سعید نواز نے بات ختم کرتے ہوئے یوں سرسری انداز میں اس سے پوچھا جیسے انہیں کسی اعتراض کی قطعاً توقع نہ ہو مگر وہ پھر بھی سرسری طور پر پوچھ رہے ہوں۔
”میں بہت خوش قسمت ہوں سر! کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔ ” شیراز نے بمشکل اپنے حواس بحال کرتے ہوئے کہا۔
”تمہارے والدین یا تمہاری کہیں اور پسندیدگی یا کوئی منگنی وغیرہ…؟” سعید نواز نے اسی سرسری انداز میں پوچھتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑا اور نیا سگار سلگانے لگے۔ انہوں نے شیراز سے توجہ ہٹا کر جیسے اسے جھوٹ بولنے کے لیے موقع فراہم کیا۔
No, no, no, sir.” ایسی کوئی بات نہیں ہے” شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”That’s good” سعید نواز نے مسکراتے ہوئے شیراز کودیکھا۔ ”اوکے پھر تم اپنے پیرنٹس سے بات کرو۔ میں چاہتا ہوں بات آگے بڑھے۔”
سعید نواز نے اس کے لیے سب سے مشکل مرحلہ طے کرنے کا اشارہ دیا۔
٭٭٭
اکبر اور نسیم بے حد ہکا بکا انداز میں شیراز کا منہ دیکھ رہے تھے۔ وہ سعید نواز سے بات ہونے کے اگلے ہی ویک اینڈ پر گھر آیا تھا اور بلا تکلف اور توقف اس نے اکبر اور نسیم سے زینب کے ساتھ اپنی منگنی کے بارے میں ناپسندیدگی کااظہار کیا تھا۔
”مگر بیٹا! یہ رشتہ تو تمہاری پسند اور اصرار پر ہوا تھا۔” نسیم نے جیسے اسے یاد دلایا۔ وہ بے حد پریشان ہو گئی تھیں۔
”بے وقوفی اور حماقت تھی وہ میری آپ لوگوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش تک نہیں کی۔” شیراز نے بے حد جھّلا کر کہا۔
”آخر آپ خود بتائیں۔ میرا اور زینی کا کوئی جوڑ بنتا ہے؟ کس لحاظ سے وہ میرے ہم پلہ ہے؟” شیراز نے اپنی معمولی شکل وصورت کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ”پہلے میٹرریڈر باپ کی وجہ سے مسئلوں کا سامنا کرتا رہا۔ اب کلرک سسر کی وجہ سے اپنی مصیبتوں میں اضافہ کر لوں۔”
اکبر کاچہرہ اس کے جملے پرسرخ ہو گیا تھا۔ پتہ نہیں یہ خفت کا احساس تھا یا ہتک کا۔
”لیکن بیٹا! اتنے سال پرانی منگنی توڑنا آسان بات نہیں… خاندان والے کیا کہیں گے۔” نسیم نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”جہنم میں جائیں خاندان والے۔ ان دو ٹکے کے لوگوں کو میں اہمیت نہیں دیتا۔” شیراز نے خودسری سے کہا۔
”لیکن آخر کیا وجہ بتائیں ہم؟ صرف یہ کہ تمہیں اب ضیا کی حیثیت پر اعتراض ہونے لگا ہے۔” اکبر نے اس بار قدرے سختی سے کہا۔ ”اور پھر منگنی توڑ بھی دیں تب بھی کون سے لینڈ لارڈ کی بیٹی بہو بن کر آئے گی۔ یہاں… اپنے ہی جیسے لوگوں کے ہاں رشتہ ہو گا تمہارا۔” نسیم نے جیسے اسے یاد دہانی کروائی۔
”ضروری نہیں ہے کہ اپنے ہی جیسے لوگوں میں ہو۔ ایک بہت بڑا سرکاری افسر اکلوتی بیٹی کی شادی مجھ سے کرنا چاہتا ہے۔” شیراز نے بے حد فخریہ انداز میں اطلاع دی۔
”سرکاری افسر؟” اکبر نے قدرے حیرانی سے کہا۔
”ہاں انکم ٹیکس کمشنر… وہ یہاں آپ سے ملنے کے لیے آنا چاہتے ہیں اسی مقصد کے لیے… میں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ میری منگنی ہو چکی ہے۔”
شیراز انہیں سعید نواز اور شینا کے بارے میں بتا رہا تھا اور اکبر اور نسیم بے حد خاموشی سے قدرے بوکھلائے ہوئے انداز میں اس کی باتیں سن رہے تھے۔
”وہ اگلے ہفتے یہاں آئیں گے اور آپ ان سے میری منگنی کے بارے میں کوئی بات مت کیجئے گا۔”
وہ حتمی انداز میں کہتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا تھا اور اکبر اور نسیم بے حد پریشانی کے عالم میں وہیں بیٹھے رہے۔ کسی وجہ کے بغیر اس طرح اچانک منگنی توڑنے کے لیے انہیں خاصی جرأت اور ہمت کی ضرورت تھی جو وہ دونوں میاں بیوی اس وقت اپنے اندر نہیں پا رہے تھے۔
شیراز اس رات وہاں رکا نہیں تھا۔ وہ واپس اکیڈمی چلا گیا تھا۔ اور یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ زینب اگلے دن اپنے ہاتھ سے پکائی ہوئی بریانی نسیم کو دینے آئی تھی اور اس نے نسیم اور گھر کے دوسرے افراد کے انداز اور لہجے میں تبدیلی فوراً محسوس کر لی تھی۔ نسیم بے حد الجھی ہوئی لگ رہی تھیں۔ جبکہ نزہت اور شیراز کی دوسری دو بہنیں عجیب سی سرد مہری اور بے اعتنائی دکھا رہی تھیں۔
”سب خیریت تو ہے خالہ؟” زینی نے کچھ پریشان ہو کر پوچھا۔
”ہاں۔ سب ٹھیک ہے۔” نسیم نے قدرے گڑبڑا کر کہااور سلائی میں مصروف ہو گئیں۔
”شیراز تو ٹھیک ہیں نا؟” زینی کو فوراً شیراز کی فکر ہوئی۔
”ہاں، وہ ٹھیک ہے۔” نسیم نے اسی انداز میں اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ زینی سوچ میں پڑ گئی۔ اگر گھر میں سب کچھ خیریت تھی۔ شیراز بھی ٹھیک تھا تو پھر کیا مسئلہ تھا۔
”زینی! تم کبھی اپنے گھر پر بھی رہا کرو۔”
اس سے پہلے کہ زینی نسیم سے کوئی اور سوال کرتی۔ نزہت نے اسے بریانی کی خالی پلیٹیں واپس لا کر دیتے ہوئے کہا۔ اس کا لہجہ بے حد کٹیلا تھا۔ مگر زینی نے اس کی بات کو مذاق سمجھا اور برتن لیتے ہوئے ہنس کر کہا۔
”یہ بھی میرا ہی گھر ہے۔ کیوں خالہ؟” اس نے نسیم کی طرف دیکھ کر کہا۔ جو ایسے موقعوں پر ہمیشہ اس کی حمایت میں بولتی تھیں مگر آج انہوں نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ سلائی مشین کی سوئی میں دھاگہ ڈالنے میں مصروف رہیں یا کم از کم انہوں نے ظاہر یہی کیا تھا۔
”اپنا گھر ہی صرف اپنا ہوتا ہے۔” نزہت نے ایک بار پھر بڑی سنجیدگی سے کہا۔
اس بار زینی نے قدرے چونک کر اسے دیکھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی نسیم نے مداخلت کی۔
”نزہت! جاؤ اندر سے میرا سوٹ لے آؤ۔ کاٹنا ہے مجھے ابھی اور زینی! تم نفیسہ کو سلام دینا۔”
یہ جیسے اسے جانے کا اشارہ تھا اور زندگی میں پہلی بار اسے پکڑ پکڑ کر بٹھانے کے بجائے جانے کو کہا جا رہا تھا۔ زینی چند لمحوں کے لیے کچھ سمجھ نہیں پائی۔
”جی خالہ!” وہ قدرے الجھی ہوئی وہاں سے باہر آگئی۔
اپنے گھر واپس آکر وہ بہت دیر پریشان بیٹھی رہی۔ ربیعہ نے اس کی خاموشی اور پریشانی کونوٹ کیا۔ ”کیا ہوا؟” اس نے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔” زینی نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
”کچھ نہیں تو اس طرح منہ لٹکا کر کیوں بیٹھی ہو اور آج خالہ کے گھر سے اتنی جلدی کیسے واپس ہو گئیں؟” زینی کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے ربیعہ سے کہا۔
”آج خالہ کے گھر میں سب کا رویہ بہت عجیب تھا۔”
”کیا مطلب؟” ربیعہ بھی چونک کر سنجیدہ ہو گئی۔
زینی نے آہستہ آہستہ اسے ساری بات بتائی۔
”تم بھی زینی! خوا مخواہ چھوٹی چھوٹی بات پر پریشان ہو جاتی ہو۔ کوئی مسئلہ ہو گا ان کے گھر میں اور ہو سکتا ہے، نزہت کے رشتے کا ہی کوئی مسئلہ ہو۔ تمہیں تو پتہ ہے، اس کی وجہ سے خالہ اور خود نزہت کتنی پریشان رہی ہے۔” ربیعہ نے بے حد لاپروائی سے زینی کی پریشانی کو مذاق میں اڑتے ہوئے کہا۔
”ہاں مگر تمہیں تو پتہ ہے، میں خود ہر نماز کے بعد نزہت کے لیے کتنی دعائیں کرتی ہوں۔ مجھے پتا ہے خالہ، خالو اور خود شیراز کتنا پریشان ہیں اس کی وجہ سے پھر نزہت مجھ سے کیوں اس طرح ناراض ہے۔” زینی متفکر ہوئی۔
”ناراض نہیں پریشان ہے وہ اور چھوڑو ان باتوں کو۔ دو چار دن بعد خود ہی ٹھیک ہو جائے گی وہ۔ پھر پوچھ لینا آج کے واقعہ کے بارے میں۔”
ربیعہ نے اسے تسلی دی مگر وہ دونوں نہیں جانتی تھیں کہ ایسے سوال وجواب کا موقع ہی نہیں آئے گا۔ زینی دوبارہ کبھی شیراز کے گھر نہیں جا سکے گی۔
٭٭٭
سعید نواز اگلے ہفتے آنے کے بجائے دو دن بعد ہی شیراز کو اکیڈمی سے لیتے ہوئے اس کے گھر آن موجود ہوئے تھے۔ ان کی شاندار گاڑی اس محلے میں آنے والی کسی بڑے سرکاری افسر کی پہلی گاڑی تھی۔ مگر صرف یہی نہیں تھا۔ وہ پھلوں کی پیٹیوں اور مٹھائیوں کی ٹوکریوں کے ساتھ بہت ساری دوسری چیزوں کا بھی انبار لے کر آئے تھے۔
ان کے ڈرائیور اور گارڈ نے جب اس سامان کو اکبر اورنسیم کے صحن میں لا کر رکھنا شروع کیا تو ان کا تقریباً پورا صحن مختلف اشیاء کے کریٹس، ٹوکریوں اور پیکٹس سے بھر گیا تھا۔
شیراز کی گردن اگر فخر سے تنی ہوئی تھی تو اکبر اور نسیم کی مرعوبیت سے جھک گئی تھی۔
سعید نواز بے حد ملنساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکبر کو ساتھ لیے صوفے پر بیٹھے باتیں کرتے رہے اور شیراز، اکبر اورنسیم کے ہمراہ بے حد تابعداری سے سعید نواز کی باتیں سنتا رہا۔ پھر ان ہی کے ساتھ وہ فہمائشی قہقہے بھی لگاتے رہے۔
بالآخر ایک بہت پر تکلف چائے کے بعد سعید نواز اس موضوع پر آگئے تھے جس کے لیے وہ وہاں آئے تھے۔
”آپ کا بیٹا شیراز بہت قابل اور لائق نوجوان ہے۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ترقی کرے گا۔”
سعید نواز نے تمہید باندھنا شروع کی۔ شیراز کے ساتھ ساتھ اکبر اور نسیم کا دل بھی دھڑکنے لگا۔
”آج آپ سے ملاقات کے بعد تو مجھے لگ ہی نہیں رہا کہ میں کسی اور گھر بیٹھا ہوں، یوں لگ رہا ہے۔ گھر پرہوں۔”
”بے شک، بے شک یہ آپ کا اپنا ہی گھر ہے۔” اکبرنے بے ساختہ کہا۔
”میرا اگر کوئی بیٹا ہوتا تو میری خواہش ہوتی کہ وہ شیراز جیسا ہوتا لیکن اللہ نے بس مجھے ایک بیٹی ہی کی نعمت سے نوازا۔ شیراز تو شینا سے ملتا رہتا ہے۔ دونوں کی بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔”
سعید نواز نے قدرے مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہوئے شیراز کو دیکھا جس نے پر جوش انداز میں سر ہلاتے ہوئے ان کی تائید کی یوں جیسے واقعی ایسا ہی تھا۔
”میری خواہش ہے کہ میں شیراز کو اپنا بیٹا بنا لوں۔” سعید نواز نے بالآخر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ”شیراز کی اپنی مرضی بھی یہی ہے اور میری بیٹی بھی شیراز کوبہت پسند کرتی ہے۔” سعید نواز نے اکبر اور نسیم کی خاموشی پر ایک بار پھر اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے جتانے والے انداز میں کہا۔
”جی جی بھائی صاحب! ہماری تو بڑی خوش قسمتی ہو گی کہ آپ کی بیٹی ہماری بہو بنے۔” اکبر نے بالآخر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے پر جوش انداز میں کہا۔