من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

”اس کی کیا ضرورت ہے؟ کیا کہتے ہیں یہ داغ مجھے ؟کچھ بھی نہیں!”
”داغ داغ ہوتا ہے کرم علی۔ کچھ نہ بھی کہے تو بھی بہت کچھ کہتا ہے تو مٹا سکتاہے اب تو تجھے مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔”
شوکت زماں نے جیسے تنبیہہ کرنے والے انداز میں کہا۔
”اتنی نوازشیں کیوں کرتے ہیں آپ مجھ پر، مجھ سے کیا ملے گا آپ کو؟” کرم علی نے قدرے مضطرب انداز میں کہا۔
”ہر آدمی ہر کام کسی بدلے کی آس میں نہیں کرتا۔” شوکت زماں پھر مدبرّانہ موڈ میں آگیا تھا۔
”تو میرے ساتھ نیکی کے بدلے نیکی کرے گا۔ اس کی مجھے امیداور توقع ہے، وہ بھی تو نہیں کرے گا تو میں کچھ نہیں کہوں گا تجھ سے، میں نے تو اپنے گھر والوں کو کبھی کچھ نہیں کہا تو تو پھر پرایا آدمی ہے کرم علی۔”
اس نے شوکت زماں کے منہ سے پہلی بارگھر والوں کا ذکر سنا تھا۔ اس کا چونکنا لازمی تھا۔ ”گھر والے؟ گھر والے ہیں آپ کے؟”شوکت زماں چپ چاپ بیٹھا شراب کا پیگ بناتا رہا۔ ایک لفظ بولے بغیر جب تیار ہوگیا تو اسے اٹھانے سے پہلے اس نے کہا۔
”میں ہی گھر والے کہتا ہوں وہ تو کوئی رشتہ نہیں بناتے مجھ سے۔” اس کی آواز میں دکھ نہیں تھا کوئی اور چیز تھی۔
”خاندان ہے میرا وہ۔” وہ ”میرا ہے” پر اٹکا۔ اس نے شراب کاپیگ حلق سے انڈیل لیا۔ کرم علی ساکت بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ اب وہ شوکت زماں سے کیا کہانی سننے والا تھا۔
”کہاں ہیں؟” کرم علی نے بڑے محتاط لہجے میں کہا۔
”ادھر امریکہ میں ہیں۔ ایک بیٹا ٹیکساس میں ایک آئل ریفائنری میں انجینئر ہے۔ دوسرا نیویارک میں ایئر فرانس کا اسٹیشن مینجر ہے۔ بیوی نے دوسری شادی کر لی تھی۔ دوسرے شوہر سے بھی چار بچے ہیں اس کے۔۔۔۔” وہ اب بتا رہا تھا کرم علی کے کسی سوال کے جواب کا انتظار کیے بغیر۔
”بیوی پسند کی نہیں تھی میری، میرے خاندان کی ہے وہ مگر میں اپنی ایک کزن سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ پورا خاندان جانتا تھا۔ میری بیوی بھی جانتی تھی۔ لیکن ماں باپ نے اس کزن سے رشتہ نہیں کیا۔ وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی۔ یہ تھی، انہوں نے اس کے ساتھ کر دیا۔ میں نے شادی تو کر لی ماں باپ کے اصرار پر، پر شروع کے سالوں میں بڑا تنگ کیا اسے۔ یہاں کینیڈا تو لے آیا مگر یہاں آکر بہت مارتا پیٹتا تھا اسے، پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا تب مجھے میں ماں باپ کا سارا غصہ اس پر نکالتا تھا۔ ایک گرل فرینڈ بھی رکھ لی تھی میں نے اس کی ضد میں، کئی کئی دن گھر نہیں آتا تھا۔ دس سال اسی طرح گزرے پھر مجھے اس پر غصہ آنا کم ہو گیا تھا۔ شرم آنے لگی تھی جو کچھ میں کرتا رہا تھا اس کے ساتھ پھر بس اس نے ڈائیوورس لے لی بچے بھی لے لیے، بعد میں دوسری شادی کر لی۔”
بات کرتے کرتے وہ پھر اٹکا۔ اس نے بے ربط انداز میں بات ختم کی پھر یکے بعد دیگرے بے حد تیزی سے نئے پیگ چڑھائے کرم علی اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اسے شوکت زمان پر ترس آیا تھا اس کے لیے ہمدردی محسوس ہوئی تھی۔ وہ واقعی بد قسمت تھا کم از کم اس کے خیال میں… مگر وہ اسے بدقسمت ہی سمجھا تھا ظالم نہیں، اس نے غلطیاں کی تھیں اور ان غلطیوں کی سزا بھگت رہا تھا۔
”آپ نے دوسری شادی کیوں نہیں کر لی؟” کرم علی نے کچھ توقف کے بعد کہا۔
”بس نہیں کی۔” شوکت زماں نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”بیٹوں سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں؟”




”انہیں ضرورت نہیں ہے اب میری، نہ میری نہ میری دولت کی۔ وہ کہتے ہیں میری زندگی میں انہیں میرا پیسہ نہیں چاہیے ہاں میرے مرنے کے بعد دیکھیں گے۔”
شوکت نے بھرائی آواز میں کہا پھر شراب کا ایک اور پیگ چڑھایا۔ کرم کو اس پر اور ترس آیا۔ اس کی اولاد سے اس کو نفرت ہوئی کوئی باپ کو اس طرح کیسے چھوڑ سکتا ہے۔
اگلے سال کے آخر تک اسے پتہ چل گیا تھا کہ کوئی باپ کو اس طرح کیسے چھوڑ سکتا تھا۔ شوکت زماں نے اس کا علاج کروایا تھا۔ پھیلتا ہوا برص رک گیا تھا۔ لیکن کرم علی کو ابھی یقین نہیں تھا کہ اس رکنے کی وجہ علاج تھا یا پھیلنے میں وقفہ آیا تھا مگر جو بھی تھا وہ شوکت زماں کا مشکور تھا۔ اس نے اس کے علاج پر بھاری رقم خرچ کی تھی اور یہ اسی علاج کے دوران تھا جب شوکت زماں یک دم بیمار پڑ گیا تھا اور یہ بھی کرم علی کو اسی دوران پتہ چلا کہ وہ بہت عرصے سے کسی مرض کے علاج کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔
شوکت زماں کو کیا مرض تھا۔ یہ کرم علی نہیں جانتا تھا مگر اس کی ایک دم بگڑتی ہوئی حالت اور اس کے ہاسپٹل جانے سے اجتناب نے کرم علی کو پریشان کر دیا تھا۔ اس نے شوکت زمان کو زبردستی ہاسپٹل لے جانے کی کوشش کی اور تب ہی شوکت زمان نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو تھا اور پچھلے پندرہ سالوں سے اس مرض میں گرفتار تھا۔
پندرہ سال تک اپنے بیوی بچوں کے لیے شدید ذہنی اور جسمانی اذیت کا باعث بنے رہنے کے بعد یہ اس بیماری کا انکشاف ہی تھا جس نے شوکت زماں کو یک دم موت کے خوف سے متعارف کروایا تھا بیماری کیا تھی؟ کیوں تھی؟ اور اس کا علاج کیا تھا؟ شوکت زماں نے علاج کے لیے سر توڑ کوشش شروع کر دی تھیں اور جوں جوں وہ اس بیماری کے علاج کے لیے دنیا میں پھرتا رہا اسے احساس ہوتا گیا کہ اس کی بیماری لا علاج ہے۔ لیکن بیماری اسے کب ہڑپ کرے گی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ ڈاکٹر تک نہیں۔
شوکت زماں نے اس وقت زندگی میں پہلی بار شاید اپنے بچوں اور بیوی پر رحم کھایا پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ اس کی وجہ سے اسی کی طرح موت کا شکار ہو سکتے تھے اور شوکت زماں نے انہیں بیماری کے بارے میں آگاہ کرنے کے بجائے یک دم غائب ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ بیوی اور بچوں کو روپے بھجواتا رہا مگر خود وہ اگلے کئی سال تک ان کے پاس نہیں آیا اور یہ وہ سال تھے جب اس کے دونوں بیٹے باری باری یونیورسٹیز میں چلے گئے اور یہی وہ وقت تھا جب اس کی بیوی نے اس سے طلاق کا مطالبہ کر دیا تھا۔ وہ کینیڈا میں ہی کسی دوسرے پاکستانی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ شوکت نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اس کا یہ مطالبہ بھی پورا کر دیا۔ تب تک علاج کی پے در پے کوششوں کے بعد کم از کم اسے یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس کے اپنی اولاد کے پاس جانے سے ساتھ رہنے سے کم از کم ان میں سے کسی کو یہ بیماری نہیں ہو سکتی تھی مگر شوکت زماں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس نے اپنے اندر اتنی ہمت اور جرأت پیدا کرنے اور اپنے خوف سے لڑنے میں جتنا وقت لیا تھا وہ وقت ضرورت سے بہت زیادہ تھا۔
اس کے دونوں بیٹے اس سے شدید نفرت کرتے تھے۔ اس سے ملاقات میں اس کی بیماری کے انکشاف نے اس کے لیے کسی ہمدردی کو پیدا کرنے کی بجائے ان کی اس سے نفرت کو بڑھایا تھا۔ ان کا یقین تھا کہ باپ اس بیماری کے خوف سے اب اپنی خدمت کے لیے ان کے پاس رہنا چاہتا تھا یا انہیں پاس رکھنا چاہتا تھا۔ اگلے پانچ سال شوکت زماں کو کاروبار میں ریکارڈ منافع ہوا اور شوکت زماں اپنے بیٹوں کی محبت اور دل جیتنے کے لیے سر توڑ کوشش کرتا رہا۔
اس میں ان دونوں کو ہر ماہ لاکھوں کے حساب سے پیسے بھجوانا بھی شامل تھا۔ وہ دونوں اس کے چیک لے لیتے تھے اور زیادہ سے زیادہ یہی احسان تھا جو وہ شوکت زمان پر کرنے پر تیار تھے اور شوکت زماں اپنی فرسٹریشن میں ایک دن اپنی سابقہ بیوی کے ہاں جھگڑا کرنے پہنچ گیا کیونکہ اس کو یقین تھا کہ وہ اس کے خلاف مسلسل ان کے اندر زہر بھر رہی تھی۔ اس جھگڑے کے بعد اس کے بیٹوں نے دوبارہ کبھی اس کے چیک وصول نہیں کیے نہ ہی شوکت زمان کی کوششوں کے باوجود اس سے ملنے پر تیار ہوئے۔
کرم علی پتھر کے بت کی طرح اس دن بیٹھا شوکت کے انکشاف سنتا رہا تھا۔
اس نے اس دن کرم علی سے کچھ نہیں چھپایا تھا۔ پچھلی بار کی طرح… کرم علی نے اس دن شوکت زماں کی اولاد کے لیے اتنی نفرت محسوس نہیں کی جتنی وہ پہلے کرتا رہا تھا، ان کا قصور نہیں تھا۔ قصور شوکت زماں کا بھی نہیں تھا۔ قصور کس چیز کا تھا۔ قسمت کا؟ حالات کا؟ پیسے کا ؟ یہ کرم علی کو اس روز سمجھ میں نہیں آیا۔ شوکت زماں کی اس بیماری کا اس کے حلقہ احباب میں کسی کو پتہ نہیں تھا، پتہ ہوتا تو وہ سب شوکت سے کتراتے یا شاید بھاگنے لگتے۔
”اب کیا ہو گا؟” کرم علی نے شوکت زماں سے پوچھا تھا۔ اس کے زرد، مدقوق اور بیمار چہرے کو دیکھ کر… اگر کوئی علاج نہیں ہے تو پھر کیا ہو گا؟ کرم علی کو بے حد تشویش تھی، شوکت کی موت کا خیال اسے ہولا رہا تھا۔
”یہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ اسی طرح… اسی طرح میرا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا جائے گا، ہر طرح کی بیماری لگے گی مجھے اور میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر سسک سسک کر مر جاؤں گا۔” شوکت زماں نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ کرم علی کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ شوکت کو اتنی آسانی سے اس اذیت ناک موت کا سامنا کرنے دیتا۔
”کیا؟ واقعی کچھ نہیں ہو سکتا؟” اس نے بے بسی کے ساتھ شوکت سے پوچھا۔
”ہو سکتا ہے… اگر تم مجھے مار ڈالو۔” وہ اس کی تجویز پر دھک سے رہ گیا تھا۔ اسے لگا شاید شوکت اس کے ساتھ مذاق کر رہا تھا۔
”میں بڑا بزدل آدمی ہوں کرم علی اتنی ہمت نہیں ہے مجھ میں کہ اپنے ہاتھوں زہر پی لوں، اپنے ہاتھوں پھندہ ڈال لوں۔ یا خود کو گولی سے اڑا لوں تو مجھ پر یہ احسان کر دے۔ سمجھ کہ یہ احسان کرکے تو میرے سارے احسانوں کا صلہ دے دے گا۔”
شوکت زمان اب گڑگڑا رہا تھا۔
”میں، میں یہ نہیں کر سکتا آ پ کو قتل نہیں کر سکتا۔” کرم علی نے خوف کے عالم میں کہا۔
”یہ قتل نہیں ہے یہ رہائی ہے، تو پانچ وقت کا نمازی ہے۔ نیک مومن آدمی ہے۔ میرا گلاگھونٹ دے گا تو تیرا کیا جائے گا؟” وہ پھر گڑگڑایا۔
کرم علی کچھ کہنے کے بجائے اٹھ کر کمرے سے چلا گیا۔ وہ شوکت زماں کو کیسے مار سکتا تھا اور شوکت زماں کو کیا وہ تو کسی کو بھی نہیں مار سکتا تھا۔ پھر شوکت زماں نے اسے کیا سمجھ کر یہ بات کہی تھی۔ اسے شوکت زمان پر رحم بھی آیا اور غصہ بھی۔
اگلے کئی مہینے شوکت اسی طرح گڑگڑاتا اس سے رحم کی بھیک مانگتا رہا تھا، ہر بار اس کے انکار پر وہ اسے گالیاں دیتا رہا بعض دفعہ بے بسی کے عالم میں مارنا شروع ہو جاتا۔ ان مہینوں میں کرم علی کے علاوہ اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔ شوکت زماں کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی تھی اور پھر وہ وقت بھی آگیا تھا جب وہ اپنے بستر سے اٹھ کر کہیں چلنے پھرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ سارا سارا دن بستر پر پڑا کراہتا رہتا یا پھر کرم علی کو گالیاں دیتا رہتا۔ اس نے ایسی موت کی خواہش نہیں کی تھی۔ کرم علی نے اس کے سارے پلانز پر پانی پھیر دیا تھا۔
کینیڈا میں اس کے تمام حلقہ احباب کو اس کی بیماری کے بارے میں پتہ چل چکا تھا اور اس کی بیماری کے انکشاف نے یک دم اسے جیسے سب کے لیے اچھوت بنا دیا تھا۔ اس کے غیر ملکی دوستوں کے علاوہ کسی نے شوکت کی عیادت کے لیے، ملنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سارے کھلاڑی، شاعر ادیب، گلوکار جنہیں شوکت اپنا دوست کہتا تھا اور جن پر تحائف کی بارش کیا کرتا تھا اور جو شوکت کو شوکت زماں نہیں ”شوکت بھائی” کہا کرتے تھے ان میں سے کسی ایک نے بھی شوکت سے آکر ملنے کی کوشش تو ایک طرف اسے فون کال کرنے کی زحمت تک نہیں کی تھی۔ شوکت زماں جب تک ”میلہ”لگاتا تھا سب ”ٹھیلہ” لگانے کے لیے آجاتے تھے جب وہ بازار سجانے کے قابل نہیں رہا تو دنیا کسی اور شوکت زماں کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی تھی۔
کرم علی کو لوگوں کے رویے پر دکھ تھا مگر شوکت زماں کو نہیں تھا۔ وہ جیسے اپنے مستقبل کا حال بہت پہلے جان چکا تھا اور مستقبل کے اس حال میں لوگوں کے یہ سارے رویّے بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود اسے کسی سے گلہ نہیں تھا۔ سارے شکوے کرم علی سے تھے جس کے اس نے اتنے کام کیے جس پر اس نے اتنے احسان کیے مگر وہ اس کا ایک ”چھوٹا سا” معمولی سا کام کرنے پر تیار نہیں تھا۔
”کوئی قیمت لے لے مجھ سے اس کام کی۔” شوکت زماں… اس دن پھر گڑگڑاتے ہوئے کہہ رہا تھا اور پھر اس نے کرم علی کو وہ آفر کی تھی جس نے کرم کے ہاتھ پاؤں پہلی بار ٹھنڈے کر دیے تھے۔
”دیکھ کرم علی! میں اپنی ساری جائیداد تیرے نام لکھ دیتا ہوں۔ یہ بھی لکھ دیتا ہوں کہ میں اپنی مرضی سے خود کشی کر رہا ہوں میری موت کا ذمہ دار کسی کو نہ ٹھہرایا جائے تو بس زہر لا کر مجھے پلا دے۔ سارا کچھ تیرے نام کر دوں گا! ایک ایک چیز، تو سوچ مر تو میں نے ویسے بھی جانا ہے پر تو مرنے میں مددکر دے گا تو تیری زندگی بدل جائے گی۔ ورنہ میرے بعد پھر دھکے کھاتا پھرے گا۔ وہ کرم علی سے Mercy Killing کی بھیک مانگ رہا تھا۔
کرم علی دم سادھے اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا آج سے پہلے اس نے کرم علی کو یہ آفر نہیں کی تھی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!