”پاپا آپ ڈاکٹر کے پاس گئے تھے؟” حیدر شام کو گھر آتے ہی سیدھا باپ کے کمرے میں گیا تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے عارفین کی طبیعت خراب تھی۔
”ہاں۔ میں ڈاکٹر کے پاس گیا تھا، بس بلڈ پریشر کچھ ہائی تھا۔ باقی سب کچھ ٹھیک ہے۔” حیدر کو وہ بہت تھکے ہوئے لگے۔ وہ ان کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔
”پاپا! اگر سارہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جائے گی تو اس میں اتنی پریشانی والی کون سی بات ہے۔ اسے آج نہیں تو کل یہاں سے جانا ہی تھا اور جس طرح اس کی خالہ یا ماموں اس کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح میں یا آپ نہیں رکھ سکتے۔ پھر اتنی سی بات پر آپ نے اتنی ٹینشن کیوں لے لی ہے؟”
وہ ان کی طبیعت کی خرابی کی وجہ جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ سارہ کے جانے کی وجہ سے ٹینشن کا شکار ہیں۔ عارفین نے نیوز پیپر تہہ کر کے میز پر رکھ دیا۔
”حیدر! وہ سارہ کو دوبارہ مجھ سے ملنے نہیں دیں گے۔” انھوں نے پہلی بار اپنے خدشے کا اظہار کیا تھا۔
”کیوں ملنے نہیں دیں گے؟” وہ حیران ہوا تھا۔
”میں جانتا ہوں۔ وہ اسے دوبارہ پاکستان میرے پاس نہیں آنے دیں گے۔ پہلے صبا چلی گئی تھی۔ اب سارہ چلی جائے گی۔ میں ساری زندگی ضمیر کی آگ میں جلتا رہوں گا۔” عارفین عباس نے جیسے خود کلامی کی تھی۔
”پاپا! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” وہ ان کی بات نہیں سمجھا تھا۔
”کچھ نہیں۔” انھوں نے ایک گہری سانس لے کر چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔
”پاپا! اگر سارہ دوبارہ ہم سے نہیں ملتی تو بھی کیا ہے۔ اسے ہمارے پاس رہتے تین ماہ تو ہوئے ہیں ہم دونوں پہلے بھی اکیلے رہتے تھے۔ اب بھی رہیں گے۔ اس میں پرابلم کیا ہے؟”
”پہلے کی بات اور تھی حیدر! اب مجھے اس کے جانے سے وحشت ہو رہی ہے۔ میں اس کے وجود کے بغیر اس گھر کا تصور نہیں کر سکتا میں اسے ہمیشہ کے لیے یہاں رکھنا چاہتا ہوں۔” وہ بے حد بے چین تھے۔
”پاپا! آپ اسے کبھی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رکھ سکتے۔ اگر آپ اسے کسی نہ کسی طرح یہاں رہنے پر مجبور کر بھی لیں تو بھی ایک نہ ایک دن تو آپ کو اس کی شادی کرنا ہی ہوگی پھر آپ کیا کریں گے۔ میں آپ کے اور صبا کے بارے میں سب نہیں جانتا ہوں جو کچھ آپ نے مجھے بتایا تھا اس کے حوالے سے میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آپ ماضی کو بھول جائیں۔ صبا مر چکی ہیں اور سارہ یہاں رہنا نہیں چاہتی۔ ہمیں اس کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔” وہ باپ کو کسی بڑے کی طرح سمجھا رہا تھا۔
”حیدر! صبا، سارہ کو میرے سپرد کر کے…”
”ہاں وہ آپ کے سپرد کر کے گئی تھیں مگر وہ یہ بھول گئی تھیں کہ سارہ کوئی چھوٹی بچی نہیں ہے جسے ایک گارجین کی ضرورت ہوگی۔ وہ بالغ ہے۔ اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے اور ہم اسے روک نہیں سکتے۔”
عارفین نے یکدم اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ ”حیدر! ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اس سے شادی کر لو؟” انھوں نے بڑی لجاجت سے کہا تھا وہ ان کی بات پر دم بخود رہ گیا۔
”پاپا؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
”ہاں حیدر! تم اس سے شادی کر لو۔ اس طرح تو وہ یہاں رہ سکتی ہے۔”
”پاپا! میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔”
”کیوں کیا تم کسی اور لڑکی کوپسند کرتے ہو؟” عارفین نے بے چینی سے پوچھا تھا۔
”نہیں پاپا! آپ جانتے ہیں میرا Passion (عشق) صرف میرا پروفیشن ہے۔ میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا۔ آج بھی کہتا ہوں کہ شادی میں آپ کی پسند سے کروں گا۔ لیکن میں اس وقت شادی نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنا کیریئر بنانا ہے، ایک ٹاپ بینکر بننا ہے۔ اس اسٹیج پر شادی کر کے میں اپنا فیوچر تباہ نہیں کر سکتا۔” اس نے بڑی رسانیت سے باپ کو سمجھایا تھا۔
”تمہارا فیوچر برباد ہوگا نہ کیریئر۔ سارہ سے شادی سے تمھیں کوئی نقصان نہیں ہوگا پھر میرا سب کچھ تمہارا ہی تو ہے۔ تمھیں کس چیز کی فکر ہے؟ میں ہوں نا تم دونوں کو سپورٹ کرنے کے لیے۔”
”پاپا! شادی صرف میری رضامندی سے نہیں ہو سکتی۔ سارہ کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔ میں اگر شادی پر مان بھی جاؤں تو کیا وہ راضی ہو گی؟” حیدر الجھن میں پڑ گیا تھا۔
”تم سارہ کی فکر مت کرو۔ میں اس سے بات کر لوں گا۔ تم صرف یہ بتاؤ کہ تمھیں تو اس رشتہ پر کوئی اعتراض نہیں؟”
حیدر ایک طویل سانس لے کر رہ گیا تھا۔
”پاپا میں شادی ابھی نہیں کر سکتا۔ شادی تین چار سال بعد ہی کروں گا ہاں آپ انگیجمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو وہ کر دیں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔”
عارفین عباس کا چہرہ دمک اٹھا تھا۔ ”تھینک یو حیدر! تم دیکھنا سارہ بہت اچھی بیوی ثابت ہوگی۔”
حیدر کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
…***…
”کوئی صبا کو بلا دو۔ خدا کے لیے کوئی ایک بار صبا کو بلا دے۔ میں اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لوں تاکہ میں سکون سے مر سکوں عارفین! تم ہی جاؤ۔ تم ہی اسے بلا لاؤ۔ اس سے کہو۔ مجھے آ کر جوتے مارے۔ اس سے کہو آ کر میرے منہ پر تھوکے۔ مجھے گالیاں دے کچھ تو کرے مگر ایک بار آ جائے۔ مجھے اس عذاب سے نجات دلا دے۔ اس سے کہو اللہ کے نام پر مجھے معاف کر دے۔ ایک بار کہہ دے کہ اس نے مجھے معاف کیا۔ عارفین! ایک دفعہ اسے لے آؤ۔ خدا کے لیے ایک بار…”
تائی امی تکلیف کی شدت سے اپنی بات مکمل نہیں کر پائی تھیں۔ وہ کراہنے لگی تھیں پھر وہ پہلے کی طرح غشی میں چلی گئیں۔ وہ کمرے سے باہر نکل آیا۔ برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔
”عارفین! تم صبا کو لینے جاؤ۔ وہ کسی کے جانے پر نہیں آ رہی۔ وہ دروازہ بند کر لیتی ہے۔ وہ نہیں آئے گی تو تمہاری ماں اسی جاں کنی کے عالم میں رہے گی۔ اسے اب صحت یاب نہیںہونا ہے۔ بہتر ہے وہ مر جائے تاکہ اس تکلیف سے اس کی جان چھوٹ جائے لیکن صبا نہیں آئے گی تو وہ اسی عذاب میں رہے گی۔ تم جاؤ تمھارے… تمھارے کہنے پر وہ آ جائے گی۔”
اسے اپنی پشت پر باپ کی آواز سنائی دی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر خالی نظروں سے صحن کو دیکھا باہر سکوت تھا۔ اندر سے ایک بار پھر اس کی ماں کے کراہنے کی آواز آنے لگی تھی۔ وہ ایک دن پہلے تین سال بعد پاکستان آیا تھا۔ تایا نے اسے اس کی ماں کی بیماری کی اطلاع دی تھی اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اس کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے اور اب بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ پچھلے دو سال سے بیمار تھیں اور وہ اس بات سے لاعلم نہیں تھا لیکن وہ خود آنے کے بجائے ایک لمبی چوڑی رقم بھیج دیتا تھا مگر اب اسے آنا ہی پڑا تھا، وہ اسماء اور حیدر کو بھی ساتھ لایا تھا تاکہ امی مرنے سے پہلے انھیں دیکھ سکیں اور یہاں پر اس کے لیے شاک موجود تھا۔
تین ماہ پہلے تائی امی نے اس بات کا اقرار کر لیا تھا کہ انھوں نے قرآن پر جھوٹا حلف اٹھایا تھا اور انھوں نے صبا کو جان بوجھ کر اس منصوبے کا شکار بنایا تھا۔
عادل ڈیڑھ سال پہلے گھر آ گیا تھا اور تین سال مجرموں کی طرح گزارنے کے بعد تائی نے اس سے اور اس کے ماں باپ سے معافی مانگ لی تھی۔ شاید وہ معاف نہ کرتے مگر تائی کی حالت اب بیماری کی وجہ سے اتنی خراب ہو چکی تھی کہ انھوں نے دل پر پتھر رکھتے ہوئے انھیں معاف کر دیا تھا اور پھر صبا کی تلاش شروع ہوئی تھی اور تب تایا کو پتا چلا تھا کہ اس کا شوہر صبا کی بیٹی کو اپنی اولاد ماننے پر تیار نہیں تھا اور اس نے سارہ کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہی اسے طلاق دے دی تھی۔
”میں نے صبا کے بارے میں تمھیں سب کچھ اس لیے بتایا تھا تاکہ تم کل کو یہ نہ کہہ سکو کہ ہم نے تمھیں کوئی دھوکا دیا۔” تایا کو یاد آیا تھا انھوں نے شادی سے پہلے صبا کے شوہر سے یہ سب کہا تھا۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کے گھر کی بنیاد پانی پر رکھی تھی۔
”ایک تہمت میری بیوی نے لگائی۔ دوسری تہمت کا حصہ دار میں بن گیا؟” وہ لرز کر رہ گئے تھے۔
چند ہفتوں کی تلاش کے بعد وہ صبا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ کسی ہاسپٹل کے رہائشی علاقے میں کسی ڈاکٹر کے ہاں کام کرتی تھی مگر صبا نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر وہ اس علاقے میں گئے تھے جہاں وہ رہتی تھی مگر اس نے ان کی آواز پہچان کر دروازہ نہیں کھولا تھا۔ وہ دیر تک دروازہ بجاتے، اسے آوازیں دیتے رہے مگر گھر کے اندر مکمل خاموشی رہی تھی۔ وہ تھک ہار کر لوٹ آئے تھے۔ اس نے یہ سلوک صرف ان ہی کے ساتھ نہیں کیا تھا بلکہ جو بھی اس کے پاس گیا تھا اس نے اس کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔ عارفین سب کچھ جان کر سکتے میں رہ گیا تھا۔
”میں بے قصور ہوں۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا مگر میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔”
”میں سچ بولتی ہوں۔ تمھیں اعتبار نہیں آتا۔ میں جھوٹ بولوں گی تم یقین کر لو گے۔ تم پہلے ہی دوسروں کی باتوں پر یقین کر چکے ہو۔ مجھ سے تو تم صرف تصدیق چاہتے ہو۔”
”اللہ دلوں میں بستا ہے تم اپنے دل سے پوچھو، میں بے گناہ ہوں یا نہیں۔”
ایک آواز اس کی سماعتوں میں رقص کرنے لگی تھی۔ وہ آواز کا گلا نہیں گھونٹ سکتا تھا، وہ بستر مرگ پر پڑی ہوئی ماں کو کھلے عام ملامت بھی نہیں کر سکتا تھا اور اسے صبا کے سامنے بھی جانا تھا۔
ہم دیکھیں گے۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
ہم دیکھیں گے۔
وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا۔
ہم دیکھیں گے۔
چچا کے گھر ریڈیو پر مغنیہ بلند آواز میں گا رہی تھی۔
”عارفین! تم جاؤ گے نا؟” اسے باپ کی آواز سنائی دی تھی، اس نے بے بسی سے ہونٹ بھینچ لیے۔
…***…
”حیدر سے شادی!” وہ عارفین عباس کی بات پر دم بخود رہ گئی تھی۔
”ہاں، وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔” عارفین عباس نے اپنی بات دہرائی تھی۔ اسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس نے ٹھیک سنا تھا۔
”انکل! مجھ سے کیوں؟” اس نے اپنی حیرت پر قابو پا کر کہا تھا۔
”تم سے کیوں نہیں؟” انھوں نے جواباً سوال کیا تھا۔
”انکل! میرا اور اس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ یہ رشتہ مناسب نہیں ہے۔” اس نے دیانت داری سے اپنی رائے دی تھی۔
”اس میں کیا کمی ہے؟” انھوں نے بے چینی سے پوچھا تھا۔
”اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ مجھ میں بہت سی خامیاں ہیں۔”
”سارہ! تم میں کوئی کمی نہیں ہے۔ تم خوبصورت ہو تعلیم یافتہ ہو۔ سمجھدار ہو۔ کسی بھی مرد کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔” انھوں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔
”لیکن وہ ان چیزوں میں مجھ سے بہتر ہے اور میں نے اس کے بارے میں کبھی اس اندازسے نہیں سوچا۔”
”تو اب سوچ لو۔”
سارہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا یہ پرپوزل اتنا اچانک اس کے سامنے آ گیا تھا کہ وہ کچھ سوچ ہی نہیں پا رہی تھی۔ عارفین اٹھ کر چلے گئے تھے۔ رات کے کھانے پر وہ بے حد نروس رہی۔ حیدر معمول کی طرح باپ سے باتیں کرتے ہوئے کھانا کھا رہا تھا لیکن اس کا دل کھانے سے بری طرح اچاٹ ہو گیا تھا۔ تین ماہ میں پہلی بار وہ اس پر نظر ڈالنے سے گریزاں تھی۔ عارفین عباس جب کھانے کی میز سے اٹھ گئے تو اس نے سارہ کو مخاطب کیا تھا۔
”سارہ! اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کل شام میں آپ کو ڈنر پر لے جانا چاہتا ہوں۔ مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔” وہ کوئی جواب دیے بغیر سر جھکائے نروس سی بیٹھی رہی۔ وہ کچھ دیر اس کے جواب کا منتظر رہا۔
”آپ پانچ بجے تیار رہیے گا۔” اس نے خود ہی کہا تھا اور پھر اوپر چلا گیا تھا۔
اگلی شام پانچ بجے ملازم نے اس کے دروازے پر دستک دی تھی۔
”حیدر صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔” اس نے سارہ کو اطلاع دی تھی۔
”میں ابھی آتی ہوں۔” اس نے جوتے کے اسٹریپس بند کرتے ہوئے کہا تھا۔ وہ جوتا پہننے کے بعد لاؤنج میں آ گئی۔ حیدر صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔
”چلیں؟” اس نے پوچھا تھا۔
”آپ نے انکل کو بتا دیا؟”
وہ اس کے سوال پر مسکرایا تھا۔ ”آپ کا کیا خیال ہے کیا میں پاپا کی اجازت کے بغیر آپ کو کہیں لے جا سکتا ہوں؟ آپ پریشان نہ ہوں میں نے ان سے اجازت لے کر آپ کو ڈنر کی دعوت دی تھی۔” وہ پورچ کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
”میرے بارے میں آپ زیادہ نہیں جانتی ہوں گی۔ اس لیے بہتر ہے میں اپنے بارے میں آپ کو کچھ بنیادی معلومات دے دوں۔” مین روڈ پر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے بات شروع کی تھی۔
”یہ تو آپ کے علم میں ہوگا کہ میری مدر فرنچ تھیں۔ میری پیدائش بھی وہیں ہوئی۔ بارہ سال تک میں وہیں رہا تھا پھر پاپا نے پاکستان میں پوسٹنگ کروالی تو ہم لوگ یہاں آ گئے۔ میں نے اے لیول یہاں سے کیا اس کے بعد میں لندن چلا گیا، وہاں میں نے بزنس مینجمنٹ میں تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصہ انٹرن شپ کے تحت ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا رہا پھر پاکستان آ کر سٹی بینک جوائن کر لیا۔ پاکستان آئے مجھے صرف چھ ماہ ہوئے ہیں یعنی آپ کے آنے سے تقریباً تین ماہ پہلے میں واپس آیا تھا۔ میری ممی صرف نام کی فرینچ تھیں۔ پاپا سے شادی کے بعد اور اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے انھوں نے ایسٹرن طور طریقے اپنا لیے تھے۔ اصل میں میری ممی کا تعلق جس خاندان سے تھا وہ کافی کنزریٹو تھا۔ اس وجہ سے بھی ممی کو پاکستانی ماحول میں ایڈجسٹ کرنے میں کوئی پرابلم نہیں ہوا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا انھیں کبھی مغربی لباس میں نہیں دیکھا۔ وہ یا تو شلوار قمیص پہنتی تھیں یا پھر ساڑھی، میں آپ کو یہ سب اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ آپ پر یہ واضح ہو جائے کہ میں صرف شکل و صورت سے یورپین لگتا ہوں ورنہ میں سوچ کے لحاظ سے بالکل ایسٹرن ہوں۔ باہر رہنے کے باوجود بعض چیزوں کے بارے میں میں بہت لبرل نہیں ہوں۔ میری اپنی ویلیوز ہیں اور میں ان کو تسلیم کرتا ہوں۔ میں بہت سوشل بھی نہیں ہوں۔ میری کمپنی بہت محدود ہے۔ آپ کہہ سکتی ہیں کہ میں سوسائٹی میں موو کرنے کے اعتبار سے خاصا ریزرو ہوں۔ کوایجوکیشن میں پڑھنے کے باوجود مجھے لڑکیوں کی کمپنی کچھ زیادہ پسند نہیں ہے نہ ہی کبھی میری کسی لڑکی سے زیادہ دوستی رہی ہے میری واحد دلچسپی بینکنگ ہے بلکہ آپ کہہ سکتی ہیں یہ میرا واحد شوق ہے۔ ہاں اسپورٹس کا بھی میں شوقین ہوں نہ صرف کھیلنے بلکہ دیکھنے کا بھی۔ آپ کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے تک میری کوئی رائے نہیں تھی۔ میرے لیے آپ بس ایک مہمان تھیں اور میں نے آپ کے بارے میں کبھی بھی اس سے زیادہ نہیں سوچا، میں ایسا سوچنا کبھی پسند کرتا بھی نہیں کیونکہ آپ ایک لڑکی تھیں۔ میرے گھر میں تھیں اور مجھ پر یہ فرض تھا کہ میں آپ کی عزت کروں۔ آپ کو اپنے گھر میں حفاظت سے رکھوں۔ پھر اس کے بعد پاپا سے آپ کی گفتگو سے آپ کے خیالات کا پتا چلا۔ میرے دل میں آپ کی عزت کچھ اور بڑھ گئی چند دن پہلے پاپا نے مجھ سے آپ کے پرپوزل کے حوالے سے بات کی، میں نے اس پر غور کیا اور مجھے لگا کہ آپ ایک بہت اچھی بیوی ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس لیے میں نے پاپا سے کہا کہ مجھے آپ سے شادی پر کوئی اعتراض نہیں۔ پاپا نے اس سلسلے میں آپ سے بات کی۔ آپ نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے یہ ضروری سمجھا کہ آپ کو کسی بھی فیصلے سے پہلے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دوں تاکہ آپ کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ مجھے آپ کے بارے میں تقریباً سب کچھ پتا ہے یا کم از کم اندازہ ضرور ہے یہ بھی پتا ہے کہ آپ عمر میں مجھ سے کچھ ماہ بڑی ہیں۔ مجھے آپ کی کسی بات یا ماضی کے کسی حوالے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ جانتی ہیں۔ پاپا آپ کی امی کو پسند کرتے تھے۔ ان دونوں کی شادی نہیں ہو پائی۔ اب ان کی بھی یہ خواہش ہے کہ آپ کی شادی مجھ سے ہو جائے۔ وہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ اسی گھر میں رہیں لیکن آپ کو کچھ اعتراضات تھے جو بڑی حد تک ٹھیک تھے اس پرپوزل کو قبول کرنے کے بعد کم از کم آپ یہ نہیں کہہ سکیں گی کہ آپ کو میرے گھر میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ میں بہت زیادہ امیر نہیں ہوں ابھی میں نے اپنا کیریئر شروع کیا ہے لیکن میرا خیال ہے میرے پاس اتنے روپے ضرور ہیں کہ میں آسانی سے آپ کو سپورٹ کر سکوں۔ ہاں جب میں کچھ عرصہ کے بعد اپنا کیریئر اسٹیبلش کر لوں گا تو پھر ایک اچھے شوہر کی طرح کوشش کروں گا کہ آپ کو سب کچھ دے سکوں۔ فی الحال میں خود بھی پاپا کے گھر میں رہتا ہوں۔ یہ گاڑی بھی انھوں نے خرید کر دی ہے۔ اس لحاظ سے مالی طور پر میرے حالات بھی آپ جیسے ہی ہیں۔ اگر آپ میرا پرپوزل قبول کر لیتی ہیں تو فی الحال ہماری انگیجمنٹ ہو جائے گی پھر چند سال بعد میں آپ سے شادی کر لوں گا۔ اس وقت جب کم از کم میرے پاس اپنے روپے سے خریدی ہوئی گاڑی ہوگی۔”
وہ اس کے چہرے پر نظر ڈالے بغیر دھیمے لہجے میں سارہ کو اپنے بارے میں سب کچھ بتاتا گیا تھا۔ اس کے انداز میں کوئی تفاخر، کوئی احساس برتری نہیں تھا۔ سارہ کو اس سے ایک عجیب سی مانوسیت کا احساس ہوا۔ وہ چند گھنٹے پہلے ایک پیڈسٹل پر بیٹھا نظر آتا تھا اور اب وہ یکدم جیسے زمین پر اتر آیا تھا۔ اس نے اس کے سیاہ بالوں میں کہیں کہیں نظر آنے والے کافی کلرڈ بالوں کے Patches کو ایک بار پھر اسی انہماک سے دیکھا تھا جیسے وہ اکثر دیکھا کرتی تھی۔ اس کے بالوں کی طرح اس کی شخصیت بھی عجیب تھی۔
”اب اگر میں آپ سے کہوں کہ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی تو آپ کیا کہیں گی؟”
سارہ نے گردن گھما کر اس کے چہرے کو دیکھا تھا، وہ بے حد پرُسکون نظر آ رہا تھا۔
”ہاں!” وہ سمجھ نہیں پائی۔ اس کی زبان سے یہ لفظ کیسے پھسل پڑا تھا۔
حیدر کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ ”تھینک یو۔”
اس نے کہا تھا پھر وہ اسے ایک ریسٹورنٹ میں لے گیا تھا۔ سارہ نہیں جانتی اس کی باتوں میں کیا جادو تھا۔ کیا خاص بات تھی مگر اسے اس سے کوئی گھبراہٹ، کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی تھی۔ وہ اس سے مختلف موضوعات پر اس طرح باتیں کرتا رہا تھا جیسے وہ اکثر اسے باہر لے جاتا رہا ہو، اکثر اس سے گفتگو کرتا رہا ہو۔ اس کے انداز میں وہ بے تکلفی تھی جو اپنے باپ سے بات کرتے وقت ہوتی تھی۔ وہ شام سارہ کی زندگی کی بہترین شام تھی۔ اس رات واپسی پر سونے سے پہلے جو واحد تصور اس کے ذہن میں تھا وہ حیدر کا تھا۔
تیسرے روز شام کو ایک سادہ سی تقریب میں عارفین عباس نے باقاعدہ طور پر ان دونوں کی منگنی کر دی تھی۔ منگنی میں صرف عارفین کی بہنیں اور خاندان کے چند بزرگ شریک ہوئے تھے۔ سارہ چاہتی تھی کہ منگنی اقصیٰ خالہ کے پاکستان آنے کے بعد ہو مگر عارفین کا اصرار تھا کہ یہ کام جلد از جلد ہو جانا چاہیے اور اقصیٰ نے ابھی اپنے آنے کی تاریخ نہیں بتائی، اس لیے بہتر ہے یہ چھوٹی سی رسم ان کی غیر موجودگی میں ہی سرانجام پا جائے۔ سارہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی بات مان گئی تھی۔ عارفین نے اسے فون پر اقصیٰ کو یہ بات بتانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اس بات سے ہرٹ ہوں گی کہ ان کی مرضی پوچھے بغیر سارہ کی منگنی کر دی گئی ہے اور ان کی آمد کا انتظار بھی نہیں کیا گیا۔
”جب وہ یہاں آئے گی تو میں خود اسے سمجھا دوں گا لیکن فی الحال تم اس سے اس منگنی کا ذکر نہ کرنا۔”
انھوں نے سارہ کو ہدایت دی تھی۔ سارہ نے ان کی بات بخوشی مان لی تھی۔ منگنی کے تین چار دن بعد ایک دن اقصیٰ نے اسے اپنے آنے کی اطلاع دی تھی۔ وہ تین دن بعد پاکستان آ رہی تھیں۔
…***…