”اس میں اعتراض والی بات کون سی ہے۔ ہر ایک اپنی بچی کا تحفظ چاہتا ہے۔ سارہ کے ماں باپ نہیں ہیں۔ رشتے کے لحاظ سے میں ہی اس کی سرپرست ہوں پھر اگر میں اس کے تحفظ کے لیے ایسی ضمانت چاہتی ہوں تو اس میں کیا برائی ہے؟”
اقصیٰ نے اس کے نکاح سے کچھ دیر پہلے حق مہر میں عارفین کے گھر کا مطالبہ کیا تھا۔ عارفین نے اس کے مطالبے پر صبا کا گھر سارہ کے نام کر دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اقصیٰ صبا کے گھر کے ساتھ ساتھ عارفین کا گھر بھی سارہ کے نام لکھوانا چاہتی تھیں۔ عارفین کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن حیدر اس پر بگڑ گیا تھا۔
”یہ سب کیا ہو رہا ہے پاپا؟ یہ ہوتی کون ہیں اس طرح کی ڈیمانڈز کرنے والی؟ پہلے انھوں نے فوری شادی کا ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ میں نے آپ کے مجبور کرنے پر اس پر رضامندی ظاہر کر دی اور اب یہ حق مہر میں بے جا مطالبات پیش کر رہی ہیں۔ سارہ کے لیے کیا پانچ لاکھ، زیورات اور اس کی امی کا گھر حق مہر میں کافی نہیں ہے جو یہ آپ کے گھر کے لیے کہہ رہی ہیں۔ میں ان کا یہ مطالبہ ہرگز نہیں مانوں گا۔ چاہے جو مرضی ہو جائے۔ وہ گھر آپ کا ہے اور میں کسی صورت میں کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔ ان کو اگر اتنی چیزیں قبول نہیں ہیں تو یہ اپنی بھانجی کی شادی کہیں اور کر لیں۔”
وہ بے حد برہم تھا اور کسی طور پر عارفین کی بات ماننے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا۔
”حیدر! تم جذباتی مت بنو۔ یہ گھر سارہ کے نام کر دینے سے کیا فرق پڑے گا۔ یہ گھر میرے نام ہو۔ تمھارے نام ہو یا سارہ کے نام۔ ایک ہی بات ہے۔ رہنا تو ہم تینوں کو ہی ہے یہاں؟” عارفین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”آپ کو فرق پڑتا ہے یا نہیں مجھے پڑتا ہے۔ جو چیز آپ کی محنت کی ہے وہ میں یا میری بیوی کیسے ہتھیا سکتے ہیں۔ انھیں مطالبات میری حیثیت دیکھ کر کرنا چاہئیں آپ کی حیثیت دیکھ کر نہیں۔” وہ ابھی بھی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”حیدر! یہاں مسئلہ سارہ کی ذات کا ہے۔ میں ایک مکان کی خاطر اس کے نکاح پر کوئی جھگڑا کرنا نہیں چاہتا۔ اس طرح شادی سے انکار کرنے سے تمھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگرسارہ کو پڑے گا اور میں ایسا کوئی کام نہیں ہونے دوں گا جس سے اس کی فیلنگز ہرٹ ہوں۔”
انھوں نے کسی نہ کسی طرح اسے سمجھا بجھا لیا تھا لیکن حیدر کا دل بری طرح کھٹا ہو چکا تھا۔ وہ پہلے ہی اتنی جلدی شادی کی وجہ سے بہت خوش نہیں تھا اور اب اقصیٰ کے ایسے مطالبات نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔ لیکن اس نے محسوس کیا تھا کہ عارفین اس صورت حال سے نہ تو پریشان تھے اور نہ ہی ناخوش۔
اقصیٰ نے واقعی شادی جلدی کرنے کے لیے شور مچایا تھا۔ وہ واپس جانے سے پہلے سارہ کی شادی کر دینا چاہتی تھیں۔ عارفین کی رضامندی کے بعد انھوں نے اپنے بھائی اور باپ کو بھی امریکہ سے اپنی فیملی کے ساتھ بلوا لیا تھا۔ عارفین کے انکار کے باوجود ان لوگوں نے سارہ کے لیے جہیز خریدنا شروع کر دیا تھا اور انھوں نے سارہ کے لیے ہر وہ چیز خریدی تھی جس کی اسے ضرورت ہو سکتی تھی۔ نکاح، مہندی سے کچھ دیر پہلے کیا گیا تھا اور دوسری شام سارہ کی رخصتی تھی۔ عارفین کی بڑی بہن نے حق مہر کے سلسلے میں اقصیٰ کے مطالبات سے سارہ کو بھی آگاہ کر دیا تھا۔ وہ جہاں پریشان ہوئی تھی وہیں بے حد شرمندہ بھی تھی۔ نکاح کے بعد جب سب لوگ کمرے سے چلے گئے تو اس نے اقصیٰ سے اس بات کی شکایت کی مگر انھوں نے اس کی بات یہ کہتے ہوئے سنی اَن سنی کر دی۔
”تم ابھی چھوٹی ہو، دنیا کو سمجھ نہیں سکتی ہو۔ میں نے جو کچھ کیا تمھارے محفوظ مستقبل کے لیے کیا اور ٹھیک کیا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر تم یا کوئی اور اعتراض کرے۔”
وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل کر گھر کے برآمدے میں آ گئی تھیں۔ سامنے صحن روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ مہندی کی رسم مشترکہ طور پر ایک ہی جگہ انجام دی جانی تھی، مہندی عارفین کے گھر کے بجائے تایا کے گھر سے صحن میں آنی تھی اور وہیں پر تمام رسومات سرانجام دی جانی تھیں۔ اس کے بعد صبا کے گھر سے ان سب نے حیدر کی مہندی لے کر تایا کے گھر جانا تھا، سارا انتظام صحن میں کیا گیا تھا اور اسے خوب سجایا گیا تھا ہمیشہ شادی کی تقریبات کے لیے صحن کو ہی استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ وہ بڑا تھا اور اس میں بہت زیادہ مہمان بٹھائے جا سکتے تھے، ایک تھکاوٹ سی ان کے وجود پر چھاتی جا رہی تھی، وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں۔
”کیا بات ہے اقصیٰ! تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ تیار کیوں نہیں ہو رہیں؟” عظیم نے اندر سے باہر آتے ہوئے ان سے پوچھا تھا۔
”عظیم میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔ پتا نہیں ہم یہ سب ٹھیک کر رہے ہیں یا نہیں پتا نہیں ہمیں سارہ کا رشتہ حیدر کے ساتھ کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟” وہ بے چین تھیں۔
”اقصیٰ! اب ایسی باتیں سوچنے کا وقت ہے نہ موقع، سارہ کا نکاح ہو چکا ہے۔ کچھ دیر بعد مہندی کی رسم ادا کی جائے گی اور کل شام اس کی رخصتی ہے پھر اب ایسی باتوں پر ملال کا فائدہ؟” انھوں نے نرمی سے بہن کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے سمجھایا تھا۔
”ہاں، بس ملال ہی تو نہیں جاتا۔ ملال ہی تو نہیں جاتا۔” اقصیٰ کی بے چینی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
”تم پریشان مت ہو۔ حیدر اچھا لڑکا ہے۔ سارہ کا خیال رکھے گا پھر سارہ بھی اسے پسند کرتی ہے۔”
”صرف اسی ایک وجہ سے، صرف اسی ایک وجہ سے میں نے یہ رشتہ قبول کر لیا تھا، ورنہ عظیم، میں کبھی سارہ کو اس ذلیل خاندان میں جانے نہ دیتی۔ یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ صبا کی بیٹی ان کے پاس جائے۔”
اقصیٰ خود پر ضبط نہیں کر سکی تھیں اور رونے لگی تھیں، عظیم کچھ افسردگی سے خود بھی اقصیٰ کے پاس بیٹھ گئے۔
”اقصیٰ! جو کچھ ہو چکا، اسے بھولنے کی کوشش کرو۔” انھوں نے بہن کا ہاتھ تھام کر اسے چپ کروانے کی کوشش کی۔
”میں کیا کروں عظیم! مجھے کچھ بھولتا نہیں۔ مجھے کچھ بھولتا ہی تو نہیں۔ مجھے آج بھی ایک ایک بات یاد ہے۔ ایک ایک منظر نقش ہے میرے دل پر، یہی گھر تھا۔ یہی لوگ تھے۔ اسی طرح سب کچھ سجا ہوا تھا۔ اسی طرح سب لوگ ہنس بول رہے تھے جب تائی امی نے نیچے آ کر چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ میں بھی امی کے ساتھ حواس باختہ اوپر گئی تھی اور وہاں تائی نے اسے عادل کے ساتھ کمرے سے نکالا تھا۔ میرا دل کہہ رہا تھا، میری بہن نے کچھ نہیں کیا مگر وہ اس قدر خوفزدہ تھی کہ کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آیا ہوگا کہ تائی اس کی ساس اس کے ساتھ یہ دھوکا کر سکتی ہیں۔ آج عارفین کی بڑی بہن کو ایک معمولی گھر حق مہر میں لکھواتے ہوئے اتنا اعتراض ہوا کہ وہ یہ بات بتانے کے لیے سارہ کے پاس جا پہنچی اور اس شام وہی دوپٹے کے بغیر صبا کو دھکے دیتے ہوئے نیچے لائی اور اسے ننگے سر اور ننگے پاؤں صحن میں دھکیل دیا تھا۔ میں یہیں بیٹھی ہوئی تھی جہاں آج بیٹھی ہوں اور مجھے لگ رہا تھا۔ کوئی میرے وجود کو چھری سے کاٹ رہا ہے۔ تم بھی تو کھڑے تھے نا یہیں پاس ہی تو کھڑے تھے جب تایا نے اسے صحن کے بیچوں بیچ جوتوں سے مارنا شروع کیا تھا۔ تمھیں یاد ہے نا۔ امی، ابو نے اسے کبھی سخت ہاتھ تک نہیں لگایا تھا اور اس شخص نے سب کے سامنے اس کے سر پر جوتے مارے تھے اور میں عظیم! میں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ میں بس یہیں بیٹھی روتی چیختی رہی تھی اور سب لوگ برآمدوں میں تماشا دیکھتے رہے تھے۔ کسی نے آگے بڑھ کر تایا کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی، تمھیں یاد ہے۔ وہ ایک بار بھی نہیں چیخی تھی۔ اس نے کتنی خاموشی کے ساتھ سر جھکا کر مار کھائی تھی۔ اس کے ساتھ کسی نے اچھا سلوک نہیں کیا نہ ہم نے نہ کسی اور نے۔ تم اسے جان سے مار ڈالنا چاہتے تھے جب تائی نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھا لی تھی کہ اسے اور عادل کو انھوں نے عارفین کے کمرے میں نہیں بھیجا تھا اور صبا نے قرآن پر ہاتھ رکھنے سے انکار کر دیا تھا، پھر عارفین نے اسی کمرے میں اسے کھڑے کھڑے طلاق دے دی تھی تب میرا دل چاہا تھا میں صبا کو مار دوں۔ مجھے بھی باقی سب کی طرح یقین آ گیا تھا کہ وہی مجرم ہے مگر وہ مجرم نہیں تھی۔ مجرم تو ہم تھے گناہ تو ہم سے ہوئے تھے اور یہ خاندان تو سات پشتوں تک صبا کا مقروض رہے گا کس کس چیز کا قرض اتاریں گے۔ تایا کو خود مختاری کی بیماری تھی۔ فیصلوں کا شوق تھا۔ بڑا زعم تھا اپنی خاندانی نجابت پر۔ وہ کس کس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے۔ صبا کو ایک بوڑھے کی دوسری بیوی بنا دینے کا؟ یا سارہ پر ناجائز اولاد کا ٹھپہ لگوا دینے کا؟ یا شادی کے چار ماہ بعد اسے طلاق ہو جانے کا؟ اس خاندان کی جھولی گناہوں سے بھری ہوئی ہے اور ہم… ہم ایک بار پھر ان سے رشتے استوار کر رہے ہیں۔ سارہ کو اس گندگی میں پھینک رہے ہیں۔ یہ لوگ کیا اس قابل ہیں کہ انھیں معاف کیا جائے؟ ان کی وجہ سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ان کی وجہ سے ہمیں یہ گھر چھوڑ کر جانا پڑا اور یہ سب دیکھو، یہ سب کتنے خوش، کتنے مطمئن ہیں۔ انھیں احساس ہی نہیں ہے کہ انھوں نے کتنی زندگیاں برباد کر دی ہیں۔ یہ تو اس شادی کے ذریعے اپنے کفارے ادا کر رہے ہیں۔ اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں ورنہ انھیں سارہ کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے؟”
وہ سسکتی رہی تھیں۔ عظیم دل گرفتگی کے عالم میں سر جھکائے خاموشی سے ان کے پاس بیٹھے رہے۔
”کچھ بھی ہو اقصیٰ! سارہ کے ساتھ وہ سب نہیں ہو سکتا جو صبا کے ساتھ ہوا، اس وقت ہم بے بس تھے۔ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ صبا کو بچا سکتے تھے نہ اسے تحفظ دے سکتے تھے۔ اب حالات ویسے نہیں ہیں۔ اب ہم سارہ کو سپورٹ کر سکتے ہیں پھر عارفین اور حیدر دونوں سارہ کا خیال رکھیں گے۔ تم پریشان مت ہو اقصیٰ۔”
عظیم نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی تھی وہ بھائی کے کندھے سے لگ کر رونے لگیں۔ صحن میں چہل پہل بڑھتی جا رہی تھی۔ مہندی لے جانے کے لیے سب لوگ تایا کے گھر اکٹھے ہو رہے تھے۔ اقصیٰ کی بڑی بیٹی باہر آ گئی تھی۔
”افوہ امی! آپ اب تو آ کر تیار ہو جائیں۔ وہ لوگ آنے والے ہیں، جلدی کریں۔ اب یہ رونا دھونا ختم کریں۔”
وہ آ کر ماں کا بازو کھینچنے لگی تھی۔ اقصیٰ آنکھیں پونچھتے ہوئے تیار ہونے کے لیے اندر آ گئی تھیں۔ رات دیر گئے مہندی کا ہنگامہ جاری رہا تھا۔
…***…
”بس مجھے یہاں اتار دیں میں تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی۔” سارہ نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا۔
”میں بھی تمھارے ساتھ چلتی ہوں۔” اقصیٰ نے بھی گاڑی سے اترنا چاہا تھا لیکن سارہ نے انھیں روک دیا۔
”نہیں خالہ! مجھے اکیلے ہی جانا ہے۔ آپ کے ساتھ جانا مجھے اچھا نہیں لگے گا، میں بس اپنی دوست سے مل کر واپس آ جاؤں گی۔”
اس نے گاڑی سے اتر کر دروازہ بند کر دیا تھا۔ اقصیٰ نے بادل نخواستہ اسے جانے دیا۔ وہ اسے تیار کروانے کے لیے بیوٹی پارلر لے کر جا رہی تھیں، جب اس نے اپنی کسی دوست سے ملنے کی فرمائش کی تھی اور ڈرائیور کو پتا بتایا تھا۔ اقصیٰ نے بڑے آرام سے ڈرائیور کو وہاں جانے کا کہہ دیا تھا کیونکہ بارات کو شام پانچ بجے آنا تھا اور اس وقت صرف ایک بجا تھا۔ گاڑی میں اقصیٰ کے ساتھ ان کی بڑی بیٹی افشاں اور عظیم کی بیوی بھی تھی۔ قائداعظم روڈ پر ایک بلند و بالا کمرشل عمارت کے سامنے اس نے گاڑی رکوائی تھی۔
”یہیں اوپر اس کا فلیٹ ہے۔”
سارہ نے اقصیٰ کو بتایا تھا۔ پھر وہ گاڑی سے اتر کر چلی گئی تھی۔ ڈرائیور نے کار پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر دی اور وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے اس کا انتظار کرنے لگیں۔ انھیں وہاں بیٹھے پندرہ منٹ گزر گئے لیکن وہ باہر نہیں آئی۔ اقصیٰ نے گھڑی دیکھنا شروع کر دیا تھا پھر آدھ گھنٹہ گزر گیا لیکن وہ باہر نہیں آئی اب اقصیٰ کو بے چینی ہونے لگی تھی۔ بیوٹیشن کے ساتھ ان کی دو بجے کی اپائنٹمنٹ تھی اور ڈیڑھ یہیں بج چکا تھا۔
”تم لوگ بیٹھو، میں اسے دیکھ کر آتی ہوں۔” اقصیٰ نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا تھا۔
”امی! اب کہیں یہ نا ہو کہ آپ سارہ کو ڈھونڈنے جائیں اور وہ اتنی دیر میں آ جائیں پھر ہم آپ کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔” افشاں نے ماں سے کہا تھا۔
”نہیں اگر سارہ آ جاتی ہے تو تم لوگ بیوٹی پارلر چلے جانا میں ٹیکسی لے کر آ جاؤں گی۔”
اقصیٰ یہ کہہ کر گاڑی سے اتر گئی تھیں۔ یہ ایک کمرشل عمارت تھی اور کافی لوگ اندر آ جا رہے تھے۔
”فلیٹس کس منزل پر ہیں؟” اقصیٰ نے چوکیدار سے پوچھا تھا۔
”بی بی! اس عمارت میں کوئی فلیٹ نہیں ہے بس آفس ہیں۔”
اقصیٰ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی انھوں نے حواس بحال رکھتے ہوئے ایک بار پھر اس سے پوچھا تھا۔
”نہیں۔ آفس تو گراؤنڈ فلور پر ہوں گے۔ اوپر والی منزلوں پر فلیٹ ہوں گے؟”
”بی بی! یہ عمارت میرے سامنے بنی تھی۔ میں پندرہ سال سے یہاں ہوں، یہاں ساری منزلوں پر ہی آفس ہیں، فلیٹ کوئی نہیں۔ اوپر والی دو منزلیں تو اس کمپنی نے لے رکھی ہیں۔” اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا نام بتایا تھا۔
”نیچے کی دو منزلوں پر بھی صرف آفس ہیں پھر بھی اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ اندر جا کر پتا کر لو۔” اقصیٰ کو لگا تھا جیسے ان کے سر پر آسمان گر پڑا ہو۔ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی واپس کار پارکنگ میں آئی تھیں۔
”چوکیدار کہہ رہا ہے کہ اس عمارت میں کوئی فلیٹ نہیں ہے۔ صرف آفس ہیں۔” انھوں نے بوکھلائے ہوئے افشاں اور مریم کو بتایا تھا۔ وہ دونوں گاڑی سے اتر آئی تھیں۔
”آئیں ہم خود چل کر دیکھتے ہیں۔”
عظیم کی بیوی بھی بوکھلائی ہوئی تھی۔ وہ تینوں عمارت کے اندر گئی تھیں اور وہاں انھوں نے جس سے بھی پوچھا تھا۔ اس نے یہی کہا تھا کہ وہاں کوئی فلیٹ نہیں ہے صرف آفس ہیں۔ وہ تینوں بے حد پریشان ہو کر عمارت کے اندرونی دروازے پر بیٹھے گارڈ کے پاس گئی تھیں اور اسے انھوں نے سارہ کا حلیہ بتا کر اس کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کی تھی مگر وہ بھی سارہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکا تھا۔
”آپ خود دیکھ لیں، اس عمارت میں اتنی عورتیں آتی ہیں۔ ہم کس کس کو یاد رکھ سکتا ہے۔”
گارڈ نے ان سے کہا تھا۔ اب ان تینوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔
”امی! آپ پاپا اور انکل عظیم کو رِنگ کریں وہی کچھ کر سکتے ہیں۔”
افشاں نے ماں کو سمجھایا تھا، ایک پبلک کال آفس سے فون کر کے انھوں نے عظیم کو بلایا تھا اور وہ آدھ گھنٹہ بعد حواس باختہ سے وہاں پہنچے تھے۔ انھوں نے بھی چوکیدار اور گارڈ سے سارہ کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرنا چاہی تھی مگر وہ بھی ناکام رہے تھے، سارہ کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
”یہ شادی اس کی پسند سے ہو رہی ہے پھر وہ کہاں غائب ہو سکتی ہے؟” عظیم کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
”تم اسے یہاں لے کر کیوں آئی تھیں؟ تم سے کس نے کہا تھا کہ اسے اکیلے اندر جانے دو؟”
وہ بری طرح اقصیٰ پر برس پڑے تھے اقصیٰ کچھ بولنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ عظیم نے موبائل پر کال کر کے اقصیٰ کے شوہر اسد کو بھی وہیں بلوا لیا تھا۔ ان تینوں کو انتظار کرنے کا کہہ کر وہ دونوں ایک بار پھر اندر غائب ہو گئے تھے، ایک گھنٹے بعد ستے ہوئے چہروں کے ساتھ ان کی واپسی ہوئی تھی۔
”اب اور کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ عارفین کو یہاں بلا لیا جائے۔ اب تک تو بارات بھی روانہ ہو چکی ہو گی۔ تم لوگ ہوٹل چلے جاؤ کیونکہ وہاں بارات کے استقبال کے لیے تو گھر والوں میں سے کسی کو ہونا چاہیے۔ اقصیٰ! تم یہیں رہو اور مریم! تم عارفین کو یہاں بھجوا دو اسے ابھی سارہ کی گمشدگی کے بارے میں مت بتانا۔ صرف یہ کہنا کہ عظیم نے کسی ضروری کام کے لیے یہاں بلا لیا ہے اور کسی سے بھی ابھی سارہ کے بارے میں کچھ مت کہنا۔ بس یہی کہنا کہ وہ ابھی بیوٹی پارلر میں ہے اور اقصیٰ اس کے پاس ہے۔” عظیم نے انھیں ہدایات دی تھیں اور پھر انھیں بھجوا دیا تھا۔
آدھ گھنٹہ بعد عارفین آئے تھے اور وہ کافی پریشان نظر آ رہے تھے شاید وہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ انھیں وہاں کیوں بلایاگیا تھا۔ عظیم نے انھیں پورا واقعہ بتا دیا تھا اور ان کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سارہ کہاں جا سکتی ہے؟ اقصیٰ! کہیں تم نے تو اسے کچھ نہیں بتایا۔” عارفین کا ذہن فوراً اقصیٰ کی طرف گیا تھا۔
”نہیں عارفین! یقین کرو میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔ میری تو خود سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ یوں اچانک کیوں غائب ہو گئی ہے۔” اقصیٰ نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔
”خدا کے لیے اقصیٰ! اگر یہ سب تم نے کیا ہے تو ایسا مت کرو، وہاں پورا خاندان اکٹھا ہے۔ میرے سب دوست احباب، ملنے والے جمع ہیں۔ میں ان کا سامنا کیسے کروں گا؟” عارفین عباس نے منت آمیز انداز میں اقصیٰ سے کہا تھا۔
”عارفین! میرا یقین کرو۔ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ سارہ کو میں نے نہیں بھیجا۔ اپنی مرضی سے گئی ہے، غلط بیانی کر کے گئی ہے کہ یہاں اس کی دوست کا فلیٹ ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اس کے چلے جانے سے صرف تمہاری رسوائی ہے؟ نہیں عارفین ہم بھی کسی کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔” اقصیٰ بے اختیار رو پڑی تھیں۔
عارفین انھیں بے بسی سے دیکھ کر رہ گئے تھے۔ کچھ دیر تک انھوں نے بھی ایک موہوم سی امید میں اس عمارت میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور پھر بالآخر انھوں نے اپنے ایک دوست کو فون کر کے پولیس کو بلوا لیا تھا، پولیس کی تھوڑی سی تفتیش سے ہی یہ پتہ چل گیا تھا کہ وہ سامنے والے گیٹ سے داخل ہونے کے بعد عقبی گیٹ سے باہر نکل گئی تھی۔ انھیں یہ اندازہ پہلے بھی تھا کہ وہ اپنی مرضی سے غائب ہوئی تھی مگر اب یہ بات طے ہو گئی تھی کہ وہ باقاعدہ منصوبہ بنا کر وہاں آئی تھی۔ یقینا وہ پہلے بھی اس عمارت میں آتی جاتی رہی تھی اور جانتی تھی کہ اس عمارت کا ایک عقبی گیٹ بھی ہے اور وہ وہاں سے آسانی سے جا سکتی ہے۔
شام ہو چکی تھی اور وہ وہاں سے واپس آ گئے تھے۔ عارفین نے ہوٹل واپس آ کر حیدر کو ایک کمرے میں بلایا تھا اور اسے سب کچھ بتا دیا تھا وہ سکتے میں آ گیا تھا۔
”پاپا! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟” اسے یقین نہیں آ رہا تھا ”وہ کہاں جا سکتی ہے اور کیوں جائے گی؟” وہ روہانسا ہو گیا تھا ”مجھے بتائیں، میں کیا کروں میں لوگوں کے سامنے کیسے جاؤں؟”
”حیدر! خود پر قابو پاؤ، اقصیٰ سب سے کہہ رہی ہے کہ سارہ کو فوڈ پوائزننگ ہو گئی ہے اور اس وجہ سے اسے ہاسپٹل ایڈمٹ کروانا پڑنا ہے، ہم بھی سب سے یہی کہیں گے۔”
”پاپا! لوگ بے وقوف نہیں ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے، وہ اس بات پر یقین کر لیں گے۔ میں ان کے سوالوں کا جواب کیسے دوں گا؟ مجھے سچ بتائیں۔ وہ کیوں گئی ہے؟ ایسا کیا ہوا ہے؟” حیدر کو لگ رہا تھا اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا۔ ”میں اب کسی کے سامنے نہیں جاؤں گا میں اس کمرے سے باہر نہیں جاؤں گا۔ اس سے میری شادی آپ کا فیصلہ تھا۔ آپ جائیں، لوگوں سے جو بھی کہنا ہے آپ کہیں۔ میں کسی کا سامنا نہیں کروں گا۔”
حیدر نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ عارفین کچھ کہے بغیر باہر چلے گئے۔
…***…
”پاپا! آپ کو جو کچھ مجھ سے چھپانا تھا۔ آپ نے چھپا لیا۔ اب مجھ سے صرف سچ بولیں۔ مجھے بتائیں۔ صبا سے آپ کا کیا رشتہ تھا۔ آپ دونوں کے درمیان کیا ہوا تھا۔ سارہ کس وجہ سے چلی گئی؟”
اس رات سارے مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد وہ دونوں گھر آئے تھے اور حیدر گھر آتے ہی سارہ کے کمرے میں چلا گیا تھا، سارہ اپنی چیزیں صبا کے گھر لے کر گئی تھی، اس کا باقی سامان یہیں پر تھا اور اس کی چیزیں دیکھتے ہوئے حیدر کو جھٹکے پر جھٹکے پہنچ رہے تھے۔ اس کے ہاتھ عارفین کے صبا کے نام لکھے ہوئے خطوط اور کارڈز لگے تھے اور ان کی وہاں موجودگی نے اسے جتنا حیران کیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر اس انکشاف نے اسے دم بخود کیا تھا کہ صبا عارفین کی منکوحہ رہ چکی تھیں۔ پھر اس کے ہاتھ سارہ کی تعلیمی اسناد لگی تھیں اور وہ یہ جان کر ساکت ہو گیا تھا کہ وہ گریجویشن تک فرنچ کو ایک آپشنل سبجیکٹ کے طور پر پڑھتی رہی ہے۔ پھر وہ باپ کے پاس آیا تھا اور اب وہ ان سے سوال کر رہا تھا۔ اس نے وہ کارڈز اور خطوط ان کے سامنے ٹیبل پر پھینک دیے تھے۔ عارفین انھیں دیکھ کر ساکت رہ گئے تھے۔
”یہ تمھیں کہاں سے ملے؟”
”سارہ کے کمرے سے، اسے یہ کہاں سے ملے؟ یہ آپ کو پتا ہوگا اور یہ جان کر آپ کو مزید صدمہ ہو گا کہ وہ کالج میں فرنچ پڑھتی رہی ہے اب آپ مجھ سے کچھ نہ چھپائیں۔ مجھے بتائیں وہ سب کچھ جو آپ نے نہیں بتایا اور جس کی سزا مجھے ملی ہے۔”
عارفین نے اپنا سر جھکا دیا تھا۔
…***…