ہر روز وہ اخبار لے کر بیٹھ جاتی اور ایک ایک اشتہار پڑھ ڈالتی۔ ہر وہ ملازمت جو اسے ذرا بھی مناسب لگتی وہ وہاں اپلائی کر ڈالتی۔ پہلی بار اسے احساس ہوا تھا کہ گریجویشن کی عملی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اب ہر جگہ کم از کم ماسٹر زوالے بندے کی ضرورت ہوتی تھی اور اگر کسی جگہ گریجویشن مطلوبہ کوالیفیکیشن ہوتی تو ساتھ فریش گریجویٹ بھی لکھا ہوتا اور سارہ کوگریجویشن کیے چار سال ہو چکے تھے۔ البتہ اسے یہ اطمینان ضرور تھا کہ وہ کسی جاب کے لیے صرف گارنٹی نہ ہونے کی وجہ سے اپلائی نہ کرنے کے مسئلے سے دوچار نہیں تھی۔
اس نے ابھی عارفین عباس کو جاب کی تلاش کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جاب ملنے کے بعد وہ انھیں بتا دے گی۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر اس نے پہلے انھیں اپنی جاب کے بارے میں بتایا تو وہ شاید اسے جاب ڈھونڈنے کی اجازت نہ دیں۔ آہستہ آہستہ اسے انٹرویو کالز ملنے لگیں اور اس نے گھر سے باہر جانا شروع کر دیا۔ عارفین عباس کو ابھی بھی اس نے نہیں بتایا تھا کہ وہ انٹرویوز کے لیے مختلف جگہوں پر جا رہی ہے، بعض دفعہ وہ اس کی غیر موجودگی میں گھر میں فون کرتے تو ملازم ان سے کہہ دیتا کہ سارہ اپنی کسی دوست کے ہاں گئی ہے۔ سارہ ملازم سے یہی کہہ کر جاتی تھی اور پھر جب وہ سارہ سے پوچھتے تو وہ انھیں مطمئن کر دیتی۔
عارفین عباس کو بھی یہ سوچ کر تسلی ہو جاتی کہ وہ رفتہ رفتہ نارمل زندگی کی طرف آ رہی ہے اور اپنے لیے مصروفیت ڈھونڈ رہی ہے۔ سارہ کو گھر سے باہر نکل کر پہلی دفعہ یہ احساس ہو رہا تھا کہ شہر کتنا بڑا ہے اور جاب کا حصول کتنا مشکل ہے۔ اس سے پہلے اسے امی کی وجہ سے بڑی آسانی سے ایک فیکٹری میں جاب مل گئی تھی اور چند اور جگہ جب اپلائی کرنے پر اسے جاب نہیں ملی تھی تو اس نے زیادہ تردد نہیں کیا تھا اور فیکٹری کی جاب کو ہی غنیمت سمجھ لیا تھا مگر اس بار وہ ایک بہتر جاب کی تلاش میں تھی جو اس کے اخراجات پورے کر سکتی۔
سارا دن پیدل دفتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے وہ آہستہ آہستہ دل برداشتہ ہو رہی تھی۔ اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے پوری دنیا میں اس کے لیے ایک بھی جاب نہیں تھی۔
اس روز رات کے کھانے پر حسب معمول حیدر اور عارفین فرنچ میں باتیں کر رہے تھے اور وہ بڑی بے دلی سے کھانا کھاتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ خلاف معمول حیدر دیر تک بیٹھا رہا تھا سب سے پہلے ٹیبل سے عارفین عباس اٹھ کر گئے تھے۔ سارہ بھی کھانا کھا چکی تھی اور عارفین عباس کے اٹھنے کے چند منٹ بعد جب اس نے اٹھنا چاہا تو حیدر نے اسے روک دیا۔
”ایک منٹ سارہ! آپ بیٹھیں۔ مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔”
حیدر نے سویٹ ڈش کھاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ وہ کچھ حیران سی دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔
”آج میں نے آپ کو فیکٹری ایریا میں دیکھا تھا۔ پوچھ سکتا ہوں آپ وہاں کس لیے گئی تھیں؟” پانی کا گلاس ہاتھ میں لیے اس پر نظریں جمائے اس نے پوچھا تھا۔ سارہ کے لیے اس کا سوال خلاف توقع تھا۔ وہ چند لمحے چپ رہی اور پھر اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔
”میں فیکٹری ایریا نہیں گئی۔” اس نے بڑے اطمینان سے جھوٹ بولا۔
حیدر اسے حیرانی سے دیکھ کر رہ گیا، شاید اسے سارہ سے اس سفید جھوٹ کی توقع نہیں تھی۔ ”لیکن آپ آج گھر پر نہیں تھیں۔ میں نے ملازم سے پوچھ لیا ہے۔”
”ہاں میں گھ+ر پر نہیں تھی۔ میں اپنی ایک دوست کے پاس گئی ہوئی تھی لیکن میں فیکٹری ایریا نہیں گئی۔”
سارہ کو خود حیرت ہو رہی تھی کہ وہ کتنے اطمینان سے جھوٹ بول رہی ہے۔
”ہو سکتا ہے، مجھے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو بہرحال آئی ایم سوری۔”
حیدر نے جس طرح یہ جملہ ادا کیا تھا اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ اسے سارہ کی بات پر یقین نہیں آیا اور وہ صرف مروتاً ایکسکیوز کر گیا تھا۔
سارہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ اسے حیدر کی یہ تفتیش اچھی نہیں لگی تھی اور نہ ہی وہ اس سے پریشان ہوئی تھی۔ ہاں چند دن احتیاطاً باہر نہیں گئی۔ گھر پر ہی رہی لیکن چند دن گزر جانے کے بعد ایک بار پھر اس نے جاب کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی تھی۔
اس دن بھی دو جگہ انٹرویو دینے کے بعد تیسری جگہ جانے کے لیے وہ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی جب اچانک ایک گاڑی اس کے پاس آ کر رک گئی۔
”آئیں۔ آپ کو جہاں جانا ہے۔ میں چھوڑ دیتا ہوں۔” ایک مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
”یااللہ! کیا ضروری تھا کہ اس سے میرا سامنا اس آخری انٹرویو سے پہلے ہوتا۔” سارہ نے بے اختیار دل میں کہا تھا۔ بجھے دل سے وہ گاڑی کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
”سارہ! میں آپ کا ڈرائیور نہیں ہوں۔ آپ آگے آ کر بیٹھیں۔” اس نے فرنٹ ڈور کھول دیا تھا۔ وہ کوئی اعتراض کیے بغیر آگے بیٹھ گئی تھی۔
”کہاں جانا ہے آپ کو؟” حیدر نے گاڑی بڑھاتے ہوئے پوچھا تھا۔
”مجھے گھر جانا ہے۔” اس نے جھوٹ بولا تھا۔ حیدر نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی تھی۔
”اگر کہیں اور جانا ہے تو میں وہاں بھی چھوڑ سکتا ہوں۔”
”نہیں مجھے گھر ہی جانا ہے۔”
چند لمحے گاڑی میں خاموشی رہی۔
”آپ سارا دن کہاں پھرتی رہتی ہیں؟ روزانہ کسی دوست کے گھر تو نہیں جایا جا سکتا۔”
حیدر نے اسے دیکھے بغیر اس سے پوچھا تھا سارہ نے یک دم سچ بولنے کا فیصلہ کر لیا۔
”میں جاب کی تلاش کر رہی ہوں۔”
اسے لگا، حیدر پہلے ہی اسی جواب کی توقع کر رہا تھا۔ ”اور اسی لیے اس دن فیکٹری ایریا میں گئیں…”
سارہ نے اس کی بات کاٹنا ضروری سمجھا۔
”نہیں۔ میں اس دن وہاں نہیں گئی تھی۔”
”سارہ! آپ وہاں گئی تھیں۔ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے آپ کو جس فیکٹری سے نکلتے دیکھا تھا آپ کے انکار کے بعد وہاں فون کر کے آپ کے بارے میں پوچھ لیا تھا۔ اگر اس دن میرے ساتھ میرا دوست نہ ہوتا تو میں گاڑی روک کر آپ کو پک کر لیتا پھر کم از کم آپ اسے میری غلط فہمی قرار نہ دیتیں۔”
سارہ کو اس کا لہجہ قدرے تلخ لگا۔ وہ کچھ بول نہیں پائی۔
”کوالیفیکشن کیا ہے آپ کی؟” کچھ دیر بعد اس نے پوچھا تھا۔
”گریجویشن۔”
”سبجیکٹس کون سے تھے آپ کے۔”
”اکنامکس اور… اردو۔” فرنچ کہتے کہتے رک گئی اور پھر اس نے فرنچ کے بجائے اردو کہہ دیا۔
”پاپا کو پتا ہے کہ آپ جاب ڈھونڈ رہی ہیں؟” اس نے کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد ایک بار پھر پوچھا تھا۔
”میں انھیں بعد میں بتا دوں گی۔”
اس بار حیدر نے گردن گھما کر اسے دیکھا تھا۔ سارہ کو اس کے چہرے پر کچھ خفگی نظر آئی۔
”دیکھیں سارہ! آپ ہمارے گھر رہتی ہیں اور ہماری ذمہ داری ہیں۔ جو آپ کر رہی ہیں اور جو آپ کرنا چاہتی ہیں۔ پاپا کو اس کے بارے میں پتا ہونا چاہیے۔ بعد میں اگر کوئی پرابلم ہوا تو سارا الزام پاپا پر آئے گا کیونکہ آفٹر آل انھوں نے ہی آپ کو گھر میں رکھا ہے۔ مجھے دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن آئندہ آپ جاب کے لیے گھر سے باہر جائیں تو پاپا کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو میں پاپا کو بتا دوں گا۔ مجھے امید ہے آپ میری باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں گی۔”
وہ جتنی اچھی فرنچ بولتا تھا۔ اس سے زیادہ شستہ اردو میں بات کرتا تھا مگر اس وقت تو سارہ کو زہر لگ رہا تھا۔ وہ اسے گیٹ پر اتار کر چلا گیا تھا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے اندر چلی آئی۔
…***…
دروازہ کھل گیا تھا۔ باہر کھڑے مجمع کو جیسے توقعات کے مطابق ان دونوں کو اندر سے نکلتے دیکھ کر بھی حیرت ہوئی تھی۔
”تائی امی! کسی نے باہر سے…” صبا نے آخری بار صفائی دینے کی کوشش کی تھی۔
”میں نے کیا تھا دروازہ بند تاکہ تم دونوں کے کرتوت سب کو دکھا سکوں۔” تائی امی شیر کی طرح اس پر جھپٹی تھیں۔
”آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ آپ ہی نے تو مجھے یہاں بستر دیکھنے کے لیے بھیجا تھا۔” صبا نے یکدم چلا کر کہا تھا۔
”آوارہ، چڑیل! حرافہ! میں نے تمھیں یہاں بستر دیکھنے کے لیے بھیجا تھا؟ میرا دماغ خراب تھا؟ میں یہاں عارفین کے کمرے میں کس کے لیے بستر لگواؤں گی؟ بے غیرت! بے حیا! تمھیں شرم نہیں آئی میرے بیٹے کے کمرے میں منہ کالا کرتے ہوئے؟ ہائے میرا عارفین! اسے کیا پتا تھا، وہ کس بے حیا کو بیاہنے کی بات کر رہا ہے۔”
تائی امی نے دہائی دیتے ہوئے اپنا سینہ پیٹ لیا تھا۔
”آپ جھوٹ بول رہی ہیں تائی امی! آپ تہمت لگا رہی ہیں۔” صبا نے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ کہا تھا۔
”ہوش کریں تائی امی! خدا کے لیے ہوش کریں۔ ایسی بات نہ کریں۔ آپ نے تو مجھے بلب ہولڈر ٹھیک کرنے بھیجا تھا۔” عادل نے بھرائی ہوئی آواز میں تائی امی کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے۔
”میں ہوش کروں؟ میں ہوش کروں؟ تم لوگوں کے کرتوت لوگوں کو نہ بتاؤں؟ تم لوگوں کے کارناموں پر پردہ ڈال دوں؟ عارفین تمھیں بھائی کی طرح سمجھتا تھا۔ تم نے بھائی کی پشت میں خنجر گھونپ دیا ہے یا اللہ میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مر کیوں نہ گئی۔”
تائی امی نے ہاتھ ملنے اور بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔ صبا نے ایک نظر اپنی امی کی طرف دیکھا جو گم صم ایک طرف کھڑی تھیں۔ اس کی چھوٹی بہن رو رہی تھی۔
”تائی امی! میں نے کچھ نہیں کیا۔ اللہ جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔ میں عارفین کی بیوی ہوں۔ میں اسے دھوکا کیسے…”
تائی امی نے اس کے چہرے پر تھپڑ کھینچ مارا تھا۔ ”نام مت لے بے غیرت! عارفین کا نام مت لے۔ تو عارفین کے لیے مر گئی ہے۔ کیا تیرے جیسی بدکردار کو اس گھر میں لائیں گے؟ ارے جاؤ جا کر گھر کے مردوں کو بلا کر لاؤ۔ ان سے کہو، دیکھیں اس گھر پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔” تائی امی نے ہاتھ لہرانے شروع کر دیے تھے۔
”خدا کا خوف کریں تائی امی! خدا کا خوف کریں۔” عادل ایک بار پھر ان کے سامنے گڑگڑایا تھا۔
”تم لوگوں کو خدا کا خوف کیوں نہیں آیا؟ میں تو تم دونوں کے ٹکڑے کر کے کتوں کے سامنے ڈلواؤں گی۔ بخشوں گی تو نہیں۔” انھوں نے زہریلے لہجے میں کہا تھا۔ عادل کے دل میں پتا نہیں کیا آئی تھی۔
”تم ایک ذلیل عورت ہو۔ تم نے جان بوجھ کر ہم دونوں کو پھنسایا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے۔ میں تمھارے ہاتھوں مرنے کے لیے یہاں بیٹھا رہوں گا؟ لیکن تم یاد رکھنا میں جب بھی واپس آؤں گا۔ تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔”
عادل یک دم ادب آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے تائی پر دھاڑا تھا اور پھر اس سے پہلے کہ کوئی اسے پکڑنے کی کوشش کرتا، وہ بھاگتا ہوا نیچے چلا گیا تھا۔ تائی امی نے اس کے بھاگنے پر کوئی شور و غوغا بلند نہیں کیا۔
”اگر یہ بے گناہ ہوتا تو یہاں سے بھاگتا کیوں؟ دیکھ لو عالیہ دیکھ لو اپنی بیٹی کے کرتوت۔ تمھیں کتنا سمجھایا تھا کہ اسے روکو۔ تم نے ایک نہیں سنی تھی۔ اب ساری عمر اپنا منہ چھپاتی پھرنا۔”
تائی امی نے صبا کی امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا جو اب ہچکیوں سے رو رہی تھیں۔ صبا نے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ ہجوم اس کے اردگرد گھیرا ڈالے کھڑا تھا۔ وہ عادل کی طرح وہاں سے بھاگ نہیں سکتی تھی، وہ بھاگنا چاہتی ہی نہیں تھی۔ جو کچھ ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ ہاں اگر کچھ سمجھ میں آ رہا تھا تو وہ سامنے کھڑے لوگوں کی نظریں تھیں جو نیزے کی انی کی طرح اس کے جسم کو چھید رہی تھیں۔ وہ اب انتظار میں تھی کہ تایا اور دوسرے لوگ اوپر آئیں اور وہ انھیں اپنی بات سمجھائے۔ اسے توقع تھی کہ وہ اس کی بات سمجھ لیں گے اور توقع ہمیشہ صرف توقع ہی رہتی ہے۔
عارفین کی بڑی بہن نے نیچے جا کر اپنے باپ کو سب کچھ اسی طرح بتا دیا تھا جس طرح تائی امی کہہ رہی تھیں۔ وہ آگ بگولا ہو کر اوپر آئے تھے۔ تائی نے انھیں دیکھتے ہی اپنے بین اور دہائیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا تھا۔ صبا کو دیکھتے ہی وہ آپے سے باہر ہو گئے تھے۔ انھوں نے صبا کی بات نہیں سنی۔ کوئی بھی اب اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ گونگی ہو گئی ہے یا باقی سب بہرے ہو چکے تھے۔ مغلّظات کا ایک طوفان تھا جو تایا کے منہ سے ابل پڑا تھا۔
”میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ میں اسے گولی مار دوں گا تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے کی کسی میں جرأت نہ ہو سکے۔”
انھوں نے یک دم فیصلہ کیا تھا اور لپکتے ہوئے نیچے چلے گئے تائی کو اچانک صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ وہ بھی بھاگتی ہوئی ان کے پیچھے چلی گئیں۔
”بے غیرت! جاؤ اب اپنے گھر اور کیا تماشا کروانا چاہتی ہو یہاں؟ چاہتی ہو کہ میرا باپ تمھیں مار کر خود پھانسی چڑھ جائے۔ ہمارا گھر تباہ ہو جائے۔ نکلو یہاں سے، دفع ہو جاؤ یہاں سے۔”
یکدم عارفین کی سب سے بڑی بہن اس کی طرف آئی تھیں اور اس کا بازو کھینچ کر انھوں نے اسے سیڑھیوں کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ اس کا دوپٹہ نیچے گر پڑا۔ آپا نے اسے دوپٹہ اٹھانے کی مہلت نہیں دی۔ وہ ہونٹ کاٹتے آنسوؤں کو ضبط کرتے دوپٹے کے بغیر ہی نیچے اترنے لگی۔
نیچے ہنگامہ برپا تھا۔ تایا ابو اپنا پستول نکال رہے تھے اور تائی اور ان کے دونوں چھوٹے بھائی انھیں پکڑ رہے تھے۔ سرمد کے ابو نے ان سے پستول چھین لیا تھا۔ صبا اندھوں کی طرح چلتی ہوئی باہر صحن میں نکل آئی تھی۔
”میرے لیے تم مر گئی ہو۔ میرے گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں دل چاہے چلی جاؤ لیکن اپنے گندے قدم میرے گھر میں مت لانا۔”
صحن میں نکلتے ہی اس نے پیچھے اپنی ماں کی آواز سنی تھی۔ انھوں نے اقصیٰ کا ہاتھ پکڑا تھا اور تقریباً بھاگتے ہوئے اپنے حصے کی طرف چلی گئی تھیں۔ وہ وہیں ساکت ہو گئی۔ کوئی چیز اس کے چہرے کو بھگونے لگی تھی۔
اس کے حصے کے علاوہ باقی ہر حصے کے برآمدوں میں لوگ جمع تھے۔ کچھ کو وہ جانتی تھی کچھ کو نہیں جانتی تھی مگر آج کے بعد ساری عمر اس کا چہرہ انھیں یاد رہنا تھا۔ یک دم اسے کھڑا رہنا دشوار لگنے لگا۔ وہ فرش پر بیٹھ گئی اور اس نے اپنے سر کو گھٹنوں میں چھپا لیا۔ خطرے کے سامنے آنکھیں موند لینا کبوتر کو کیوں اس قدر پسند ہے۔ اسے آج پتا چلا تھا۔ پھر اچانک اسے تایا کی دھاڑ سنائی دی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر تایا کے گھر کی طرف دیکھا۔ وہ صحن میں نکل آئے تھے اور اسی کی طرف آ رہے تھے۔ وہ بے اختیار اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں ان سے کہوں گی۔ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میں انھیں بتاؤں گی۔” اس نے سوچا تھا۔ وہ اب بھی اسے گالیاں دے رہے تھے۔ ان کا چہرہ آگ کی طرح سرخ تھا۔
”تایا ابو! میری بات سنیں۔” اس نے ان کے قریب آنے پر بلند آواز سے کہا تھا لیکن وہ بات سننے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے اس کے قریب آتے ہی دونوں ہاتھوں سے اس کے بال پکڑ لیے تھے۔
”یہ نہ کریں تایا ابو! یہ نہ کریں۔” وہ خوف سے چلائی تھی۔
برآمدے لوگوں سے بھر گئے تھے۔ بچے اشتیاق کی وجہ سے صحن میں نکل آئے تھے۔ انھوں نے بال کھینچتے ہوئے گالیاں دیتے ہوئے اسے فرش پر دھکا دیا تھا۔ پھر پاؤں سے جوتا اتار لیا تھا۔ اس نے خوف کے عالم میں انھیں دیکھا تھا۔
”تایا…!” اس کی آواز حلق میں گھٹ گئی تھی۔ وہ پوری طاقت سے اس کے سر پر جوتے برسا رہے تھے۔ صبا نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔ ان کے اشتعال میں اور اضافہ ہو گیا۔ انھوں نے ایک ہاتھ سے اس کے بال پکڑ لیے تھے۔ پتا نہیں صبا کے دل میں کیا آیا، اس نے دونوں ہاتھ ان کے سامنے جوڑ دیے۔
”نہیں تایا ابو! یہاں صحن میں لوگوں کے سامنے اس طرح نہ ماریں۔ مارنا چاہتے ہیں تو مجھے گولی مار دیں یا مجھے پسٹل دے دیں۔ میں خود اپنے آپ کو گولی مار لیتی ہوں۔”
انھوں نے اس کے سر پر جوتے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس نے آخری بار سر اٹھا کر دور برآمدوں میں کھڑے لوگوں کو دیکھا تھا پھر اس نے اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر سر چھپا لیا تھا۔
تایا ابا اس پر جوتے برسا رہے تھے، وہ کسی حرکت، کسی شور کے بغیر خاموشی سے پٹ رہی تھی۔ دور کہیں سے اسے اقصیٰ کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
”یہ کیوں کیا آپی؟ یہ کیوں کیا؟” وہ چلا رہی تھی۔ وہ جواب دینا چاہتی تھی مگر وہ بول نہیں سکتی تھی۔
درد کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ سر اٹھا کر ایک بار اقصیٰ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ سر نہیں اٹھا سکتی تھی۔ آج یوم حساب تھا۔
…***…
حیدر کی دھمکی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اس نے ملازمت کی تلاش اور تیز کر دی تھی لیکن جب چند اور ہفتے اسی طرح گزر گئے تو اس نے ایک اکیڈمی کے ذریعے ایک گھر میں آٹھویں کلاس کے ایک بچے کو میتھس کی ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ دو گھنٹے کے لیے دو ہزار روپے کی یہ جاب اس کے لیے بے حد پرُکشش تھی۔ اسے شام کو دو سے چار بجے تک اس بچے کو پڑھانے کے لیے جانا ہوتا تھا اور اس نے عارفین عباس سے کہا تھا کہ وہ ایک جگہ پر کپڑوں کی کٹنگ اور سلائی کا کورس کرنا چاہتی ہے اس لیے اسے دو گھنٹے کے لیے وہاں روز جانا ہوگا۔ عارفین عباس نے کسی اعتراض کے بغیر اسے اجازت دے دی تھی۔ اور حیدر کے استفسار پر انھوں نے اسے بھی یہی بتایا تھا حیدر کو کچھ حیرت ہوئی تھی کہ یکدم جاب کی تلاش چھوڑ کر اس نے ایسی سرگرمی میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ مگر اس نے اس پر زیادہ غور و خوض نہیں کیا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ شاید سارہ پر اس کی باتیں اثر کر گئی ہیں۔
اس دن چھٹی کا دن تھا اور اس کا کوئی دوست اس سے ملنے آیا تھا۔ سارہ، عارفین عباس کے پاس باہر لان میں بیٹھی تھی۔ حیدر نے اپنے دوست کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا لیکن وہ ڈرائنگ روم کی قد آدم کھڑکیوں سے باہر لان کی طرف دیکھتے ہی چونک اٹھا تھا۔
”یہ کون ہیں؟” اس نے انگلی سے باہر لان کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں سارہ، عارفین عباس کے پاس بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ حیدر اس کے سوال پر کچھ حیران ہوا تھا۔
یہ میرے پاپا کی کسی کزن کی بیٹی ہیں۔ ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ تم جانتے ہو انھیں؟” حیدر نے اس سے پوچھا تھا۔
”نہیں ایسا کچھ خاص نہیں، دراصل یہ میرے بھانجے کو پڑھاتی ہیں۔ یہاں دیکھا تو حیرانی ہوئی۔ اس لیے پوچھ لیا۔”
حیدر اس کی بات پر چپ کا چپ رہ گیا تھا۔
”کب سے پڑھا رہی ہیں؟” اس نے کچھ دیر بعد پوچھا تھا۔
”یہ تو مجھے نہیں پتا، اصل میں دو تین بار مجھے اپنی بہن کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، وہیں میں نے ان کو دیکھا تھا لیکن مجھے یہ نہیں پتا کہ انھوں نے اسے کب سے پڑھانا شروع کیا ہے۔”
وہ اسے تفصیل بتا رہا تھا۔ حیدر نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ اس کا موڈ یکدم خراب ہو گیا تھا۔ اس کا دوست کچھ دیر بیٹھا تھا اور پھر چلا گیا تھا۔ دوست کے جانے کے بعد وہ سیدھا باہر لان میں آ گیا تھا۔ جہاں سارہ اور عارفین ابھی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
کچھ اکھڑے ہوئے تیوروں کے ساتھ وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔
”سارہ! میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کو جو کام بھی کرنا ہے، پاپا کو اس کے بارے میں پتا ہونا چاہیے لیکن آپ نے میری بات کی قطعاً پروا نہیں کی اور پاپا کے ساتھ غلط بیانی کر کے ٹیوشن کرنے جا رہی ہیں۔”
اس نے کسی تمہید کے بغیر براہ راست اس سے بات شروع کر دی تھی۔ عارفین عباس نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اخبار سامنے پڑی میز پر رکھ دیا تھا۔ سارہ کچھ حواس باختگی کے عالم میں حیدر کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس طرح پکڑی جائے گی اور حیدر کسی لحاظ کے بغیر عارفین عباس کے سامنے اس کا پول کھول دے گا۔
”کیا بات ہے حیدر؟ کیا کیا ہے سارہ نے؟” عارفین نے کچھ حیرت سے اس سے پوچھا تھا۔
”آپ ان سے پوچھیں۔” اس نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ سارہ نے اب سر جھکا لیا۔
”کیوں سارہ! کیا ہوا ہے؟” عارفین نے اب اس سے پوچھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔ اس کے خاموش رہنے پر حیدر بول اٹھا تھا۔
”یہ کوئی کورس کرنے نہیں جاتی ہیں۔ کسی جگہ پر ٹیوشن کے لیے جاتی ہیں۔”
عارفین عباس کو ایک جھٹکا سا لگا تھا۔ چند لمحوں تک وہ کچھ بول ہی نہیں پائے۔ ”سارہ! یہ کیوں کر رہی ہو۔ جو روپے میں تمھیں دیتا ہوں۔ کیا وہ کافی نہیں ہیں اور اگر وہ تمہاری ضروریات کے لیے کافی نہیں ہیں تو تم مجھ سے اور روپے لے سکتی ہو مگر اس طرح۔”
سارہ نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”انکل! مجھے آپ سے روپے لینا اچھا نہیں لگتا نہ ہی مجھے وہ روپے خرچ کرنے اچھے لگتے ہیں۔” اس نے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی تھی۔ عارفین اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے۔
”دراصل مجھے اس طرح آپ کے گھر رہنا اور آپ پر بوجھ بننا اچھا نہیں لگ رہا۔ میں یہاں رہنا بھی نہیں چاہتی۔”
”کیوں؟” عارفین نے بے اختیار پوچھا تھا۔
”انکل! میں نہیں جانتی تھی۔ امی مجھے کہاں اور کس کے پاس بھیج رہی ہیں اور عارفین عباس ان کے کیا لگتے ہیں۔ آپ کا اور ان کا کیا رشتہ تھا۔ میں اس کے بارے میں زیادہ نہیں جان پائی لیکن جو تھوڑا بہت جان سکی ہوں۔ وہ میرے لیے کوئی زیادہ خوشی کا باعث نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں، آپ کو یہ جان کر دکھ ہوگا لیکن آپ دونوں کا رشتہ میرے لیے کوئی قابل فخر چیز نہیں ہے اور اس حوالے سے یہاں رہنا میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ آپ پر میرا کوئی حق نہیں ہے جس کے حوالے سے میں آپ سے کچھ لے سکوں یا یہاں رہ سکوں۔ میں نے اسی لیے آپ سے کہا تھا کہ آپ میرے نانا سے میرا رابطہ کروا دیں۔ میں ان کے پاس جانا چاہتی تھی۔ لیکن آپ نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی۔ اب میں جاب ڈھونڈ رہی ہوں ابھی تک جاب نہیں ملی ہے۔ اس لیے میں نے ٹیوشن کرنا شروع کر دیا کیونکہ اس سے کم از کم میرے اخراجات تو پورے ہو سکتے ہیں۔ جاب ملتے ہی میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔”
اس نے آہستہ آواز میں ان دونوں کو حیران کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔
”سارہ! تم اکیلے کیسے رہو گی؟” عارفین نے کچھ بے چینی سے اس سے پوچھا تھا۔
”انکل! بہت سی لڑکیاں اکیلی رہتی ہیں پھر میرے لیے تو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے امی کی زندگی میں بھی میں اکیلی ہی ہوتی تھی۔”
”سارہ تمھیں اچھا لگے یا برا لیکن تمھیں یہیں رہنا ہے۔ میں تمھیں اکیلے کہیں نہیں رہنے دوں گا۔ صبا تمھیں میری ذمہ داری بنا کر گئی ہے۔ میں تمھیں اس طرح خوار ہونے کی اجازت نہیں دوں گا۔” عارفین نے فیصلہ کن انداز میں کہا تھا۔
”لیکن میں…”
عارفین نے اس کی بات کاٹ دی۔” سارہ! اس مسئلے پر میں بات نہیں کروں گا۔ میرے لیے تم میری بیٹی ہو۔ یہ گھر جتنا حیدر کا ہے۔ اتنا ہی تمہارا ہے۔ تم مجھ پر پہلے کبھی بوجھ تھیں نہ آئندہ کبھی ہو گی۔ میرے اور صبا کے رشتے کے بارے میں کچھ غلط مت سوچو، یہ ٹھیک ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور کسی وجہ سے ہماری شادی نہیں ہو سکی لیکن ہمارے درمیان یہ واحد رشتہ نہیں تھا۔ ہم ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بھی تھے اور اس حوالے سے تمہارا مجھ پر حق ہے۔”
”لیکن آپ یہ کیوں نہیں چاہتے کہ میں اپنے نانا کے پاس چلی جاؤں؟” وہ ان کی بات پر کچھ جھنجلا گئی تھی۔
”صبا یہ نہیں چاہتی تھی کہ تم اس کے گھر والوں کے پاس جاؤ۔”
”وہ یہ کیوں نہیں چاہتی تھیں؟”
”میں نہیں جانتا کہ وہ یہ کیوں نہیں چاہتی تھی۔”
”میں جانتی ہوں۔ انھوں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی وہ سب ان سے ناراض ہو گئے اور انھوں نے امی سے قطع تعلق کر لیا۔ امی کا خیال ہوگا کہ وہ اب تک ان سے ناراض ہیں اور شاید وہ مجھے قبول نہیں کریں گے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب امی کے مر جانے کے بعد ان کی ناراضگی ختم ہو چکی ہوگی۔ اب وہ مجھے ٹھکرائیں گے نہیں۔ کم از کم میں ان سے بات کر کے ان کی ناراضگی دور کر سکتی ہوں۔”
عارفین اس کی باتوں پر حیران ہو گئے تھے۔ ”سارہ! تمھیں یہ سب کس نے بتایا؟” انھوں نے پوچھا تھا۔
”کسی نے نہیں، میں نے خود اندازہ لگایا ہے۔ میں بچی نہیں ہوں۔ میں بڑی ہوں۔ چیزوں کو سمجھ سکتی ہوں۔”
”ہر چیز ویسے نہیں ہے جیسے تم سمجھ رہی ہو۔ بہت سی باتوں سے تم لاعلم ہو۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں تمھارے اندازے غلط ہیں۔” انھوں نے تھکے ہوئے لہجے میں اس سے کہا تھا۔
”تو پھر آپ مجھے بتائیں۔ حقیقت کیا ہے۔ کس چیز کے بارے میں میرا اندازہ غلط ہے امی نے کبھی مجھے کچھ نہیں بتایا مگر آپ تو بتا سکتے ہیں۔”
”سارہ! میں تمھارے نانا سے کانٹیکٹ کروں گا لیکن تم یہ بات ضرور یاد رکھنا کہ صبا یہ نہیں چاہتی تھی کہ تم ان کے پاس رہو۔”
اس کی توقع کے برعکس عارفین عباس نے اس کی بات مان لی تھی اور پھر وہ تیزی سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
حیدر نے اس پوری گفتگو میں حصہ نہیں لیا تھا مگر وہ دلچسپی سے دونوں کی باتیں سنتا رہا تھا۔ سارہ نے پہلی بار اسے صحیح معنوں میں چونکایا تھا۔ عارفین کے جانے کے بعد وہ بھی اٹھ کر اندر چلا آیا تھا۔ سارہ دیر تک لان میں بیٹھی رہی۔
…***…