”لے زوباریہ پکڑ یہ کارڈ سیٹھ صاحب کے گھر سے آیا ہے۔” ہانپتی کانپتی امی نے دوپٹے سے پسینا پونچھتے ہوئے اس کی طرف کارڈ بڑھایا تھا۔
”سیٹھ ماموں کے گھر سے؟ کیسا کارڈ ہے؟” اس نے لپک کر کارڈ جھپٹا تھا۔
”ہزار بار کہا ہے تجھے مت بولا کر ماموں۔ سنیں گے تو غصہ کریں گے۔ کون سا تیرا سگا ماموں لگا ہے وہ۔ انکل بولا کر انکل، ایسے رشتہ نہیں پتا لگتا نا۔” اماں نے ایک تھپڑ کمر پر جڑتے اسے کھری کھری سنائی تھیں۔
”کیا ہے اماں؟میں تو بولوں گی ماموں۔ایک تو ان امیروں کو اپنے رشتے داروں میں سو کیڑے نظر آتے ہیں۔” وہ کارڈ کھولتے ہوئے بولی۔
”تو غریبوں سے بھلا کون رشتہ رکھتا ہے؟ بس عید تہوار، شادی تک کے لئے گھر بلا لیتے ہیں احسان ہے ان کا۔” اماں ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولی تھیں۔
”اُف اماں! اتنے بھی غریب نہیں ہیں۔ ہم مڈل کلاس ہیں مڈل کلاس۔” اس نے فخر سے اپنی کلاس بتائی تھی۔ جیسے کہہ رہی ہو ”منسٹر ہیں منسٹر۔”
”ان سے تو غریب ہیں نا۔ اچھا اب کھول بھی لے سعدیہ کی شادی کا کارڈ۔” وہ جو کارڈ کے اوپر بنے پھولوں میں گم تھی، ایک دم اُچھلی۔
”سعدیہ کی شادی؟ مگر کس سے۔” اس نے جلدی جلدی کارڈ کھول کر نام پڑھا تھا۔
”سکندر کریم شاہ، یہ کس سے ہورہی ہے اس کی شادی؟” وہ جھلا کر بولی۔
”تو کس سے ہونی تھی؟ اپنے جیسوں میں کررہے ہیں۔ وڈیرے ہیں، بڑی زمینوں والے ہیں۔ ڈیفنس میں بنگلہ ہے ان کا۔”
”مگر وہ تو…”بولتے بولتے اس نے زبان منہ میں دبالی ۔
”ہائے میری ہانڈی جل گئی ہوگی۔ چل سنبھال کر رکھ کارڈ، دس تاریخ ہے بھول نہ جائیو۔ ایک دن تو ڈھنگ کا کھانا کھانے کو ملے گا۔” اماں نے کچن کی طرف قدم بڑھائے تھے اور اس کا دماغ میں گھوڑے دوڑنے لگ گئے تھے۔
”چلو سعدیہ تمہاری محبت کا بھی یہی انجام ہوا۔ تم اپنے سیٹھ ابا کے حکم کے آگے سرنگوں ہوکر یہ زہر کا پیالہ پینے پر تیار ہو ہی گئیں۔ ایک اور محبت امیر اور غریب کی تفریق کے بھینٹ چڑھ گئی۔” اسے ماضی کے تمام واقعات یاد آنے لگے تھے۔
”پتا نہیں یہ محبت اتنی ارزاں کیوں ہے؟ سب سے پہلے سولی چڑھانے کو اسی کا خیال کیوں آتا ہے۔” سوال آہستہ آہستہ اس کے دماغ میں سراٹھانے لگے۔
٭…٭…٭
”زوباریہ ہوگئی تیار؟ باہر تیرے ابا ٹیکسی لے کر کھڑے ہیں وہ اور کرایہ مانگے گا، نکل بھی چک۔” اماں نے دروازے سے آواز دی۔
”آئی اماں! بس یہ بڑے والے جھمکے پہن لوں۔ کبھی بھی پہننے کا موقع نہیں ملتا۔” وہ جھمکا کان میں ڈال رہی تھی۔
”آئے ہائے اتار یہ لمبے لمبے جھمکے، چھوٹے پہن ذرا۔ پہلے ہی تیری سیما آنٹی کہتی ہے کہ اتنے بڑے بڑے جھمکے پینڈو عورتیں پہنتی ہیں۔ چھوٹے ear rings ماڈرن لُک دیتے ہیں۔”اماں نے ہاتھ نچا کر ”آنٹی” اور ”ماڈرن” پر خاص زور دیا تھا۔
”اچھا اچھا اتار رہی ہوں۔ ایک تو ان امیروں کے چونچلے، اب تیار بھی ان کی مرضی سے ہوکر جاؤ۔ ہونہہ!” اس نے دراز کھول کر چھوٹے ear rings نکالے۔
٭…٭…٭
”اُف! شکر ہے جان چھوٹی ان شادیوں کے چکر سے۔ ان امیروں کی شادیاں بھی نرالی ہی ہوتی ہیں۔ شروع ہوتی ہیں تو برسات کی طرح سات دن سے پہلے ختم ہی نہیں ہوتیں۔ یہ نہیں کہ نکاح پڑھائیں اور رخصت کریں۔ نہیں بھئی! چھے چھے ڈھولکیاں، مایوں ، مہندی، نکاح، رخصتی، ولیمہ، جوتا چھپائی، مکلاوہ ۔” اماں اس کے سر کی مالش کرتے ہاتھ کے ساتھ ساتھ زبان بھی چلا رہی تھیں۔
”اے زوبی تجھے کیا ہوا ہے؟ اتنی چپ کیوں ہے شادی کے بعد سے۔” اماں حیران ہوئیں۔
”اماں! سعدیہ کی شکل دیکھی تھی؟” وہ منمنائی تھی۔
”دیکھی تو تھی اتنی پیاری حور لگ رہی تھی۔ پچاس ہزار کا میک اپ اور دو لاکھ کاجوڑا تھا، حور تو لگنی ہی تھی۔” اماں نے بال کس کر اس کی چٹیا بنائی۔
”اماں وہ خوش نہیںتھی۔” وہ آہستہ سے بولی۔
”چل ہٹ! اتنا پیسے والا امیر کبیر میاں ملا ہے، اندر سے تو خوش ہوگی۔ اب کیا ناچنا شروع کردے؟ ہے تو مشرقی دُلہن نا! چاہے جتنی بھی امیر ہو۔” اماں نے خوش ہوکر کہا تھا۔
”امیر کبیر کے ساتھ ہٹا کٹا موٹا تازہ بھی کہیں نا۔” اسے دیو جیسا دلہا زہر لگا تھا۔
”پاگل ہوئی ہے، کھاتا پیتا گھرانا ہے ان کے سامنے مت بولیو! آئندہ گھر نہیں بلائیں گے۔ جاجاکر چائے بنا، باتیں سنو اس کی۔” اماں نے تیل کی بوتل بند کی اور اس کی سوچوں کا در کھول دیا۔
”کیا برائی تھی عدیل بھائی میں؟ پڑھے لکھے، ہینڈسم سے کزن تھے سعدیہ کے، بس ایک مڈل کلاس ہی برائی تھی۔ بس یہ مڈل کلاس انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔” وہ بوتل اٹھاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اماں کو کیا پتا اس کے دل کا روگ، وہ تو اس کی ہم راز تھی۔
٭…٭…٭
”اب دکھا بھی چک زوباریہ صبح سے ٹال رہی ہے۔” رمشا نے اسے کہنی ماری تھی جو کینٹین میں سموسا کھا رہی تھی۔
”صبر کرلے تھوڑا سا، ایک ہی موبائل ہے۔ کمیٹی ڈال کر خریدا ہے اماں نے۔ یہاں کسی Procter کے ہتھے چڑھ گیا تو واپس بھی نہیں ملنا۔” وہ اس کے کان میں منمنائی۔
”چلو باہر چلیں۔” باہر ایک سنسان گوشے میں آکر ا س نے موبائل آن کرکے تصویریں نکالیں۔
”اللہ! زوباریہ کتنی پیاری لگ رہی ہے اپنی سعدی۔”
”تو تو ایسے سعدی بول رہی ہے جیسے میری نہیں تیری کزن لگتی ہو۔” وہ جل کر بولی۔
”اچھا نا! ملی تو ہوں نا اتنی بار تیرے ساتھ کالج میں۔ جان پہچان ہے۔ پری لگ رہی ہے، میاں تو مر ہی گیا ہوگا دیکھ کر۔”
”اللہ کرے مر ہی جائے۔” وہ اور جل گئی۔
”ہائے کیسے بول رہی ہے، اس کا سہاگ ہے اب تو۔” رمشا نے منہ میں انگلی دبائی۔
”پتا تو ہے تجھے عدیل بھائی کو پسند کرتی تھی۔ تین بار رشتہ بھجوایا تھا لیکن سیٹھ ماموں نے اسی ڈر سے بی اے کے دوران ہی اس کی شادی کروا دی۔ سال تو ختم ہونے والا ہے پیپر تک رک جاتے مگر نہیں۔ زبردستی کی ہے۔” وہ اسے تفصیل بتارہی تھی۔
”اوہ! تب ہی میں کہوں اتنے میک اپ کے بعد بھی اُداسی چہرے پر تھی۔”
”چل چل ابھی تو بڑی پری لگ رہی تھی۔ اب اداس پری لگنے لگ گئی۔” وہ موبائل آف کرتے ہوئے بولی۔
”اچھا نا! اپنا موڈ تو صحیح کر۔”
”رمشا ایک بات بولوں؟ مجھے اپنی کلاس بہت اچھی لگتی ہے۔”
”لو اس میں اچھائی والی کون سی بات ہے؟” اس نے آنکھیں پھیلائیں۔
”دیکھ نا رمشا! بندہ اپنی مرضی کی زندگی تو گزارے۔ اپنی پسند نا پسند کا اختیار ہو۔ یہ سب سے اچھی کلاس ہے، مڈل کلاس۔ نہ امیر نہ غریب۔ ان کے پاس کبھی کبھی پیسے آجاتے ہیں تو اپنے شو ق پورے کرتے ہیں، گھر لینا گاڑی لینا وغیرہ وغیرہ مگر کبھی بھی امیر نہیں بن سکتے۔ ان کے لیول تک نہیں جاتے اور نہ ہی اتنے غریب ہوجاتے ہیں کہ فاقوں کی نوبت آئے۔ مگر بس ہر وقت اسی حال میں ہوتے ہیں کہ یا تو مقروض ہوتے ہیں یا کھینچ تان کر اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کررہے ہوتے ہیں۔”
”اس میں اچھائی والی کون سی بات ہے؟”
”دیکھ نا! اگر سعدیہ مڈل کلاس کی ہوتی تو اس کی شادی عدیل بھائی سے ہوجاتی۔” اس نے دلیل دی۔
”اور اگر عدیل امیر ہوتا تو بھی تو اس کی شادی سعدیہ سے ہوجاتی۔” رمشا نے جواب دیا۔
”لیکن کم از کم عدیل نے کوشش تو کی نا۔ اظہار تو کیا نا! سعدیہ کی طرح خاموشی اختیار نہیں کی۔” وہ بہ ضد تھی۔
”مڈل کلاس میں بھی شریف لڑکیاں کھل کر پسند کااظہار نہیں کرتیں۔” رمشا بولی۔
”مگر مڈل کلاس…”
”ہر جگہ مڈل کلاس رکاوٹ نہیں ہوتی، کہیں کہیں بیچ میں نصیب بھی آجاتاہے، جو جس کا نصیب۔” رمشا کی بات پر وہ چپ ہوگئی۔
٭…٭…٭
زوباریہ اپنے ماںباپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ ابا کی گارمنٹس کی دکان تھی۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی زوباریہ کی واحد دوست رمشا ہی تھییا گھر میں اماں سے دوستی تھی۔
وہ جس کالج میں پڑھتی تھی، وہ شہر کا سب سے اچھا گورنمنٹ کالج تھا۔ اس کا ایڈمیشن ادھر میرٹ پر ہوا تھا۔ فیس بھی کم تھی اور سارے شہر کی کریم ادھر ہی جمع ہوجاتی۔ سعدیہ نے بھی اپنا ایڈمیشن ادھر کروایا تھا۔ وہ زوباریہ سے ایک سال سینئر تھی۔ اب اس کا بی۔ اے ختم ہونے والا تھا۔ سعدیہ پڑھائی میں بہت اچھی نہیں تھی اور سیٹھ صاحب تو پرائیوٹ کالج کے حق میں تھے مگر سعدیہ کو بہت شوق تھا ادھر ایڈمیشن کااور میرٹ پر نام نہ آنے کی صورت میں انہوں نے پیسے دے کر اسپیشل سیٹ ارینج کرلی تھی۔ سیٹھ صاحب کی ٹیکسٹائل کی کئی ملیں تھیں مگر ان کے حصے میں کچھ غریب رشتے دار وراثت میں آگئے تھے جن کو وہ اکھاڑکر پھینک نہیں سکتے تھے۔ سو دور دور سے ہی سلام والا حال تھا۔ سعدیہ بھی کم گھلتی ملتی تھی مگر گھر پر ہونے والی ملاقاتوں میں ایک بار اس کے منہ سے عدیل کا ذکر نکل آیا اور وہ یہ راز زوباریہ کو بتا بیٹھی تھی۔ اس نے بھی اس راز کو راز ہی رکھا مگر سعدیہ اپنی محبت میں ناکام ہوگئی تھی جس کا غم زوباریہ کو بھی لگ گیا تھا اور وہ قصور وار صرف امارت کو ہی ٹھہرا رہی تھی۔
”زوباریہ تیرا اسپیچ میں اور ایمبرائیڈری میں پرائز ہے؟” رمشا نے تیزی سے آکر اس کے سامنے بریک ماری تھی اور اکھڑتی سانسوں سے بولی تھی۔
”ہاں ہے۔” اس نے بک سے سراٹھایا۔
”چل بھئی! فوٹو شوٹ کے لیے تیار ہوجا ہیرو کے ساتھ۔”
”کیا بکواس کررہی ہے؟ کون ہیرو؟” وہ منہ بناکر بولی۔
”ارے وہ رانا دلاور ہے نا نیا MNA، دیکھا ہے؟ وہ آرہا ہے annual prize distribution پر۔” وہ بہت ایکسائٹڈ تھی۔
”تو پرائز دینے آرہا ہے، سب لڑکیوں کو دے گا میں انوکھی ہوں کیا؟ میری طرف سے بھاڑ میں جائے۔ مجھے میرا کپ مل جائے بس۔ رانا سے ملے یا کسی اور سے مجھے مطلب نہیں۔” اُس نے بوریت سے کہا۔
”تجھے تو سدا سے امیروں سے چڑ ہے۔ ایسی کمال breaking news دی تھی میرا دل ہی توڑ دیا تو نے۔” رمشا نے منہ بنایا تو وہ دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
٭…٭…٭
2 Comments
ما شاءاللہ بہت خوب صورت تحریر تھی۔ پڑھ کر اچھا لگا۔ واقعی یہ سب تو سوچ کی بات ہے اور نصیب کا بھی دخل ہے۔ بیچاری زوبی مڈل کلاس لڑکیوں کو کبھی بھی حق نہیں دینگے پسند کی شادی کا۔ آپ نے اس کہانی میں سب emotions بہت اچھے سے بیان کیے اور expression بھی میں ہر سین کے ساتھ محسوس کر رہی تھی۔ اس کہانی میں دکھ، سکھ ،محبت، نفرت ،حقارت، غربت، امیری سب آپ نے اعلیٰ طریقے سے لکھا یے۔ بہت خوب۔
حسب روایت اعلٰی اور زبردست کہانی
ہمیشہ کی طرح آپ کے مکالمے پر لطف اور پر اثر ہوتے ہیں یہی آپ کی تحریر کی خوبی ہے ۔ کہیں کہیں قہقے لگوانے کی کوشش کی گئی اور کہیں تسلسل کے ساتھ دھیرے دھیرے مسکراہٹوں اور درد سے بیک وقت آشنا کروایا گیا۔
طنز و مزاح سے بھرپور دل فگار تحریر