”سب لائن بناکر کھڑی ہوں۔”
”سیدھی ہوں۔”
”جوتے صاف کریں۔”
”دوپٹہ ٹھیک کریں۔”
”منہ اوپر کریں۔”
”ہاتھ سیدھے رکھیں۔”
مس عنبرین نے کالج کی خوب صورت لڑکیاں چن کر ریسپشن پہ کھڑی کردیں تھی جن کے ہاتھوں میں پھولوں کی پلیٹیں ہے۔
پورے کالج کی رگڑ رگڑ کر صفائی کی گئی تھی جیسے رانا صاحب نے صفائی کا جائزہ لینا ہو۔
”مس عنبرین کی ہدایات ختم ہی نہیں ہورہیں میری کمر اکڑ گئی ہے کب آئیں گے رانا جی۔” زوباریہ کھڑے کھڑے تھک گئی تھی۔ ان دونوںکا نام بھیreception کے لیے تھا۔
”ہاں ناں! مس فضیلہ کو دیکھا ہے؟ لولی پاپ بن کر آئی ہیں رانا جی نے آکر ان کو کھانا ہے کیا؟ حد ہے ویسے سب ایسے خوش ہورہی ہیں جیسے وہ رشتہ لینے آرہا ہے ان کا۔” رمشا کو غصہ آرہا تھا۔
”young ہے کیا؟” زوباریہ نے سوال کیا۔
”تو اور کیا؟ تصویریں نہیں دیکھیں! بازار میں اتنے بینر لگے ہیں؟ اندھی ہے کیا۔” رمشا حیران ہوئی۔
”میں نیچے دیکھ کر چلتی ہوں، اوپر دیکھ کر چلوں تو نینا کی طرح گٹر میں گری ہوں ۔”
نینا ان کی کلاس فیلو تھی جو اوپر کوئی پتنگ دیکھتے گٹر میں گر گئی تھی۔ وہ یاد آتے ہی دونوں تالی مار کر ہنس پڑیں اور مس عنبرین ان کے سر پر پہنچ گئیں۔
”یہ قہقہے ہی مارنے ہیں تو کلاس میں جاکر بیٹھیں۔” وہ غصے سے بولیں۔
”سوری میم!” وہ دونوں یک زبان ہوکر بولیں۔
”چلیں چلیں رانا صاحب آگئے ۔” پیون نے آواز دی جس سے سب سیدھے ہوگئے تھے۔
کیمرے والے آگے آگے ہوکر رانا دلاور کے ایک ایک انداز کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کررہے تھے۔ اجلی سفید قمیص پر کالی واسکٹ پہنے سفید رنگت پر نفاست سے بال سجائے گھنی مونچھوں کے نیچے مسکراتے گلابی ہونٹوں والا رانا دلاور واقعی اچھی شخصیت کا مالک تھا۔ قافلہ گزر گیا تو وہ دھپ سے کاریڈور میں بیٹھ گئی ۔
”اُف! ڈیوٹی ختم۔” زوباریہ خوش ہوئی۔
”کتنا اچھا لگتا ہے نا، اتنے گارڈز، اتنے لوگ آگے پیچھے۔ کتنا مزہ آتا ہوگا ان امیروںکو۔” رمشا گم سم سی بول رہی تھی۔
”لو! یہ کوئی زندگی ہے مشہور لوگوں کی؟ جہاں جاؤ لوگ منہ پر کیمرا لے کر پہنچ جائیں۔ ایک سیلفی بنالیں۔ ہم نے فیس بک پر لگانی ہے۔ دوستوں کو جلانا ہے۔ ہم فلاں فلاں مشہور بندے سے مل لئے۔ ان سے پوچھو کہ لوگ کیسے زندگی عذاب بناتے ہیں۔ مڈل کلاس اچھے ہیں نا، کوئی privacy تو ہوتی ہے۔ عام سے لوگ، کوئی پوچھتا ہی نہیں۔” وہ مڈل کلاس نامہ سنانے لگی۔
”یہی تو کہہ رہی ہوں عام سے لوگوں کو پوچھتا کون ہے؟ خاص ہی کو تو پوچھتے ہیں۔ آگے پیچھے پھرتے ہیں۔”
”مگر…”
”اگر مگر بندکرو اور ہال میں چلو پرائز مس ہوجائے گا …” رمشا اسے لے کر اندر دوڑی۔
مس بشریٰ لسٹ لے کرلڑکیوں کوترتیب سے کھڑا کروا رہی تھیں۔ فضیلہ کے بعد اس کا نمبر تھا۔
اس کا نام پکارا گیا ۔ رانا دلاور سے پرائز وصول کرتے ہوئے اس نے کیمرے کی طرف مسکرا کر دیکھا کپ کے پیچھے سے اس کا ہاتھ رانا دلاور نے چھو کر چھوڑ دیا تھا۔ ایک لمحہ تھا بس ایک لمحہ۔ کسی کو کچھ بھی پتا نہ لگا، سوائے اس کے۔ دل تو چاہ رہا تھا یہی کپ اٹھا کر اس کے خوب صورت منہ پر دے مارے۔ سفید کپڑے اور میلا دل، اسے گھن آئی۔ وہ منہ بناتے نیچے اتری۔ ابھی اس نے دوسر اپرائز بھی مُسکرا کر لینا تھا۔ اس کا سارا موڈ خراب ہوچکا تھا۔
٭…٭…٭
”لو فر! آوارہ …” اس نے رگڑ رگڑ کر ہاتھ دھویا۔
”شرم بھی نہیں آتی ، عہدہ دیکھو اور حرکتیںدیکھو۔ بیچ مجمع میں بھی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ امیر غریب سب لڑکیاں ہی برابر ہیں ان کے لئے…” وہ سخت بے زار ہوئی۔
٭…٭…٭
”اماں سیما آنٹی کو فون کیا تھا آپ نے؟ سعدیہ کی خیریت پوچھی؟” اسے نوٹس بناتے یاد آیا تھا۔
”ہاں ہاں کیا تھا، خیریت ہے ہنی مون کے لئے فرانس گئے ہوئے ہیں دونوں میاں بیوی۔”
”اچھا۔” اس نے اچھا کو لمبا کرتے حیرت سے کہا تھا۔
”بھلا اتنی جلدی محبتیں بھول بھی جاتی ہیں۔ کیا محبت کے رنگ اتنی جلدی پھیکے پڑ جاتے ہیں؟ کیا یہ زخم دیر پا نہیں ہوتے؟ کیا محبتیں بدل جاتی ہیں؟ کیا محبوب بھلانا اتنا آسان ہے؟” بے چارے عدیل بھائی ابھی تک اس کو یاد کرتے ہیں۔ وہ اسے سوچتے ہوئے پھرے سے افسردہ ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
”اماں دیکھو کتنے اچھے نمبر آئے ہیں میرے۔” وہ رزلٹ دیکھ کر خوشی سے چلائی تھی۔
”بہت بہت مبارک ہو، جاؤ بھئی ابا کو بولو مٹھائی لائیں۔”
”اماں میں یونیورسٹی جاؤں گی، پوائنٹ پر بیٹھوں گی، خوب اچھا پڑھوں گی، نئی دوستیں بناؤں گی۔” وہ خوشی سے ناچتے ہوئے بول رہی تھی۔
”کیا پاگل ہوگئی ہے، اثر ہوگیا ہے؟ بہت پڑھ لیا، اب گھر بیٹھ۔” اماں نے اس کی کمر پر دو تھپڑ جڑے تھے جو بولتے ہوئے ناچ رہی تھی۔
”کیا ہے اماں؟ خوش تو ہونے دو۔ جانے دیں نا، گھر بیٹھ کر کیا کروں ؟”
”پیسے کدھر سے آئیں گے؟ کاروبار مندا ہے آج کل۔”
”اماں وہ خالہ رضیہ کے ہاں کمیٹی نکلے گی نا تو فیس بھر دینا، پھر عید پر تو ویسے بھی کاروبار اچھا چلتا ہے۔” وہ پلان بناکر بیٹھی تھی۔
”وہ میں نے تیرے جہیز کے لیے رکھی ہے۔”وہ حیران ہوئیں۔
”رشتہ ہے جو شادی کریں گی۔پڑھنے دیں نا اماں آگے، شادی بھی ہو ہی جانی ہے۔”
”اچھاٹھیک ہے ابا سے بول جاکر۔” وہ اسے ٹالتے ہوئے بولیں۔
”یا ہو۔” وہ اچھلتی ہوئی باہر نکل گئی تھی۔
٭…٭…٭
”رمشا آگے ایڈمیشن لے لے نا۔ میری پیاری دوست۔”
”دماغ خراب ہے؟ مجھ سے نیچے پانچ بہن بھائی ہیں۔ اتنا تو ٹیوشن سینٹر کھولنے کے لئے پڑھادیا ابا نے۔ یونیورسٹی کا نام سن کرماردیں گے۔” وہ جو اس کی منتیں کررہی تھی اس کاجواب سن کر چپ ہوگئی۔
”بہت یاد آئے گی تیری۔” وہ اداس ہوئی۔
”اچھا اب اُداس نا ہو، میں بھی دکھی ہورہی ہوں۔ میسج کرتی رہنا،آنا جانابھی لگا رہے گا۔” رمشا بھی اداس ہونے لگی تھی۔
٭…٭…٭
نئی جگہ ، نیا ماحول، نئے لوگ، نئی سہیلیاں بھی بن گئی تھیں۔بہت اچھی جگہ تھی۔ لگتا تھا کوئی غریب ہی نہیں بس مڈل کلاس یا پھر امیر لوگ ۔ غریب اتنی فیس کہاں سے بھرے گا؟ اسے یہ زندگی بہت الگ لگ رہی تھی۔
کشمالہ اور منزہ سے اس کی دوستی پہلے دن ہی ہوگئی تھی۔ سب طرف راوی چین ہی چین لکھتاتھا کہ اس پرسکون جھیل میں ایک کنکر آکر گرا۔
”زوباریہ آج math ڈیپارٹمنٹ جانا ہے۔” کشمالہ نے ایک دن اسے کہا۔
”مجھے لائبریری جانا ہے، میں نہیں جارہی ہے۔”
”چل نا! میری دوست انتظار کررہی ہے، اتنا رش ہوتا ہے وہاں، اکیلی نہیں جاسکتی ۔ اکٹھے لائبریری چلیں گے، ادھر سے قریب ہے۔”کشمالہ نے حل نکالا۔
”ٹھیک ہے۔” زوباریہ آخر کار مان گئی۔
کشمالہ تو اپنے کالج کی دوست کو دیکھ کر اسے بھول ہی بیٹھی تھی۔
”کوئی جگہ بھی نہیں بیٹھنے کی۔” وہ کھڑے کھڑے تھک چکی تھی او ر کشمالہ کو ہوش ہی نہیں تھا۔
”لان میں جاتی ہوں، ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں۔” مڑتے ہی وہ کسی سے ٹکرائی۔ کتابیںاس کے ہاتھ سے گر گئیں اور کسی مردانہ پرفیوم کی خوش بو نتھنوں سے ٹکرائی تو وہ ہوش میں آئی۔
”سوری! مگر غلطی آپ کی ہے۔” وہ بیٹھ کر کتابیں اٹھانے لگا۔
”مسٹر ایکس وائے زیڈ پہلی بات…”
”مسٹرفیضان ! فیضان نام ہے میرا اور آپ کا نام ؟” وہ مُسکرایا۔
”تم سے مطلب؟ کام کرو جاکے۔” وہ مڑ کر کشمالہ کو دیکھنے لگی۔ وہ ادھر ہی دیکھ رہی تھی مگر اُس کی طرف آئی نہیں تھی۔
”پہلی ملاقات میں تم پر آگئیں؟”
”پلیز میرا دماغ مت کھائیں۔” وہ تنک کر بولی۔
”آپ کے پاس ہے؟ ویری strange ” وہ جی بھر کے مُسکرایا۔
”ہونہہ!” وہ لان کی طرف بڑھ گئی۔
”لان میں آجانا۔” Text کرکے وہ ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ فضول لوگ لڑکی دیکھ کر پٹری سے ہی اتر جاتے ہیں۔
”تم آئی کیوں نہیں اس وقت۔” اُسے کشمالہ پہ غصہ تھا۔
”جب وہ لڑکا بات کررہا تھا؟”
”تو وہ تمہارا کزن وغیرہ نہیں تھا؟” کشمالہ حیران ہوئی ۔ اس نے ان دونوں کو ٹکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
”نہیںتو، ٹکر ہوئی تھی اس سے میری۔” وہ منہ بنا کر بولی۔
”لو ٹکر ہوئی تھی تو مسکرا کیوں رہا تھا؟ جیسے بڑی رشتہ داری ہو۔” کشمالہ پھر سے حیران ہوئی۔
”بس بات کرنے کا بہانہ چاہیے ان لڑکوں کو ۔ ”
”چلو لائبریری،اسائنمنٹبنانی ہے۔” وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”کیا ہے؟ کیا مصیبت ہے؟ رجسٹر کیوں نہیں مل رہا؟” اس کا موڈ سخت خراب ہو چکا تھا۔
”کدھر رکھ دیا؟” وہ گھر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی تھی۔ اب نوٹس کہاں سے ملیں گے۔ وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی۔
”کشمالہ تم ایسا کرو یہ نوٹس کاپی…” ڈیپارٹمنٹ سے باہر آتے ہی اس کی نظر فیضان پہ پڑی۔ اسے دیکھ کر اس کا غصہ ڈبل ہوگیا وہ تیزی سے اس کی طرف آیا تھا۔
”اب میرے پیچھے ادھر تک بھی آگئے؟” وہ جل کر بولی۔ نوٹس کا غصہ کہیں تو نکلنا تھا۔
”اتنی حور پری نہیں ہیں آپ مس زوباریہ وجاہت، پکڑیں اپنا رجسٹر، غلطی سے میرے پاس آگیا تھا۔” اس نے رجسٹر اس کو پکڑایا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
”کتنا برا کیا بے چارے کے ساتھ۔” وہ ہاتھ میں پکڑا رجسٹر دیکھ کر دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔
٭…٭…٭
2 Comments
ما شاءاللہ بہت خوب صورت تحریر تھی۔ پڑھ کر اچھا لگا۔ واقعی یہ سب تو سوچ کی بات ہے اور نصیب کا بھی دخل ہے۔ بیچاری زوبی مڈل کلاس لڑکیوں کو کبھی بھی حق نہیں دینگے پسند کی شادی کا۔ آپ نے اس کہانی میں سب emotions بہت اچھے سے بیان کیے اور expression بھی میں ہر سین کے ساتھ محسوس کر رہی تھی۔ اس کہانی میں دکھ، سکھ ،محبت، نفرت ،حقارت، غربت، امیری سب آپ نے اعلیٰ طریقے سے لکھا یے۔ بہت خوب۔
حسب روایت اعلٰی اور زبردست کہانی
ہمیشہ کی طرح آپ کے مکالمے پر لطف اور پر اثر ہوتے ہیں یہی آپ کی تحریر کی خوبی ہے ۔ کہیں کہیں قہقے لگوانے کی کوشش کی گئی اور کہیں تسلسل کے ساتھ دھیرے دھیرے مسکراہٹوں اور درد سے بیک وقت آشنا کروایا گیا۔
طنز و مزاح سے بھرپور دل فگار تحریر