من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

”یہ کون ہے؟” جواد نے شیراز کے کمرے میں اس کی اسٹڈی ٹیبل پر پڑی زینی کی ایک فریمڈ تصویر ہاتھ میں لیتے ہوئے بے حد دلچسپی سے پوچھا۔ وہ اس کے کامن کا ہی ایک ساتھی تھا اور پچھلے کچھ دنوں سے وہ اور شیراز زیادہ تر وقت ساتھ گزارتے رہے تھے۔
”یہ میری منگیترہے۔” شیراز نے یک دم بڑے جوش کے عالم میں زینی کا تعارف کروایا۔ کم از کم اس کے پاس ایک ایسی چیز تھی جو اس کے لیے فخر کا باعث تھی۔ ایک غیر معمولی طور پر حسین منگیتر۔
”اوہ! آئی سی۔” جواد نے اس کے جواب پر بے حد غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ ”ویری پریٹی۔” اس نے ستائشی انداز میں کہا۔ ”کیا کرتے ہیں تمہارے سسر؟” اس نے اسی روانی سے اگلا سوال کیا۔
”انکم ٹیکس میں کلرک ہیں۔” اس وقت تک شیراز کا خیال تھا۔ اس کے اپنے باپ کی نسبت ضیا چچا کی جاب قابل عزت تھی۔
”کلرک؟” جواد نے بے ساختہ بے حد حیرانی سے کہا۔ ”اوہ۔” پھر اسی انداز میں فوٹو فریم قدرے لاپروائی کے عالم میں اسٹڈی ٹیبل پررکھ دیا۔ یوں جیسے یک دم اس چہرے کی خوب صورتی میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ شیراز نے اس کے ہرانداز کو لاشعوری طور پر محسوس کیا تھا۔ اس کی واحد قابل فخر ملکیت بھی اپر کلاس کے سامنے کھڑے اس فرد کو مرعوب کرنے میں ناکام رہی تھی۔
”اچھا پھر کب تک باہر آرہے ہو؟” جواد نے اسی سانس میں اگلا سوال کیا۔
”کہاں جا رہے ہو تم؟”
”کھانا کھانے، سیما کی برتھ ڈے ہے۔ وہی لے کر جا رہی ہے۔ خاقان اور نوشین بھی جا رہے ہیں۔ میں نے سوچا، تمہیں بھی ساتھ لے لوں۔” سیما جواد کی منگیتر تھی اور اسی کامن میں سول سروسز اکیڈمی میں تھی۔
”نہیں، مجھے کچھ نوٹس تیار کرنے ہیں۔ تم لوگ جاؤ۔” شیراز نے یک دم جیسے ایک بہانہ کیا۔ سیما کی برتھ ڈے پر جانے کا مطلب ایک عدد تحفہ اور ایک اضافی خرچا تھا۔
”بند کر یہ پڑھائیاں پڑھاکو… اکیڈمی تو پہنچ گیا ہے پوزیشن لے کر۔ اب اور کیا کرنا ہے تو نے۔۔۔۔” جواد نے بڑی بے تکلفی سے اسے جھڑکا۔
”نہیں، واقعی میں پڑھنا چاہتا ہوں اور۔۔۔۔”




”تو پڑھنا چاہتا ہے اور ہم لفنگے ہیں نا جو شام کو آوارہ گردی کے لیے نکل جاتے ہیں۔ چھوڑ یار! بس کر۔ یہاں اکیڈمی میں سارے نقلیں مار کر پاس ہوتے ہیں مل ملا کر کرلیں گے پیپر اب کیا ساری عمر اسی طرح کھپتے رہیں گے۔ میں باہر پارکنگ میں انتظار کر رہا ہوں تیرا فوراً آجا۔”
جواد کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا تھا۔ مگر شیراز کا دھیان اسٹڈی ٹیبل پر بڑی بے احتیاطی کے عالم میں پڑی زینی کی فوٹو گراف پر تھا۔ آخر کوئی زینی کی تصویر کو اس طرح رکھ کر کیسے جا سکتا تھا۔ کیا واقعی وہ چہرہ کسی حوالے کے بغیر اتنا معمولی تھا کہ جواد جیسا دل پھینک لڑکا بھی اسے یونہی رکھ کر چلا گیا تھا۔ شیراز کے احساس فخر کو جیسے بری طرح ٹھیس لگی تھی۔ تو کیا زینی کچھ بھی نہیں تھی اور وہ خوا مخواہ اسے سر پر اٹھائے پھر رہا تھا۔ کسی تاج کی طرح…
اس شام پہلی بار اس نے زینی کی اس فوٹو گراف کو کسی جذبے کے بغیر بہت دیر تک دیکھا تھا۔ خوب صورت گہری سیاہ آنکھیں، سرخ وسفید رنگت… بے حد تیکھے نقوش اور جان لے لینے والی مسکراہٹ آج ان میں سے کسی ایک چیز نے بھی شیراز کا دل اپنی طرف نہیں کھینچا تھا۔
کمرے سے نکلنے سے پہلے اس نے اس فریم کو اسٹڈی ٹیبل پر رکھنے کے بجائے اسٹڈی ٹیبل کی دراز میں رکھ دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا، کوئی اور اس فوٹو گراف کو دیکھ کر وہی سوال کرے جو جواد نے کیا تھا۔
٭٭٭
اس رات پی سی کے ریسٹورنٹ میں بیٹھے شیراز صرف سیما اور نوشین کا ہی نہیں اس ریسٹورنٹ میں بیٹھی دوسری لڑکیوں کا بھی جائزہ لیتا رہا۔ بلاشبہ وہاں موجود کوئی لڑکی بھی خوب صورتی میں زینی کے مقابل کھڑی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس کے باوجود وہاں موجود ہر لڑکی شیراز کو زینی سے زیادہ اٹریکٹو لگ رہی تھی۔
بے حد جدید تراش خراش کے ملبوسات میں ملبوس، تراشیدہ بالوں اور میک اپ کیے بے حد خود اعتمادی سے انگلش میں بات کرتی وہ لڑکیاں کسی بھی مرد کو اپنے طرف متوجہ کر اور متوجہ رکھ سکتی تھیں اور زینب ضیا کیا تھی، اس کی طرح ایک سرکاری اسکول سے تعلیم یافتہ گریجویٹ جسے لباس پہننے کاڈھنگ اور قرینہ آتا تھا نہ انگریزی میں اس طرح دنیا کے ہر ایشو پر بات کرنے کا سلیقہ جسے وہ اگر ایسے کسی ہوٹل میں لے آتا تو وہ حواس باختہ ہو جاتی۔ وہ اپنی چادر سنبھالتی پھرتی یا ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتی مردوں کی نظروں اور موجودگی سے اپنا جسم چھپائے بیٹھی رہتی جو اس ڈائننگ ٹیبل پر موجود کسی کانٹے اور چمچ کو صحیح طریقہ سے پکڑ بھی نہیں سکتی تھی۔
وہاں بیٹھے اس کے ساتھی اگر گپیں مارتے، قہقہے لگاتے ہوئے اس وقت اور موقع کو انجوائے کر رہے تھے تو شیراز اندر ہی اندر سلگتے ہوئے اس وقت صرف اور صرف زینب ضیاء اور اس کی شخصیت کا پوسٹ مارٹم کرنے میں مصروف تھا۔ ہر اندازہ، ہر تجزیہ اس کی فرسٹریشن میں اضافہ کر رہا تھا زینب ضیا کی ذات پر پچھلے چار سال سے کیے جانے والا فخر اور غرور یک دم تاش کے پتوں کی طرح دھڑام سے نیچے آن گرا تھا۔ زینب ضیا وہ لڑکی نہیں تھی جسے اس کی شریک حیات ہونا چاہیے تھا۔ اکیڈمی کے تیسرے ہفتے ہی شیراز اکبر کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا۔
٭٭٭
”آؤ یار! رک کیوں گئے۔ اندر آؤ؟”
جواد نے مڑ کرشیراز سے کہا۔ جو سعید نواز کے گھر کے پورچ میں کھڑی مختلف ماڈلز کی گاڑیوں کو دیکھ کر بے حد مرعوب نظر آرہا تھا۔ جواد کے ٹوکنے پر وہ اس کے پیچھے گھر کے اندر داخل ہوا۔
”صاحب ناشتے پر آپ لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں۔” آگے چلتے ملازم نے جواد کو جیسے اطلاع دی مگر جواد سے زیادہ یہ اطلاع شیراز کے لیے تھی۔ کیونکہ وہ جواد کے چچا کا گھر تھا اور وہ وہاں اکثر آتا جاتا رہتا تھا۔ مگر آج پہلی بار ویک اینڈ پر جواد اصرار کر کے شیراز کو اپنے ساتھ وہاں لے کر آیا تھا۔ کسی انکم ٹیکس کمشنر کے گھر پر یہ شیراز کا پہلا وزٹ تھا او روہ مرعوب ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے خائف بھی تھا کیونکہ کل کو اسے اس ڈپارٹمنٹ میں ہی آگے آنا تھا۔ اس کے برعکس جواد ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں تھا۔
وہ دونوں اب ڈائننگ روم میں داخل ہو رہے تھے۔ ناشتے کی ٹیبل لگی ہوئی تھی مگر وہاں صاحب کا کہیں دور دور تک نام ونشان نہیں تھا۔
”آپ لوگ بیٹھیں میں صاحب کو اطلاع کرتا ہوں۔” ملازم نے ان سے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔ شیراز کی نظر ٹیبل پر رکھے ناشتے کے ان لوازمات پر تھی جنہیں وہ زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ان میں سے ستر فی صد کے نام کے تلفظ، کی ادائیگی بھی وہ ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتا تھا۔ استعمال تو خیر دور کی بات تھی۔ اسے اپنے ماتھے کے ساتھ ساتھ اپنی ہتھیلیوں پر بھی پسینہ آتا محسوس ہوا تھا۔
”بیٹھ جاؤ یار! انکل آتے ہی ہوں گے۔” جواد نے پہلے کی طرح ایک بار پھر اس سے کہا اور خود ڈائننگ ٹیبل کی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ شیراز بھی اس کی پیروی کرتا قدموں کی آہٹ اس کے عقب میں سنائی دی تھی اور ایک ملازم کے ساتھ سعید نواز کمرے میں داخل ہوئے۔
”ہیلو انکل!” جواد نے ان کے آتے ہی کہا اور اٹھ کر سعید نواز سے ہاتھ ملایا۔ شیراز کچھ اور نروس ہو گیا۔ سعید نواز اور جواد کے درمیان چند رسمی جملوں کا تبادلہ ہواتھا۔ سعید نواز شیراز کی طرف متوجہ ہوئے۔
”انکل! یہ میرا دوست ہے شیراز اکبر۔”
جواد نے اس کا تعارف کرایا۔ شیراز نے بے اختیار آگے بڑھ کر سعید نواز سے ہاتھ ملایا۔ سعید نواز نے بھی اس کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اتنی ہی گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملایا تھا۔
”آئیں، ناشتہ کرتے ہیں۔” سعید نواز کہتے ہوئے اسے لے کر خود بھی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ چند ہی لمحوں میں ملازم نے انہیں سرو کرنا شروع کر دیا تھا۔ سعید نواز اب شیراز سے اس کی پوزیشن اور ڈپارٹمنٹ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ اور شیراز بے حد نروس انداز میں انہیں جواب دے رہا تھا۔ ایک انکم ٹیکس کمشنر کے گھر پر اس کی ٹیبل پر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا شیراز کے لیے اس سے پہلے صرف ایک خواب ہی تھا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ سعید نواز اسے اتنی اہمیت دیں گے۔
”مجھے سلیف میڈ لوگ بہت اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ بہت آگے تک جا سکتے ہیں۔” سعید نواز نے اس کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں جاننے کے بعد بے حد ستائشی انداز میں کہا تھا۔
”شینا جاگ رہی ہوتی تو میں تمہیں اس سے بھی ملواتا۔ وہ بہت انجوائے کرتی تمہاری کمپنی کو۔” سعید نواز نے جس کا نام لیا تھا،شیراز اس کے بارے میں پوچھنے کی جرأت نہیں کر سکا کہ وہ کون ہے۔ یہ مشکل جواد نے ہی آسان کی۔
”شینا سعید انکل کی بیٹی ہے ویری ٹیلنٹڈ۔”
جواد نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی تعریف کی۔ شیراز صرف ایک ہلکی سی مسکراہٹ دے کر خاموش بیٹھا رہا۔ اسے سعید نواز کی ٹیلنٹڈ بیٹی میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔
”شیراز کو نیکسٹ ویک اینڈ پر میرے فارم ہاؤس پر ہونے والی پارٹی میں انوائیٹ کیا تم نے؟” سعید نواز ان دونوں کو چھوڑنے باہر پورچ تک آئے تھے اور وہیں الوداعیہ کلمات کہتے کہتے انہیں جیسے یک دم یاد آیا اور انہوں نے جواد سے چونک کر پوچھا۔
”نہیں۔ مجھے یاد نہیں رہا۔” جواد بھی چونکا تھا۔
”تو بس میں انوائیٹ کر رہا ہوں۔ میں اکثر ایسی پارٹیز دیتا رہتا ہوں تمہیں بہت مزہ آئے گا وہاں آکر۔”
سعید نواز نے انتہائی درجے کی بے تکلفی کا مظاہرہ کیا۔ شیراز کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے دیتا۔
”تمہارے انکل بہت اچھے ہیں۔” وہاں سے واپسی پر شیراز نے راستہ میں جواد سے کہا۔ وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔
”ہاں خیر اچھے تو وہ ہیں ہی۔ I wishتم شینا سے مل پاتے۔ انکل واقعی ٹھیک کہہ رہے تھے۔ تم دونوں ایک دوسرے کی کمپنی کو بہت انجوائے کرتے۔”
جواد نے ایک بار پھر شینا کا ذکر کیا۔ وہ اس کا کزن نہ ہوتا تو شیراز یقینا اس بار اس سے شینا کے بارے میں کھل کرپوچھتا لیکن شیراز اس بار بھی دانستہ چپ ہو رہا۔
٭٭٭
”کھاؤ بیٹا! کھانا کھاؤ… ہاتھ کیوں کھینچ لیا؟”
نسیم نے بے حد پریشان ہو کر اس سے کہا۔ شیراز ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی پورے ایک مہینے کے بعد اس ویک اینڈ پر گھر آیا تھا۔ اور اپنے محلے میں داخل ہوتے ہی اس کا دل وہاں سے غائب ہو جانے کو چاہا تھا، یہی حالت اس کی اپنے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے ہوئی تھی۔ اکیڈمی کی شاندار عمارت میں ایک ماہ رہنے کے بعد اسے وہ گھر یک دم ایک ڈربہ لگنے لگا تھا۔ اس کا دل چاہا تھا، وہ اسی وقت وہاں سے بھاگ جائے۔
”نہیں… بس اتنی ہی بھوک تھی مجھے۔” شیراز نے کہا۔ وہ خاص طور پر اس کے لیے بنایا ہوا کھانا بھی اس کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔
”بھائی! کباب تو لیں نا، یہ میں نے صرف آپ کے لیے بنائے ہیں۔”
نزہت نے جیسے قربان ہونے والے انداز میں کہا۔
وہ یہ نہ بھی کہتی تب بھی شیراز جانتا تھا کہ کباب صرف خاص حالت میں ہی گھر کے مینو کا حصہ بنتے تھے۔ عام حالات میں کھانے پر کبابوں کے بارے میں سوچنے کا مطلب مہینے کے پورے بجٹ کو خراب کرنے کے مترادف تھا۔
”جاؤ شبانہ! بھائی کے لیے پھل کاٹ کر لاؤ۔”نسیم نے دوسری بیٹی سے کہا۔ جو فوراً کمرے سے باہر چلی گئی۔ پورا گھر جیسے شیراز کو کھانا کھلانے کے لئے اس کے ارد گرد بیٹھا تھا اور شیراز کو بے حد الجھن ہو رہی تھی۔ یہ نہیں تھا کہ اکیڈمی نے ماں باپ یا بہنوں سے اس کی محبت میں کمی کر دی تھی۔ ان سے اس کی محبت ویسے ہی تھی مگر ان کے وہ طور طریقے جن پر کل تک وہ غور تک نہیں کرتا تھا آج اسے بری طرح چبھنے لگے تھے۔
”نہیں بس ٹھیک ہے۔” اس نے ٹیبل پیچھے کر دی۔
”بھائی کے لیے چائے بنا لاؤ۔” نسیم نے برتن اٹھاتی نزہت سے کہا۔
”نہیں۔ جب مجھے چائے کی ضرورت ہو گی تو میں خود کہہ دوں گا۔” شیراز نے منع کیا۔
”اب زینب کے گھر سے ہو آؤ… روز پوچھنے آتی ہے تمہارا۔”
نسیم نے اس سے کہا۔ شیراز کا موڈ کچھ اور آف ہو گیا۔ اب وہ اس وقت زینب سے ملنے کا خواہش مند نہیں تھا۔
”صبح جاتے ہوئے مل لوں گا۔” شیراز نے کہا۔
”مگر۔” وہ جھنجلایا۔ اس سے پہلے کہ نسیم اصرار کرتی، اکبر نے مداخلت کی۔
”تم کیوں مجبور کر رہی ہو اسے۔ چلا جائے گا ان کے گھر جب اس کا دل چاہے گا۔ ابھی تو تھکا ہوا ہو گا، آرام کرنا چاہتا ہو گا۔ سونے دو اسے۔” اکبر کہتے ہوئے اٹھ کر باہر چلا گیا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!