اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ زینی نے بے حد ترشی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”مجھے کوئی ایکسکیوز مت دینا، یہ مت کہنا کہ تمہیں پتا نہیں تھا کہ۔۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”I swear زینی! مجھے نہیں پتا تھا۔”
فاران نے جھوٹی قسم کھائی۔ اسے ضیاء کے بارے میں اسی دن پتا چل گیا تھا۔ زینی کے گھر والوں نے رمشہ کے ذریعے اس سے رابطے کی کوشش کی تھی اور رمشہ نے فوری طور پر فاران کو فون کیا تھا۔ فاران کے لیے یہ بے حد نازک وقت تھا۔ اس کمرشل کی شوٹنگ پرڈھیروں روپیہ خرچ ہو رہا تھا۔ اب اگر وہ یک دم سب کچھ چھوڑ کر پاکستان چلی جاتی تو اسے بہت بڑا سیٹ بیک ہوتا۔ بے حد خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے رمشہ کو اپنا مسئلہ بتایا تھا اور اس سے چپ رہنے کی درخواست کی تھی۔ رمشہ کو تامل ہوا تھا مگر پھر اس نے زینی کی فیملی سے جھوٹ بول دیا کہ وہ فاران سے رابطہ نہیں کر پا رہی۔
اور اب وہ اس کے سامنے بیٹھا جھوٹی قسمیں کھا رہا تھا۔ اسے یقین تھا، وہ اس پر اعتبار کر لے گی۔ آخر اس کا جھوٹ کیسے پکڑا جا سکتا تھا۔
”تم نے بکواس کر لی۔ میں نے بکواس سن لی۔ Now get out” (اب دفع ہو جاؤ)۔
فاران کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس نے زندگی میں کسی ماڈل کی زبان سے اس طرح کے کلمات اپنے لیے نہیں سنے تھے۔ اس کے ماڈل اسے اس کی عدم موجودگی میں جو چاہے کہتے تھے مگر اس کے سامنے کوئی فاران سے اونچی آواز میں بات کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا اور یہ دو ٹکے کی ماڈل اپنے آپ کو کیا سمجھ رہی تھی۔ اس نے اس پر عنایات اور نوازشات کا ڈھیر لگا دیا تھا اور وہ رتی بھر اس کی مشکور نہیں تھی بلکہ الٹا بکواس کر رہی تھی۔ فاران کا پارہ ہائی ہو رہا تھا۔ وہ ماڈلز کو تیر کی طرح سیدھا رکھنے میں ماہر تھا۔ ایک معمولی نخرا کرنے پر وہ کسی بھی ماڈل کا کانٹریکٹ ختم کر دیتا تھا پھر وہ اس سے گڑگڑا کر معافی مانگتے تو وہ انہیں واپس لیتا اور یہ… یہ اپنے آپ کو کیا سمجھ رہی تھی۔
وہ اسے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خاموشی کے وقفے میں اس نے چند سکینڈز میں سارا حساب کتاب کر لیا تھا اور اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا اس وقت۔ وہ اسے فارغ کرتا تو کمپین کھو دیتا۔ اس کے ساتھ کچھ اور بڑے کلائنٹ ٹوٹتے۔ بڑے کلائنٹ ٹوٹتے تو مارکیٹ میں اس کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا۔ چار دن میں اس کی بنی بنائی ساکھ زمین پر آجاتی اور زینی… اس کا کیا جاتا… کچھ نہیں… کیونکہ اس کا ابھی تک کچھ تھا ہی نہیں۔
ایک گہری سانس لے کر وہ مسکرا دیا۔
”مجھے تمہاری پروا ہے زینی! اس لیے۔۔۔۔”
زینی نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم اپنی پروا کرو، میری چھوڑ دو۔”
فاران اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ بہت ہو گیا تھا۔ ایک لفظ کہے بغیر وہ دروازے کی طرف گیا اور دروازہ کھولا، تب ہی اس نے اپنے عقب میں زینی کی آواز سنی۔
”میں بہت رلاؤں گی تمہیں فاران! یاد رکھنا بہت رلاؤں گی۔”
فاران نے پلٹ کر دیکھا، وہ گلاس میں شراب دوبارہ انڈیل رہی تھی۔ ہونٹ بھینچتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
زینی نے خواب آور دوا ڈھونڈنا شروع کی۔ اسے ضیاء کو خواب میں دیکھنے کی ایک اور کوشش کرنا تھی۔
٭٭٭
ضیاء کی موت نے شیراز کی شادی کی تاریخ اور انتظامات پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا تھا۔ سوائے اس کے کہ اکبر اور نسیم کو ایک بار پھر زینب کے گھر آنا پڑا تھا اور اس محلے کی شکل دیکھنی پڑی تھی جس سے انہوں نے اتنی مشکل سے جان چھڑائی تھی۔
اکبر کو بھائی کی اس طرح اچانک موت کا کسی حد تک صدمہ ہوا تھا مگر پھر اس نے اسے اللہ کی رضا قرار دے کر سر جھٹک دیا۔ وہ گھر سے باہر ہی ضیاء کے جنازے میں شرکت کر کے اور سلمان سے تعزیت کر کے چلا گیا اور کچھ اسی طرح کی تعزیت نسیم نے بھی کی تھی۔ اس نے نفیسہ سے بات نہیں کی تھی۔ شاید اسے یہ خدشہ تھا کہ وہ غم و صدمہ کی حالت میں ضیاء کی موت کا ذمہ دار انہیں نہ ٹھہرانے لگیں، وہ زہرہ اور ربیعہ سے تعزیت کر کے آگئی تھی اور وہاں بیٹھنے کے دوران وہ جس کا سامنا کرنے سے سب سے زیادہ خوف زدہ تھی، خوش قسمتی سے اسے وہ وہاں نظر نہیں آئی اور وہاں بیٹھے بیٹھے اس محلے کی عورتوں سے زینب کے گھر سے چلے جانے کا احوال معلوم ہو گیا تھا۔ نسیم نے اگر کہیں کوئی رنجیدگی یا ضمیر کا بوجھ محسوس بھی کیا تھا تو زینی کے اس طرح گھر سے چلے جانے سے جیسے وہ اتر گیا۔
”یعنی یہ صرف زینی ہی تھی جو باپ کی موت کی ذمہ دار تھی۔” نسیم نے بے حد اطمینان سے سوچا۔
اگلے کئی دن ان کے گھر میں ضیاء کی موت سے زیادہ زینی کی گمشدگی ڈسکس ہوتی رہی تھی۔ آخر زینی اتنی بہادر کیسے ہو گئی تھی کہ اس نے گھر چھوڑ دینے جیسا بڑا قدم اٹھا لیا تھا۔ ہر ایک اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے جیسے صرف ایک سوال کا جواب چاہتا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سوال کا جواب ان میں سے ہر ایک کو بہت پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا۔
شیراز کی شادی مقررہ تاریخ کو بڑی ”دھوم دھام” سے ہوئی۔ باراتیوں کا ”حجم غفیر” دولہا کی تین بہنوں اور ماں، باپ کے علاوہ دو ڈرائیور، ایک نوکرانی، ایک نکاح خواں اور شیراز کے ایلیٹ کلاس کے سب سے نئے اور اہم دوست جواد پر مشتمل تھا۔
دلہن کے گھر پر ان کا استقبال کرنے کے لیے اس سے بھی ”بڑی تعداد” موجود تھی جس میں دلہن کے باپ کے ساتھ اس کی ماں اور ماں کا نیا شوہر بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ دو سوتیلے بہن بھائی بھی موجود تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جواد کا باپ، ماں اور اس کی منگیتر… سیما بھی وہیں تھے اور گھر کے نوکروں کی ایک لمبی چوڑی تعداد اس کے علاوہ تھی۔
بارات اگر استقبال کرنے والوں کو دیکھ کر ششدر تھی تو کچھ اسی طرح کی حالت استقبال کرنے والوں کی بارات کو دیکھ کر تھی۔
شادی کی پوری تقریب میں صرف دو رسومات ہوئی تھیں۔ نکاح اور کھانا۔ پہلی سے دلہن کی جان جا رہی تھی اور دوسری سے دولہا کی۔
یہ ”شادی کا کھانا” تھا۔ یہ ناممکن تھا شیراز کے اہل خانہ یہ کھانا نہ کھاتے اور دولہا بنے ہونے کی وجہ سے شیراز کے لیے اب یہ ممکن نہ تھا کہ وہ انہیں کھانا کھانے سے ”روکتا” یا کوئی ہدایات دے پاتا۔ نتیجہ ویسا ہی تھا جیسا ہو سکتا تھا۔ یہ وہ پہلی شادی تھی جس کا کھانا صرف بارات نے کھایا تھا، اہل خانہ نے نہیں۔
نکاح کے فوراً بعد جواد اور اس کی فیملی چلی گئی تھی۔ انہیں کسی اور شادی میں بھی شرکت کرنی تھی۔ کھانے کے فوراً بعد شینا کی رخصتی ہو گئی تھی۔ وہ آج ایک ساڑھی میں ملبوس تھی اور اپنے سسرال والوں کے کھانے سے فارغ ہو جانے کے انتظار میں اپنے ماں باپ کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی۔ صرف دولہا تھا جو دلہن کی طرح اکیلا لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھا کبھی اپنے ماں باپ اور بہنوں کو دیکھ رہا تھا اور کبھی اپنی بیوی اور اس کے اہل خانہ کو جو لاؤنج کے ایک کونے میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔
شیراز نے دو چار بار ان کے پاس جا کر کھڑا ہونے کی کوشش کی مگر ہر بار اس کے ان کے پاس جاتے ہی خاموشی چھا جاتی پھر سب سے پہلے شینا وہاں سے ہٹتی پھر باری باری وہ سب کھانے کی کوئی چیز لینے کا بہانہ کر کے کھسک جاتے اور پھر ایک بار پھر ان لوگوں کا گروپ کمرے کے کسی اور کونے میں اکٹھا ہو جاتا۔ ایک بار پھر ان کے درمیان کسی ایشو پر بات ہونے لگتی اور شیراز ہونقوں کی طرح ان کے پاس سے ہٹ کر واپس صوفہ پر آکر بیٹھ جاتا۔
نسیم اور شیراز کی بہنوں نے اسے بھی کھانا کھلانے کی دو چار بار ناکام کوشش کی مگر شیراز فی الحال کھانا کھانے کے نام پر اس وقت اس گروپ کا حصہ نہیں بن سکتا تھا جسے اس وقت گھر کے ملازم تک گھور رہے تھے۔
دو ڈھائی مہینے میں سکھائے جانے والے ٹیبل مینرز اور ایٹی کیٹس چار منٹ میں کھانالینے کے لیے اٹھائی جانے والی پہلی پلیٹ کے ساتھ ہی لپیٹ کر رکھ دیے گئے تھے۔ شیراز مخمصے میں تھا، وہ ماں باپ اور بہنوں پر ترس کھائے یا غصہ۔ دونوں باتوں کا اظہار وہ اس وقت شینا کے گھر پر نہیں کر سکتا تھا۔
ایک گہرا سانس لے کر اس نے اپنی خوبصورت اسٹائلش بیوی پر نظریں جمانے کی کوشش کی جو سیاہ سلک کی کام والی ساڑھی کے ساتھ ایک بے حد مختصر بلاؤز پہنے ہوئے تھی۔ وہ بیوٹی پارلر سے دلہن بنی بارات کے وہاں پہنچنے کے پندرہ منٹ بعد آئی تھی اور اس نے نسیم کو ہولا دیا تھا۔
شادی پر سیاہ لباس؟ کچھ دیر کے لیے تو وہ حواس باختہ انداز میں اپنی بیٹیوں اور شوہر کو دیکھتی رہی کیونکہ شیراز اس وقت ان سے نظریں نہیں ملا رہا تھا پھر اس نے کمرے میں موجود ان دوسرے لوگوں کی داد و تحسین پر غور کیا جو شینا کی ساڑھی، میک اپ اور ہیر اسٹائل کو سراہ رہے تھے۔
”شاید بڑے لوگوں کی بیٹیاں اسی طرح دلہن بنتی ہیں۔”
نسیم نے ایک بار پھر اپنے آپ کو تسلی دی اور اپنی بیٹیوں کو بھی جو اس صدمے سے دو چار تھیں کہ بھابھی نے لہنگا نہیں پہنا، دوپٹہ بھی نہیں لیا جس کو پکڑنے اور سنبھالنے کے لیے وہ تینوں بے حد تیاریوں کے ساتھ آئی تھیں۔ بھابھی کو تو اس وقت کسی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ شرم اور جھجک کی تو انہیں خیر پہلے بھی کوئی توقع نہیں تھی کیونکہ وہ شینا کو منگنی پر دیکھ چکے تھے مگر شینا کو تو لگتا تھا، کسی کی مدد کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
یہ صدمہ بہت دیر تک چلتا، اگر سعید نواز نکاح کے فوراً بعد شیراز کو گاڑی کی چابی اور اس کی فیملی کو ایک بڑے بیگ میں زیورات کے ڈبے نہ تھما دیتا۔ اس کی شاید یہ کوشش تھی کہ وہ لوگ گھر جا کر اپنے زیورات دیکھیں مگر یہ ناممکن تھا۔ نسیم اور اس کی بیٹیوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے زیورات کے ڈبے نکال کر کھول کھول کر انہیں دیکھنا شروع کر دیا اور ان ڈبوں کو کھول کر دیکھتے ہوئے ان سب کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ نسیم نے کنگنوں کی جوڑی کو کانپتے ہاتھوں سے نکال کر ان کا وزن کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے پوری زندگی میں کبھی ایک ڈیڑھ تولہ سے زیادہ وزنی چیز نہیں پہنی تھی۔ اس کے باوجود اسے یقین تھا، وہ دونوں کنگن 20 تولے سے کم کے نہیں تھے۔ 20تولے سونے کی مالیت؟ نسیم نے وہیں بیٹھے بیٹھے اندازہ لگانا شروع کیا اور اندازے نے اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو بڑھا دیا۔ اسے اچانک احساس ہونے لگا کہ اسے رات کو واپس گھر تک جانا ہے، اب اتنی مالیت کے زیور کے ساتھ گھر تک جانا، اس کا دل گھبرانے لگا تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان کنگنوں کو پہنے یا ڈبے میں رکھ کر دوبارہ بیگ میں رکھ دے اور بیگ میں رکھنے کی صورت میں بیگ کس کو پکڑائے۔
اس وقت اسے اپنا شوہر بھی قابل اعتبار نہیں لگ رہا تھا اور ساتھ آنے والی نوکرانی اور دونوں ڈرائیوروں کو دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تینوں بیٹیاں بھی یک دم اسے غیر ذمہ دار لگنے لگی تھیں۔ واحد ذمہ دار اور قابل بھروسا آدمی اسے اس وقت شیراز ہی نظر آیا تھا۔ ڈبے میں سے کنگن نکال کر ڈبہ بیگ میں رکھ کر وہ شیراز کے پاس آئی اور شیراز کی ساری ہچکچاہٹ، جھجک اور شرمندگی کے باوجود اس نے شیراز کے کوٹ کی اندر والی جیب میں کنگن رکھوا کر دم لیا۔
شیراز نے حتی المقدور کوشش کی تھی کہ یہ ذلت آمیز کام وہ اپنے سسرال والوں کی نظروں سے بچا کر کرے مگر وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوا تھا ، وہ نہیں جان سکا۔
اس کی بہنیں زیور کے معاملے میں زیادہ جرأت مند نکلی تھیں۔ انہوں نے اپنے اپنے جیولری سیٹ اسی وقت ڈبوں سے نکال کر پہن لیے تھے۔
نسیم نے تینوں کے پاس آکر اس پرخفگی کا اظہار کیا تھا مگر ان میں سے کوئی بھی اپنا زیور اتارنے پر تیار نہیں تھی۔
نسیم کو بالآخر ہار ماننی پڑی، ورنہ وہ ان تینوں سیٹوں کو بھی شیراز کی جیبوں میں رکھوا کر دم لیتی لیکن اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ گھر جاتے ہی ان سب کے زیورات کو ڈبوں میں بند کر کے رکھوا دے گی۔ اب کم از کم اسے ان تینوں کی شادی میں زیورات بنانے کی پریشانی سے نجات مل گئی تھی بلکہ وہ یہ بھی پلان کر رہی تھی کہ اگر ممکن ہوا تو وہ ان زیورات کو تڑوا کر ان ہی میں سے چند اور زیورات بنانے کی کوشش بھی کرے گی کیونکہ وہ سیٹ بھی نسیم کو کافی وزنی محسوس ہوئے تھے اور اس نے اکبر کو ملنے والی انگوٹھی سے پہلے ہی اپنے لیے ایک لاکٹ سیٹ بنوانے کا فیصلہ کر لیا تھا جبکہ اکبر اپنی انگوٹھی پہنے اس کو بیچ کر اس سے اپنے نئے اور پرانے قرضے اتارنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔