گھر کی حالت واقعی خراب تھی۔ بجلی کٹ چکی تھی۔ انہوں نے ہمسائے کے گھر سے ایک تار لے کر بلب لگایا ہوا تھا۔ محلے کے وہ گھر اب آہستہ آہستہ ان چھوٹی بڑی رقموں کا تقاضا کرنے لگے تھے۔ جو ضیا کی تدفین اور تدفین کے بعد مختلف اخراجات کے سلسلے میں نفیسہ نے لوگوں سے لی تھیں۔ گھر کی بہت سی چھوٹی بڑی چیزیں۔ اب تک بک چکی تھیں۔ ضیا کیا گئے تھے۔ اس گھر کے رزق سے برکت چلی گئی تھی۔
سلمان ایک دوکان پرسیلز مینی کر رہا تھا۔ زہرہ چھوٹی موٹی سلائی کرنے لگی تھی اور ربیعہ اسکول میں پڑھانے کے بعد گھر میں ٹیوشنز بھی پڑھاتی۔ اس کے باوجود ان کی گزر بسر بے حد تنگ دستی کی حالت میں ہو رہی تھی۔ ضیاء کی پنشن کے لیے چکر لگاتے لگاتے سلمان نے تھک ہار کر وہاں جانا چھوڑ دیا تھا۔
وہ نہ تو ٹرانسپورٹ کے اتنے لمبے چوڑے کرائے دے سکتا تھا۔ نہ ہی روز روز چھٹی لے سکتا تھا۔
زینی کا حال احوال محلے کی عورتوں کی ذریعے نفیسہ اور باقی لوگوں کو پتا چلتا رہتا تھا۔ کیونکہ وہ اب ایک ماڈل تھی۔ سلیمان جس دکان میں کام کرتا تھا۔ اس سڑک پر ایک بل بورڈ پر اس کی بڑی بہن کا چہرہ روز اس کو نظر آتا تھا اور وہ روز اس بل بورڈ کے آگے سے گزرتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہوجاتا یوں جیسے ساری دنیا یہ جانتی ہو کہ وہ اس کی بہن تھی۔
اس نے کبھی گھر میں جا کر ماں یا بہنوں کو اس بل بورڈ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ مگر اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ چہرہ زینی کا ہو سکتا تھا۔ اس کی تہجد گزار بہن اس طرح… اسے یقین نہیں آتا تھا۔
محلے کی عورتیں اب جب نفیسہ کے گھر آتیں تو زینی کے بارے میں کچھ اور انداز سے بات کرتیں۔ ان کے انداز میں اب دلچسپی، تجسس اور اشتیاق ہوتا اور حسرت بھی۔
یوں جیسے زینی ایک ایسی دنیا میں چلی گئی تھی جس میں جانے کی سب کو خواہش تھی۔
چندہ ماہ پہلے تک ان کے لہجے میں زینی کے لیے جھلکنے والا شک، شبہ، حقارت، ملامت اور ترس اب یک دم غائب ہو گیا تھا۔ اور یہ تبدیلی نفیسہ نے نوٹ نہیں کی تھی۔ ربیعہ نے کی تھی۔
”زینی آکر ملنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی؟”
”سنا ہے پیسے بھجواتی ہے؟”
”کہاں رہتی ہے؟”
”کئی دفعہ یہاں اپنے ڈرائیور کے ساتھ اتنی لمبی سی گاڑی میں آکر بیٹھی ہوتی ہے۔”
”ایسے شان دار اور اچھے کپڑے ہوتے ہیں اس کے۔”
”تم لوگوں کو کیا اپنے ساتھ لے جا رہی ہے وہ؟”
”سنا ہے بہت بڑے بنگلے میں رہتی ہے وہ۔”
”پتا ہے سفیر خان کے ساتھ ہیروئن آرہی ہے۔”
”ہائے اللہ… زینی ناچے گی کیسے؟”
”اتنی اسمارٹ ہو گئی ہے زینی کہ کیا بتاؤں؟ پتہ نہیں جیولری کہاں سے لے کر پہنتی ہے وہ۔”
”میں نے تو زینی کو کبھی ایک جوڑا دوسری بار پہنے نہیں دیکھا۔ یہ اتنے کپڑے کون دیتا ہے اسے۔”
”اتنی خوبصورت لگتی ہے وہ، پتا نہیں میک اپ کہاں سے کرواتی ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ میک اپ کیا ہے۔”
”اب تو لوگ پری زاد کہتے ہیں اسے۔”
”یہ پری زاد نام کا مطلب کیا ہواخالہ؟”
”میں نے اخبار میں پڑھا تھا۔ فلم میں کام کرنے کے پانچ لاکھ ملیں گے اسے ۔ہائے خالہ…! زینی کے پاس تو بہت پیسہ آگیا۔ کیسے خرچ کرے گی اسے۔”
”میرا تو دل چاہتا ہے زینی سے ملنے کا۔ پتا نہیں اب ہمیں پہچانے گی بھی یا نہیں۔”
”رات کو میں نے ٹی وی پر دیکھا ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ کھڑی تھی۔ دوسری ایکٹرسوں کے ساتھ۔ سب سے اچھی لگ رہی تھی۔”
”خالہ! زینی کا ایڈریس یا فون نمبر ہے تو مجھے دیں، مجھے ملنا ہے اس سے۔ بڑا جی چاہتا ہے۔”
”اس بار اس کا ڈرائیور آئے تو مجھ کو بتانا خالہ! میں نے زینی کا پتہ لینا ہے اس سے۔”
”اب غصہ تھوک بھی دو خالہ۔ بیٹی اتنی بڑی اسٹار بن رہی ہے اور تم ابھی تک ناراض ہو اس سے۔”
کون کہتا ہے، رنگ صرف گرگٹ بدلتا ہے یا آسمان… انسانوں سے زیادہ تیزی سے رنگ کوئی نہیں بدلتا۔
نفیسہ کے گھر میں پہلے بھی زینی کا ہی ذکر ہوتا تھا۔ آج بھی زینی کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایسا ممکن نہیں تھا کہ محلے کی کوئی عورت، کوئی لڑکی ان کے گھر آئے اور زینی کے بارے میں کچھ پوچھ کر یا بتا کر نہ جائے۔
زہرہ، ربیعہ، نفیسہ پہلے سر جھکا کر شرمندگی سے زینی کا تذکرہ سنتی تھیں اور اب سر اٹھا کر حیرانی سے۔ آخر دنیا… سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ لوگوں کی زبان کیوں بدلتی رہتی ہے۔ انسانوں کو کیا ہو جاتا ہے۔
کسی کو یہ دلچسپی نہیں تھی کہ ضیا جیسے نیک اور ایمان دار انسان کے اہل خانہ کس حالت میں جی رہے تھے۔ ان کے مسائل کیا تھے؟ انہیں کس چیز میں مدد کی ضرورت تھی۔ وہ کس طرح تین کے بجائے دو وقت کا کھانا کھانے پرمجبور ہو گئے تھے۔
وہاں ہر ایک کو یہ دلچسپی تھی کہ پری زاد کہاں رہتی تھی۔ کسی طرح رہتی تھی۔ کتنے پیسے کماتی تھی۔ کس ماڈل کی گاڑی میں پھرتی تھی۔ کتنے کنال کے گھر میں رہتی تھی۔ کتنے اہم لوگوں کے ساتھ نظر آتی تھی۔ کتنی ماڈرن اور اسٹائلش ہو گئی تھی۔
مقابلہ ایک بار پھر ضیاء اور زینب کے بیچ تھا۔ مقابلہ ایک بار پھر زینب جیت رہی تھی۔
نفیسہ نے اس دن زینی کے جہیز کی ساری چیزوں کو دھوپ لگوانے کے لیے نکلوا کر باہر صحن میں رکھا تھا۔
اس میں زینی کی شادی کا جوڑا بھی تھا۔ اس جوڑے کو دیکھتے ہوئے انہیں بے اختیار رونا آگیا۔
کتنے چاؤ سے ایک ایک چیز بنائی تھی اس نے۔ چار چار ماہ لگا کر ایک ایک دوپٹہ کاڑھا۔
”ایسی تو نہیں تھی میری زینی۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا اسے۔” نفیسہ نے بھّرائی ہوئی آواز میں ربیعہ سے کہا۔ جو ان کے ساتھ مل کر وہ کپڑے باہر لائی تھی۔ ربیعہ نے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ صرف سرد مہری سے اس دوپٹے کو دیکھتی رہی۔ اسے ماں کی طرح زینی پر ترس نہیں آیا تھا۔ شاید آجاتا اگر ان کی زندگی میں پچھلے چھ ماہ نہ آئے ہوتے۔
نفیسہ تو ماں تھیں ان کپڑوں اور چیزوں کو دیکھ کر انہیں زینی کی وہ خوشی، وہ ہنسی یادآئی تھی جو وہ انہیں خریدتے انہیں بناتے ہوئے محسوس کرتی تھی۔
ایک ایک پھول، ایک ایک پتہ، ایک ایک ٹانکہ، کوئی ان کپڑوں کو دیکھ کرباآسانی بتا سکتا تھا کہ وہ ایک ہی لڑکی کے ہاتھ کے ہیں۔ اور جس لڑکی کے ہاتھ کے ہیں اس نے ان چیزوں کو بنانے میں اپنی جان ماری ہو گی۔ اپنے دن رات لگا دئیے ہوں گے۔
نفیسہ اس کی شادی کا لباس گود میں لیے بہت دیر بیٹھ کر روتی رہیں۔ اس کی شادی کے دوپٹے کے کچھ حصے پر گوٹا کناری ابھی بھی باقی تھا۔ زینی نے حسب عادت سوئی دوپٹے کے ساتھ ہی اٹکا کر رکھی ہوئی تھی۔ وہ سوئی ابھی بھی وہیں تھی۔ وہ دوپٹہ ابھی بھی پورا نہیں ہوا تھا۔ نفیسہ کو ایک بار پھر سب کچھ یاد آنے لگا تھا۔ وہ وہیں اسی صحن میں ، اسی تخت پر سارا سارا دن اس دوپٹے کو گود میں لیے بیٹھی رہتی تھی۔ کسی کو صاف ہاتھ بھی نہ لگانے دیتی کہ کہیں ہاتھ کی قدرتی چکنائی کا کوئی داغ، کوئی دھبہ دوپٹے پر نہ آجائے۔ اور ہر روز کا کام ختم کرنے کے بعد انہیں دوپٹہ کا اتنا حصہ بے حد خوشی اور فخر سے دکھاتی۔
”ان چیزوں کو دھوپ کیوں لگوا رہی ہیں؟” ربیعہ نے ان کے انہماک کو توڑا تھا۔ ”اس کو تو اب ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہو گی۔”
ربیعہ کا اشارہ زینی کی طرف تھا۔
”تمہارے کام آئیں گی یہ ساری چیزیں۔” نفیسہ نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کہا۔
”میں اس کی کوئی چیز استعمال نہیں کروں گی۔ جہیز میں لے کر جانا تو دور کی بات ہے۔ ان ساری چیزوں کو بیچ دیں۔ پھنکوا دیں۔ یا خیرات کر دیں۔ مگر میرے لیے نہ رکھیں۔ مجھے انہیں استعمال نہیں کرنا۔”
ربیعہ نے بے حد سرد مہری کے ساتھ نفیسہ کو دو ٹوک انداز میں بتایا اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
نفیسہ اسے جاتا دیکھتی رہیں۔
٭٭٭
زینی نے اپنے اور تبریز پاشا کے درمیان صوفے پر پڑے ڈائمنڈ سیٹ کے کھلے ڈبے کو ایک نظر دیکھا پھر تبریز پاشا کو جس کے چہرے کے تاثرات نے کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں رہنے دیا تھا۔
وہ اس فارم ہاؤس میں اپنی پہلی فلم کی مہورت کے بعد ہونے والی اپنی پہلی فلمی پارٹی میں شرکت کرنے کے لیے آئی تھی۔ انڈسٹری کی ہر بڑی ہیروئن تبریز پاشا کی اس پارٹی میں موجود تھی۔ اور فلم انڈسٹری کا ہربڑا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر وہاں موجود تھا۔
زینی کے لیے یہ پہلی فلمی پارٹی ضرور تھی مگر پہلی پارٹی نہیں تھی۔ وہ ماڈلنگ کا آغاز کرنے کے بعد اسی طرح کی لیٹ نائٹ پارٹیز اٹینڈ کرتی رہی تھی۔ دونوں پارٹیز کے لوازمات ایک تھے۔ شراب، ڈرگز، ڈانس اور عورتیں۔
”البتہ ان ”لوازمات” کی کوالٹی میں فرق تھا۔ ماڈلنگ کے دوران اٹینڈ کی جانے والی پارٹیز میں میوزک انگلش ہوتا اور بولی جانے والی زبان بھی۔ اس فلمی پارٹی میں سب کچھ پنجابی میں تھا۔
تبریز پاشا اسے ساتھ لے لے کر ہر جگہ پھراتا رہا تھا۔ پروڈیوسر سے ہیروئنز تک وہ جن جن سے اسے انٹرڈیوس کروا سکتا تھا۔ اس نے کرایا تھا۔ وہ اس پارٹی میں موجود ہر چھوٹی بڑی ہیروئن کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ اس پر رشک کیا جا رہا تھا۔ اس سے حسد کیا جا رہا تھا۔ اور اس سے نفرت کی جا رہی تھی۔ وہ پاشا پروڈکشنز کی نئی ہیروئن تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ انڈسٹری میں ایک نیا سورج طلوع ہونے والا تھا اور اس سورج کے طلوع ہونے سے کتنے چاندوں کو گہنانا تھا۔ ہر ایک کو یہی خدشہ تھا۔
رات ڈھلے تبریز پاشا اسے فارم ہاؤس کے اس کمرے میں لے آیا تھا اور اس پوری پارٹی میں یہ پہلا موقع تھا جب زینی خائف ہوئی تھی۔
تبریز پاشا پیے ہوئے تھا بلکہ ضرورت سے زیادہ پیے ہوئے تھا۔ مگر اس کے باوجود اپنے ہوش و حواس میں تھا۔
زینی کو کمرے میں لانے کے بعد اس نے زینی سے وہی کہا تھا جس کا زینی کو خدشہ تھا۔ کچھ دیر کے لیے زینی کے حواس جواب دے گئے تھے۔ شوبز میں یہ پہلا موقع تھا جب کوئی مرد اس سے اس طرح کا مطالبہ کر رہا تھا۔ فاران اور دوسرے بہت سے ماڈلز اور اس کے پرستار مرد اس سے فلرٹ کرنے کی یا افیئر چلانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ بڑی آسانی کے ساتھ ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیتی تھی۔
مگر تبریز پاشا۔
”میں انڈسٹری میں یہ سب کرنے نہیں آئی۔” وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
”تو پھر کیوں آئی ہو؟ گھر میں بیٹھتیں۔”
تبریز پاشا نے بے حد توہین آمیز انداز میں کہا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”فلم انڈسٹری کے طور طریقوں کا اب تک تو پتہ چل جانا چاہیے تھا تمہیں۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”کھڑی مت رہو، بیٹھ جاؤ۔ یہاں کوئی تم سے زبردستی نہیں کرے گا۔” زینی کو ایک لحظے کا تامل ہوا پھر وہ اسی صوفہ پر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں نے تمہیں تمہارے منہ مانگے معاوضے پر سائن کیا… کیوں…؟ تم کوئی سپر اسٹار تو نہیں تھیں۔ ٹھیک ہے، ماڈلنگ میں تمہارا نام تھا۔ مگر جو کلاس فلمیں دیکھنے سینما آتی ہے۔ وہ کسی ماڈل کو نہیں پہچانتی۔ وہ ہیروئن کو پاشا پروڈکشنز کی ہیروئن کے نام سے جانتی ہے۔ تو تمہیں سوچنا تو چاہیے تھا کہ تم پر اتنی عنایات کیوں کر رہا ہوں میں۔”
زینی پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہی تھی اور طے کر رہی تھی کہ اس کو کیا کرنا ہے۔
”فاران والا مسئلہ ہوا تو میں نے تمہارا ساتھ دیا۔ ورنہ اخبار والے تو چار دن میں خبریں لگا کر کھا جاتے تمہیں گھر بٹھا دیتے۔ تمہیں گھر کا مسئلہ ہوا تو میں نے تمہارے لیے گھر کا انتظام کروایا۔ تمہارا کیا خیال تھا، ان سب چیزوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے پری زاد… ہر چیز کی۔ انڈسٹری میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی۔ اور تم کیا سمجھ رہی تھیں کہ میں یہ سب کچھ تمہارے حسن سے متاثر ہو کر تم پر لٹا رہا ہوں۔” تبریز پاشا کے لہجے میں تلخی نہیں تھی۔ طنز بھی نہیں تھا۔ کچھ اور تھا۔ اور وہ کچھ اور کیا تھا، زینی اسے سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
تبریز پاشا اب منی بار کی ایک closet سے ایک جیولری کیس نکال رہا تھا۔ وہ ایک ہاتھ میں اس ڈبے کو لیے دوسرے ہاتھ میں شراب کا پیگ لیے اس کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ اور اس نے ڈبہ صوفے پر رکھتے ہوئے اسے کھول دیا۔
”تم اس انڈسٹری میں رہنا چاہتی ہو تو اس ڈبے کو اٹھا لو۔ ورنہ اس کمرے کا دروازہ وہ ہے۔ تم باہر چلی جاؤ مگر یہ یاد رکھو، یہ تبریز پاشا کے کمرے سے باہر نکلنے کا دروازہ نہیں ہے۔ یہ انڈسٹری سے باہر جانے کا دروازہ ہے۔”
وہ اس کے برابر بیٹھا شراب پی رہا تھا اور اس کے اور زینی کے درمیان صرف ”ڈائمنڈز” تھے۔ تبریز کی آواز میں کوئی ایسی چیز تھی جس نے زینی کے رونگٹے کھڑے کر دئیے تھے۔
وہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلتے کھیلتے 99 پر آکر رک گئی تھی اور اب آگے جانا تھا۔ یا پیچھے آنا تھا، یہ اسے طے کرنا تھا۔
تبریز پاشا کے گلاس میں شراب کے چار گھونٹ تھے ۔ زندگی اور موت کے درمیان بعض دفعہ چار گھونٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔
*****