی تنہائیوں میں اکثر خدا سے شکوہ کناں رہتی ہے۔”وریشہ نے نم آنکھوں سے مدہم آواز میں کہا۔
”یہ تو آپ کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ میں تو اس وریشہ کی بات کر رہا جو مجھے حالات کے گرم سردکے باوجود بہادری سے ڈٹی ہوئی نظر آتی ہے۔” ان کی آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح میرے لیے احترام کے ساتھ ساتھ ایک جذبہ اور بھی اجاگر تھا، جسے میں ہمیشہ کی طرح اگنور کرتے ہوئے مسکرا دی۔
٭…٭…٭
وہ رات میں نے کرب سے سسکتے ہوئے گزاری تھی۔ میں کسے تڑپتے دل کا احوال سناتی کہ میری سگی ماں نے ناراض ہو کر مجھ سے منہ موڑ لیا تھا۔ صبح بابا کے آنے کی خبر ملی تو ٹوٹے دل کو ڈھارس بندھی کہ میرا یقین کریں گے، مگر انہوں نے میرے آنسوئوں سے بھری آنکھیں دیکھ کے بس یہی کہا:
”تم نے ہمیں سب کے سامنے شرمندہ کر کے ہمارا سر جھکا دیا ۔تمہیں اپنی بیٹی کہتے ہوئے زبان لرزتی ہے۔ ہماری تربیت کاایسا صلہ کیوں دیا تم نے ؟” میرا ٹوٹا دل مزید کرچی کرچی ہوگیا، جس باپ کے کندھے سے لگ کر میں اپنا تمام دکھ بھول جانے کا سوچ رہی تھی، اب ان کی بات کا جواب دینے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ میں نے کچھ نہ کہنا ہی بہتر سمجھا اور بس سر جھکائے روتی رہی ۔ وہ چند ثانیے میرے پاس کھڑے رہے اور پھر کمرے سے نکل گئے۔ میں اپنی قسمت کے یوں اچانک بدل جانے پر خدا سے شکوہ کناں تھی۔ آخر مجھے کیوں عرش سے لاکر زمین پر پٹخ دیا گیا۔ میرا کون سا گناہ تھا جو میری اِس حالت کا سبب بنا۔ یہ سوچ سوچ کہ میرا ذہن مائوف ہو رہا تھا۔ ”زندگی دیکھو اور کتنے رنگ دکھاتی ہے تمہیں وریشہ۔ اب تو شاید بدقسمتی ہی تمہارا مقدر ہے۔ نہ جانے اس ناکردہ گناہ کی کب تک سزا بھگتنی ہو گی۔ کبھی کہیں جا کے ختم بھی ہو گی یہ سزا یا عمر بھر اس درد کو سہنا ہو گا؟” مجھے اِن سب حالات سے نکلنے کاکوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!