”مجھے کیا پتا، کون سا لڑکا ہے وہ؟ یہ آپ جا کر اپنی بھانجی سے پوچھیں کہ کس سے گلی میں کھڑے ہو کر رقعے وصول کرتی پھر رہی ہے وہ۔”
شیراز نے طیش میں آکر وہ خط دور پھینکتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی گھر پہنچا تھا اور اس نے گھر آتے ہی وہ رقعہ پڑھ کر نسیم کو سنا دیا تھا۔ نسیم ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔
”مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا شیراز۔”
”کہہ دیں ، میں جھوٹا ہوں۔ اپنے پاس سے گھڑ کر سب کچھ بتا رہا ہوں۔” وہ بھڑکا۔
”نہیں، نہیں میں نے یہ کب کہا ہے؟” نسیم گھبرائیں۔
”نہیں نہیں۔ کہہ دیں آپ یہ بھی، آپ کی وجہ سے ہی یہ مصیبت میرے گلے پڑی ہے۔”
”میں اسے کیا سمجھتی تھی اور یہ کیا نکلی۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ کوئی بات ہو، تب ہی لڑکے پیچھے آتے ہیں، یونہی راہ چلتے کوئی رقعہ نہیں پکڑا دیتا۔”
نسیم نے بالآخر جیسے شیراز کی بات پر یقین کرتے ہوئے کہا۔
”اور رقعہ میں باقاعدہ اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ رشتہ بھیجنے کی بات لکھی ہوئی تھی۔ میرا تو خون کھول رہا ہے یہ سوچ سوچ کر کہ وہ مجھے بے وقوف بناتی رہی۔ آج میں نے یہ سب کچھ دیکھا ہے۔ اور گلی میں پتا نہیں کون کون یہ سب کچھ دیکھتاہو گا۔ لوگ کیا سوچتے ہوں گے۔ کیا باتیں کرتے ہوں گے۔ یہ محلے میں رہنے والی لڑکیاں یہی سب کچھ کرتی پھرتی ہیں۔ آپ کو اب پتا چل گیا ہو گا کہ میں کیوں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پتہ نہیں میرے علاوہ اور کتنے لڑکوں کے ساتھ چکر چلا رہی ہو گی۔”
شیراز کے منہ میں جو آرہا تھا، وہ بولتا جا رہا تھا۔ غصے میں تو خیر وہ تھا، لیکن اس غصے کے ساتھ ساتھ اس وقت اسے واقعی بے حد ہتک اور توہین کا احساس ہو رہا تھا۔ آخر اس کی منگیتر گلی میں کھڑی کسی لڑکے سے خط لیتی پکڑی گئی تھی۔ شیراز نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور جو کچھ وہ فرضی طور پر تصور کرتے ہوئے اپنے ذہن میں دیکھ رہا تھا۔ ان دونوں میں بہت فرق تھا۔ وہ اس وقت اپنی آنکھوں سے دیکھے جانے والے منظر پر بھروسا کرنے کے بجائے اپنے ذہن کی آنکھ سے دیکھے جانے والے منظر پر اعتبار کررہا تھا۔
”تم فکر مت کرو۔ میں ابھی اور اسی وقت ان کی چیزیں ان کے منہ پر مار کر آتی ہوں۔” نسیم نے بیٹے کو تسلی دی۔
”صرف منگنی کا سامان نہیں، یہ سب کچھ بھی لے جائیں۔” شیراز نے غصے سے کہا اور کمرے میں موجود الماری کھول کر اس کے اندر موجود ساری چیزیں باہر پھینکنے لگا جو زینی اسے وقتاً فوقتاً دیتی رہی تھی۔
”خالہ آئی ہیں باہر دروازے پر۔” تب ہی نزہت نے تیزی سے اندر آکر اطلاع دی۔ شیراز اور نسیم نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر شیراز نے کہا۔
”میں سامنا نہیں کر رہا ان کا۔ میرا پوچھیں تو بتا دیں کہ میں گھرپر نہیں ہوں۔”
”تم منگنی کی چیزیں باہر لے کرآؤ۔” نسیم نے نزہت سے کہا اور خود باہر نکل گئیں۔ دروازے پر نفیسہ بے حد پریشان سی کھڑی تھیں۔ نسیم کے دروازہ کھولتے ہی وہ اندر آگئیں۔
”تم اگر ہمارے طرف نہ آتیں تو میں خود تمہاری طرف آنے والی تھی۔ یہ تمہاری بیٹی کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے؟” نسیم نے چھوٹتے ہی کہا۔
”آپا! زینی کا کوئی قصور نہیں۔ وہ لڑکا بہت عرصے سے اسے تنگ کر رہا تھا۔” نفیسہ نے بے حد لجاجت سے کہا۔
”ہماری بیٹیوں کو تو کوئی تنگ نہیں کرتا یوں آتے جاتے۔” نسیم نے دو بدو کہا۔
”وہ کالج آتی جاتی ہے آپا۔ رستے میں سوبرے لڑکے ہوتے ہیں۔”
”برے لڑکے شادی کی دعوت نہیں دیتے پھرتے۔” نسیم نے ان کی بات کاٹی۔
”شادی کی دعوت؟” نفیسہ بے اختیار چونکیں۔
”یہ تم اپنی بیٹی سے جا کر پوچھو۔ شیراز نے خود رقعہ پڑھ کر سنایا ہے مجھے۔ اس لڑکے نے تمہارے گھر رشتہ بھیجنے کے بارے میں پوچھا ہے۔”
”اللہ نہ کرے آپا! ہم ایسے کسی لڑکے کے ماں باپ کو اپنے گھر بلوائیں۔ آپ شیراز کو بلائیں۔ میں خود معذرت کر لیتی ہوں اس سے۔”
”کوئی ضرورت نہیں ہے معافی کی۔ نزہت! منگنی کا سامان لے آؤ۔ ہمیں تمہاری بیٹی کو نہیں بیاہنا۔” نسیم نے بلند آواز میں نزہت کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
”آپا! آپ کیا کہہ رہی ہیں اتنی چھوٹی سی بات پر منگنی توڑ رہی ہیں؟” نفیسہ کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمیں نکل گئی تھی۔
”تمہارے لیے جو چھوٹی بات ہے۔ وہ ہمارے جیسے عزت داروں کے لیے بہت بڑی بات ہے ۔ میرا بیٹا افسر ہے۔ دنیا اسے سلامیں کرتی پھرے، اور تمہاری بیٹی اس کی عزت کو گلی محلوں کے لڑکوں کے ساتھ اچھالتی پھرے۔” نزہت تب تک ایک تھیلے میں منگنی کا سامان لے کر باہر آگئی تھی۔ نفیسہ بے اختیار رونے لگیں۔
”آپا! یہ ظلم نہ کریں۔ میں ہاتھ جوڑ کر زینی کی طرف سے معافی مانگتی ہوں۔ آپ کہیں گی تو میں زینی کو بھی لے آتی ہوں۔ وہ آپ کے اور شیراز کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لے گی۔”
”یہ سب پہلے سوچنا تھا اب کوئی فائدہ نہیں۔ شیراز اس سے شادی پر تیار نہیں ہے۔ا ور شیراز کیا، کوئی بھی عزت دار آدمی ایسی لڑکی کے ساتھ رشتہ کیوں جوڑے گا۔”
”آپا! صرف ایک موقع دے دیں۔ میں زینی کو گھر بٹھا لوں گی۔ وہ کالج توکیا کہیں نہیں جائے گی۔ جو آپ لوگ کہیں وہی کرے گی لیکن یہ منگنی نہ توڑیں۔ میری زینی مر جائے گی۔”
”وہ محلے کے لڑکوں کے ساتھ چکر چلاتے ہوئے تو مری نہیں اور اس منگنی کے ٹوٹنے پر مر جائے گی۔ اتنی باحیا ہوتی تو وہ اس لڑکے سے رقعہ لیتے ہوئے مر جاتی۔”
یہ نزہت تھی جس نے بے حد ہتک آمیز انداز میں وہ سامان باہر چار پائی پر لا کر پھینکا تھا۔
٭٭٭
”کچھ بھی نہیں ہو گا زینی! تم خوا مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ شیراز بھائی تھوڑا بہت ناراض ہو ں گے پھر ٹھیک ہو جائیں گے۔” نفیسہ کے جانے کے بعد ربیعہ نے زینی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”تھوڑا بہت ناراض بھی کیوں ہو میرے ساتھ۔ میرا تو بالکل بھی قصور نہیں ہے ربیعہ! ” اس نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ ”پہلے ہی اتنے ہفتوں کے بعد میرا اور ان کا آمنا سامنا ہوا تھا اور وہ بھی اس طرح… وہ کیا سوچتے ہوں گے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔”
”کیا کر رہی ہو؟ کچھ نہیں کر رہیں۔ اب اتنی لمبی منگنی کے بعد یہ تو جان ہی گئے ہوں گے شیراز بھائی کہ تم کیسی لڑکی ہو، پھر تم کیوں ڈر رہی ہو۔ یہ سوچ سوچ کر کہ وہ تم پر شک کریں گے۔”
”تم ٹھیک کہہ رہی ہو مگر مجھے پھر بھی ان کے غصے سے بہت ڈر لگتا ہے۔”
اس سے پہلے کہ ربیعہ کچھ کہتی دروازے پر دستک ہوئی۔
”لگتا ہے امی آگئیں۔” ربیعہ نے کہا اور جلدی سے اٹھ کر صحن کے بیرونی دروازے کی طرف لپکی۔
دروازے پر واقعی نفیسہ ہی تھیں مگر ان کے چہرے کے تاثرات اور ہاتھ میں پکڑے تھیلے نے زینی کو بھی اٹھ کرنفیسہ کی طرف آنے پر مجبور کر دیا۔
”کیا ہوا امی؟” ربیعہ نے روتی ہوئی نفیسہ سے بے حد پریشان ہو کر پوچھا۔
زینی کی چھٹی حس اسے جیسے کسی خطرے سے آگاہ کر رہی تھی۔ اس کی نظریں نفیسہ کے چہرے پر نہیں، ان کے ہاتھ میں پکڑے تھیلے پر تھیں۔ وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ اس میں کیا ہو سکتا تھا۔ اور اس چیز کا خیال بھی اس کے لیے سوہان روح تھا۔
”انہوں نے منگنی توڑ دی۔” نفیسہ روتے ہوئے صحن کے تخت پر بیٹھ گئیں۔ زینی کو لگا کسی نے اس کی شاہ رگ پر یک دم پاؤں رکھ دیا۔ ربیعہ بھی اسی طرح ہکابکا کھڑی رہ گئی تھی۔
ایک لفظ کہے بغیر زینی پاگلوں کی طرح بیرونی دروازے کی طرف لپکی۔ ربیعہ نے یک دم آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیا۔
”تم کہاں جا رہی ہو؟”
”میں شیراز کے پاس جارہی ہوں۔ میں خود ان سے بات کروں گی۔” نفیسہ تیزی سے اٹھ کر اس کے پاس آئیں۔
”شیراز گھر پر نہیں ہے۔ صرف اس کی ماں اور بہنیں ہیں۔ تم کیا بات کرو گی ان سے جا کر؟”
”میں پوچھوں گی ان سے، وہ کس طرح میرا اور شیراز کا رشتہ ختم کر سکتی ہیں۔ میں بتاؤں گی انہیں سب کچھ۔” زینی نے بے حد بے چارگی کے عالم میں کہا۔
”وہ کچھ سننے پر تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے میری بہت بے عزتی کی ہے۔ مجھ سے کیا کیا کہا ہے۔ وہ میں اپنی زبان پر بھی لا نہیں سکتی۔”
”شیراز کو کچھ پتہ نہیں ہوگا ان سب چیزوں کے بارے میں۔ ورنہ وہ یہ سب کبھی نہ ہونے دیتے۔ یہ سب ان کی ماں اور بہنوں نے کروایا ہے۔ میں خود بات کرتی ہوں جا کر۔ میرے راستے سے ہٹو ربیعہ۔”
”تمہارے ابو شام کو آئیں گے تو وہی ان سے بات کریں گے۔ تمہارے جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔”
نفیسہ نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ رکی نہیں۔ ربیعہ کو تقریباً دھکا دیتے ہوئے وہ تیزی سے صحن کے دروازے سے باہر آگئی۔
تیز قدموں سے تقریباً بھاگنے والے انداز میں اس نے اپنے گھر سے شیراز کے گھر کا فاصلہ طے کیا۔ دروازہ بند تھا۔ زینی نے دروازے کو پوری قوت سے بجایا۔ یہ دروازہ ساری زندگی اس پر بند نہیں ہوا تھا پھر آج کیسے ہو سکتا تھا۔
اندر صحن میں کھڑا شیراز، نسیم اور نزہت وغیرہ یک دم چونک گئی تھیں۔
”خالہ! دروازہ کھولیں۔” اس سے پہلے کہ شیراز دروازے کی طرف جاتا، باہر سے زینی کی آواز آئی۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ٹھٹک گیا۔
”دروازہ کھولنے اور اس سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے کہہ دیں کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔” شیراز نے مدھم آواز میں تیزی سے کہا۔ نسیم سر ہلاتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔
”کیا کام ہے تمہیں؟” نسیم نے دروازے کے قریب جا کر اسے کھولے بغیر اندر سے… سخت لہجے میں پوچھا۔
”مجھے آپ سے بات کرنا ہے۔” زینی کے انداز میں لجاجت تھی۔
”جو بات کرنا تھی، تمہاری ماں سے کر لی میں نے۔ کچھ اور کہنا یا سننا ہو تو اپنے باپ کو بھیج دینا مگر تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔” نسیم نے تیز اور بلند آواز میں کہا۔