تبریز پاشا اور انور حبیب نے ایک دوسرے کو دیکھا، ان دونوں کی نظروں میں ستائش تھی۔ اندر داخل ہو کر ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھنے والی لڑکی اسکرین پر آڈیشن کی ٹیپ دیکھتے ہوئے انہیں جتنی خوبصورت لگی تھی، حقیقی زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت تھی۔
”میں نے تو آپ کو پہلی بار بل بورڈ پر دیکھتے ہی طے کر لیا تھا کہ پاشا پروڈکشنز کی اگلی ہیروئن یہی ہو گی۔ کئی ہفتے لگے مجھے آپ کا کانٹکیٹ نمبر حاصل کرنے کے لیے اور پھر آڈیشن کے لیے بلوانے کے لیے۔”
زینی نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کی ساری باتیں سنی تھیں۔ تین دن پہلے انور حبیب نے اس کا آڈیشن لیا تھا اور آج وہ وہاں بیٹھی تھی۔
”شوبز میں کس طرح آئیں؟”
تبریز پاشا نے اس سے پوچھا، وہ جاننا چاہتا تھا۔ بازار حسن کے کس گھرانے سے اس کا تعلق تھا اور اگر وہ لاہور سے نہیں تھی تو پھر کس علاقے کے بازار سے آئی تھی۔ ملتان؟ فیصل آباد؟ گوجرانوالہ؟ جھنگ؟
”اس چیز کا آپ کی فلم سے کیا تعلق ہے؟ یہ کچھ غیر ضروری سوال نہیں ہے؟”
تبریز پاشا نے اپنے پورے فلمی کیریر میں ایک فلم میں پہلی دفعہ کام کرنے کی خواہش مند ہیروئن سے اس طرح کی بات نہیں سنی تھی یا تو اسے پاشا پروڈکشنز کا پتہ نہیں تھا یا تبریز پاشا کا۔ یہاں میز کے دوسری طرف بیٹھ کر ہیروئن بننے کی خواہش مند اداکارائیں پہلے پاشا پروڈکشنز کے گن گاتیں پھر تبریز پاشا کے اور یہ اس سے کہہ رہی تھی کہ وہ غیر ضروری سوال کر رہا تھا۔ انور حبیب اور تبریز پاشا کے درمیان پہلے نظروں کا تبادلہ ہوا پھر مسکراہٹوں کا۔ زینی نے دونوں چیزوں کو نوٹس کیا مگر وہ لاپروائی سے سگریٹ پیتی رہی۔
”ڈانس آتا ہے آپ کو؟” اس بار تبریز نے سوال بدل دیا۔
”نہیں۔ لیکن میں سیکھ لوں گی۔” زینی نے کہا۔
”گڈ۔” تبریز نے اطمینان سے کہا۔ اسے یقین تھا، وہ جھوٹ بول رہی تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ اداکاری کی خواہش مند لڑکی کو ڈانس کے بارے میں کچھ پتہ نہ ہو لیکن اس کے ”جھوٹ” سننے میں مزہ آرہا تھا۔
”ٹھیک ہے، کل کانٹریکٹ آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ آپ سائن کر کے بھیج دیں۔”
تبریز پاشا نے چند سکینڈز میں طے کیا۔ اس کا خیال تھا، وہ کم از کم اب احسان مندی کا اظہار کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ زینی نے سگریٹ کے پیکٹ سے ایک اور سگریٹ نکالتے ہوئے کہا۔
”کانٹریکٹ بھجوانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم مالی معاملات کو طے کریں۔”
آج تبریز پاشا اور انور حبیب کی زندگی کا ”ناقابل فراموش” دن تھا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں پہلی بار کوئی لڑکی ان دو بڑے ناموں کے سامنے بیٹھ کر سائن کر لیے جانے پر احسان مندی کے اظہار کے بجائے مالی معاملات طے کرنے کی بات کر رہی تھی یا تو وہ بے وقوف تھی یا انجان اور یا پھر واقعی اس کا تعلق اس بازار کے کسی گھرانے سے نہیں تھا۔ ورنہ اسے پتہ ہوتا کہ لڑکیاں پاشا پروڈکشنز جیسے اداروں کی فلم میں کاسٹ ہونے کے لیے پیسے نہیں لیتی تھیں، پیسے اور تحفے دیتی تھیں۔ ڈائریکٹر کو بھی اور پروڈیوسر کو بھی اور یہ بہت بعد میں ہوتا کہ یہ ادارے کسی ہیروئن کو پیسے دینا شروع کرتے۔ یہ فلم انڈسٹری کا ان کہا قانون تھا۔ اداکارائیں فلمز کے معاوضے سے امیر نہیں ہوتی تھیں۔ وہ فلمز سے حاصل ہونے والی شہرت کو سیاست دانوں، بزنس مین اور دوسرے مردوں کو ٹریپ کرنے کے لیے استعمال کر کے امیر ہوتی تھیں۔
تبریز اور انور حبیب کو یک دم اس میں بے حد دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔
”تمہیں شاید پتا نہیں ہے کہ پاشا پروڈکشنز کی ہیروئن بننا ہی کسی لڑکی کے لیے اعزاز کی بات ہے۔”
تبریز نے بالآخر اس کے لیے تم کا صیغہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ کسی اداکارہ کے لیے آپ کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے اس کی زبان بل کھانے لگتی تھی۔
”یہ پاشا پروڈکشنز کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ پری زاد ان کے لیے کام کر رہی ہے۔” زینی نے اسی انداز میں کہا۔
”پری زاد کو فلم انڈسٹری میں کوئی نہیں جانتا۔” انور حبیب نے مداخلت کی۔
”پہلی فلم ریلز ہوتے ہی پورا پاکستان جاننے لگے گا۔” زینی کے انداز میں اس بار بھی تبدیلی نہیں آئی۔
”چلو ٹھیک ہے، ٹوکن منی دیں گے ہم تمہیں پچاس ہزار… اور پچھلے پندرہ سالوں میں ہمارا ادارہ پہلی بار کسی نئی ہیروئن کو اتنی ٹوکن منی دے گا۔” تبریز پاشا نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ اسے پری زاد پسند آئی تھی اور اس نے اس کے لیے فیور کرنے میں تامل نہیں کیا تھا۔
”اس صورت میں میرا خیال ہے کہ میں آپ کی فلم میں کام نہیں کر سکتی۔ آپ ٹوکن منی کا اعزاز کسی دوسری لڑکی کو دیں۔ آپ لوگوں سے مل کر خوشی ہوئی۔ بائے۔”
اس نے سگریٹ کا پیکٹ ایک ہاتھ میں لیا۔ بیگ دوسرے ہاتھ میں اور چند لمحوں میں اپنی کرسی سے اٹھ کر کمرے سے باہر تھی۔
کمرے میں دو افراد تھے مگر دونوں سکتے میں تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ کوئی لڑکی تبریز پاشا اور انور حبیب کے سامنے فلم سے انکار کر کے ان سے اجازت لیے بغیر اٹھ کر چلی جائے گی مگر پری زاد جا چکی تھی۔ وہ ٹوکن منی سمیت اس سال کی سب سے بڑی فلم ان کے منہ پر مار گئی تھی۔
٭٭٭
فاران نے شوبز نیوز کا صفحہ کھولتے ہوئے جوس کا گلاس اٹھایا اور پھر گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ اس کے پاؤں کے نیچے سے جیسے اس وقت زمین نکل گئی تھی۔ شوبز کے صفحات پر سب سے بڑی خبر پاشا پروڈکشنز کی آنے والی فلم کی تقریب کے حوالے سے تھی اور پری زاد سفیر خان، تبریز پاشا اور انور حبیب کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھی۔
وہ ناشتہ چھوڑ کر آگیا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا، وہ جا کر پری زاد کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دے۔ اس فلم کو سائن کرنے کا مطلب فاران کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو ڈبو دینا تھا اور وہ ڈبو رہی تھی۔
کوئی اور حالات ہوتے تو وہ اسے فون کرتا مگر اس وقت وہ اندھا دھند گاڑی چلا کر اس کے گھر پہنچا تھا۔ اسے یقین تھا، وہ اس وقت شوٹ کے لیے نکلنے کی تیاری کر رہی ہو گی اور اگر وہ اس کے گھر نہ جاتا تو ان دونوں کی ملاقات آفس یا اسٹوڈیو میں ہوتی۔
اس کا اندازہ ٹھیک تھا، وہ واقعی شوٹ کے لیے تیار تھی اور لاؤنج میں کسی سے سیل فون پر بات کر رہی تھی۔ جب فاران آندھی طوفان کی طرح لاؤنج میں داخل ہوا۔
زینی کو اس کی اسی قسم کی آمد کی توقع تھی مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی صبح اس کے گھر آن دھمکے گا۔ اس نے بڑے اطمینان کے ساتھ فون بند کر دیا۔
”تم کس طرح کر سکتی ہو یہ میرے ساتھ؟” فاران اسے دیکھتے ہی اس پر دھاڑا تھا۔
”کیا؟” زینی نے کمال بے نیازی سے پوچھا۔
”فلم سائن کر لی ہے تم نے؟” وہ غرایا۔
”اوہ اچھا… اس کی بات کر رہے ہو… ہاں۔” اس نے بے حد اطمینان سے فون اپنے بیگ میں رکھا۔
”تم جانتی ہو، پانچ سال تک تم کسی اور کے ساتھ کوئی پروجیکٹ نہیں کر سکتیں۔ کوئی ad، کوئی فلم، کوئی ٹی وی سیریل نہیں۔ کانٹریکٹ میں ہے یہ سب کچھ۔” زینی صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”اور ایک سال تک تو تم اس ملٹی نیشنل کمپنی کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے کوئی پروجیکٹ نہیں کر سکتیں اور تم سائن کر رہی ہو فلم۔ وہ تمہارا کانٹریکٹ ختم کریں گے اور تمہارے ساتھ ساتھ میرا بھی۔” وہ اسی طرح چلایا۔
”اور میں یہی چاہتی ہوں۔ میں تمہارے ساتھ مزید کام نہیں کر سکتی۔”
اس کا انداز اتنا سرسری تھا جیسے وہ اسے بتا رہی ہو کہ وہ اس کے ساتھ چائے نہیں پی سکتی۔ فاران کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ یہ وہ لڑکی تھی جس پر اس نے عنایات کی بھر مار کر دی تھی جسے اس نے چند مہینوں میں پاکستان کی ٹاپ ماڈلز کے برابر لا کھڑا کیا تھا اور وہ احسان فراموشی کی ساری حدیں توڑ رہی تھی۔
”تمہیں اگر معاوضے کے سلسلے میں کوئی شکایات ہیں تو۔۔۔۔” اس نے فوری طور پر اپنے لہجے اور الفاظ میں تبدیلی کی۔ زینی نے اس تیز رفتاری کے ساتھ اس کے بات کاٹ دی۔
”نہیں، میں نے کہا نا۔ میں تمہارے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتی اور نہیں کرنا چاہتی تو نہیں کرنا چاہتی۔”
”تم کانٹریکٹ توڑ نہیں سکتیں۔” فاران نے اسے دھمکایا۔
”ورنہ تم کیا کرو گے؟”
”میں تمہیں کورٹ میں لے جاؤں گا۔ کوئی دوسری ماڈلنگ ایجنسی تمہیں سائن نہیں کرے گی۔ تمہیں کام نہیں دے گی۔”
”پھر ٹھیک ہے، تم مجھے کورٹ میں لے جاؤ۔ باقی معاملات ہم وہیں طے کر لیں گے اور جہاں تک ماڈلنگ ایجنسی کے نہ ملنے کا تعلق ہے تو میں نے سوچا ہے میں اب ایکٹریس بنوں گی ،کیونکہ میرا خیال ہے مجھ میں ایکٹنگ کا بہت زیادہ ٹیلنٹ ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟” وہ اب ایک سگریٹ سلگا رہی تھی اور ایک سلگا دینے والی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے ہوئے تھی۔
”تم احسان فراموش ہو، بے حد احسان فراموش۔” اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”شوبز میں احسان نہیں ہوتا، کام ہوتا ہے۔ پہلے مجھے تم سے تھا، اب نہیں ہے۔”
”تم سب ماڈلز کی ایک ہی ذات ہوتی ہے۔ بدذات۔” فاران خود پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔
”اگر یہ tip of the day ہے تو میں اسے یاد رکھوں گی اور اگر یہ تمہاری زندگی کی فلاسفی ہے تو میں اس کے لیے تمہیں داد دیتی ہوں لیکن اس فلاسفی میں صرف معمولی ترمیم کی ضرورت ہے۔ ماڈلز کے ساتھ تمہیں ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کے مالکان کا نام بھی لینا چاہیئے۔ اس سے تمہاری فلاسفی ”ذاتی تجربہ” نہیں لگے گی۔” وہ اپنا بیگ اٹھا کر اب وہاں سے جا رہی تھی۔
اس نے کہا تھا، وہ اسے بہت رلائے گی۔ وہ اپنے پہلے وعدے پر حرف بہ حرف پوری اتری تھی۔
٭٭٭