من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

تبریز پاشا نے زینی کے اپنے آفس سے نکلنے کے چند سکینڈز کے بعد ہی اس کے پیچھے اپنا چپراسی دوڑا دیا تھا۔
وہ جب دوسری بار کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے کا ماحول تبدیل ہو چکا تھا۔ تبریز پاشا اور انور حبیب اب مسکرا رہے تھے۔ ان کے انداز میں پہلے والی رعونت نہیں تھی۔ وہ فلمی لڑکی نہیں تھی، وہ اسے فلمی ہتھکنڈوں سے قابو نہیں کر سکتے تھے۔ یہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا۔
”تم کتنا معاوضہ چاہتی ہو؟” تبریز پاشا نے اس کے بیٹھتے ہی پوچھا۔
”پانچ لاکھ۔” زینی نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔ تبریز پاشا نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر وہ ہنستا ہی گیا۔ انور حبیب البتہ مسکراتا رہا۔
”تمہیں پتا ہے انڈسٹری کی سب سے ٹاپ ایکٹریس شمسہ اس وقت کتنا معاوضہ لے رہی ہے ؟تین لاکھ روپے اور اس تین لاکھ روپے کے پیچھے تیرہ سالوں کی محنت ہے۔” تبریز پاشا نے بے حد محظوظ ہوتے ہوئے جیسے اسے بتایا۔
”میں کسی محنت کا معاوضہ نہیں مانگ رہی، میں تو اس بدنامی کی قیمت کو کچھ قابل قبول بنانا چاہتی ہوں جو ایک فلمی اداکارہ کا لیبل مجھے دے گا۔”
اس کے جملے نے تبریز پاشا اور انور حبیب کے چہرے سے مسکراہٹوں کو غائب کر دیا تھا۔ پری زاد واقعی عجیب تھی۔ انہوں نے اس طرح کی بے دھڑک اور بے لحاظ باتیں کرنے والی کہاں دیکھی تھی۔
اس لیبل سے تم صرف بدنامی نہیں کماؤ گی، کروڑوں روپیہ بھی بناؤ گی۔” اس بار تبریز پاشا نے بھی کسی لحاظ کے بغیر کہا۔
”اسی لیے آپ سے صرف پانچ لاکھ مانگ رہی ہوں، پانچ کروڑ نہیں۔” اس بار انور حبیب نے قہقہہ لگایا تھا اور تبریز پاشا صرف مسکرایا تھا لیکن ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی ہوئی لڑکی ان دونوں کو بیک وقت اچھی لگی تھی۔
وہ ان عورتوں سے ملتے رہتے تھے جو میک اپ کے تمام لوازمات سے خود کو آراستہ کیے مصنوعی پلکوں اور کاجل اور آئی لائنر کی لکیروں کے ساتھ مردوں کے دلوں میں آ ترنے کی کوشش کرتی تھیں جو زبان میں کسی ”امیر مرد” کے لیے ”شیرینی” کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتی تھیں اور وہ مرد اگر پروڈیوسر یا ڈائریکٹر ہوتا تو اس شیرینی کی مقدار میں اور اضافہ ہو جاتا تھا۔
اور سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی کے لہجے میں ”مٹھاس” کے علاوہ سب کچھ تھا اور مٹھاس کیوں نہیں تھی؟ غرور کی وجہ سے یا بے نیازی کی وجہ سے؟ یہ وہ سوال تھا جس کے جواب کو جاننے میں تبریز پاشا اور انور حبیب کو دلچسپی پیدا ہو رہی تھی۔
”ٹھیک ہے، پانچ لاکھ ہی دیں گے ہم تمہیں۔ اور کچھ؟” تبریز پاشا نے مسکراتے ہوئے کہا۔




”نہیں اور کچھ نہیں۔” تبریز پاشا کا اگر یہ خیال تھا کہ وہ اور کچھ کا سنتے ہی کچھ اور فرمائشیں بھی کرے گی تو ایک بار پھر یہ خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ وہ ہیروئنز کے منہ پھاڑ کر فرمائشیں کرنے اور انہیں پوری کرنے کا عادی تھا۔
سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی اس بازار سے نہیں تھی۔ انہیں یقین آگیا اور ساتھ ہی تشویش ہوئی تھی۔ اگر اسے واقعی ڈانس نہیں آتا تھا تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ صرف اس کے لیے نہیں کسی بھی پروڈیوسر کے لیے۔ جو کلاس پاکستان میں سینما جاتی ہے، وہ صرف ہیروئن کو ناچتا دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ اس کی خوبصورتی، اس کا جسم، اس کی ایکٹنگ سب ثانوی حیثیت رکھتی تھیں اور پری زاد نے بتا دیا تھا اسے ڈانس نہیں آتا تھا۔ جس کا مطلب فلم انڈسٹری کی زبان میں تھا کہ ہیروئن ”لنگڑی” ہے۔
تبریز پاشا نے اس خدشے کا اظہار پری زاد سے نہیں کیا۔ اس کے جانے کے بعد انور حبیب سے کیا جس نے بڑی لاپروائی کے ساتھ کہا۔
”اس نے کہا ہے، وہ سیکھ لے گی تو مجھے یقین ہے وہ سیکھ لے گی۔ جو تبریز پاشا جیسے آدمی سے پانچ لاکھ لے سکتی ہے۔ وہ ڈانس بھی سیکھ سکتی ہے۔ وہ تو بہر حال آسان کام ہے۔” تبریز پاشا اس کی بات پر ہنس پڑا تھا۔
انور حبیب نے دوسرے دن سے ہی فلم انڈسٹری کے ایک نامور ڈانس ڈائریکٹر کو پری زاد کے گھر ڈانس سکھانے پر مامور کر دیا تھا۔ اگر چہ اس نے تبریز پاشا کی بات کو اس وقت لاپروائی سے نظر انداز کر دیا تھا۔ مگر وہ جانتا تھا تبریز کا اندیشہ بالکل ٹھیک تھا۔ مسئلہ صرف ڈانس کا نہیں تھا۔ اس ڈانس کا تھا جس پر سینما ہال میں بیٹھے مرد ناچتے۔ اور پری زاد اس بازار سے ہوتی تو وہ مردوں کی نبض کو جانتی۔ اب بازار سے نہیں تھی تو اس کو سب کچھ سکھانا پڑنا تھا۔
انور حبیب کو اس وقت احساس ہونے لگا تھا، وہ سب پری زاد کو اس سال کی سب سے مہنگی فلم میں کاسٹ کر کے اپنی زندگی کا سب سے بڑا رسک لے چکے تھے۔
٭٭٭
زینی کا اگر یہ خیال تھا کہ فاران سے جان چھڑانا آسان تھا تو یہ خیال اگلے چند دن میں ہی غلط ثابت ہو گیا تھا۔ اسے ایک کے بعد ایک لیگل نوٹس آنا شروع ہو گئے تھے۔
اور دو دن بعد مالک مکان نے اسے گھر خالی کرنے کا بھی نوٹس دے دیا۔ تیسرے دن ڈرائیور سمیت اس کے تینوں ملازم کام چھوڑ کر چلے گئے۔
فاران وہ سارے حربے استعمال کر رہا تھا جس سے وہ پریشرائز ہوتی اور پھر مصالحت کی کوشش کرتی۔ لیکن اسے یہ پتا نہیں تھا، وہ صحیح حربے غلط شخص پر استعمال کر رہا تھا۔ یہ زینی تھی۔ کوئی دوسری ماڈل نہیں جو فاران کے سامنے ناک رگڑنے پرمجبور ہوتی۔ اس کا ہر حربہ فاران سے اس کی نفرت میں اضافہ کر رہا تھا۔
اور اس کے بعد فاران نے آخری حربہ استعمال کیا تھا۔ اخبار میں اس کے بارے میں خبریں لگنا شروع ہو گئی تھیں۔ پری زاد کے لالچ کے بارے میں، اس کی بے ایمانی کے بارے میں، اس کے فریب کے بارے میں اخباروں میں آنے لگا کہ فاران نے کس طرح ایک لوئر مڈل کلاس لڑکی کو ایک ٹاپ ماڈل بنایا۔ اس کا کیرئیر بنانے کے لیے کس طرح اپنے دن رات ایک کر دئیے اور پری زاد چار پیسے زیادہ ملنے کی وجہ سے کس طرح اسے چھوڑ کر پاشا پروڈکشنز کی فلم کرنے لگی۔
شروع میں یہ سب کچھ ”نامعلوم ذرائع” کی ”اطلاعات” ہوتیں اور زینی تلخ مسکراہٹ کے ساتھ ان ”حقائق” کو پڑھتی۔
پھر فاران بالآخر پردے کے پیچھے سے نکل کر کھلم کھلا سامنے آگیا تھا۔
اس نے ایک پریس کانفرنس منعقد کر کے پری زاد کی ”کمینگی، لالچ، خود غرضی، گھٹیا پن، کم ظرفی، اور احسان فراموشی” کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر حتی المقدور رکیک الزامات لگائے۔ اس کی شراب نوشی کی تفصیلات دیں۔ اسے منشیات کا عادی قرار دیا۔ بہت سے مردوں کے ساتھ اس کے تعلقات کے حوالے سے اس پر الزامات لگائے، یہاں تک کہ اس پر شوٹ کے دوران اپنی رقم اور شوٹ کے لیے استعمال ہونے والی جیولری کی چوری تک کے الزامات لگائے۔
زینی نے اگلے دن اخبارات میں اس پریس کانفرس کی تفصیلات کو بے حد دلچسپی سے پڑھا۔ اسے کسی ایک بات، ایک جھوٹ، ایک الزام پر غصہ نہیں آیا تھا۔
وہ شیراز نہیں تھا جس کی زبان سے نکلنے والے لفظ اسے مار دیتے۔ وہ اس کے لیے ”کوئی آدمی” تھا اسے دلچسپی نہیں تھی، اس آدمی کے منہ سے نکلنے والے الزامات سن کر اور پڑھ کر دنیا اسے کیا سمجھتی تھی۔
مگر اس پریس کانفرنس کی تفصیلات پڑھنے کے کچھ دیر بعد ہی تبریز پاشا نے اسے فون کیا تھا۔ وہ پچھلے کچھ دن میں اخبار میں آنے والے اسکینڈل کے بارے میں تمام خبریں پڑھ رہا تھا اور وہ پری زاد کے شوبز میں امیج کے حوالے سے بہت زیادہ تحفظات رکھتا تھا۔ اس لیے وہ پری زاد سے اس سارے مسئلے کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
اس نے پندرہ منٹ زینی کی بات سنی اس کے بعد اس سے کہا کہ وہ اس کے لیے فوری طور پر گھر کا انتظام کر رہا ہے وہ فاران کا دلوایا ہوا گھر چھوڑ دے۔
اس نے زینی کو وہ سارے لیگل نوٹس بھی ڈرائیور کے ہاتھ اسے بھجوا دینے کے بارے میں کہا تھا، جو فاران نے اسے بھجوائے تھے۔
شام کو زینی ڈیفنس کے علاقے میں ہی ایک نئے بنگلے میں منتقل ہو چکی تھی اور وہ اب بے حد ریلیکس ہو گئی تھی۔ تبریز پاشا فوری طور پر اس کے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا۔
اگلی صبح کے اخبار میں اس کے اسکینڈل کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ یہ زینی کے لیے ناقابل یقین بات تھی۔ وہ اگلے دو تین دن اخباروں کا ڈھیر لے کر بیٹھی رہی۔ کسی اخبار میں اس کے حوالے سے کوئی منفی خبر نہیں تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ تبریز پاشا اپنی فلم کی ہیروئن کو فلم آنے سے پہلے ہی تباہ ہونے دیتا۔ اسے صرف چند ڈوریاں ہلانا پڑی تھیں۔ اور ا خباروں نے فاران کی باتیں شائع کرنا بند کر دی تھیں۔ فاران یک دم جیسے کہیں غائب ہو گیا تھا۔ تبریز پاشا نے اس مسئلے کو کیسے حل کیا یا فاران کے ساتھ کیا Settlement کی، زینی اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ لیکن یہ ضروری ہوا تھا کہ اب پہلے کی طرح اس کو جو Crank calls آنے لگی تھیں، ان کا سلسلہ یک دم بند ہو گیا تھا اور فاران نے اس سے دوبارہ کبھی رابطے کی کوشش نہیں کی۔
وہ سیڑھی کے دوسرے ڈنڈے پر چڑھ آئی تھی اور فاران نام کا باب اس کی زندگی سے نکل گیا تھا۔
٭٭٭
”انہوں نے مجھ سے صاف صاف کہہ دیا امی کہ انہوں نے مجھے نہیں رکھنا، مجھے طلاق چاہیے تو وہ مجھے بھجوا سکتے ہیں یا پھر میں ان کے نام پر بیٹھی رہوں، لیکن دوبارہ اپنے گھر لے کر نہیں جائیں گے وہ۔”
زہرہ نے سسکتے ہوئے نفیسہ اور ربیعہ کو بتایا تھا۔ وہ آج اپنی چھوٹی بیٹی کو لے کر نعیم کی دوکان پر گئی تھی۔ مگر نعیم نے ہر طرح کا لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے گالیوں کے ساتھ اس کی بے عزتی کی۔
”تم اس سے کہتیں کہ وہ تمہارا نہ سہی، بچوں کا ہی کچھ خرچ اٹھا لے۔” نفیسہ نے بیٹی کو روتے دیکھ کر رنجیدگی سے کہا۔
”امی! وہ کچھ نہیں دیں گے مجھے، وہ مجھے دیکھ کر اتنا آگ بگولہ ہو رہے تھے تو پیسے مانگنے پر تو۔۔۔۔” زہرہ بات ادھوری چھوڑ کر رونے لگی۔
”میری بچیوں کا تو کسی کو بھی خیال نہیں ہے۔ نہ ان کے باپ کو، نہ آپ کو۔” زہرہ نے ماں سے گلہ کیا۔
”میں نے کیا کیا زہرہ؟” نفیسہ کو جیسے دکھ ہوا۔
”زینی بار بار پیسے بھیج رہی ہے۔ اور آپ بار بار اس کے پیسے واپس کر دیتی ہیں۔ کتنے مسئلے حل کر سکتے ہیں وہ پیسے ہمارے۔” زہرہ نے بالآخر آج اپنے دل کی بات کہہ دی۔
”اس کا نام مت لیں آپا! اس کے اسی پیسے کی وجہ سے ابو کی جان گئی اور آ پ چاہتی ہیں کہ اب ہم وہی پیسہ استعمال کرنے لگیں۔” ربیعہ نے تڑپ کر نفیسہ کے کچھ کہنے سے پہلے زہرہ سے کہا تھا۔
”جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ کتنی دیر یہی سب کچھ لے کر بیٹھی رہو گی تم۔ آخر بہن ہے وہ ہماری۔ ہماری مدد کرنا چاہتی ہے تو کیا غلط کرنا چاہتی ہے۔”
زہرہ نے ربیعہ کی بات کاٹ کر کہا۔
”حرام کے پیسے سے مدد۔۔۔۔”
زہرہ نے ایک بار پھر اسی طرح سسکتے ہوئے اس کی بات کاٹ دی۔
”چھوڑ دو یہ حرام حلال کی تکرار… پیسہ صرف پیسہ ہوتا ہے۔ کوئی حرام حلال نہیں ہوتا۔ آج ہمارے پاس پیسے ہوتے تو بھرے بازار میں نعیم میری بے عزتی کرتے؟ ٹھیک کیا زینی نے جو کیا۔ عیش تو کر رہی ہے نا۔ آرام سے گھر میں تو بیٹھی ہے نا۔ ہماری طرح چند روپوں کے لیے دھکے کھاتی تو نہیں پھر رہی۔”
زہرہ روتے ہوئے اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی تھی۔ ربیعہ اور نفیسہ جیسے ساکت وصامت صحن میں بیٹھی رہیں۔
زہرہ میں آنے والی تبدیلی اچانک نہیں تھی۔ وہ پچھلے چند دنوں سے بار بار زینی کا ذکر چھیڑتی تھی۔ لیکن ان دونوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنے کھلے لفظوں میں زینی کی حمایت کرے گی۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!