“آمنہ! اب اٹھ جاؤ یار! کتنی دیر سوتی رہو گی!” گل کی آواز نے اسے بیدار کر دیا تھا۔
وہ تھکے تھکے انداز میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔
گل آئینہ ہاتھ میں لیے تیزی سے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگا رہی تھی، وہ بے خیالی میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ روز اس وقت اسی طرح سج دھج کر باہر جاتی تھی، اس کے بقول وہ اپنے منگیتر کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتی تھی مگر اس کا منگیتر ہر تیسرے چوتھے دن بدل جاتا تھا سارہ کو اس کے منگیتر پر اعتراض تھا نہ منگیتر کے بدلنے پر۔
”بس میں اب جا رہی ہوں۔ تم دروازہ بند کر لینا، ہاں اور عذرا آج دیر سے آئے گی۔ وہ مجھے صبح بتا کر گئی تھی۔”
گل نے باہر نکلتے ہوئے اسے بتایا تھا۔ اس نے اٹھ کر دروازہ بند کر لیا۔
روزہ افطار ہونے میں ابھی تھوڑا ہی وقت رہ گیا تھا۔ وہ کچن میں آ گئی۔ وہاں کچھ بھی پکا ہوا نہیں تھا۔ پچھلی رات کے پکائے ہوئے کچھ دال چاول ابھی بھی پڑے ہوئے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ عذرا اور گل دونوں باہر سے کھانا کھا کر آئیں گی اور شاید اپنے لیے کچھ ساتھ لے بھی آئیں۔ چاولوں کو گرم کرنے کے بعد ایک گلاس میں پانی اور چاول لے کر وہ کمرے میں آ گئی دونوں چیزوں کو اس نے فرش پر رکھ دیا تھا اور خود دوبارہ اپنے بستر پر بیٹھ گئی تھی۔
وہ روز سہ پہر کو سوتی نہیں تھی مگر آج خاص بات تھی۔ آج ایک بار پھر وہ اس کے ہتھے چڑھتے چڑھتے بچی تھی۔ ڈیڑھ ماہ میں یہ تیسرا موقع تھا جب سارہ کا اس سے سامنا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔
پہلی دفعہ اس کا حیدر سے ٹکراؤ تب ہوتے ہوتے رہ گیا تھا جب کچھ دن اپنی دوست کے پاس رہنے کے بعد اس نے اس کے ذریعے ایک ہاسٹل میں کمرہ کرائے پر لیا تھا۔ اسے ہاسٹل میں آئے تیسرا دن تھا جب وہ کسی کام سے باہر گئی تھی اور واپسی پر اس نے بہت دور سے ہی اس کی سلور گرے سوک ہاسٹل کے باہر دیکھ لی تھی وہ بہت محتاط ہو کر کچھ اور آگے گئی تھی۔ نمبر پلیٹ کو وہ پہچان گئی تھی۔ کار میں کوئی نہیں تھا۔ یقینا وہ ہاسٹل کے اندر ہوگا۔ کار سے کچھ آگے پولیس کی ایک وین بھی کھڑی تھی۔ وہ الٹے قدموں اپنی دوست کے پاس گئی تھی۔
”سارہ! تم نے مجھے دھوکا دیا تمھارے انکل اور خالہ تمہاری شادی کسی بوڑھے کے ساتھ نہیں کر رہے۔ میں حیدر سے مل چکی ہوں اس نے مجھے نکاح نامہ بھی دکھایا ہے اور تمھارے کارنامے کے بارے میں بھی بتایا ہے پھر اس کے بعد میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں اس کو تمہارا ٹھکانا بتا دیتی۔”
اس کی دوست عامرہ نے اس کے شکوے پر کہا تھا، وہ فیکٹری میں اس کے ساتھ کام کرتی تھی اور سارہ شادی والے دن سیدھی اس کے پاس گئی تھی۔ سارہ کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں رہا تھا۔ وہ اس کے پاس سے چلی آئی۔
پھر وہ دوبارہ ہاسٹل نہیں گئی تھی۔ اس کا بیگ اس کے پاس تھا جس میں اس کی ساری رقم موجود تھی، ہاسٹل میں پڑے ہوئے تھوڑے سے سامان کی اسے پرواہ نہیں تھی۔ اس نے کسی دوسرے ہاسٹل میں کمرہ ڈھونڈنے کے بجائے ایک پراپرٹی ڈیلر کے ذریعے ایک گندے سے گنجان آباد علاقے میں ایک فلیٹ چھ سو روپے ماہانہ پر کرائے پر لے لیا تھا، فلیٹ میں پہلے بھی دو لڑکیاں رہتی تھیں اور فلیٹ صرف ایک کمرے چھوٹے سے کچن اور اسی سائز کے باتھ روم پر مشتمل تھا اور اس کی حالت خاصی خراب تھی مگر سارہ کو اس کی پروا نہیں تھی، اس کے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اپنے سر پر چھت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
دوسری بار حیدر سے تب اس کا سامنا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا جب اس نے کام کی تلاش شروع کی تھی، اس کے پاس اس کی تعلیمی اسناد اور سرٹیفکیٹ نہیں تھے اور ان کے بغیر وہ کوئی ڈھنگ کی جاب حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ تب ہی اسے خیال آیا تھا کہ جس اکیڈمی کے ذریعے اس نے پہلے ٹیوشنز حاصل کی تھیں وہاں اس نے اپنی اسناد کی فوٹو کاپیز جمع کروائی تھیں اور وہ اس اکیڈمی کے ذریعے ایک بار پھر ٹیوشن حاصل کر سکتی تھی۔
وہ ایک روز وہاں گئی تھی۔ اکیڈمی کے مالک کا رویہ کچھ عجیب سا تھا۔ اس نے اس سے بیٹھنے کو کہا تھا اور پھر کسی ضروری کام سے اندر چلا گیا تھا کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ کسی بچے کے والد تھوڑی دیر میں آنے والے ہیں اور ان کے بچے کو ٹیوشن کی ضرورت ہے اس لیے سارہ وہاں بیٹھ کر کچھ انتظار کرے وہ بس آدھ گھنٹہ میں پہنچ جائیں گے اس نے دس منٹ وہاں بیٹھ کر انتظار کیا تھا اور پھر یکدم اس کی چھٹی حس اسے کسی خطرے سے خبردار کرنے لگی تھی اس نے اس اکیڈمی کے مالک سے پانی مانگا تھا وہ پانی لینے اندر گئے تھے اور وہ بیرونی دروازہ کھول کر باہر آ گئی تھی۔
تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس نے سڑک پار کر لی تھی اور پھر جیسے ہی اس نے موڑ کاٹا تھا۔ سلور گرے رنگ کی وہی جانی پہچانی کار اس کے قریب سے گزر گئی تھی۔ خوف کی ایک لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی تھی۔
”اگر چند منٹ اور میں وہاں ٹھہرتی تو یہ شخص میرے سامنے ہوتا۔” اس نے بے اختیار سوچا تھا۔ وہ اس کے بعد نہ صرف اس اکیڈمی بلکہ کسی اکیڈمی بھی نہیں گئی۔ اس نے اپنی تعلیمی اسناد دوبارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ صرف ان ہی کے ذریعے وہ کسی فیکٹری میں کوئی معقول جاب حاصل کر سکتی تھی۔ کل وہ اپنا میٹرک کا سرٹیفکیٹ دوبارہ بنوانے کے لیے اسکول گئی تھی اور کلرک نے اسے دوسرے دن آنے کے لیے کہا تھا اور آج جب وہ اپنے اسکول گئی تھی تو اسکول کے گیٹ سے تیس چالیس فٹ کے فاصلے پر کھڑی اسی خالی کار نے ایک بار پھر اسے دہلا دیا تھا۔
”اے خدا! یہ شخص کیوں سانپ کی طرح میرے پیچھے لگا ہوا ہے۔”
اس نے بے اختیار سوچا تھا اور گم صم سی وہاں سے واپس آ گئی اس نے رستے میں ہی اپنی تعلیمی اسناد کے حصول کا ارادہ بھی ترک کر دیا تھا اور پورا رستہ وہ سوچتی رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے گھر آ کر وہ بستر میں گھس کر سو گئی تھی اور اٹھنے کے بعد بھی وہ خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی ہوئی تھی۔
اس رات اس نے سب کچھ سنا تھا۔ اقصیٰ یہ بھول گئی تھیں کہ سارہ صبا کے کمرے میں ہے اور صبا کے کمرے کی کھڑکی اسی برآمدے میں کھلتی تھی جہاں وہ بیٹھی رو رہی تھیں۔ اس نے مایوں کے کپڑے پہننے کے لیے سب کو کمرے سے نکال کر دروازہ بند کیا تھا اور تب ہی اس نے اقصیٰ اور عظیم کی باتوں کی آواز سنی تھی وہ کھڑکی کے پاس آ گئی تھی اور پھر ہر راز کھلتا گیا تھا۔ اس کی ماں نے کیا کیا تھا، اس کے ساتھ کیا ہوا تھا اس نے کیوں اس طرح اپنی زندگی برباد کر دی تھی۔ کچھ بھی اس کے لیے راز نہیں رہا تھا۔
وہ ایک مجسمہ کی طرح ساکت کھڑی رہ گئی تھی اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ روئے، چیخے، چلائے، وہاں سے بھاگ جائے کیا کرے، پھر اس کی کزنز نے دروازہ بجانا شروع کر دیا تھا اور وہ جیسے ہوش میں آ گئی تھی۔ اس نے دروازہ کھول دیا تھا۔ پھر مہندی کی رسم کے لیے اسے باہر صحن میں لے جا کر پھولوں سے سجی ہوئی چوکی پر بٹھا دیا گیا تھا۔ پھر باری باری خاندان کی مختلف عورتوں نے اس کے سر میں تیل لگانا اور اس کے ہاتھ پر مہندی رکھنا شروع کر دیا۔
اس نے یک دم رونا شروع کر دیا تھا۔ ہر بار جب کسی کا ہاتھ اس کے سر پر تیل لگاتا اسے لگتا جیسے کسی نے اسے جوتا مارا ہو، اسی طرح صحن کے بیچوں بیچ جس طرح چوبیس سال پہلے اس کی ماں کو مارے گئے تھے۔ اس کا دل چاہ رہاتھا وہ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اسی طرح رو رہی ہے جیسے سب لڑکیاں شادی پر روتی ہیں۔ اسے ان سب کے چہرے بھیانک اور کریہہ لگ رہے تھے۔ چند گھنٹے پہلے تک وہ اسے عظیم لگ رہے تھے جنھوں نے سب کچھ بھول کر اسے اپنایا تھا اور اب وہ ان سب سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی، اسی طرح جیسے اس کی ماں بھاگ گئی تھی، اس کی گود نوٹوں سے بھرتی جا رہی تھی اور اسے اپنا وجود کسی مزار پر رکھے ہوئے اس ہدیے کے ڈبے کی طرح لگ رہا تھا جس میں لوگ خود کو بخشوانے کسی منت کے پورا ہونے یا اپنی زندگی میں کامیابی کے لیے کچھ نہ کچھ ڈال کر جاتے ہیں۔ ہاں وہ سب بھی یہی کر رہے تھے صبا سے کی جانے والی زیادتی کے کفارے کے لیے اس کی بیٹی پر روپے نچھاور کر رہے تھے۔ وہ روتے روتے چپ ہو گئی تھی۔ ایک آگ نے اس کے وجود کو جلانا شروع کر دیا تھا۔ اسے کیا کرنا تھا اس نے سوچ لیا اور پھر اس نے وہی کیا تھا جو اس نے سوچا تھا۔ وہ اس عمارت میں گئی تھی اور پھر اس کے پچھلے گیٹ سے نکل کر سیدھی اپنی دوست کے پاس فیکٹری میں گئی تھی۔ وہاں اس نے رو رو کر اسے بتایا تھا کہ کس طرح خالہ اور انکل ایک بوڑھے شخص کے ساتھ زبردستی اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور وہ گھر سے بھاگ آئی ہے۔ عامرہ اور اس کے گھر والے بھی اسی عمارت میں رہتے تھے جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔
انھوں نے اسے گھر میں پناہ دے دی تھی۔ دوسرے دن اس عمارت میں پولیس آئی تھی اور اس نے سارہ کے بارے میں سب سے پوچھ گچھ کی تھی۔ سارہ کا پرانا فلیٹ اب کسی اور رہائشی کے پاس تھا اور پولیس صرف اس عمارت میں ہی نہیں گئی تھی بلکہ اس فیکٹری میں بھی پہنچ گئی تھی جہاں وہ کام کرتی رہی تھی۔
عامرہ کے گھر والوں نے اس کے بارے میں ڈر کے مارے پاس پڑوس میں بھی کسی کو نہیں بتایا تھا۔ تیسرے دن عامرہ اخبار لے آئی تھی جس میں اس کی گمشدگی کی خبر کے ساتھ اس کی مایوں پر کھینچی جانے والی ایک تصویر اور ایک بڑے انعام کی آفر تھی۔ وہ بے حد خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اس کی تصویر ایک ہفتہ تک روزانہ اخبار میں شائع ہوتی رہی تھی اور اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے ڈھونڈنے کے لیے کتنی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔
سارہ جانتی تھی کہ عامرہ بہت دیر تک اسے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی تھی۔ اس کے پاس وہ ساری رقم موجود تھی جو مہندی پر اسے دی گئی تھی اور اسی لیے اس نے عامرہ سے اپنے لیے کسی اور جگہ کا بندوبست کرنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ وہ لوگ کہیں اسے ڈھونڈتے ہوئے عامرہ کے گھر تک نہ پہنچ جائیں اور بعد میں اس کا خدشہ سچ ثابت ہوا تھا۔
اخبار میں شائع ہونے والی تصویر میں اس کا چہرہ میک اپ سے بالکل عاری تھا اور یہ اس کے حق میں بہت اچھا ثابت ہوا تھا۔ گل اور عذرا کو اس نے اپنا نام آمنہ بتایا تھا۔ گل اور عذرا کون تھیں وہاں کیوں رہتی تھیں۔ اسے کچھ پتا نہیں تھا نہ اس نے جاننے کی کوشش کی تھی، اسے صرف یہ پتا تھا کہ وہ دونوں کسی فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ کیا کرتی ہیں وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی۔
ان دونوں نے سارہ سے اس کا حدود اربعہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی۔ خاص طور پر اس کے کلائیوں تک مہندی سے بھرے ہاتھوں نے انھیں کئی قسم کے شبہات میں ڈالا تھا اور ہر بار جب وہ اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کرتیں تو وہ رونا شروع کر دیتی۔ تنگ آ کر انھوں نے اس سے کچھ پوچھنا چھوڑ دیا تھا۔
کئی دنوں تک ایسا ہی ہوتا رہا تھا۔ سارہ کو خود پتا نہیں چلتا تھا، کس بات پر اس کا دل بھر آتا اور وہ رونا شروع کر دیتی پھر کئی کئی گھنٹے وہ روتی رہتی عزت اور خودداری کی خاطر آسائشوں کو ٹھوکر مارنا کتنا مشکل کام تھا۔ یہ اسے اب معلوم ہوا تھا۔ وہ صرف چار ماہ آسائش میں رہی تھی اور اس کے لیے اب پہلے کی طرح ٹھوکریں کھاتے ہوئے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا تھا۔
”امی تو پیدائش سے جوانی تک آسائشوں میں رہی تھیں پھر انھوں نے کیسے سب کچھ چھوڑ دیا؟” وہ سوچتی اور آنسو بڑھتے جاتے۔
گل نے ایک دن اس سے پوچھا تھا۔ ”تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو؟”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی، اسے یاد آیا تھا اس نے بھی کئی دفعہ امی سے یہی سوال کیا تھا۔ وہ ہر بار خاموشی سے اسے دیکھتی رہتی تھیں۔ جواب نہیں دیتی تھیں۔ لوگ خاموش کیوں ہو جاتے ہیں اب اس کی سمجھ میں آ گیا تھا۔ کیوں دل چاہتا ہے کہ اپنوں کی نظروں سے اپنے وجود کو چھپا لیا جائے۔ دوبارہ ان کے سامنے نہ آیا جائے نہ ان سے کبھی بات کی جائے یہ بھی اس کی نظر میں راز نہیں رہا تھا۔
چار سال اس نے صرف ماں کے معمے کو حل کرنے کے لیے فرنچ پڑھی تھی مگر وہ انھیں بوجھنے، انھیں سمجھنے میں ناکام رہی تھی۔ کتابیں پڑھنے اور زبانیں سیکھنے سے لوگوں کے اسرار سمجھ میں نہیں آتے اور اب اسے ماں کی طرح رہتے ڈیڑھ ماہ ہوا تھا اور وہ ان کی ذات کے ہر راز کو جاننے لگی تھی۔
…***…
سائرن ہونے لگا تھا۔ اس نے پانی کے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
اس نے ریڈی میڈ گارمنٹس کی ایک فیکٹری میں چھوٹے بچوں کے فراک سینے کا کام شروع کر دیا تھا۔
”تمھارے ہاتھ میں زیادہ صفائی نہیں ہے۔ ابھی کافی عرصہ تمھیں کام سیکھنا پڑے گا۔ اس لیے تمھیں باقی عورتوں جتنے روپے نہیں ملیں گے بلکہ سیکھنے والی لڑکیوں کی طرح اجرت ملا کرے گی۔”
پہلے دن ہی سپروائزر عورت نے اس کا کام دیکھ کر کہہ دیا تھا۔ وہ خود بھی جانتی تھی کہ اس کے کام میں صفائی نہیں ہے۔ وہ سلائی کڑھائی میں کبھی بھی ماہر نہیں رہی تھی۔ بس اسے بہت سے دوسرے کاموں کی طرح یہ کام بھی آتا تھا، اس نے اس فیکٹری میں کام ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد شروع کیا تھا اور وہ ملنے والے معاوضے سے خوش نہیں تھی لیکن اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہا تھا۔ اس کے پاس روپے کم ہوتے جا رہے تھے اور ہر ماہ فلیٹ کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بل اور دوسرے اخراجات کے لیے اسے روپیہ چاہیے تھا۔ یہاں کام کرنے سے بہت زیادہ نہیں لیکن وہ اتنے پیسے ضرور کما سکتی تھی جس سے اس کے بنیادی اخراجات پورے ہو جاتے۔
دو دن پہلے عذرا نے اطلاع دی تھی کہ وہ چند دن تک فلیٹ چھوڑنے والی ہے کیونکہ وہ شادی کر رہی تھی۔ اس کے لیے یہ ایک بری خبر تھی کیونکہ اس کے فلیٹ چھوڑنے کا مطلب یہ ہو تاکہ اسے اور گل کو فلیٹ کا زیادہ کرایہ دینا پڑتا اور بجلی اور گیس کے بل آپس میں بانٹنے پڑتے (پہلے وہ تین لوگ اس کو شیئر کرتے تھے) اس نے بجھے دل سے عذرا کو مبارکباد دی تھی اور بستر میں لیٹ کر ایک بار پھر حساب کتاب میں مصروف ہو گئی تھی۔
گل اور عذرا دونوں بے حد خوش نظر آ رہی تھیں۔ وہ ایک ہی بستر میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور باتیں کرتے کرتے وہ یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑتیں۔ وہ افسردگی سے ان کے چہرے دیکھ رہی تھی۔ وہ پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہی تھی اور پھر انھیں سوچوںمیں گم وہ سو گئی تھی۔
دوبارہ اس کی آنکھ سحری کے وقت کھلی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن بے حد تیز تھی، اسے یاد آ گیا تھا چند لمحے پہلے اس نے خواب میں کیا دیکھا تھا۔ اس نے حیدر کو دیکھا تھا۔ اس نے دیکھا تھا کہ وہ دونوں حیدر کے گھر کے لان میں پھر رہے ہیں ہنستے ہوئے، باتیں کرتے ہوئے اور پھر یک دم اس کی آنکھ کھل گئی تھی اور اب وہ کمرے میں پھیلی ہوئی تاریکی کو گھور رہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو جکڑ لیا، بہت دنوں سے یہی ہو رہا تھا۔ وہ اسے خواب میں اپنے ساتھ دیکھتی تھی۔ اسی طرح اپنے مخصوص انداز میں باتیں کرتا ہوا، دھیمی آواز میں ہنستا ہوا اور پھر یک دم اس کی آنکھ کھل جاتی تھی۔ اس نے بستر سے نکل کر کمرے کی لائٹ جلا دی۔ چند منٹوں بعد گل اور عذرا بھی اٹھ گئی تھیں۔ آج انتیس واں روزہ تھا اور وہ دونوں رات کو اسے بتا چکی تھیں کہ صبح وہ بھی روزہ رکھیں گی۔ پہلے روزے کی طرح انھوں نے بس آخری روزہ رکھنا ضروری سمجھا تھا۔
اس کا دل بوجھل ہو رہا تھا۔ کچن میں جا کر اس نے چائے بنائی تھی اور پھر تینوں کے لیے پراٹھے پکانے کے بعد اپنے حصے کی چائے کا کپ اور پراٹھا لے کر کمرے میں آ گئی۔ گل اور عذرا بھی چائے اور پراٹھا لے کر کمرے میں آ گئی تھیں۔
سارہ پراٹھے کے چھوٹے چھوٹے لقمے بے دلی سے چائے کے ساتھ نگلتی جا رہی تھی۔ تب ہی گل نے کسی بات پر قہقہہ لگایا تھا، سارہ نہیں جانتی تھی اسے کیا ہوا، بس اس نے چائے اور پراٹھا ایک طرف رکھ کر گھٹنوں میں منہ چھپا کر بے آواز رونا شروع کر دیا۔
”تمھیں کیا ہو گیا بھئی؟ اب تم پر کون سی آفت ٹوٹی ہے؟” گل اور عذرا اس کے قریب چلی آئی تھیں مگر اس نے سر نہیں اٹھایا۔
”اس وقت کون یاد آ گیا ہے؟ کیا رونے کی بیماری لگا رکھی ہے۔ اب پھر دورہ پڑ گیا ہے۔ سحری ختم ہونے میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے کم از کم اپنا کھانا تو کھا لو آمنہ! کیا پاگل ہو گئی ہو؟ اس وقت رونے کی کیا بات ہے؟ اپنا سر اٹھاؤ۔”
گل اور عذرا باری باری اسے چپ کروانے کی کوشش کرتی رہی تھیں مگر وہ چپ ہوئی تھی نہ اس نے سر اٹھایا تھا۔ تنگ آ کر گل اور عذرا نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ پھر اذان ہونے لگی تھی مگر وہ اسی طرح چہرہ چھپائے آنسو بہاتی رہی۔ وہ دونوں کمرے کی لائٹ بند کر کے ایک بار پھر بستر میں جا چکی تھیں۔
چھ بجے کے قریب اس نے اٹھ کر فیکٹری جانے کی تیاری شروع کر دی تھی، اس کی متورم آنکھوں اور ستے ہوئے چہرے نے فیکٹری میں بھی سب کو متوجہ کیا تھا۔
”طبیعت خراب ہے۔” اس نے ہر ایک سے یہی کہا۔ تین بجے فیکٹری سے فارغ ہونے کے بعد وہ واپس گھر جانے کے بجائے بازار چلی گئی تھی۔ پورا ایک گھنٹہ وہ بغیر کسی مقصد کے بازار میں پھرتی رہی دکانوں پر بڑھتی ہوئی چہل پہل اور سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے چوڑیوں اور عید کارڈوں کے اسٹال دیکھتی رہی۔ پچھلے سال بھی وہ عید پرماں کے ساتھ بے مقصد بازار میں پھرتی رہی تھی تب اس کی دوست عامرہ بھی اس کے ساتھ تھی اور اس نے کچھ چیزیں بھی خریدی تھیں۔ اس دفعہ وہ اکیلی ہی وہاں پھر رہی تھی۔
افطار میں ایک گھنٹہ رہ گیا تھا۔ اس نے آج ملنے والی پوری اجرت ریڑھیوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے میں لگا دی۔ یہ عید کے لیے اس کی واحد عیاشی تھی۔
افطار میں آدھ گھنٹہ باقی تھا جب وہ واپس فلیٹ پہنچ گئی تھی گل نے دروازہ کھولا۔
”آؤ سارہ! آج تو بہت دیر لگا دی۔ میں تو پریشان ہو گئی تھی۔”
سارہ نے غور نہیں کیا کہ اس نے اسے آمنہ کے بجائے سارہ کیوں کہا تھا۔ وہ بغیر کوئی جواب دیے اندر آ گئی، لفافے اس نے دیوار کے پاس پڑی تپائی پر رکھ دیے۔ بیگ گدے پر پھینکنے کے بعد اس نے چادر اتاری اور تھکے تھکے انداز میں اسے تہہ کرنے لگی، گل اور عذرا خلاف معمول خاموش تھیں اس نے انھیں دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
”ہیلو کیسی ہو سارہ؟” مدھم لیکن بہت شستہ فرنچ میں اسے مخاطب کیا گیا تھا۔ اس کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا۔ وہ پتھر کے مجسمے کی طرح بے حس و حرکت ہو گئی۔ آواز اس کی سماعتوں کے لیے ناآشنا نہیں تھی۔ وہ اسے لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔
کمرے میں Eternity کی پھیلی ہوئی مانوس سی مہک کو اس نے اب محسوس کر لیا تھا۔ سر اٹھا کر اسے کمرے میں ڈھونڈنے کی بجائے اس نے اسی طرح گردن کو حرکت دیے بغیر سر جھکائے ہوئے فرش پر نظریں دوڑانا شروع کر دیا تھا۔ کمرے کے دائیں کونے میں لیدر شوز پر اس کی نظر اٹک گئی تھی۔ وہ وہاں کھڑا تھا۔ سینے پر بازو لپیٹے، دیوار سے ٹیک لگائے۔ سیاہ جینز اور اسی کلر کی لیدر جیکٹ میں ملبوس پرُسکون، سنجیدہ، نظر اس پر جمائے ہوئے۔ سارہ نے صرف ایک بار اسے سر اٹھا کر دیکھا تھا اور پھر سر جھکا لیا چادر کو ایک بار پھر کھول کر اس نے کندھوں پر ڈال لیا۔
”سارہ! یہ تم سے ملنا چاہتے تھے۔ کافی دیر سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے ہی ہمیں بتایا کہ تم آمنہ نہیں سارہ ہو اور یہ کہ تم ان کی منکوحہ ہو۔”
کمرے میں گل کی آواز گونجی۔ سارہ کا دل نہیں چاہا کہ وہ گل اور عذرا کی شکل دیکھے۔
”ہم ذرا ساتھ والے فلیٹ میں جا رہے ہیں۔ تمھیں ان سے جو بات کرنا ہے کر لو۔” سارہ نے عذرا کو کہتے اور پھر دروازہ بند کرتے سنا تھا۔
”میں تمھیں صرف یہ سمجھانے آیا ہوں کہ فرار کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔” کمرے میں اس کی آواز گونجی تھی۔ سارہ نے ایک گہری سانس لے کر اسے دیکھا۔ وہ اب پہلے والی جگہ سے آگے بڑھ آیا تھا۔
”مجھے کسی کی کوئی بات نہیں سننی ہے، تم یہاں سے جاؤ۔” اس کے چہرے کو دیکھے بغیر اس نے کہا تھا۔
”لیکن مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے اور میں یہاں سے جاؤں گا نہیں۔” وہ اب بھی پرُسکون تھا۔
وہ چلا اٹھی ”میں نے کہا، تم یہاں سے جاؤ۔”
”ہاں چلاّؤ اور چلاّؤ، اس سے تمہارا ڈپریشن دور ہو جائے گا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں چیخنے چلانے سے انسان کا کتھار سس ہو جاتا ہے اور تمھیں اس وقت اسی ایک چیز کی ضرورت ہے۔” وہ کسی ماہر سائیکالوجسٹ کی طرح تشخیص کر رہا تھا۔ وہ یک دم چپ ہو گئی۔
”اور مجھے تم سے بہت کچھ پوچھنا بھی ہے۔” حیدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”تمھیں جو کچھ پوچھنا ہے اپنے باپ سے پوچھو۔ میرے پاس تمھارے کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔”
”مجھے پاپا سے جو کچھ پوچھنا تھا پوچھ چکا ہوں، اب تمہاری باری ہے۔ مجھے بتاؤ تم نے مجھ سے کس بات کا بدلہ لیا ہے؟ میں نے تم پر کیا ظلم کیا تھا؟”
”میری ماں نے کسی پر کیا ظلم کیا تھا؟ تمھارے باپ نے ان سے کس چیز کا بدلہ لیا؟” وہ فرش پر بچھے ہوئے بستر پر بیٹھ گئی۔
”ہاں۔ تو یہ سوال تمھیں پاپا سے کرنا چاہیے تھا۔ پوچھنا چاہیے تھا ان سے بلکہ میرے ساتھ چلو اور چل کر ان سے پوچھو مگر تم میں اتنی ہمت کہاں کہ تم ان کے سامنے کھڑی ہو کر بات کر سکو۔” وہ اسے چیلنج کر رہا تھا۔
”میں تمھارے گھر دوبارہ کبھی جانا چاہتی ہوں نہ تمھارے باپ کی شکل دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں ان سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی۔” وہ اس پر غرائی تھی۔
”اگر تم میرے باپ کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی تھیں تو پھر تم نے میرا پرپوزل قبول کیوں کیا؟ مجھ سے نکاح کیوں کیا؟ میرے ساتھ۔” سارہ نے تیزی سے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”تب تک مجھے حقیقت کا پتا نہیں تھا اور مجھے سب کچھ پہلے پتا چل جاتا تو تمھارے ساتھ نکاح تو دور کی بات ہے، میں کبھی تمھارے باپ کے پاس بھی نہ جاتی۔ میں کبھی اس شخص کے پاس جانا پسند نہ کرتی جس نے میری ماں کی زندگی برباد کر دی جس نے ان کو بے عزت کیا۔”
”سارہ! تم یہ بات مت کہو، تمھیں یہ بات کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہاں تمہاری امی کہہ سکتی تھیں کیونکہ ان پر ظلم ہوا تھا اور انھوں نے کسی سے اس کا بدلہ نہیں لیا تھا مگر تم بدلہ لے چکی ہو۔ تم نے مجھے بے عزت کیا ہے اگر تمہاری ماں بے قصور تھیں تو مجھے بتاؤ میں نے کون سا گناہ کیا تھا؟ کیا تم نے سوچا تمھارے اس طرح چلے جانے سے میں لوگوں کے سامنے تماشا بن کر رہ جاؤں گا؟ نہیں، تم نے نہیں سوچا بالکل اسی طرح جس طرح میرے دادا، دادی نے نہیں سوچا تھا۔ اسی طرح جس طرح میرے باپ نے نہیں سوچا تھا۔ تم میں اور ان میں کیا فرق ہے، بتا سکتی ہو تو بتاؤ؟”
وہ ایک کرسی کھینچ کر اس کے مقابل بیٹھ گیا تھا۔
”تمہاری امی کا دل مرنے کو چاہا ہوگا۔ میرا دل بھی چاہا تھا میں خودکشی کر لوں تمہاری امی مظلوم تھیں۔ تم مظلوم نہیں ہو۔”
”میں نے تم سے یا کسی سے بھی کوئی بدلہ نہیں لیا۔ میں بس تم سے شادی کرنا نہیں چاہتی تھی۔ تمھارے گھر آنا نہیں چاہتی تھی۔ اس لیے میں وہاں سے بھاگ آئی۔ یہ میں نے بعد میں سوچا تھا کہ اس سے۔”
حیدر نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ”دادا نے بھی یہ بعد میں سوچا تھا کہ انھوں نے تمہاری امی پر ظلم کیا۔ دادی نے بھی یہ بعد میں سوچا تھا کہ انھوں نے تمہاری امی کو رسوا کر دیا، پاپا کو بھی یہ بعد میں خیال آیا تھا کہ انھوں نے تمہاری امی کی زندگی برباد کر دی۔ اگر تم اپنے اس اقدام کو Justify (جائز) کرتی ہو تو ان کو بھی کرو، کوئی بھی غلط کام کرتے ہوئے نہیں سوچتا کہ وہ غلط کام کر رہا ہے۔ ہر ایک بعد میں ہی سوچتا ہے۔ وہ تم ہو پاپا ہوں یا دادا، دادی۔”
سارہ نے اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”تم چاہتے کیا ہو؟”
”بہت کچھ، یہ کہ تم پاپا کو معاف کر دو اور یہ کہ تم میرے ساتھ چلو۔”
”میں دونوں کام نہیں کر سکتی۔” اس نے قطعی انداز میں جواب دیا تھا۔
”پھر تیسرا کام میں کر سکتا ہوں یعنی تم کو طلاق دے دوں۔”
سارہ نے بے اختیار سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا اور پھر گھٹی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ ”دے دو۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا پھر اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا تھا۔ ”طلاق لے کر کیا کرو گی؟ کیسے رہو گی؟ زندگی کیسے گزارو گی؟”
”ویسے ہی گزاروں گی جیسے میری ماں نے گزاری تھی۔”
”یہی تو مشکل ہے سارہ! کہ تم اپنی امی کی طرح زندگی نہیں گزار سکتیں۔ میں تمہاری امی کے بارے میں وہی کچھ جانتا ہوں جو میں نے لوگوں سے سنا ہے لیکن مجھے لگتا ہے میں ان کو کسی سے بھی بہتر سمجھ سکتا ہوں تم سے بھی بہتر حالانکہ میں نہ کوئی سائیکالوجسٹ ہوں نہ مجھے لوگوں کو سمجھنے کا شوق ہے۔ لیکن پچھلے دو ماہ سے میں ان کے بارے میں اتنا سوچتا رہا ہوں کہ ان کو پسند کرنے لگا ہوں۔ مجھے یقین نہیں آتا کوئی اتنا صبر، اتنا ایثار کر سکتا ہے جتنا انھوں نے کیا۔ پاپا کو لگتا ہے کہ صبا نے ان سے بہت محبت کی تھی اور جب انھوں نے انھیں چھوڑ دیا تو پھر صبا نے دنیا ترک کر دی مگر مجھے ایسا نہیں لگتا۔ مجھے لگتا ہے کہ تمہاری امی کا اور خدا کا ایک بہت خاص رشتہ تھا۔ انھیں صرف خدا کے ہونے پر یقین نہیں تھایہ بھی اعتماد تھا کہ جو کچھ انھیں مل رہا ہے اس کی وجہ سے ہے اور انھیں لگتا ہوگا کہ خدا نے ان کے گرد ایک حفاظتی دیوار ایک حصار کھینچا ہوا ہے۔ انھیں یہ زعم ہوگا کہ وہ خدا سے اتنی محبت کرتی ہیں کہ وہ کبھی اس حصار کو ٹوٹنے نہیں دے گا۔ لیکن ہوا کیا میرے دادا، دادی تمہاری امی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ پاپا کے مجبور کرنے پر انھوں نے تمہاری امی سے ان کا نکاح کیا تھا۔ دادا نے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس رشتے کو قبول کر لیا لیکن دادی نہیں کر پائیں اور پھر وہی عورت کی ازلی رقابت اور سازش، پھر ایک کے بعد ایک ایسے واقعات ہوئے جنھوں نے تمہاری امی کو متزلزل کر دیا۔ انھیں یقین نہیں آیا ہوگا کہ یہ سب ان کے ساتھ ہو سکتا ہے اور تابوت میں آخری کیل میرے پاپا نے طلاق دے کر گاڑ دی۔ تمہاری امی کو لگا عارفین عباس نے نہیں خدا نے انھیں چھوڑ دیا اور پھر ساری زندگی وہ خدا کو منانے کی کوشش کرتی رہیں اور تمھیں پتا ہے ایسے لوگ میرے تمھارے جیسے دنیادار لوگوں کے لیے کتنے خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کو منا کر رکھیں تو ان کا غلام بن جانے کو جی چاہتا ہے۔ ان کو تکلیف پہنچائیں تو اللہ سکون چھین لیتا ہے۔ جیسے میرے پاپا کے ساتھ ہوا یا میرے خاندان کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوا، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ انھیں خوش یا مطمئن نہیں دیکھا جیسے دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں رہی۔ کامیاب بینکر، اچھی خوبصورت بیوی، اولاد، دولت، عزت ان کے پاس کیا تھا جو نہیں رہا۔ ہاں بس سکون نہیں تھا نہ اب ہے۔”
وہ اس طرح اسے سب کچھ بتا رہا تھا جیسے وہ اس کی بہترین دوست ہے جیسے وہ یہی سب بتانے کے لیے وہاں آیا ہو، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی باتیں سنتی گئی۔
”اور وہ اکیلے اس اذیت کا شکار نہیں تھے۔ ہمارے خاندان کے ہر فرد کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دادا کو، دادی کو، پھوپھو کو، میری ممی کو اور اب مجھے اور میں چاہتا ہوں یہ سلسلہ ختم ہو جائے۔ تمہاری امی نے اللہ سے اتنی محبت کی کہ پھر اس کے علاوہ کسی اور چیز کی خواہش نہیں کی مگر سارہ! تمہارا خدا کے ساتھ ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ تم کبھی صبا کریم جیسی قناعت حاصل نہیں کر سکتیں۔ تم گھر چھوڑ سکتی ہو، دنیا کو نہیں تمہاری امی تمہاری طرح کسی اکیڈمی میں نہیں گئیں نہ انھوں نے اپنے سرٹیفکیٹس حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ انھوں نے اب کسی Materialistic Pursuit میں شریک نہیں ہونا تھا اور تم، تم نہ دنیا چھوڑ سکتی ہو نہ خدا کو۔ کچھ وقت گزرے گا پھر تمھیں پچھتاوے ہونے لگیں گے اور میں چاہتا ہوں اس وقت سے پہلے تم واپس آ جاؤ تمھیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہاری امی نے تمھیں میرے پاپا کے پاس بھجوا دیا تھا۔ ان کی یہ خواہش ہوگی کہ تم ان جیسی زندگی نہ گزارو، عام لوگوں کی طرح نارمل زندگی گزارو۔ اپنے ماضی سے بے خبر رہ کر اسی لیے انھوں نے تمھیں اپنے بہن بھائیوں کے پاس نہیں بھیجا۔ انھیں خدشہ ہوگا وہ ان کے اور تمھارے ماضی کو چھپا کر نہیں رکھیں گے اور یہ باخبری تمھیں ساری عمر تکلیف دیتی رہے گی۔ میرے پاپا یہ کام کر سکتے تھے سو انھوں نے تمھیں ان کے پاس بھجوا دیا۔ تمھارے نانا، ماموں اور خالہ نے تمھیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی۔ تم نہیں ملیں۔ ایک ماہ پہلے وہ واپس چلے گئے۔ اب تمھیں صرف میں اور پاپا ڈھونڈ رہے تھے۔”
سارہ نے ایک بار پھر اپنا سر گھٹنوں میں چھپا لیا۔
”تم سے میں ایک بار پھر کہوں گا۔ میرے ساتھ گھر چلو، پاپا سے ناراضگی ہے، ان سے لڑو، جو کہنا ہے کہہ دو۔ مجھ سے اگر کوئی شکایت ہے تو کرو لیکن میرے ساتھ چلو۔”
وہ چہرہ چھپائے بے آواز روتی گئی تھی۔
”ہاں۔ تم نے سچ کہا۔ مجھے امی کی طرح دنیا میں رہنا نہیں آ رہا نہ کبھی آ سکتا ہے۔ امی کی طرح زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اور میں۔ میں بہت کمزور ہوں۔”
وہ روتی ہوئی دل ہی دل میں اعتراف کر رہی تھی۔
دور کہیں سائرن بجنے لگا تھا۔ پھر اذان ہونے لگی۔ حیدر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تپائی پر رکھے ہوئے لفافوں کو کھول کر دیکھنے لگا۔ اس نے ایک کھجور نکال کر روزہ افطار کیا تھا۔
گل اور عذرا اندر آ گئی تھیں۔
”اس کو پھر دورہ پڑ گیا؟” گل نے سارہ کو دیکھتے ہی بے اختیار کہا تھا۔ حیدر نے شاپر سے ایک کیلا نکال کر کھانا شروع کر دیا۔
”سارہ! روزہ تو افطار کر لو۔” عذرا کچن سے ایک پلیٹ میں کچھ چیزیں رکھ کر اس کے پاس آ گئی تھی۔ اس نے سر اٹھایا تھا اور آستینوں سے چہرہ خشک کرنا شروع کر دیا پھر اس نے پلیٹ میں سے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی اور کھڑی ہو گئی، بستر پر رکھے ہوئے بیگ کو اس نے کندھے پر ڈال لیا تھا۔ حیدر مسکرایا اور اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا دیا اس نے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ تھما دیا۔
”تم جا رہی ہو تو اپنا سامان تو لے جاؤ۔” عذرا اسے جاتے دیکھ کر چیخی تھی۔
”نہیں۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ خدا حافظ۔” اس نے دروازہ پار کرتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ اس کا ہاتھ تھامے کسی ننھے بچے کی طرح وہ اس کے پیچھے چلتی جا رہی تھی۔
”پچھلے دو ماہ سے میں اپنی پوری سیلری تمھیں ڈھونڈنے پر خرچ کر رہا ہوں بلکہ اکاؤنٹ میں جو تھوڑے بہت روپے تھے وہ بھی خرچ کر چکا ہوں۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔ اس لیے اب تمھیں چند سال اور میری طرح پاپا پر انحصار کرنا پڑے گا۔ حد سے زیادہ چھٹیوں پر بینک والوں کی طرف سے ایک وارننگ لیٹر بھی مل چکا ہے۔ تم نے مجھے صحیح معنوں میں خوار کیا ہے۔”
اس کا ہاتھ تھامے نیم تاریک سیڑھیوں میں اس کے آگے چلتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔
”تم یہاں تک کیسے پہنچے؟” سارہ کو یک دم خیال آیا۔
”میں جانتا تھا کہ اگر تم ہاسٹل میں نہیں تو پھر اسی طرح کے کسی فلیٹ میں ہوگی۔ تم کسی بڑے پراپرٹی ڈیلر کے پاس تو جا نہیں سکتی تھیں۔ اس لیے ظاہر ہے کسی چھوٹے موٹے پراپرٹی ڈیلر کے پاس ہی جاتیں۔ پولیس نے تمام چھوٹے موٹے پراپرٹی ڈیلرز کو کانٹیکٹ کیا اور تمھارے بارے میں معلومات لینا شروع کیں۔ بالآخر ایک کے ذریعے تمہارا پتا مل گیا پھر آج دوپہر کو ہم یہاں تک پہنچ گئے۔ تمھارے ساتھ رہنے والی لڑکیوں کو تمہاری فیکٹری کا پتہ نہیں تھا ورنہ میں سیدھا وہیں آتا۔” وہ کہتا گیا تھا۔
”حیدر زیادہ باتیں نہیں کرتا، بہت ریزرو ہے بلکہ یہ کہہ سکتی ہو کہ کم گو ہے۔ وہ کسی سے زیادہ بے تکلف بھی نہیں ہوتا۔ یہ سب اس کی عادتوں میں شامل ہے۔” عارفین عباس نے ایک بار اسے حیدر کے بارے میں بتایا تھا۔
سارہ نے اس ”کم گو” کو دیکھا جو اس کا ہاتھ تھامے سیڑھیاں اترتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا۔
”مجھے اکثر چیزوں کا پتا بعد میں چلتا ہے۔” وہ کہہ رہا تھا۔ ”جیسے یہ کہ تمہاری امی اور پاپا کا اصل رشتہ کیا تھا، وہ کون تھیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا تھا یا یہ کہ میں اگر ہر دفعہ تم تک پہنچنے میں ناکام ہو جاتا تھا تو اس کی وجہ میری گاڑی تھی جس کی موجودگی نے ہر دفعہ تمھیں پہلے ہی خبردار کر دیا یا پھر یہ کہ۔ کہ میں تم سے محبت کرنے لگا تھا اور یہ کہ یہ محبت یکطرفہ نہیں تھی۔”
سارہ کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ گئی تھی۔
”ہاں اور یہ بھی کہ تم فرنچ جانتی تھیں۔” وہ یک دم فرنچ میں بات کرنے لگا تھا۔
”اس لاعلمی سے مجھے کیا نقصان پہنچا۔ یہ تم مجھے گھر پہنچ کر بتانا۔” وہ سیڑھیاں اتر کر عمارت سے باہر آ گئے تھے۔
”اوئے ہوئے! ٹائی ٹینک کا ہیرو اور ہیروئن جا رہے ہیں۔”
پاس سے گزرتے ایک لڑکے نے سیٹی بجاتے ہوئے تبصرہ کیا تھا۔ حیدر نے جھینپتے ہوئے بے اختیار اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ سامنے سڑک پر بہت رش تھا۔ زندگی کا رستہ اتنا ہی صاف نظر آنے لگا تھا۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے اس نے سر اٹھا کر آسمان پر چاند دیکھنے کی پہلی کوشش کی تھی۔
——————————————————————————————————————————