مڈل کلاس — سارہ عمر

”میں سوری کہنے آئی ہوں۔” وہ شرمندہ تھی۔ اتنی مشکل سے وہ اسے ملا تھا تو وہ اسے لان تک لے آئی۔
”میں کلاس چھوڑ کر آپ کا رجسٹر دینے گیا تھا اور آپ…” وہ رخ موڑے بول رہا تھا۔
”میں بھی کلاس مس کرکے آئی ہوں، حساب برابر ہوگیا نا؟” وہ تنک کر بولی۔
”اتنے آرام سے حساب برابر؟ ”
”چلیں کچھ کھلادیتی ہوں،اب تو معاف کردیں۔”
”چلیں یہ بہتر ہے۔ سوچتے ہیں معاف کرنے کے بارے میں۔”
”صرف سوچتے ہیں؟ کرنا پڑے گا۔”
”اچھا بابا کرنا پڑے گا۔” وہ ہنس پڑا تو وہ بھی ہنس دی۔
٭…٭…٭
فیضان اور زوباریہ کے معمولات بدل گئے تھے۔ کبھی فیضان اِدھر اور کبھی زوباریہ اُدھر۔ محبت کیسے آہستہ آہستہ رگوں میں اترتی ہے کہ محسوس ہوئے بغیر اتنی شدت اختیار کرجاتی ہے۔
”فیضان اگر تم امیر ہوتے ناں تو میں تم سے محبت نہ کرتی۔ شکر ہے تم مڈل کلاس سے ہو۔”
”محبت بھی بھلا کلاس دیکھ کر ہوتی ہے؟ یہ تو بس ہوجاتی ہے۔” وہ لاجواب ہوئی۔
”لیکن اچھا ہے نا تم مڈل کلاس سے ہو اور میں بھی۔ ہمارے بیچ کوئی مشکل نہیں ہوگی۔”
”یہ بھلا کون کہہ سکتا ہے۔ مڈل کلاس کسی چیز کی گارنٹی تو نہیں۔” وہ اسے پھرلاجواب کررہا تھا۔
”لیکن پھر بھی…”
”اچھا یہ سب چھوڑو۔ آئس کریم پگھل رہی ہے، کھالو۔”
”ہمم” وہ مختصر سا جواب دے کر چپ ہو گئی تھی۔
٭…٭…٭




”ہائے زوبی کے ابا کیا بول رہے ہیں؟” اماں دھک سے رہ گئی تھیں۔
”صحیح کہہ رہا ہوں۔” وہ بھی پریشان تھے۔
”جمعہ جمعہ چار دن تو ہوئے تھے شادی کو اور طلاق؟’ ‘
”ہائے ہائے۔” اماں سینہ پیٹ رہی تھیں۔
”کیسی نازوں سے پلی بچی اس سانڈ کے حوالے کردی۔ کچھ نہ دیکھا سیٹھ نے، بس پیسہ دیکھا۔” اماں دہائیاں دے رہیں تھیں۔
”اماں کیاہوا۔” رونا سن کر وہ بھی باہر آئی۔
”ہائے! سعدیہ کو طلاق ہوگئی ۔کم بخت نے ننھی سی بچی کے نصیب کھوٹے کردیئے۔ شرم نہ آئی اسے۔” اماں کو شدید صدمہ تھا۔
”ہائے اللہ! سعدیہ کو طلاق؟ اماں میں کہتی تھی نا ! وہ خوش نہیں ہے۔ ”
”ہائے اس موٹے کو خیال نہ آیا اس بچی کا۔ کیسے پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا۔ سب ضائع گیا۔ کیسی شادی ہے چند دن نہ چلی۔” اماں دکھ میں تھیں اور وہ اس سوچ میں کہ اب تو عدیل بھائی سے ہی اس کی شادی ہوگی۔ اے محبت تیرا وقت آگیا ہے۔
٭…٭…٭
”زوباریہ کدھر ہے ؟ یہ کلینڈر میں نشان لگا دس تاریخ پر۔”
”کیوں اماں اب کیا ہے۔” وہ پن سے نشان لگاتے ہوئے بولی۔
”سعدیہ کی شادی۔”
”ہیں! ابھی تو عدت ختم ہوئی ہے اس کی۔ ادھر ایک شادی نہیں ہورہی اور ادھر دوسری بھی ہونے لگی ہے۔”
”چل چپ کر! بہت زبان چلتی ہے۔ ٹائم نہیں ہے کارڈ چھپوانے کا، فون پر اطلاع دی ہے۔” وہ وضاحت دینے لگیں۔
”کس سے کررہے ہیں؟” دل میں امید ابھری ۔
”ہے کسی مل اونر کا بیٹا۔” امید ٹوٹ گئی۔
”اے محبت تیرے انجام پر رونا آیا۔ کبھی تو اپنا آپ منوا لیا کر۔ سیٹھ ماموں بھی اپنی ہی کرتے۔ اب تو خیال کرلیں ۔بے چارے عدیل بھائی۔” وہ کلینڈر کو دیکھتی رہ گئی ۔
٭…٭…٭
”اچھا میں د ودن یونیورسٹی نہیں آؤں گی۔” اس نے میسج لکھ کر سینڈ کیا تھا۔
”کیوں کیا ہوا ؟” آگے سے جواب آیا تھا۔
”کزن کی شادی ہے، آنا مشکل ہے۔” اس نے رپلائی کیا۔
”ایسی بھی کیا مشکل؟ دن نہیں گزرتا یار اکیلے۔”
”گزارنے کی کوشش کرو۔ یونیورسٹی کے بعد کیا کروگے؟” وہ مسکرائی ۔
”شادی کروں گا۔” ساتھ smiley فیس تھا۔
”کس سے؟” اس نے شوخی سے پوچھا۔
”ہے ایک لڑکی ، تمہیں کیا؟ تم شادیاں اٹینڈ کرو۔”
”اچھا ناراض نہیں ہو، ایک دن چھٹی کرلوں گی۔”
”اب چھوڑ بھی دے اس موبائل کی جان۔” اماں نے آواز دی توموبائل خود بہ خود بستر پر لڑھک گیا۔
”آئی اماں۔” وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔
٭…٭…٭
”چلو چلو ہم تھوڑ الیٹ ہوگئے ۔” وہ دروازے تک آئے۔
”یہ کیا؟ لائٹیں ہیں نہ گارڈ، خیر تو ہے؟ شادی کینسل تو نہیں ہوگئی۔” اماں فکر مندی سے بولی تھیں۔
”اللہ نا کرے۔” اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دعا کی۔
”ہائے رونے کی آوازیں آرہی ہیں۔ شادی والا گھر…”
اندر قدم رکھتے ہی وہ ہل کر رہ گئی تھی۔ پیلے سوٹ میں منہ سے جھاگ اگلتی سعدیہ مردہ حالت میں مسہری پر پڑی تھی اور عورتوں کی دھاڑیں مار مار کر روتی آوازیں کان چیر رہی تھیں۔
”ہائے!” اماں تو سینے پہ ہاتھ رکھ کر ہی بے ہوش ہوگئیں۔ وہ پانی لینے بھاگی۔ابا انہیں اٹھا رہے تھے۔
سجے سجائے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔ دلہن نے زہر کھا کر خودکشی کرلی تھی۔
”کیا تھا جو سیٹھ ماموں مان جاتے؟ کیا تھا جو محبت جیت جاتی؟ کیا تھا جو یہ جان نہ جاتی؟کیا تھا جو مڈل کلاس کو انسان سمجھ لیا جاتا۔” وہ گھر جاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
”کیا ہوا؟ آنکھیں کیوں سوج رہی ہیں۔ شادی میں نہیں گئیں۔’ ‘ وہ پریشان ہوا۔
”گئی تھی، جنازہ پڑھ کر واپس آگئی۔
”کیا بول رہی ہو؟” اس کے سوال پر زوباریہ نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے ساری تفصیل سنا دی۔
”اسی لیے بول رہی تھی شکر ہے تم مڈل کلاس سے ہو۔” وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
”کلاس بندوں کی نہیں دماغوں کی ہوتی ہے۔ جس کی جتنی چھوٹی ذہنیت ہے وہ اتنا ہی سوچ سکتا ہے۔ امیر غریب سے فرق نہیں پڑتا۔” وہ اب بھی راضی نہیں تھا۔
”پڑتا ہے، بہت پڑتا ہے۔” وہ عدیل بھائی کے لیے دل سے غم زدہ تھی۔ ان کی حالت بہت خراب تھی۔
”اچھا چلو کینٹین سے چائے پی لو۔ تھکن ہورہی ہوگی۔”
”ہاں ہو تو رہی ہے۔” وہ دونوں اُٹھ کر کینٹین کی طرف چل دیے۔
”ابا آپ نے بلایا تھا؟” وہ کمرے میں آئی تھی۔
”ہاں! بیٹھو۔” وہ سنجیدہ تھے۔
”زوباریہ بیٹے آپ کا فائنل سیمسٹر ختم ہوگیا ہے تو ہم نے سوچا آپ کی شادی کردی جائے۔” وہ رکے تھے۔
”جی!” وہ دھیمے سے بولی۔
”اب مجھ سے پسند تو پوچھیں گے۔” اس نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔
”آپ کا رشتہ میں نے حماد سے طے کردیا ہے۔ فیض انکل کا بیٹا، انجینئر ہے ابھی دوبئی سے آیا ہے۔
”مگر ابو…” آج نہ بولی تو پھر محبت ناکام ہوگی۔
”مجھے کوئی اور پسند ہے، اپنا یونیورسٹی فیلو۔” وہ بے دھڑک ہوکر بولی۔
”کیا۔” ابا چیخ کر کھڑے ہوئے۔
”اس لیے بھیجا تھا تجھے یونی ورسٹی کہ وہاں جاکر ماں باپ کی عزت خراب کرے، ان کی عزت کا جنازہ نکالے؟”شفیق باپ کی جگہ اب کسی جلاد صفت شخص نے لے لی تھی۔یہ روپ تو اُس کے لیے بالکل نیا تھا۔
”مگر ابو وہ بھی مڈل کلاس سے ہے اور ہم۔”
”بند کرو یہ بکواس۔” انہوں نے آگے بڑھ کر اسے بالوں سے پکڑا۔
”مڈل کلاس ہو یا اپر کلاس تیرا رشتہ جہاں طے کیا ہے وہیں ہوگا یہ میری عزت کا سوال ہے۔ میں زبان دے چکا ہوں۔”
”مگر میںنہیں کرسکتی، ناانصافی ہے یہ…” ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر پڑا اور پھر پڑتے ہی چلے گئے۔ اماں پیچھے ہٹا رہی تھیں تو انہیں بھی دھکا لگا۔
وہ بولے جارہی تھی۔
”میں نہیں کروں گی، میں مرجاؤں گی۔ ابا مجھے زندگی گزارنے کا حق ہے۔ میری زندگی ہے، میری پسند ہے… وہ بہت اچھا ہے۔” لاتیں ، جوتے اور گھونسے مار مار کر وہ تھک گئے تھے تو اس کی زبان بھی تھک گئی۔
نہ جانے اس محبت کے حق میں ناکامی ہی کیوں لکھی ہے۔ نہ جانے یہ کیوں انسان کو اپنے زہریلے وجود سے بھر دیتی ہے کہ انسان اتنا منہ زور ہوجاتا ہے۔
سیٹھ ماموں اور اس کے باپ میں بھلا کیا فرق ہوا؟ کہاں کی اپر کلاس، کہاں کی مڈل کلاس۔
سب مردوں کے دماغ برابر ہیں۔ ہاں یہ سو چ کی کلاس ہی تو ہے جو بڑا اور چھوٹا بناتی ہے۔
ٹھیک ہی تو کہا تھا رمشا نے۔ ہر جگہ مڈل کلاس نہیں ہوتی، کہیں کہیں بیچ میں نصیب بھی آجاتا ہے۔ اس کی اور فیضان کی ایک کلاس بھی ان کے نصیب جوڑنے کا سبب نہ بن سکی تھی۔
محبت میں ہار نے اس کی سوچ بدل ڈالی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سراغِ زندگی — خدیجہ شہوار

Read Next

میک اپ — ندا ارشاد

2 Comments

  • ما شاءاللہ بہت خوب صورت تحریر تھی۔ پڑھ کر اچھا لگا۔ واقعی یہ سب تو سوچ کی بات ہے اور نصیب کا بھی دخل ہے۔ بیچاری زوبی مڈل کلاس لڑکیوں کو کبھی بھی حق نہیں دینگے پسند کی شادی کا۔ آپ نے اس کہانی میں سب emotions بہت اچھے سے بیان کیے اور expression بھی میں ہر سین کے ساتھ محسوس کر رہی تھی۔ اس کہانی میں دکھ، سکھ ،محبت، نفرت ،حقارت، غربت، امیری سب آپ نے اعلیٰ طریقے سے لکھا یے۔ بہت خوب۔

  • حسب روایت اعلٰی اور زبردست کہانی
    ہمیشہ کی طرح آپ کے مکالمے پر لطف اور پر اثر ہوتے ہیں یہی آپ کی تحریر کی خوبی ہے ۔ کہیں کہیں قہقے لگوانے کی کوشش کی گئی اور کہیں تسلسل کے ساتھ دھیرے دھیرے مسکراہٹوں اور درد سے بیک وقت آشنا کروایا گیا۔
    طنز و مزاح سے بھرپور دل فگار تحریر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!