من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

”کیسی ہے منگیتر تمہاری؟” شوکت زماں نے ایک بار پھر بڑی بے تکلفی سے اس سے پوچھا۔
”منگنی ٹوٹ گئی میری” کرم نے بالآخر اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
شوکت زماں جیسے اس کے زخموں کے کھرنڈ کھرچنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ وہ اسے روکنا چاہتا تھا۔
”ہیں… کیا کہا؟ منگنی ٹوٹ گئی کیسے ٹوٹ گئی؟ کیوں ٹوٹ گئی؟ تونے تو مجھے بتایا تھا پانچ چھ سال ہو گئے تھے تیری منگنی کو۔” شوکت زماں اب ایک کے بعد ایک سوال کر رہا تھا۔
”بس توڑ دی۔”
شوکت زماں نے کرم کو اس کی بات مکمل نہیں کرنے دی۔ دس بارہ گالیوں کے بعد اس نے کرم سے کہا۔
”تجھے شرم نہیں آئی منگنی توڑتے ہوئے۔ اوئے تجھے کوئی خوف خدا نہیں آیا۔ ویسے کتنی نمازیں پڑھتاتھا تو… اور ایک لڑکی کا دل توڑتے تجھے حیا نہیں آئی۔ دیکھ لی ہو گی یہاں کوئی گوری چمڑی والی، گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والی عورت، لٹو ہو گیا ہو گا تو امریکن نیشنلٹی کے لئے اس پر تم سب پاکستانی۔۔۔۔”
شوکت زمان نے جملے کے اختتام پر ”ہو” لگانے سے پہلے تقریباً پندرہ گالیوں کی ایسی تراکیب کا استعمال پاکستانی کے ساتھ کیا تھا کہ کرم علی کا جی چاہا وہ ایک بار پھر اس کے بینڈیج زدہ جبڑے پر اسی طرح کا ایک گھونسہ مارے جیسا اس نے چند گھنٹے پہلے مارا تھا۔ مگر اس بار اس نے تحمل سے کام لیا اور اس کوشش میں اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
جب شوکت زماں نے بالآخر سانس لینے کے لئے توقف کیا تو کرم علی نے اس سے کہا۔
”منگنی میں نے نہیں، اس نے توڑی۔” شوکت زماں چند لمحوں کے لئے بھونچکا رہ گیا۔
”اس نے توڑ دی؟” وہ جیسے گڑبڑایا۔ ”پر اس نے کیوں توڑی؟ تیرے جیسا شریف، فرشتہ سیرت، نیک، باکردار، باحیا لڑکا کیوں چھوڑ دیا اس نے؟”
شوکت زماں نے بے ساختہ کہا۔ پھر کرم علی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر معذرت خواہانہ انداز میں دباتے ہوئے بولا۔
”میں نے خواہ مخواہ تجھے برا بھلا کہا۔ ویری سوری یار، پر اس نے منگنی کیوں توڑی، اتنی پرانی منگنی؟”
”آپ کو کہاں آتاروں؟” کرم علی نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواباً کہا۔
شوکت زماں… کچھ دیر ترحم بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”چل سینٹرل پارک چلیں… مجھے جب رونا ہو تو میں وہیں جاتا ہوں۔”
کسی میکانکی انداز میں کرم علی نے گاڑی سینٹرل پارک کی طرف موڑ دی۔ وہ شوکت زماں سے کہنا چاہتا تھا کہ اسے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر وہاں پہنچ کو وہ اسی میکانکی انداز میں شوکت زماں کے ساتھ چل پڑا تھا۔ حیران کن طور پر شوکت زماں اس کو سینٹرل پارک چلنے کا کہہ کر خاموش ہو گیا تھا اور پارک میں پہنچ کر بھی خاموش ہی تھا۔ وہ دونوں کتنی دیر پارک کی لمبی روش پر بے مقصد چلتے آس پاس مختلف جوڑوں کو دیکھتے رہے۔ پاس سے گزرتے ان کے قہقہوں ان کی باتوں کو سنتے رہے پھرایک بینچ پر جا کر بیٹھ گئے۔





بہت لمبی خاموشی کا ایک وقفہ تھا جو ان کے وہاں بیٹھنے کے بعد ان دونوں کے بیچ آیا۔ پھر کرم علی نے سامنے سے گزرتے ایک نوجوان جوڑے کو دیکھتے ہوئے بے حدمدھم آواز اور شکست خوردہ آواز میں شوکت زمان کو سب کچھ بتانا شروع کر دیا۔ شوکت زمان بے حدخاموشی سے اس کی ساری باتیں سنتا رہا۔ اس نے بیچ میں ایک لفظ نہیں کہا۔ اس وقت زندگی میں پہلی بار کرم علی کو شوکت زماں اتنا احمق نہیں لگا جتنا وہ اسے سمجھتا تھا۔
”تو کر لیتا شادی… پانچ چھ سال لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ کوئی اتنا غلط مطالبہ تو نہیں تھا، ان لوگوں کا۔”
اس کے خاموش ہونے پر شوکت زمان نے ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”میں ابھی سیٹ نہیں ہوں، بڑی ذمہ داریاں ہیں میرے کندھوں پر۔” کرم علی نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”یہ سیٹ ہونا کیا ہوتا ہے کرم علی اللہ پر بھروسہ نہیں تھا تجھے کیا؟ ارے نکاح کرتا تو وہ رزق دیتا، تیری بیوی کو… تیرا رزق بڑھاتا تیری بیوی کے لئے۔ یہ جو مرد چیزیں جمع کرتے رہتے ہیں کہ گھر بنا لیں، گاڑی لے لیں، قرضہ اتار لیں، فلاں کام کر لیں، پھر شادی کریں گے، ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔”
کرم علی بول نہیں سکا اس نے شوکت زمان کو کبھی اس طرح کی باتیں کرنے نہیں سنا تھا۔
”شادی کا ہی کہہ رہی تھی نا تو کر لیتا۔ تیرے نام پہ بیٹھی تھی اتنے سالوں سے۔”
”اتنے سال انتظار کیا تھا تو پھر اب کیا جلدی تھی۔ ایک سال اور انتظار کر لیتی۔” کرم علی نے بے ساختہ کہا۔
”کر لیتی اگر تو کہتا تو… تو نے بات کی تھی اس سے… تو تو ناراض ہو کر آیا تھا اس سے۔”
”اس نے کون سا منایا مجھے؟ ایک بار ناراض ہوا میں اس سے۔ اور اس نے منایا تک نہیں۔ فون کیا، نکاح کے بارے میں بتانے کے لئے۔ یہ بتانے کے لئے کہ اس نے بھی امریکہ میں کوئی میرے جیسا ڈھونڈ لیا ہے۔ یہ تھی محبت اس کی؟” کرم علی نے بے حد تلخی کے ساتھ کہا۔
”منانے کی کوشش تو کی تھی اس نے۔” کرم علی نے سر اٹھا کر شوکت کو دیکھا اور پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
”نہیں کی تھی۔ میں انتظار کرتا رہا۔ ایک بار صرف ایک بار وہ فون کر دیتی تو میں، میں سب کچھ بھول کر اپنے ماں باپ کو اس کے گھر بھیج دیتا وہ نہ جاتے تو خود پاکستان چلا جاتا۔ ایک بار وہ فون تو کرتی۔”
”کیا تو تھا اس نے… تیرا کیا خیال ہے تجھے نکاح کی خبر دینے کے لئے فون کیا تھا اس نے…؟” شوکت زماں نے بے حد عجیب لہجے میں کہا۔ ”نکاح کی خبر دینا ہوتی تو نکاح کے بعد دیتی وہ نکاح سے پہلے فون تو تجھے منانے کے لیے کر رہی تھی۔ بھیک مانگ رہی تھی تجھ سے اپنی محبت کے صدقے۔ بتا رہی تھی وہ تجھے کہ وہ اب بھی تیری ہے۔ اب بھی تیری ہو سکتی ہے تو سمجھا ہی نہیں، چپ چاپ بیٹھا رہا ایک بار کہہ دیتا اس سے کہ نکاح سے انکار کر دے تو کر دیتی وہ۔ صرف اسی آس میں فون کیا تھا اس نے کہ تو اسے نکاح سے انکار کرنے کے لیے کہے گا۔ تو بولا ہی نہیں۔ گونگا بن گیا۔ گنوا دیا اسے تو نے۔”
شوکت زماں نے تاسف آمیز انداز میں کہا۔ کرم علی دم سادھے بے حس و حرکت اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے سانس لینے کی ایک کوشش کی پھر ہاتھوں کی انگلیاں سیدھی کرنے کی، یہ بات اسے سمجھ میں کیوں نہیں آئی کہ وہ اس سے… اس کے ہونٹ کپکپانے لگے۔ صرف ایک جملہ کہنا تھا اسے اس دن عارفہ سے اور وہ دونوں اس اذیت سے بچ جاتے۔ وہ آج بھی اسی کی ہوتی۔ صرف ایک جملہ… اس کے ہاتھ کپکپانے لگے، جسم لرزنے لگا۔ پھر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اتنے مہینے اس نے ایسے آنسو کہاں بہائے تھے۔ جو وہ آج بہا رہا تھا، کیا زیاں سازیاں تھا جو ہو گیا تھا۔
”یہ عورت ہے کرم علی… سیدھی بات کیسے کرے۔ کیسے کہہ دے تجھ سے کہ تیرے بغیر مر جائے گی۔ تیرے علاوہ کچھ نہیں چاہیے اسے۔ یہ ساری باتیں تو مرد کہتا ہے۔ عورت تو ساری عمر پہیلیوں میں ہی باتیں کرتی ہے۔ تجھے تو بوجھ لینا چاہیے تھی اس کی پہیلی تو پانچ چھ سال سے اس عورت کے ساتھ تھا۔”
شوکت زماں نے اس کے کندھے کو ہمدردانہ انداز میں تھپکا لیکن اس کو چپ کروانے کی کوشش نہیں کی۔ اسے رونے دیا۔
پہلی بار کرم علی کا جی چاہا شوکت زماں اسے پہلے مل جاتا، عارفہ کے اس کی زندگی سے نکلنے سے پہلے۔ یا پھر اب بھی نہ ملتا یہ سب کچھ بتانے کے لئے جو وہ اسے بتا رہا تھا۔ پہلے رنج تھا جو اس کے وجود کو بوجھل کیے ہوئے تھا اب پچھتاوا بھی شامل ہو گیا تھا اس بوجھ میں۔
سینٹرل پارک شوکت زماں چاہے رونے کے لیے آتا تھا مگر کرم علی نے وہاں بیٹھ کر زندگی میں پہلی اور آخری بار آنسو بہائے تھے اور اس نے صرف آنسو نہیں بہائے تھے۔ اس دن وہاں اس نے اپنے اندر سے اور بھی بہت کچھ بہا دیا تھا۔ اندر ایک دم صاف اور خالی ہو گیا تھا۔ اتناخالی کہ اب کوئی آواز آتی تو گونج اٹھتی۔
”بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے شوکت زماں!” اس نے بہت دیر کے بعد اپنے چہرے کو صاف کرتے ہوئے نم آواز میں کہا۔
”ہاں… اندازے کی غلطی۔” شوکت زماں نے کہا۔ ”چل اب چھوڑ، جو ہو گیا۔” شوکت زماں نے پہلی بار اس کا کندھا تھپک کر اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”ہر چیز اتنی آسانی سے چھوڑی نہیں جاتی۔” کرم علی نے رنجیدہ انداز میں کہا۔
”پتہ ہے مجھے، شوکت کو مت بتا یہ سب کچھ… اب مجھے فلاسفی پڑھائے گا تو۔”
کرم علی اس کا منہ دیکھنے لگا۔ وہ کیوں اس طرح غصے میں آگیا تھا۔ اس نے ایسی کیا بات کی تھی۔
”نہیں چھوڑی جاتی تو عارفہ نام کا تعویذ بنا کر گلے میں ڈال لے۔ شاید تجھے اس سے کوئی فائدہ ہو جائے۔”
کچھ دیر پہلے والا شوکت زماں غائب ہو چکا تھا۔ اب ایک بار پھر وہی اس کے پاس بیٹھا تھا، جس سے کرم علی کی ہمیشہ ملاقات ہوتی تھی۔
”آپ نے اپنے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتایا۔”
کرم علی کو یاد آیا۔ وہ ہمیشہ اس کے بارے میں بات کرتا تھا۔
”اپنے بارے میں کیا بتاتا تجھے؟” شوکت زماں نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”اپنے گھر، اپنے خاندان، اپنے بیوی بچوں کے بارے میں۔” کرم علی نے کہا۔
”چل چلتے ہیں کرم بڑے کام کرنے ہیں مجھے۔ سارا دن ضائع کر دیا تو نے میرا۔”
شوکت زماں ملامتی انداز میں کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ یقینا اب کرم علی کے سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔ کرم علی کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی، لیکن اس نے اصرار نہیں کیا۔ وہ اٹھ کر شوکت زماں کے ساتھ چل پڑا۔
واپسی کا راستہ بھی ایک عجیب سی خاموشی سے کٹا۔ دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ مگر شوکت سارا راستہ کچھ نہ کچھ گنگناتا رہا۔ کرم علی نے اعتراف کیا کہ نہ صرف اس کی آواز اچھی تھی بلکہ اسے سر اور لے کا پتا بھی تھا۔
اس کے اپارٹمنٹ پہنچنے پر جب شوکت زماں گاڑی سے نکلا تو اس نے گاڑی سے اتر کر گاڑی کی کھڑکی پر دونوں بازو ٹکاتے ہوئے دوبارہ اندر جھانکا۔ اور کرم علی سے کہا۔
”میرے ساتھ کینیڈا چلے گا کرم؟”
”کس لیے؟” وہ حیران ہوا۔
”تجھے نیا گرافال دکھانا ہے۔” شوکت زمان نے بے حد ناراضی سے کہا او رپھر اسی انداز میں بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔
”تجھے مستقل طورپر کینیڈا چلنے کے لیے کہہ رہا ہوں۔ میرا کام سنبھال لے وہاں آکر، مجھے آدمی کی ضرورت ہے۔”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!