میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

صبا ان کی چچا زاد تھی۔ وہ دو بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی تھی اور عارفین اپنی تینوں بہنوں سے چھوٹے اور اکلوتے تھے۔ ایک ہی بڑے سے احاطے میں ان چاروں بھائیوں کے چار کونوں میں گھر تھے اور چاروں گھروں کے درمیان کا وسیع صحن مشترکہ تھا۔ گھروں کے بیرونی طرف چاروں جانب لان تھا۔ گھروں کی بیرونی دیوار اور گیٹ بھی مشترکہ تھا۔ عارفین کے ابو سب سے بڑے تھے اور صبا کے والد بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
صبا کے ابو شروع سے امریکہ میں مقیم تھے اور وہ سال میں دو بار پاکستان آیا کرتے تھے۔ لیکن صبا کی فیملی نے کبھی باہر شفٹ ہونے کی کوشش نہیں کی کیونکہ نہ تو اس کے ابو ان لوگوں کو باہر لے جانا چاہتے تھے اور نہ ہی خود صبا کی امی باہر جانا چاہتی تھیں۔ وہ اتنی دور نہیں رہ سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شادی کے بعد وہ اسی گھر میں ایک الگ حصے میں منتقل ہو گئیں۔ وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ یہ گھرانہ ایسا تھا جہاں لڑکیوں کو بس اتنی تعلیم دی جاتی تھی جس سے انھیں لکھنا پڑھنا آ جاتا۔ صبا کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ حیران ہوئی تھی جب بڑے تایا نے اسے گھر بیٹھنے کے لیے کہا۔ امی کی بھی یہی رائے تھی کہ اتنی تعلیم لڑکیوں کے لیے کافی ہوتی ہے۔
”نہیں۔ مجھے تو آگے پڑھنا ہے اور میں ابو سے بات کر لوں گی لیکن میں تعلیم نہیں چھوڑوں گی۔”
اس کے دو ٹوک جواب پر اس کی امی سکتے میں آ گئی تھیں۔
”گھر میں کوئی اس بات کو پسند نہیں کرے گا اور خود تمھارے ابو بھی۔ پھر تمھیں پڑھ کر کرنا بھی کیا ہے؟” اس کی امی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”پڑھنا لکھنا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر کسی کو اعتراض ہونا چاہیے اور مجھے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔ یہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد طے کروں گی۔ ابھی کیسے بتا دوں۔”
اس نے بڑے سکون سے کہا اورپھر پتا نہیں اس نے اپنے باپ کو کیا لکھ کر بھیجا تھا کہ انھوں نے اسے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔
عارفین ان دنوں لندن اسکول آف اکنامکس میں اپنی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ وہ عمر میں صبا سے پانچ سال بڑا تھا۔ اپنی دوسری کزنز کی طرح اس نے صبا پر بھی کبھی دھیان نہیں دیا تھا۔ صبا سے اس کی پہلی باقاعدہ ملاقات تب ہوئی تھی جب تعلیم سے فارغ ہو کر اس نے ایک بینک میں جاب کر لی تھی اور چھٹیوں میں پاکستان آیا تھا۔ گھر پہنچتے ہی وہ باری باری ہر چچا کے گھر گیا تھا۔ صبا ان دنوں بی۔ اے میں داخلہ لینے کی کوششوں میں تھی۔ عارفین کے لیے چائے وہی لائی تھی اور چائے کا کپ دیتے ہی اس نے عارفین سے پوچھا تھا۔
”تعلیم کیسی چیز ہوتی ہے؟”





عارفین اس سوال پر قدرے حیران ہوا تھا۔ ”بہت اچھی چیز ہوتی ہے۔”
”صرف لڑکوں کے لیے یا لڑکیوں کے لیے بھی؟” سوال کا جواب ملتے ہی ایک اور سوال پوچھا گیا تھا۔
”صبا! کیا فضول سوال جواب شروع کر دیے ہیں۔” صبا کی امی نے اسے ٹوکا تھا۔
”دونوں کے لیے ہی اچھی ہے۔” عارفین نے چچی کی بات پر غور کیے بغیر اس کے سوال کا جواب دیا تھا۔
”پھر تایا تعلیم کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ اپنے بیٹے کو پڑھنے کے لیے لندن بھیج دیتے ہیں، دوسروں کو گھر سے باہر تک جانے نہیں دیتے۔”
”صبا! منہ بند کر لو۔ کیا بکواس لگا رکھی ہے۔ عارفین! تم اس کی بات پر دھیان مت دینا۔” صبا کی امی نے کچھ گھبرا کر عارفین سے کہا تھا جو کافی دلچسپی سے صبا کو دیکھ رہا تھا۔
”کس کو گھر سے باہر جانے سے روک دیا؟”
”مجھے۔” اس کے سوال کا فوراً جواب آیا تھا۔
”صبا بی بی! آپ تو پہلے ہی ایف۔ اے کر چکی ہیں۔ آگے اور کیا پڑھیں گی اور پھر پڑھ کر آپ کو کرنا بھی کیا ہے؟”
”آپ اتنا پڑھ کر کیا کریں گے؟” لہجہ ابھی بھی نرم تھا لیکن سوال نہیں۔
”بھئی۔ میں تو مرد ہوں۔ مجھے تو کمانا ہے تاکہ گھر چلا سکوں۔” اس نے کچھ شگفتگی سے کہا تھا۔
”اتنی زیادہ تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد کمانا تھا؟” عارفین اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا تھا۔
”بہرحال، میں کمانے کے لیے تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتی۔ شعور حاصل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔” وہ بے حد سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔
”شعور حاصل کر کے کیا کریں گی؟” عارفین نے بے اختیار پوچھا تھا۔
”دنیا کو سمجھوں گی۔ انسانوں کو جانچوں گی۔”
عارفین نے کچھ حیرانی سے اپنی اس کزن کا چہرہ دیکھا تھا۔
”آپ بی۔ اے میں داخلہ لینا چاہتی ہیں۔ ضرور لیں۔ میں ابو سے بات کر لوں گا۔ وہ اعتراض نہیں کریں گے۔”
عارفین نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی اور وہ اندر چلی گئی تھی۔
چچی ناراض ہونے لگی تھیں، انھیں سمجھانے میں عارفین کو کافی وقت لگ گیا تھا۔ پھر واقعی تایا نے پچھلی بار کی طرح اس بار مخالفت نہیں کی تھی لیکن یہ نہیں تھا کہ انھیں صبا کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ان کے اعتراضات اور ناپسندیدگی اپنی جگہ پر تھی اور انھوں نے اب صبا سے بات کرنا ہی چھوڑ دی تھی۔ صبا کو خود بھی اس بات کی قطعاً پروا نہیں تھی۔
”امی! مجھے لوگوں سے تعریف پا کر کرنا بھی کیا ہے۔ مجھے کوئی پسند کرے تو اس کا مجھے کیا فائدہ ہے؟ ناپسند کرے تو اس کا مجھے کیا نقصان ہے؟ ہاں بس میں یہ ضرور چاہتی ہوں کہ کوئی میری تعلیم میں مداخلت نہ کرے۔”
اس کی منطق، اس کی فلاسفی اس کی امی کی سمجھ سے باہر تھی۔ انھیں تو ہر وقت یہ ہی دکھ لگا رہتا تھا کہ ابھی تک صبا کے لیے خاندان میں سے کسی نے پیغام نہیں دیا اور صبا کی حرکتوں کو دیکھ کر انھیں یہ ممکن لگتا بھی نہیں تھا۔
مگر اس وقت عارفین کے ماں باپ پر بجلی گر پڑی تھی جب عارفین نے صبا کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ پورے خاندان کی نظریں جس پر لگی ہوئی تھیں اسے پسند آئی بھی تو بقول تائی امی ایک ”رسوائے زمانہ” لڑکی۔ تائی امی کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ صبا کو گولی مار دیں۔ یہی حال تایا کا تھا۔ صبا انھیں ہی سب سے زیادہ ناپسند تھی اور اب اسے بہو بنانا انھیں قیامت سے بھی زیادہ دشوار لگ رہا تھا۔ عارفین کو سمجھانے میں وہ ناکام رہے تھے۔ وہ کبھی ضد نہیں کرتا تھا مگر اس بار وہ اپنی بات پر اڑ گیا تھا۔ اسے صبا کی کسی بات میں کوئی خامی نظر نہیں آ رہی تھی بلکہ وہ اس کی تعلیم کو اس کی خوبی قرار دے رہا تھا۔ تایا اس پر زیادہ سختی نہیں کر سکتے تھے۔ آخر وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ بھی لائق فائق۔ وہ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے دل پر جبر کرتے ہوئے صبا کا رشتہ مانگ لیا تھا۔
”امی! عارفین سے پوچھیں۔ آگے پڑھنے دیں گے؟ اگر اقرار کریں تو پھر مجھے اس رشتہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
صبا نے اس رشتہ پر اپنے ردعمل کا اظہار ایک جملہ میں کیا تھا۔ صبا کی امی سر پیٹ کر رہ گئی تھیں۔ انھیں یقین ہو چکا تھا کہ صبا کا دماغ خراب ہو چکا ہے ورنہ وہ اتنے اچھے رشتے پر خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے شرطیں نہ رکھتی۔ انھوں نے عارفین تک اس کا جواب پہنچا دیا تھا اور عارفین کو واقعی اس کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں تھا نہ ہی وہ اسے مزید تعلیم حاصل کرنے سے روکنا چاہتا تھا۔
بڑی سادگی سے نسبت طے کرنے کے بجائے دونوں کا نکاح کر دیا گیا تھا۔ رخصتی دو سال بعد ٹھہرائی گئی تھی۔
صبا نے ایک بار پھر سب کو ناراض کرتے ہوئے ایم۔ اے میں داخلہ لے لیا تھا، اس بار اعتراضات اس لیے بھی زیادہ ہوئے تھے کیونکہ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اور خاندان بھر کو یہ سوچ کر ہی طیش آ رہا تھا کہ ان کے خاندان کی لڑکی اب لڑکوں کے ساتھ پڑھے گی۔ تایا جب اسے یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے نہیں روک سکے تو انھوں نے شرط عائد کر دی تھی کہ وہ برقع اوڑھ کر یونیورسٹی جایا کرے کیونکہ وہ ان کے خاندان کی بہو ہے اور وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ اس طرح بے حیاؤں کی طرح منہ کھولے لڑکوں کے ساتھ پڑھتی رہے۔ مگر ہر بات کی طرح اس بار بھی صبا کی منطق نرالی تھی۔ ”میں تعلیم حاصل کرنے جا رہی ہوں اور مجھے اپنی عزت کا پاس ہے اور میں یونیورسٹی بے پردہ نہیں جا رہی ہوں۔ چادر لے کر جاؤں گی۔ میرا سر اور جسم اس چادر میں چھپا رہے گا مگر میں روایتی برقع نہیں پہنوں گی اور اگر پہنوں گی بھی تو گھر سے پہن کر جاؤں گی اور دوسری لڑکیوں کی طرح یونیورسٹی جا کر اتار دوں گی۔ ایسے برقع کا ہمارے خاندان کو کیا فائدہ ہو گا۔”
تایا اور تائی اس کی ضد پر تلملا کر رہ گئے تھے۔ انھوں نے عارفین کو خط لکھ لکھ کر اس کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی تھی مگر ایسے لگتا تھا جیسے فرانس جا کر عارفین بھی اس کا ہم نوا ہو گیا تھا، وہ ان کے پانچ خطوں کے جواب میں ایک خط لکھتا اور وہ بھی اس بات کے ساتھ کہ صبا اگر برقع نہیں پہننا چاہتی تو نہ پہنے۔ اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہی بات وہ صبا کو بھی خط میں لکھتا تھا۔
دونوں کے درمیان مسلسل خط و کتابت ہوتی رہی تھی مگر یہ خطوط کوئی روایتی قسم کے خطوط نہیں تھے۔ ان میں اقرار و محبت اور اظہار محبت کے علاوہ سب کچھ ہوتا تھا اور شاید ان دو چیزوں کی دونوں کو کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ صبا کا خط عارفین کو کتاب کی طرح لگتا تھا۔ ہر لفظ کوئی نیا مفہوم، کوئی نیا معنی لیے ہوتا تھا وہ پڑھتا۔ کچھ جملوں پر حیران ہوتا کچھ پر سکتے میں آتا۔ کچھ پر اس کی سانس رک جاتی۔ خط دوبارہ پڑھتا تو کوئی دوسرا جملہ کسی دوسری دنیا کا دروازہ اس پر کھول دیتا۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا، وہ صبا سے کہہ دے۔ ”چیزوں کے بارے میں ایسے مت سوچو ورنہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جائے گی۔” ہر دفعہ وہ صرف سوچ کر رہ جاتا۔ اسے کبھی لکھ نہیں پاتا، اس میں اتنی جرأت ہی نہیں تھی۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا۔ وہ اس سے کہے کہ ہر چیز کے بارے میں سوچتی ہو، مجھے لکھ دیتی ہو۔ میرے بارے میں کیا سوچتی ہو، یہ کیوں نہیں لکھتیں؟
ایک بار اس نے ہمت کر کے یہ سوال اسے لکھ ہی دیا تھا۔ اسے اس کا جواب ابھی تک یاد تھا۔ اس نے لکھا تھا۔
”جس چیز سے بے حد محبت ہو، اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے۔ سوچ شبہات کو پیدا کرتی ہے اور شبہ محبت کو ختم کر دیتا ہے۔ تم چاہتے ہو، تم سے میری محبت ختم ہو جائے؟”
وہ دوبارہ اس سے اپنے بارے میں کچھ جاننے کی فرمائش نہیں کر سکا تھا۔
——————————————————————————————————————————————
”سارہ! میں پرسوں صبا کے لیے قرآن خوانی کروا رہا ہوں۔ سب خاندان والے آئیں گے اور بھی کافی لوگ ہوں گے۔ میں نے ملازمین سے کہہ دیا ہے وہ سارے انتظامات دیکھ لیں گے مگر پھر بھی تم خود ان کی نگرانی کرنا۔”
صبح ناشتہ پر عارفین عباس نے اس سے کہا تھا۔ حیدر نے باپ کے چہرے کو غور سے دیکھا تھا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ شاید وہ رات کو سوئے نہیں تھے۔ وہ ان سے کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ اس نے ایک نظر سارہ پر ڈالی۔ وہ چائے کے کپ کے گرد ہاتھ جمائے کسی سوچ میں گم تھی۔ چند لمحوں تک ا س نے سارہ کے چہرے پر نظر جمائے رکھی۔ نامحسوس طور پر اسے احساس ہوا تھا کہ اس کے چہرے کے نقوش بہت دلکش تھے۔ خاص طور پر دراز پلکوں والی آنکھیں۔ ”اس کی امی بھی اسی کی طرح ہوں گی ورنہ پاپا جیسے شخص کو محبت جیسا روگ کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر کیا صرف اچھی شکل کی وجہ سے پاپا ان کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے؟ کیا ممی سے زیادہ خوبصورت تھیں وہ؟” وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے مسلسل سوچ رہا تھا۔ یکدم اس نے سارہ کو چونکتے ہوئے دیکھا تھا۔ یقینا اسے لاشعوری طور پر احساس ہو گیا تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔
حیدر نے بڑے سکون سے اپنی نظر ناشتے کی پلیٹ پر مرکوز کر لی۔ سارہ نے عارفین عباس کو دیکھا۔ وہ بریڈ پر جیم لگا رہے تھے پھر اس نے حیدر کو دیکھا۔ وہ بڑے انہماک سے اپنی پلیٹ پر جھکا چھری سے انڈے کو کاٹنے اور کانٹے سے اسے کھانے میں مصروف تھا۔ وہ ایک بار پھر سوچوں میں گم ہو گئی۔
”عارفین عباس کو تو امی سے کوئی شکایت نہیں ہے مگر باقی خاندان والوں کا ردعمل کیا ہوگا؟”
یہ سوال تھا جو بار بار اسے تنگ کر رہا تھا۔ درحقیقت وہ یہ سن کر خوفزدہ ہو گئی تھی کہ اسے امی کے خاندان والوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
اس دن وہ کافی بے چین رہی۔ دوپہر کو عارفین گھر نہیں آئے تھے نہ ہی حیدر آیا تھا۔ عارفین نے اسے فون کر کے لنچ کرنے کے لیے کہہ دیا۔ اسے عجیب سی آزادی کا احساس ہوا تھا۔ اس نے بھی دوپہر کا کھانا نہیں کھایا بلکہ وہ لان میں آ کر بیٹھ گئی۔
”میرے ابو میں ایسی کون سی خاص بات تھی جو امی نے عارفین عباس جیسے شخص کو چھوڑ دیا۔ وہ یہاں اچھی زندگی گزار سکتی تھیں۔ اس زندگی سے بہت بہتر جو انھوں نے وہاں گزاری۔”
اسے بار بار وہ سیلن زدہ ایک کمرے کا فلیٹ یاد آ رہا تھا۔ جو برسات میں بہت سی جگہوں سے ٹپکتا اور وہ بہت دل گرفتگی سے پانی کے ان قطروں کو دیکھتی رہتی جو آہستہ آہستہ پورے کمرے کو گیلا کر دیتے۔
”اگلی دفعہ برسات سے پہلے کچھ روپے جمع کر کے اس کی مرمت کروا لیں گے۔”
ہر برسات میں وہ اپنی امی سے یہی کہتی مگر کبھی بھی اتنے پیسے جمع نہیں ہو پائے جس سے وہ اس چھت کی مرمت کروا پاتے۔ صرف سارہ تھی جو اس فلیٹ اور وہاں موجود چیزوں کی حالت کے بارے میں فکر مند رہتی تھی ورنہ اس نے اپنی امی کو کبھی ان چیزوں کے بارے میں پریشان نہیں دیکھا تھا۔ ہاں شاید وہ اگر کسی چیز کی پروا کرتی تھیں تو وہ سارہ کا وجود تھا۔ اسے یاد تھا۔ وہ بچپن میں اسے خود اسکول چھوڑنے جاتیں اور پھر اسکول سے لے کر آتیں۔ انھوں نے کبھی بھی اسے دوسرے بچوں کے ساتھ کہیں آنے جانے نہیں دیا تھا۔ سارہ کو اسکول سے لے کر وہ سیدھا اپنی فیکٹری چلی جاتی تھیں۔ جہاں وہ ریڈی میڈ کپڑوں کی پیکنگ کیا کرتی تھیں اور سارہ وہیں ایک کونے میں بیٹھ کر اسکول کا ہوم ورک کرتی اور بعض دفعہ تھک جانے پر وہیں ایک طرف سو جاتی۔
اس نے اپنی امی کو فیکٹری میں بھی کبھی کسی کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بات چیت کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ان کا پورا دھیان صرف اپنے کام پر ہوتا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ سارہ نے کبھی اپنی ماں کو کسی کی جھاڑ کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ ایک مشین کی طرح کپڑوں کو لفافوں میں اور بعد میں ڈبوں میں بند کرتی تھیں اور سارہ کو یہ سب ایک دلچسپ کھیل کی طرح لگتا تھا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بڑی ہوتی گئی تھی اور اس کھیل سے اسے اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔ ابھی بھی وہ اسکول سے ماں کے ساتھ ہی فیکٹری چلی جاتی تھی اور میٹرک تک اس کی یہی روٹین رہی۔
میٹرک کے بعد اس نے اپنی امی سے کہا تھا کہ وہ پڑھنے کے بجائے کوئی کام کرنا چاہتی ہے مگر امی نے اسے سختی سے منع کر دیا تھا۔ اس نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا مگر وہ زیادہ خوش نہیں تھی۔ امی کی صحت آہستہ آہستہ خراب ہو رہی تھی اور ہر گزرتا دن اسے خوفزدہ کر دیتا تھا وہ فورتھ ائیر میں تھی جب اس کی امی بہت بیمار ہو گئی تھیں۔ وہ کام پر نہیں جا پاتی تھیں۔
چند ماہ تک جوں توں کر کے جمع پونجی سے گھر چلایا گیا پھر بی۔ اے کے پیپرز دینے کے بعد سارہ نے اسی فیکٹری میں سپروائزر کے طور پر کام شروع کر دیا تھا جہاں اس کی امی کام کرتی تھیں۔
فیکٹری اس کے گھر کے قریب تھی اور وہاں جاب حاصل کرنے کے لیے اسے کسی گارنٹی کی ضرورت نہیں پڑی۔ کچھ عرصہ کے بعد امی کی حالت ٹھیک ہو گئی تھی اور انھوں نے دوبارہ فیکٹری جانا شروع کر دیا تھا۔ سارہ نے ان کے اصرار پر جاب چھوڑ دی تھی اور ایک بار پھر سے پرائیویٹ طور پر اکنامکس میں ایم۔ اے کی تیاری شروع کی تھی مگر آٹھ نو ماہ بعد پھر امی پہلے کی طرح بیمار پڑ گئیں اور اس بار وہ کافی عرصہ تک بیمار رہیں۔ سارہ نے ایک بار پھر اسی فیکٹری میں جاب کر لی تھی اور پھر امی کے ٹھیک ہونے اور ان کے اصرار کے باوجود اس نے جاب نہیں چھوڑی۔ فیکٹری سے اسے اتنے روپے مل جاتے تھے جس سے فلیٹ کا کرایہ اور باقی اخراجات پورے ہو جاتے تھے اور سارہ کے لیے یہ کافی تھا۔
کسی دوسری جگہ پر اس نے جب بھی جاب حاصل کرنے کی کوشش کی۔ گارنٹی کا مسئلہ اس کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آتا اور اب اسے جاب کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے ایک طویل سانس لے کر سر کرسی سے ٹکا دیا۔
——————————————————————————————————————————-
حیدر کل کی طرح آج بھی چار بجے آیا تھا اور لان کی طرف آنے کی بجائے اندر چلا گیا تھا۔ پندرہ منٹ کے بعد سارہ نے ایک بار پھر اس کو ٹریک سوٹ میں ملبوس باہر آتے دیکھا تھا۔ وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا تھا اور پھر اس کی واپسی رات کو ہوئی تھی۔
عارفین عباس بھی رات کو ہی آئے تھے۔ کھانے کی میز پر حیدر اور عارفین کے درمیان فرنچ میں گفتگو ہوتی رہی۔ وہ دونوں اپنی جاب کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ سارہ خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔ کھانے کے دوران ایک بار پھر سارہ کو کسی کی نظروں کی تپش کا احساس ہوا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر عارفین اور حیدر کو دیکھا۔ دونوں اب بھی پہلے ہی کی طرح مصروف گفتگو تھے۔ وہ ایک بار پھر کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔ کھانے کی میز سے سب سے پہلے حیدر گیا تھا۔
”کتابیں پڑھنے کا شوق ہے تمھیں؟” عارفین عباس نے اس کے جانے کے بعد اس سے پوچھا تھا۔
”شوق کا مجھے پتا نہیں۔ ہاں اگر کبھی کوئی کتاب ملتی ہے تو اسے پڑھ ضرور لیتی ہوں۔” عارفین عباس کی نظر لمحہ بھر کو اس کے چہرے پر ٹک گئی تھی۔ اس وقت وہ انھیں بالکل صبا کی طرح لگی تھی۔
”اسٹڈی روم دیکھا ہے تم نے؟”
”نہیں۔”
”دیکھنا۔ وہاں کافی کتابیں ہیں۔ انھیں پڑھنے سے تمہارا وقت اچھا گزر جائے گا۔”
وہ نیپکن سے منہ پونچھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ وہ انھیں جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
——————————————————————————————————————————-
دوسرے دن ایک ملازم سے پوچھ کر وہ اسٹڈی میں آئی تھی۔ اسٹڈی میں واقعی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ اس میں پنجابی، اردو، انگلش اور فرنچ چاروں زبانوں میں کتابیں موجود تھیں۔ وہ کچھ دیر تک مختلف کتابیں نکال نکال کر دیکھتی رہی۔ پھر ایک کتاب نکال کر بیٹھ گئی۔
دوپہر تک وہ وہیں اسٹڈی میں رہی۔ پھر اس نے ڈائننگ روم میں آ کر لنچ کیا۔ عارفین اسے بتا چکے تھے کہ وہ لنچ آفس میں ہی کرتے ہیں اور حیدر بھی لنچ کرنے گھر نہیں آتا تھا۔ لنچ کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اسٹڈی میں آ گئی تھی۔ اس بار وہ اپنے کمرے سے اپنی ڈائری اٹھا لائی تھی اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر اس نے وہ قلم اٹھا لیا جس نے اسٹڈی میں آتے ہی اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی تھی۔ وہ سیاہ رنگ کا ایک فاؤنٹین پین تھا جس کی نب کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے سٹونز لگے ہوئے تھے۔ سونے سے بنی ہوئی نب بھی اسے بہت پرُکشش لگ رہی تھی۔
قلم ہاتھ میں لے کر اس نے شاعری کی ایک کتاب سے کچھ اشعار اپنی ڈائری میں اتارنے شروع کر دیے۔ قلم اتنی خوبصورتی، نفاست اور روانی سے لکھ رہا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت دیر تک اس سے لکھتی رہی تھی۔ اس کی توجہ تب ہٹی تھی جب کوئی ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر اندر آیا تھا سارہ نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تھا۔ آنے والا حیدر تھا۔
وہ خود بھی خلاف توقع اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ چند لمحے وہ یونہی دروازے کا ہینڈل پکڑے کھڑا رہا پھر وہ دروازہ بند کر کے تیزی سے اس کی طرف آیا تھا۔ اس کے بالکل قریب آ کر وہ جھکا تھا اور باری باری اس نے اسٹڈی ٹیبل کے دراز کھولنے شروع کر دیے تھے۔ سارہ کا سانس حلق میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ بالکل بے حس و حرکت تھی۔ حیدر نے ایک دراز میں سے کچھ پیپرز نکالے تھے پھر اس نے اسٹڈی ٹیبل کے ایک کونے میں رکھی ہوئی کچھ کتابیں اٹھا لی تھیں۔
“Please pen” (پلیز میرا قلم دے دیں) اس نے سیدھا ہونے کے بعد سارہ کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے قلم کی طرف اشارہ کیا تھا اور ہاتھ آگے بڑھا دیا تھا۔
سارہ نے بے اختیار پین کی طرف دیکھا تھا اور پھر اسے حیدر کے ہاتھ میں پکڑانے کے بجائے ٹیبل پر پڑی ہوئی اس ڈبیا میں رکھ دیا جس میں سے اس نے اسے نکالا تھا۔ حیدر نے اس کی اس حرکت پر کچھ عجیب سے تاثرات سے اسے دیکھا تھا اور پھر ٹیبل پر پڑی ہوئی وہ ڈبیا اٹھا کر اسٹڈی سے باہر چلا گیا۔ سارہ کی جان میں جان آ گئی تھی۔
”اور اگر یہ کوئی بدتمیزی کرتا تو میں کیا کرتی؟” وہ بے حد فکر مند تھی۔
پچھلے تین دن سے حیدر کے رویے نے اسے پریشان نہیں کیا تھا۔ وہ سارا دن گھر سے باہر ہوتا تھا اور رات کو کھانے کے بعد اوپر چلا جاتا۔ جتنی دیر وہ اس کے سامنے ہوتا وہ اس کو نظر انداز کیے رکھتا تھا اور سارہ کو یہ بات پسند تھی لیکن اس وقت وہ پریشان ہو رہی تھی۔
”کیا امی کو پتا تھا کہ وہ جہاں مجھے بھیج رہی ہیں۔ وہاں عارفین عباس کا بیٹا بھی ہوگا اور وہاں کوئی دوسری عورت نہیں ہوگی اور گھر کا ملازم مجھے اس کے ساتھ اکیلا دیکھ کر کچھ بھی سمجھ سکتا ہے۔ میں دوبارہ کبھی بھی اسٹڈی میں نہیں بیٹھوں گی۔” اس نے یکدم خود ہی فیصلہ کر لیا تھا۔
——————————————————————————————————————————-




Loading

Read Previous

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Read Next

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!