وہ جس وقت فاران کے آفس پہنچی، وہ کسی ماڈل کی شوٹ کروا رہا تھا۔ وہ اس کے آفس میں بیٹھ کر کئی دنوں بعد پہلی بار کافی پینے لگی۔
فاران دو گھنٹے کے بعد آیا تھا اور زینی پر پہلی نظر پڑتے ہی اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔ وہ بالآخر باہر آگئی تھی۔
”مجھے پیسے چاہئیں کچھ؟” اس نے فاران کو دیکھتے ہی اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔ فاران کو پتا چل گیا وہ کیوں آئی تھی۔
”پیسے لینے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے پری زاد!” فاران نے دانستہ اس کا دوسرا نام لیا۔
”کام کر تو رہی ہوں میں۔” زینی نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ فی الحال وہ فاران سے لڑنے کی متحمل نہیں تھی۔
”جس طرح کا کام تم کر رہی ہو اس سے پیسہ کمایا نہیں جاتا پیسہ گنوایا جاتا ہے۔”
”تم پہلے مجھے لیکچر دو گے یا پیسے؟” زینی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”تم پہلے اپنی شکل آئینے میں د یکھو اور دیکھو کہ تم میری اتنے ماہ کی محنت کو کس طرح ڈبو آئی ہو۔” فاران نے اسے ملامت کی۔
”دیکھ آئی ہوں آئینہ میں اور لعنت بھی بھیج آئی ہوں اپنے آپ پر… کچھ اور؟” زینی نے سرد مہری سے کہا۔
”اگر تمہیں پیسے اس لیے چاہئیں کہ ایک بار پھر تم گھر کے اس کمرے میں بیٹھ کر شراب میں ڈبوؤ تو زینی میں تمہیں ایک پائی نہیں دوں گا۔”
”بے فکر رہو، نکل آئی ہو اس کمرے سے باہر۔ اپنے گھر بھجوانے ہیں پیسے۔۔۔۔” زینی نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”میں چیک کاٹ کر دے رہا ہوں تمہیں… لیکن کل سے آفس آنا ہے تمہیں۔ ابھی کچھ دن تو شکل ٹھیک ہونے میں لگیں گے۔۔۔۔” فاران نے چیک کاٹتے ہوئے بڑبڑانا جاری رکھا۔
”اپنا ad دیکھا ہے؟” اسے یک دم جیسے خیال آیا۔
”کون سا ad؟” زینی نے چونک کر اسے دیکھا۔
فاران کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔ ”کتنے ad کیے ہیں تم نے زینی؟”
اس نے ناراضی سے چیک ٹیبل پر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”دیکھ لوں گی۔ کوئی جلدی نہیں ہے مجھے۔” زینی نے چیک پر ایک نظر دوڑائی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”آج شام کو پارلر جانا ہے تمہیں۔ میں تمہاری بکنگ کروا رہا ہوں۔” فاران نے فون اٹھاتے ہوئے اپنی سیکرٹری کو ہدایات دیں۔
”چلی جاؤں گی۔” زینی نے میکانکی انداز میں کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭
”اس سے کہہ دینا، ہمیں اس کے پیسے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنا پیسہ اپنے پاس رکھے۔” نفیسہ نے بے حد تلخی سے ڈرائیور سے کہا جس نے دروازہ کھولنے پر ایک لفافہ ان کی طرف بڑھایا تھا۔
ڈرائیور نے مزید کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن نفیسہ نے دروازہ بند کر دیا۔
”کون تھاامی؟” زہرہ نے ڈرائیور کو دیکھ لیا تھا۔
”زینی نے پیسے بھجوائے تھے۔ میں تو اس کے پیسے پر تھوکنا بھی پسند نہیں کروں، کیا سمجھتی ہے وہ کہ اپنے پیسے سے ہمیں خرید لے گی۔” نفیسہ نے بے حد غصے کے عالم میں کہا۔
”ہم کیا اتنے بے غیرت ہیں کہ اب اس کا پیسہ استعمال کرنے لگیں۔۔۔۔” وہ کہتے ہوئے اندر چلی گئیں۔ زہرہ وہیں صحن میں کھڑی رہی۔
گھر کی حالت روز بہ روز ابتر ہو رہی تھی۔ اس کی بڑی بچی کا اسکول چھوٹ گیا تھا کیونکہ نہ تو کوئی اسے اسکول لے جانے والا رہا تھا نہ ہی اس کی فیس کے لیے پیسے تھے۔ سلمان نے تعلیم چھوڑ کر کہیں کام ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا۔ وہ کام ڈھونڈتا پھر ضیاء کے دفتر واجبات کے حصول کے لیے چکر لگاتا۔ ربیعہ کو البتہ ایک اسکول میں جاب مل گئی تھی۔ مگر تین سو روپے ماہوار کی معمولی جاب گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ ایسے میں زینی کی طرف سے آنے والی رقم کم از کم زہرہ کو غیبی مدد کے مترادف محسوس ہوئی تھی۔ لیکن وہ یہ بات گھر کے کسی دوسرے فرد سے نہیں کہہ سکتی تھی۔ کیونکہ فی الحال کوئی بھی زینی کے حق میں کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
٭٭٭
”انہوں نے پیسے نہیں لیے۔” ڈرائیور نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پچھلی سیٹ پر بیٹھی زینی کی طرف لفافہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
وہ بہت دیر چپ چاپ ڈرائیور کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے شکست خوردہ انداز میں وہ لفافہ پکڑ لیا۔ اس لفافے کا واپس آجانا اس کے لیے کوئی شاک نہیں تھا پھر بھی زینی کو جیسے کوئی موہوم سی آس تھی کہ شاید وہ کسی طرح لفافہ رکھ لیں۔ کوئی ضرورت کوئی مجبوری انہیں مجبور کر دے۔
ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا اور وہ خالی ذہن کے ساتھ گاڑی سے باہر دیکھ رہی تھی اور تب پہلی بار اس نے ایک بڑی سڑک پر لگے ہوئے بل بورڈ پر کسی لڑکی کا ایک بے حد شناسا چہرہ دیکھا۔ اس کی آنکھیں، اس کا چہرہ، اس کی مسکراہٹ اور پھر جیسے ایک دھماکا اس کے ذہن میں ہوا۔ وہ اس کا اپنا چہرہ تھا۔ وہی ad جس کا ذکر فاران کر رہا تھا۔ اس نے بے اختیار اس بل بورڈ سے نظریں ہٹائیں۔ اسے لگا تھا جیسے وہ چہرہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔ یا جیسے اسے کچھ جتانے کی کوشش کر رہا تھا۔
بل بورڈ گزر گیا۔ گاڑی اسے پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ زینی دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ ایک اور بل بورڈ قریب آرہا تھا۔ اس نے ایک عجب سی تلخی اپنے اندر اترتے محسوس کی۔ وہ یک دم ”انسان” سے ”اشتہار” بن گئی تھی زینی سگریٹ سلگانے لگی… وہ فی الحال اور کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ فی الحال دولت سے خریدی جانے والی صرف یہی ایک چیز تھی جو اس کے کام آرہی تھی۔
وہ اب سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اپنے پاس دائیں سیٹ پر پڑے ایک سفید لفافے کے اندر موجود نوٹوں کو اپنے گھر والوں کے لیے ”رزق” بنانے کے لیے وہ کیا کرے۔
٭٭٭
بہت دنوں بعد وہ ہوش و حواس میں اس رات جاگی تھی اور ساری رات جاگی تھی…
اپنے بیڈ روم کے صوفے پر بیٹھ کر پانی کے ایک گلاس کو ہاتھ میں لیے وہ پانی کے اس گلاس میں جیسے اپنی زندگی دیکھتی رہی… اسے پچھتاوا نہیں تھا زندگی میں وہاں چلے آنے کا جہاں وہ اس وقت تھی۔ وہ ذلت کے راستے سے نہ گزر کر آتی تو پچھتاتی۔ لیکن صرف ایک شاک تھا جس سے وہ باہر نہیں آپا رہی تھی۔ وہ ضیا سے اس آخری ملاقات کی باتیں یاد کر رہی تھی۔ باپ کا اس طرح بلک بلک کر رونا اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا اور وہ جانتی تھی، باپ اس کے لیے رو رہا تھا اور اسے اس وقت باپ کو روتے دیکھ کر کچھ بھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ کوئی دکھ، کوئی تکلیف، کوئی رنج نہیں۔ ایک عجیب سی بے حسی تھی جس نے تب اس کے وجود کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ بے حسی یا کوئی شکایت تھی جو اس کے دل سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
اور اب جب ضیاء نہیں تھے تو اسے لگ رہا تھا جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ اس کی زندگی سے شیراز چلا گیا تھا تو دنیا اس کے لیے خالی ہو گئی تھی اور ضیاء چلے گئے تھے تو وہ خالی ہو گئی تھی۔
پہلے باہر کچھ نہیں تھا۔ اب اندر بھی کچھ نہیں تھا۔
اس رات وہاں اپنے کمرے میں بیٹھ کر اس نے اپنی انگلی کی پوروں پر اپنے خونی رشتوں کو گننا شروع کیا۔ آخر کون تھا جو اب بھی اس کا تھا؟ کوئی ایک بھی نہیں ”ماں، بہنیں، بھائی…اور؟
اس نے دوستوں کو گننا شروع کیا۔ انگلیوں کی پوریں ایک بار پھر خالی رہیں۔ دنیا میں اب کوئی نہیں تھا جسے وہ اپنا دوست کہہ سکتی۔ رمشہ بھی نہیں۔ اس نے محبت کو نہیں گنا، وہ اس کی زندگی میں تھی ہی نہیں اور دولت؟… اس نے اپنے اثاثے گننے کی کوشش کی۔ دولت کے نام پر بھی اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ کرائے کا گھر، پرانی گاڑی۔ فاران کے چند نوکر… اگر وہ پیسے کے لیے یہاں آئی تھی تو پیسہ کہاں تھا۔ کیا اس طرح پیسہ بنانا تھا اسے کہ وہ چار دن گھر بیٹھتی تو بجلی کٹنے کی نوبت آجاتی اور اسے فاران کے سامنے جا کر ہاتھ پھیلانا پڑتا۔
یہ وہ پیسہ نہیں تھا جو وہ چاہتی تھی اور یہ اس طرح کا پیسہ نہیں تھا جو اسے چاہیے تھا تو پھر اسے کیا چاہیے تھا اور کتنا چاہیے تھا؟ کم از کم پوروں سے شروع ہو کر پوروں پر ختم ہو جانے والا نہیں چاہیے تھا۔
*****