من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

اس نے ربیعہ کے کمرے میں قدم رکھا ہی تھا، جب ربیعہ نے اس سے کہا۔ وہ اپنی وارڈ روب کے کپڑے ٹھیک کر رہی تھی۔ زینی کو اس کی بات چبھی۔
”میں کیوں مبارک باد دینے آؤں گی تمہیں؟”
”تمہاری باتیں جو سچ ثابت ہوئی ہیں۔” وہ تلخی سے بولتی رہی، زینی کو دیکھے بغیر وارڈ روب میں کپڑے رکھتے ہوئے۔
”سب لوگ ویسے ہی نکل رہے ہیں جیسے تم کہتی ہو۔ تمہیں خوش ہونا چاہیے۔ تم تو لوگوں کے دلوں کا حال جاننے لگی ہو۔” وہ اس پر چوٹ کررہی تھی۔
”تمہیں خالہ کو انکار نہیں کرنا چاہیے تھا” ”تمہاری بھی تو یہی خواہش تھی۔” وہ اسی طرح بولتی رہی۔
”میری خواہش کو چھوڑو۔ لیکن تم عمران کو پسند کرتی تھیں، تمہیں اگر اس سے شادی کا موقع مل رہا تھا تو تمہیں اس سے شادی کر لینی چاہیے تھی۔”
”میرے لیے نہیں آئے تھے وہ یہاں تمہاری دولت کی خاطر آئے تھے۔” ربیعہ نے رنج اور غصے سے کہا۔
”تو انہوں نے کیا الگ کیا؟ کوئی بھی تمہارا رشتہ لینے آئے گا تو یہی کرے گا۔ انہوں نے ایسا کہا تو کیا ہوا؟”
”اور میں کسی ایسی جگہ شادی نہیں کروں گی، جہاں میں تمہارا پیسہ لے کر جاؤں۔”
زینی اس بار بول نہیں سکی، ربیعہ کے لہجے میں زہر تھا۔
”اس گھر میں رہنا مجبوری ہے میری لیکن کسی ایسے گھرمیں جانا میری مجبوری نہیں جہاں مجھے ساری عمر رہنا ہے اور وہ گھر میں تمہارے حرام کے پیسے سے نہیں بناؤں گی۔”
وہ زینی کے منہ پر جیسے طمانچے مار رہی تھی۔ زینی چپ چاپ کھڑی اسے دیکھتی اسے سنتی رہی۔
”میں تمہاری طرح ایک آدمی کے نہ ملنے پر مر نہیں جاؤں گی۔ تمہیں دکھاؤں گی انسان کیسے جیتا ہے تم میرے بارے میں فکر مند مت ہو، میں اپنی فکر تم سے بہتر کر سکتی ہوں۔”
”اب تم یہاں سے جاؤ گی یا میں جاؤں؟”
زینی اسی طرح خاموشی سے اس کے کمرے سے نکل آئی۔ اس کے پاس ربیعہ کی ہر بات کا جواب تھا مگر یہ موقع سوال جواب کا نہیں تھا۔ وہ اس سے کچھ کہہ کر اسے مزید رنجیدہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔
٭٭٭




نیو یارک چھوڑ کر اوٹوا آتے ہوئے کرم علی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ امریکہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ آیا تھا نہ ہی اسے وہ پتہ تھا جو زندگی اس کے لئے آگے طے کر بیٹھی تھی۔
وہ شروع میں ایک اپارٹمنٹ لے کر رہا تھا مگر چند ہفتوں کے بعد شوکت زماں کے اصرار پر وہ اس کے گھر منتقل ہو گیا تھا۔ بعض دفعہ اسے شبہ ہوتا کہ وہ اسے ایک بیٹے کی طرح ٹریٹ کرتا ہے۔ پھر اسے لگتا وہ اسے ایک دوست سمجھتا ہے اور پھر یک دم اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ اس کے لئے ایک ملازم سے زیادہ کچھ نہیں، یہ سائیکل چلتی رہتی تھی۔
شوکت زماں ایک عجیب آدمی تھا۔ اس کی زندگی کے عجیب ترین انسانوں میں سے ایک… اس نے کسی دولت مند آدمی کو پیسے سے اتنی نفرت کرتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ نشے میں ہوتا تو باقاعدہ کافیاں گاگا کر دولت اور دولت مند لوگوں کو گالیاں دیتا اور جب ہوش میں ہوتا تو کرم علی کو سڑک پر ہر چھوٹا بڑا کام کرتا شخص دکھا کر اس کی قسمت پر رشک کرتا۔
”اللہ نے مجھے سویپر کیوں نہیں بنایا کرم علی! کیا کہتے ہو تم اسے پنجابی میں ہاں جمعدار… دیکھو کیا زندگی ہے اس کی کام چوری کرے گا تو زیادہ سے زیادہ اس کی نوکری جائے گی۔ کروڑوں کا نقصان نہیں ہو گا اسے۔” وہ کف افسوس ملتا ہوا کہتا۔
”یا پھر اللہ مجھے یہ اخبار بیچنے والا بنا دیتا۔ دیکھو کتنی مزے کی زندگی ہے اخبار ختم، کام ختم جو کچھ کمایا اسی دن اڑا کر اگلے دن پھر اخبار کے ساتھ وہیں۔۔۔۔”
وہ کرم علی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہوتا اور فٹ پاتھ پر نظر آنے والے ہر شخص کے کام کو اپنے کام سے بہتر کہتا پھر اچانک اسے کرم علی کی خاموشی کا احساس ہوتا۔
”اب تو سمجھے گا میں پاگل ہوں یا ہونے والا ہوں جو جی چاہتا ہے سمجھ لے۔۔۔۔” وہ اطمینان سے کہتا کرم علی ویسے ہی چپ رہتا۔
”دیکھو کرم علی پیسے سے کبھی پیار مت کرنا۔” وہ یک دم کرم علی کو نصیحت کرنے لگتا کرم علی کو غصہ آتا پیسہ تھا کہاں اس کے پاس جس سے اس کو پیار کرنے کی فرصت مل پاتی۔
”یہ جو پیسہ ہے نا اس کی گنتی اربوں کھربوں تک جاتی ہے بلکہ اس سے بھی آگے جو چیز اربوں کھربوں تک جائے نا اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ ویلیو اسی کی ہوتی ہے جو انگلیوں کی پوروں سے شروع ہو کر پوروں پر ہی ختم ہو جائے جیسے خون کے رشتے بہت بھی ہوں نا تو بس دونوں ہاتھوں کی پوریں ہی بھر پاتی ہیں۔ ایک آدمی کا پیسہ اربوں کھربوں ہو سکتا ہے رشتے اربوں کھربوں نہیں ہو سکتے… تو بس یاد رکھنا جو چیز کم تعداد یا مقدار میں ملے اس کی ویلیو زیادہ، جو ڈھیروں کے حساب سے ملے اس کی ویلیو کم۔”
وہ جب سنجیدہ ہوتا تو مدبروں کی طرح باتیں کرتا… ایک بے ہودہ لفظ یا گالی کے بغیر… شاندار انگلش میں خوبصورت تلفظ کے ساتھ گھمبیر لہجے میں متاثر کن انداز کے ساتھ بے حدموزوں اور مناسب ترین الفاظ کے انتخاب کے ساتھ… اس وقت شوکت زماں شوکت زماں نہیں لگتا تھا کسی یونیورسٹی کا پروفیسر لگتا تھا۔ کرم علی کو افسوس ہوتا اس نے شادی کیوں نہیں کی۔ کر لیتا تو آج اس کی فیملی ہوتی جو شوکت زماں جیسے انسان کو پا کر خود کو خوش قسمت تصور کرتی۔
اس نے شوکت زماں سے زیادہ فیاض آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہر مہینے لاکھوں روپیہ پاکستان اور کینیڈا میں مختلف خیراتی اداروں کو دیتا تھا اور یہی نہیں وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافوں اور بونس کے معاملے میں بھی اتنا ہی سخی تھا بہت کم ایسا ہوا تھا کہ شوکت زماں کے اداروں سے منسلک کوئی شخص کسی مالی ایشو کی وجہ سے نوکری چھوڑ کر گیا ہو۔
کرم علی نے کبھی ایسا دن نہیں دیکھا تھا جب شوکت زماں نے اس کے ساتھ سفر کیا ہو اور رستے میں بے مقصد اس نے کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ دیا ہو۔ وہ یہ کیوں کرتا تھا؟ اس کا جواب کرم علی کو کیا ملتا اسے لگتا اس کا جواب شوکت زماں کے پاس بھی نہیں تھا۔
وہ پاکستان سے شاعر بلوا بلوا کر کینیڈا میں مشاعروں پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتا۔ گلوکار بلواتا اور ان کے آگے پیچھے پھرتا۔ کبھی کرکٹ یا ہاکی کے کھلاڑیوں کے لئے تقریبات منعقد کرتا تو انہیں تحائف سے لاد دیتا۔ اور وہ یہ سب کچھ دل سے کرتا تھا۔ وہ شاعروں کو ان کے تیس تیس سال پرانے وہ اشعار سنا سنا کر حیران کر دیتا تھا جو وہ خود بھی بھول چکے ہوتے گلوکاروں کے پاس بیٹھتا تو انہیں ان کی ان غزلوں اور گیتوں کے حوالے دیتا جو انہوں نے دس، دس سال پہلے کبھی ایک آدھ بار گائی ہوں۔ کھلاڑیوں کے ساتھ ہوتا تو ان کے ہر چھوٹے بڑے ریکارڈ کی تفصیلات اسے از بر ہوتیں اور کرم علی چپ چاپ دوسرے لوگوں کی طرح مرعوب اس کا چہرہ دیکھتا رہتا۔ کوئی کیسے یقین کرتا کہ شوکت زماں نے پانچویں جماعت سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔
وہ صرف اوٹوا میں نہیں بلکہ کینیڈا کی ایشین کمیونٹی کے چندبا اثر اور با رسوخ ترین مردوں میں شامل تھا جو حکمران جماعت کے ہر فنڈ ریزنگ ڈنر کا حصہ ہوتا اور اگر اسے دلچسپی ہوتی تو یقینا وہ اس وقت کینیڈین پارلیمنٹ کا ہی نہیں کینیڈین گورنمنٹ کا بھی حصہ ہوتا۔
کرم علی کو اس زندگی پر رشک آتا تھا اور اس نے پہلی بار اس کا اظہار شوکت زماں سے کر بھی دیا تھا۔ شوکت زماں نے جواباً اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اسے توبہ کرنے کو کہا تھا۔
”جیسی زندگی میں جی رہا ہوں کرم علی ایسی زندگی اللہ کسی دشمن کو بھی نہ دے۔”
کرم علی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔آخر شوکت زماں کا مسئلہ کیا تھا۔ اس وقت اسے لگا تھا وہ بے حد ناشکرا انسان ہے۔
یہ اسے بعد میں احساس ہوا تھا کہ شوکت زماں سے زیادہ شکر کرنے والا آدمی وہ دوبارہ کبھی دیکھنے والا نہیں تھا۔
٭٭٭
”برص ہے تجھے؟” شوکت زماں نے اس دن اچانک اس کی پنڈلیوں سے کچھ اوپر اس کی جینز کے مڑے ہوئے پائنچوں کے نیچے سے جھلکتے برص کے داغوں کو دیکھ کر پوچھا تھا۔
شوکت زماں کے ساتھ رہتے ہوئے اسے یہ تیسرا سال ہو چکا تھا اور ان تین سالوں میں برص اس کے تقریباً سارے جسم پر پھیل چکا تھا۔ صرف وہ حصہ بچا تھا جو لباس سے باہر رہتا تھا اس کی کلائیوں سے کچھ اوپر تک اس کے ہاتھ، ٹخنوں سے کچھ اوپر تک اس کی پنڈلیاں کالر بون سے کچھ نیچے اوپر تک اس کا سینہ اور گردن اور اس کے چہرے کے سوا اب اس کا پورا جسم برص کے سفید بد نما دھبوں سے ڈھک چکا تھا اور کرم علی اب ان دھبوں کے اپنے چہرے، گردن، ہاتھوں اور پیروں پر نمودار ہونے کا منتظر تھا۔
عجیب بات تھی جو خوف اور صدمہ اسے لڑکپن میں ان دھبوں کو دیکھ کر ہوا تھا اور جو بعد میں ہمیشہ ان دھبوں کے نظر آنے پر محسوس ہوتا رہا تھا وہ ان تین سالوں میں نہیں ہوا تھا۔ وہ عارفہ کے اس کی زندگی سے نکل جانے کے بعد کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ عام شکل و صورت کا مرد تھا صرف عارفہ کا وجود تھا، جس نے اس کی زندگی کے کچھ سال اسے اپنی نظروں میں بہت خوب صورت بہت اہم کر دیا تھا۔ اتنا خوب صورت کہ وہ چاہتا تھا وہ برص اس کے وجود کو داغدار نہ کرے۔ تاکہ عارفہ کو کبھی اس سے گھن نہ آئے۔ وہ اپنے وجود کو ان دنوں عارفہ کی نظروں سے دیکھا کرتا تھا اور اب جب وہ اس کی زندگی سے نکل گئی تھی تو کر م علی کو جیسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا کہ برص کے وہ داغ اسے بد صورت بنا دینے والے تھے۔
”ہاں!” کرم علی نے مختصراً کہا وہ شوکت زماں کے ساتھ اس کے لان میں موجود گھاس کاٹ رہا تھا۔
”علاج کروایا تو نے؟” شوکت زماں نے اس سے پوچھا۔
”نہیں۔”
”کیوں ؟”
”پہلے پیسے نہیں تھے۔”
”اور اب؟”
”اب پروا نہیں ہے۔”
”کیوں پروا نہیں ہے؟ یہ مرض پھیلتا ہے۔ تیرا سارا چہرہ خراب ہو جائے گا۔” کرم خاموشی سے گھاس کاٹنے والی مشین چلاتا رہا۔
”میں کیا کہہ رہا ہوں تجھ سے… نوکری سے نکال دوں گا میں تجھے۔ اگر میری بات نہ مانی تو نے۔” شوکت زمان نے غرا کر اس سے کہا۔
”کوئی بات نہیں ۔” آرام سے کہہ کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
”اوئے کرم علی تو کس طرح کا بندہ ہے یار… تجھے احساس ہی نہیں ہے کوئی خیال ہی نہیں ہے اپنا۔” شوکت زماں یک دم ٹھنڈ اپڑ گیا۔
”خیال تو آپ کو بھی نہیں ہے اپنا” کرم علی نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔
شوکت زماں کچھ دیر کچھ نہیں بولا پھر اس نے کہا۔
”ہاں نہیں ہے پر بعض دفعہ سوچتا ہوں کرنا چاہیے تھا۔ تو جوان آدمی ہے ابھی میرے جیسی غلطیاں مت کرنا زندگی برباد کرنا بڑا آسان کام ہوتا ہے۔ پر زندگی کو سنبھال سنبھال کر رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ تو مشکل کام کرنا آسانی کی طرف مت جانا۔”
”زندگی کو برباد کرنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ اپنی زندگی کو۔”
کرم علی نے گھاس کاٹنے والی مشین روکتے ہوئے کہا۔
”میں علاج کرواؤں گا تیرا۔” شوکت زماں نے اس کے سوال کا جواب دیے بغیر کہا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!