من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

وہ (aisle) سیٹ پر بیٹھے اس مسافر کے پیروں کے پاس پڑے بیگ کی اسٹریپ سے الجھ کر گرتے گرتے بچا تھا۔ اگر سیٹ کی پشت کا سہارا نہ ملتا تو وہ صرف لڑکھڑاتا نہیں، بلکہ منہ کے بل گرتا لیکن شوکت زمان اس سے معذرت کرنے کے بجائے یک دم طیش میں اٹھ کر اس پر برسنے لگا۔
”اندھوں کی طرح چلتے ہیں، یوں جیسے جہاز پر نہیں ٹرین پر چل رہے ہوں، اسی لیے پی آئی اے پر سفر کرنا چھوڑ دیا میں نے۔ ایک سے ایک اجڈ، گنوار، جاہل سفر کر رہا ہوتا ہے اس پر۔”
شوکت زمان نے ان تین جملوں سے پہلے اسے کم از کم ستر گالیاں دی تھیں۔ ارد گرد بیٹھے باقی پسنجر بے زاری کے عالم میں شوکت زمان کو دھاڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ صرف وہ تھا جو ہکا بکا شوکت زمان کی شکل دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، اس نے ایسا کیا کیا ہے جس پر اس نے یوں گالیاں بکنا شروع کر دیں۔
اگلے چند منٹوں میں ایر ہوسٹس بیچ بچاؤ کی نیت سے وہاں پہنچ گئی۔ یہ اور بات تھی کہ وہاں بیچ بچاؤ والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ جھگڑا مکمل طور پر یک طرفہ تھا۔ صرف شوکت زمان تھا جو بول رہا تھا۔
”کیا ہوا؟” ایر ہوسٹس کے استفسار پر شوکت زمان نے اپنے گالیوں کے ذخیرے سے کچھ مزید گالیاں پیش کرتے ہوئے بے حد مختصر الفاظ میں اسے اس کی جرأت کے بارے میں بتایا۔ وہ ابھی بھی اسی طرح حیرت سے شوکت زمان کو دیکھ رہا تھا۔
”آپ نے اپنا بیگ اوپر کمپارٹمنٹ میں کیوں نہیں رکھا۔ نیچے کیوں رکھا؟” ایر ہوسٹس نے قدرے ترشی سے شوکت زمان سے کہا۔
”کیوں، میں نے کرایہ نہیں دیا کیا؟ جہاں مرضی رکھوں میں اپنا بیگ۔” شوکت زمان نے تلخی سے کہا۔
”آپ کے بیگ کے اسٹریپ سے کوئی اور مسافر بھی الجھ کر گر سکتا ہے۔”
”تو میں کیا کروں؟”
”آپ یہ کریں کہ اپنا بیگ اٹھائیں اور اسے اپنے کمپارٹمنٹ میں رکھیں سر!” ایر ہوسٹس نے تحمل سے کہا۔




”ورنہ تم کیا کرو گی؟ مجھے جہاز سے باہر نکال دو گی یا پھر میرا بیگ باہر پھینک دو گی؟” شوکت زمان نے اسی انداز میں کہا۔ اس وقت اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ شراب کے نشے میں تھا۔ شوکت زمان اور ایر ہوسٹس کو اسی طرح آپس میں الجھتا چھوڑ کر وہ اپنی سیٹ کی طرف آگیا۔ وہ اس وقت جس ذہنی کیفیت میں تھا، اس حالت میں وہ کسی کے ساتھ الجھنے کے قابل نہیں تھا اور وہ اس ذہنی کیفیت میں نہ بھی ہوتا تو بھی کسی کے ساتھ جھگڑا وہ آخری کام تھا جو وہ کرتا۔
وہ چپ چاپ آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہ اس وقت صابر قیوم کے بارے میں سوچے، اپنے بارے میں یا چند منٹ پہلے بغیر کسی وجہ کے گالیاں دینے والے اس مسافر کے بارے میں۔ وہ ذہنی طور پر اتنا ہی اپ سیٹ تھا۔ ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے اس سے کچھ کہا تھا مگر وہ سمجھ نہیں سکا تھا۔
اپنی سیٹ کو نیچے کرتے ہوئے اس نے کچھ دیر کے لیے سونا بہتر جانا مگر آنکھیں بند کرتے ہی اسے احساس ہو گیا… کہ نیند کی کوشش بے کار ہے۔ وہ سو نہیں سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں خیالات کا ہجوم تھا۔
نیویارک میں رہتے رہتے بعض دفعہ اسے لگتا تھا، وہ پاگل ہونے والا ہے یا شاید ہو رہا تھا۔ وہاں کی خاموشی اذیت ناک تھی، وہاں کا شور ہول ناک۔ بعض دفعہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ وہاں کیوں اور کس طرح جی رہا ہے پھر اسے یاد آتا ان سب لوگوں کے لیے جو پیچھے پاکستان میں بیٹھے ہوئے اس کے بھیجے جانے والے ”ڈالر” کا انتظار کرتے تھے۔
وہ اپنے لیے کبھی بھی نہیں جیا تھا۔ وہ اب بھی اپنے لیے نہیں جی رہا تھا۔ فضل دین کے فلیٹ کے اس کمرے میں رہنے والا ہر بندہ اسی کی طرح کی لولی لنگڑی زندگی لیے ہوئے تھا۔ وہ ایک دوسرے سے بات کرنے پر آتے تو گھنٹوں بولتے رہتے۔ خاموشی کا وقفہ آتا تو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے گھنٹوں ایک لفظ کا تبادلہ کیے بغیر ہر ایک اپنا کام کرتا رہتا۔ کسی بات پر ہنسنے پر آتے تو بغیر وجہ کے کتنی ہی دیر ہنسے جاتے اور لڑنے پر آتے تو ایک دوسرے کو جیسے جان سے ہی مار دینا چاہتے۔
وہ سب جیسے پتھر کے دور میں واپس چلے گئے تھے۔ survival of the fittest۔
(بقا) والی ماڈرن تہذیب میں رہتے ہوئے۔
وہ امریکہ میں رہ رہے تھے۔
land of the opportunity
میں، جہاں بے شمار مواقع تھے اور ان کو ملنے والا موقع صرف وہ ایک ڈالر کا نوٹ تھا جو ان کے اپنے ملک میں جا کر مٹھی بھر نوٹوں میں تبدیل ہو جاتا تھا اور اس مٹھی بھر نوٹوں سے وہ اپنے خاندان کے لے آسائشیں خرید رہے تھے۔ ہر روز ہر اضافی کمایا جانے والا ڈالر پیچھے پاکستان میں لائف اسٹائل کو مزید تبدیل کر رہا تھا۔ مطالبات میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ ہوس اور خواہش کو اور بڑھا رہا تھا۔
اپنے گھر والوں کے لیے ”جنتیں” بنانے کی خواہش میں وہ سب ”دوزخ” میں آبیٹھے تھے۔ روز رات کو اپنی اپنی شفٹ ختم کر کے اس کمرے میں ہر کوئی پورا دن یا رات کمائے جانے والے اپنے اپنے ڈالرز اور سینٹ گن رہا ہوتا۔
ان میں سے کوئی بھی ان کو ڈالرز میں نہیں گنتا تھا۔ ہر ایک روپے میں گن رہا ہوتا تھا۔ اب 45 روپے، 235روپے، 3040روپے، 7727روپے۔
”آج دو سو روپے زیادہ کمائے ہیں۔”
”آج کل سے پانچ سو روپیہ کم کمایا ہے۔”
کوئی نہ کوئی گننے کے بعد خوشی میں یا مایوسی سے اعلان کرتا۔
وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر یہی کچھ کر رہا ہوتا تھا۔
بہن کی شادی… بھائی کی فیس… مکان کا کرایہ… مہینے کا خرچ… پلاٹ کی قسط… علاج کے اخراجات… گاڑی کی قسط… مکان کی مرمت کا خرچا… گھر میں اے سی لگوانے کے پیسے… باتھ روم میں ٹائلز لگوانے کی رقم… گھر میں ماربل لگانے کے اخراجات… بچے کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروانے کے اخراجات… بہن کے جہیز کے سامان کی تیاری اور خریداری… بیوی کے زیورات کے لیے رقم… قرضے کی رقم کی واپسی کے لیے پیسے… بھائی کے کاروبار شروع کرنے کے لیے رقم… بہن کے بچے کی پیدائش پر تحائف کے لیے رقم… گھر کے نئے فرینچر کی قیمت… گھر میں کار پٹ ڈلوانے کے پیسے… پاکستان کا چکر لگانے کے لیے ٹکٹ اور تحائف خریدنے کے لیے رقم…
وہاں ہر مہینے ہر کوئی کسی نہ کسی چیز کے لیے رقم جوڑ رہا ہوتا۔ اگلا مہینہ آتا اور ایک نیا خرچہ آجاتا۔ پاکستان جیسے ان سب کے لیے ایک اندھا کنواں بن گیا تھا، جس میں وہ جو کچھ کماتے، جو کچھ بناتے، ڈال آتے۔
واحد عیاشی جو وہ کرتے تھے، وہ ویک اینڈ پر نیو یارک کی کسی سڑک پر کھڑی سب سے سستی hooker کے ساتھ چند گھنٹے گزارنا تھا یا اگر ہفتے میں کچھ زیادہ بچت ہو جاتی تو اس کے ساتھ پوری رات گزارتے اور وہ اس چیز کے لیے ضمیر کے کسی بوجھ، کسی ملامت، کسی شرم، کسی ندامت کا شکار نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی اس کمرے میں موجود مرد ایک دوسرے کو اس کے لیے لعن طعن کرتے تھے۔ land of the opportunity میں یہ محبت کی تلاش کی کوشش تھی یا صرف ضرورت کی تکمیل۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
وہ اس کمرے کا واحد مرد تھا جو ویک اینڈ کسی hookerکے ساتھ نہیں گزارتا تھا۔ اس کی چھبیس سال کی زندگی میں کوئی عورت نہیں آئی تھی۔ اس عورت کے سوا جو اس کی منگیتر تھی اور ویک اینڈ پر وہ سب سے پہلے اسے کال کرتا تھا۔
دس منٹ کی کال میں آٹھ منٹ صرف وہ بولتی ۔پہلے اس کا حال پوچھتی پھر اس کی سرگرمیاں… پھر پوچھتی کہ اس نے اس دن کیا کھایا ہے۔
پھر اس سے پہلا شکوہ کرتی پھر دوسرا پھر تیسرا پھر چوتھا پھر روتی رہتی اور غصے میں بولتی رہتی۔
تب تک آٹھ منٹ ہو چکے ہوتے اور وہ بے حد چپ چاپ افسردگی کے ساتھ اس کی ساری باتیں سنتا۔ اس کا کوئی گلہ غلط نہیں تھا، اس کی کوئی شکایت جھوٹی نہیں تھی لیکن اس کے پاس اس کے کسی مسئلے کا فی الحال کوئی فوری حل نہیں تھا۔ آخری ڈیڑھ منٹ میں وہ اس سے ایک بار پھر اپنی محبت کا اظہار کرتا۔ اس سے پوچھتا کہ اسے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں تھی پھر اس سے وہی جھوٹا وعدہ دہراتا جو وہ ہمیشہ سے دہراتا آرہا تھا۔
”انشاء اللہ، اگلے ماہ آنے کی کوشش کروں گا۔”
وہ پچھلے چھ سال سے اس سے یہی وعدہ کر رہا تھا اس کی منگیتر کو پتہ تھا کہ وہ وعدہ نہیں تھا، وہ خواہش تھی۔
وہ روتے ہوئے اسے خدا حافظ کہتی۔ اپنا خیال رکھنے کے لیے کہتی۔ وہ بھی یہی کہتا۔ تب تک کال ختم ہو جاتی۔ وہ پورا ہفتہ ان باتوں کو دن میں کئی کئی بار اپنے ذہن میں دہراتا۔ اس کی آواز کو بار بار اپنے تصور میں لانے کی کوشش کرتا۔
اگلا ویک اینڈ آنے تک وہ سب باتیں اسے ذہن نشین ہو چکی ہوتیں۔
وہ اس سے شدید محبت کرتا تھا، اس میں تو اسے کوئی شبہ کبھی رہا ہی نہیں تھا۔ وہاں اس کمرے میں رہنے والے اکثر مرد اپنی بیویوں اور منگیتروں کے ساتھ اسی طرح کی شدید محبت کا شکار ہوتے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان سب کی زندگیوں میں کوئی دوسری عورت شامل رہتی یا آتی جاتی رہتی۔
اس کی زندگی میں یہ محبت نہ بھی ہوتی، تب بھی کسی عورت کو خرید کر اس کے ساتھ وقت گزارنے کا وہ کبھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ وہ اپنی ماں، بہنوں اور منگیتر سب سے بے حد محبت کرتا تھا۔ سب کی بے پناہ عزت کرتا تھا۔ سب کا بے تحاشا خیال رکھتا تھا مگر وہ عورت کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا تھا۔ لاس ویگاس کے ایک سال نے عورت کے اس بت کو اس کی نظروں میں بری طرح مسخ کر دیا تھا جس بت کو وہ بچپن سے اپنی سوسائٹی میں دیکھتا آرہا تھا، پیسے کے لیے ”کچھ بھی” کرنے والی عورت سے وہ امریکہ آکر ہی متعارف ہوا تھا اور یہ تعارف اس کے لیے جیسے اس کی زندگی کا سب سے بڑا شاک تھا۔
اس نے مغربی عورت کے بارے میں وہاں آنے سے پہلے بھی بہت کچھ سنا تھا مگر وہ سب کچھ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
اور پھر آہستہ آہستہ وہاں رہتے ہوئے اسے احساس ہونے لگا تھا کہ صرف مغربی عورت نہیں، کچھ عورتیں پیسے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ اس میں مشرق یا مغرب کی تخصیص نہیں تھی اور پھر کئی بار وہ ”کچھ عورتوں” پر اٹکنے لگا۔ کچھ عورتیں،یا عورتیں؟ یا ”عورت”
اس کی الجھن دن رات بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر خبر، ہر واقعہ، ہر حادثہ اسے مزید الجھا رہا تھا۔ وہ ماں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں میں استعمال ہونے والے مردوں سے مل رہا تھا۔ انہیں دیکھ رہا تھا۔ ہر مرد وہاں صرف ایک ہی نتیجہ اخذ کیے بیٹھا تھا۔
”عورت کو مرد میں نہیں، اس کی جیب سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اس سے اس کا رشتہ چاہے کوئی بھی ہو۔”
وہ گونگوں کی طرح بیٹھ کر یہ نتیجے سنتا رہتا پھر ویک اینڈ پر اپنی ماں، بہن اور منگیتر کے لہجے میں لالچ کھوجتا رہتا۔ کبھی وہ ناکام رہتا تو خوش ہوتا اور جب ڈھونڈ لیتا تو مایوس ہوتا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!