”تمہیں کچھ پتا چلا نفیسہ؟ شیراز کی منگنی ہو گئی ہے۔” زینی کے ہاتھ میں پکڑا شیشے کا گلاس بے اختیار ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرا۔ ربیعہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
صحن میں محلے کی عورت نفیسہ سے بات کر رہی تھی۔ زینی بالکل ساکت فرش پر پھیلی گلاس کی کرچیوں کے درمیان کھڑی تھی۔ بے حس و حرکت، یوں جیسے ایک پل میں وہ پتھر کا مجسمہ بن گئی ہو۔ فوری طور پر ربیعہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے یا اس سے کیا کہے۔
”ابھی نسیم سب سے چھپا رہی ہے، مجھ سے بھی کہہ رہی تھی کہ میں کسی کو نہ بتاؤں مگر خود وہ اور اس کی بیٹیاں خوشی سے بے حال ہو رہی تھیں۔ کسی انکم ٹیکس کمشنر کی اکلوتی بیٹی ہے۔ کروڑوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث۔”
زینی نہیں جانتی تھی کہ اس آواز میں زیادہ چبھن تھی یا گلاس کے ٹکڑوں میں جو بے احتیاطی سے ایک قدم اٹھانے پر اس کے پاؤں زخمی کر دیتے۔
”بات طے ہونے پر شیراز کے ہاتھ پر ایک لاکھ روپیہ رکھ کر گئے ہیں۔ مجھے یقین تو نہیں آیا تھا مگر جو سامان اس نے منگنی کا مجھے دکھایا، مجھے یقین کرنا ہی پڑا۔ نسیم کو سونے کا سیٹ دیا ہے بہت وزنی۔ اس کی تینوں بیٹیوں کو بھی سونے کے جھمکے دیے ہیں۔ ساتھ سب لوگوں کو پانچ پانچ سوٹ ۔ پھلوں کی پیٹیاں تو میں نے خود دیکھی ہیں۔ سمجھو پورا ڈھیر ہے ان پیٹیوں کا ان کے گھر۔ مجھے بھی ان ہی میں سے پھل کھلایا اس نے۔”
”اوکے… تمہاری ترجیح کیا ہو گی۔ ایک خوبصورت عورت ان تمام خصوصیات کے ساتھ یا ایک خوبصورت عورت کروڑوں کیش کے ساتھ۔”
کوئی آواز زینی کے ذہن میں لہرائی تھی۔ دھوکا… خوش فہمی… وہ چند لمحے پہلے جانی تھی کہ شیراز نے کس عورت کو ترجیح دی ہو گی۔
کیا بے یقینی سی بے یقینی تھی یا خود فریبی سی خود فریبی جس کا وہ شکار تھی۔
”نسیم بتا رہی تھی، شیراز کی بیوی کو جہیز میں بنگلہ ملنے والا ہے۔ اور وہ سب لوگ اس میں شفٹ ہوجائیں گے۔ کہہ رہی تھی۔ شیراز کے لیے گاڑی بھی بک کروا دی ہے ان لوگوں نے۔”
”وہاں بیٹھ کر وہ ان چیزوں کو گننے لگ گیا تھا جو اسے میری بیٹی سے شادی کر کے نہیں ملنی تھیں۔ اس نے مجھ سے کہا۔ آپ کی بیٹی جہیز کے نام پر کچھ نہیں لائے گی مگر کم ازکم ”عزت” تو لے کر آئے۔”
پسینہ کی دھار زینی کی کنپٹی سے نیچے بہنے لگی تھی۔ اس نے باپ سے کہا تھا ”اسے یقین نہیں ہے۔” لیکن اس رات بھی ان لفظوں کو سن کر اس کے اندر ایسی ہی توڑ پھوڑ ہوئی تھی جیسی اب ہو رہی تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ باپ کی بات پر یقین نہ کرتی۔ وہ باپ کو جانتی نہ ہوتی تو اس پر یقین نہ کرتی مگر وہ باپ کو ”جانتی” تھی۔ اسے ”یقین” آگیا تھا کہ شیراز نے یہ سب کچھ کہا ہو گا مگر ”اعتبار” نہیں آرہا تھا کہ وہ یہ سب کچھ کہہ سکتاتھا۔ آخر کیسے…؟ کیسے…؟ کیوں…؟ کس لیے…؟
”نسیم یہ بھی بتا رہی تھی کہ لڑکی بڑی خوبصورت اور پڑھی لکھی ہے۔ بڑی ماڈرن ہے۔ کہہ رہی تھی کہ شیراز کو بہت پسند کرتی ہے وہ لڑکی اور اس کا باپ… اسی لیے رشتہ کر رہے ہیں۔”
”دیکھ کر زینی! پاؤں میں جوتا نہیں ہے۔ تمہارے پاؤں زخمی ہو جائیں گے۔”
اس نے قدم اٹھایا تو ربیعہ نے بے اختیار اسے روکا۔ چند لمحوں کے لیے وہاں کھڑی زینی کو لگا اس کا اپنا وجود اس کے جسم سے الگ ہو گیا تھا۔ زینب ضیا کے منہ پر جیسے کسی نے ساری دنیا کی کالک مل دی تھی۔ کس نے…؟ شیراز نے…؟
بے عزتی وہ نہیں تھی جو شیراز کے رقعہ پکڑنے پر ہوئی تھی۔ تحقیر وہ نہیں تھی جو اس کے گھر کا دروازہ نہ کھلنے پر ہوئی تھی۔ تذلیل تو یہ تھی جو اس کے انتخاب اور ترجیح نے کی تھی۔ سونے کے زیورات، کپڑے، پیسہ، پھلوں کی پیٹیاں، گاڑی،بنگلے کے لیے اس نے زینی کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کی محبت، خلوص، وفاداری، اطاعت، حیا، پارسائی، شرافت میں سے کوئی ایک شے بھی ایسی نہیں تھی۔ جس کے دنیا کے اس بازار میں کوئی دام لگتے۔ وہ دام جو زینی کو انمول بنا دیتے۔ آخر تھا ہی کیا زینب ضیا میں…؟
ایک آگ تھی جس کے شعلوں نے زینی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تو شیراز کو کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی تھی اسے موقع ملا تھا، سنہری موقع کہ وہ میرے منہ پر کالک ملے اور مجھ سے جان چھڑا لے۔ میری عزت جیسے دو کوڑی کی بھی نہیں تھی۔ واقعی مجھے تو اس نے دو کوڑی جیسی اہمیت بھی نہیں دی۔ اس کا دل چاہا، وہ بے اختیار ہنس پڑے۔
میرے خدا… میں ایک بار بھی شیراز کا اصلی چہرہ نہیں پہچان سکی۔ اتنے موقعے… اتنے موقعے آئے… پھر بھی نہیں… مجھے یہ گمان کیوں تھا کہ وہ بھی میرے عشق میں اسی طرح پاگل ہے جیسے میں تھی۔
”زینی! احتیاط سے… میں کہہ رہی تھی، پاؤں میں شیشہ نہ لگ جائے۔” ربیعہ نے بے حد تشویش سے کہا۔ زینی کا اگلا قدم واقعی شیشے پر پڑا تھا اور ربیعہ نے خون نکلتے دیکھ لیا تھا۔
”ذرا پاؤں دکھاؤ، دیکھوں زیادہ تو۔۔۔۔”
ربیعہ نے آگے بڑھ کر اس کے پاؤں کو پکڑنے کی کوشش کی تھی۔ اسے پتا تھا زینی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی، وہ پاؤں پکڑ کر بیٹھ جاتی اور روتے ہوئے کراہتی رہتی پر اب ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
ربیعہ کے پاؤں پر ہاتھ رکھنے سے پہلے ہی زینی نے زخمی پاؤں کو اٹھا یا اور پھر کسی احتیاط کے بغیر بے حد تیزی سے پاؤں میں کھبا ہوا شیشے کا ٹکڑا ایک ہی جھٹکے سے کھینچ کر نکالا اور ایک طرف پھینک دیا اور بغیر کسی لڑکھڑاہٹ کے تیزی سے چلتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی۔ ربیعہ بے حد حواس باختگی اور بے یقینی سے کچن کے فرش پر خون کے نشان دیکھتی رہی، جو زینی کے پاؤں چھوڑ کر گئے تھے۔
٭٭٭
ضیا نے گھر میں داخل ہونے پر بے یقینی سے زینی کو دیکھا۔ دروازہ اسی نے کھولا تھا اور سلام بھی کیا تھا۔ یہ کئی ہفتوں کے بعد پہلی بار ہوا تھا۔
وہ کچھ دیربعد ہمیشہ کی طرح ان کے لیے پانی کا گلاس بھی لے کر آگئی۔ ضیا نے بغور اس کا چہرہ دیکھا، وہ بے حد کمزور اور زرد نظر آرہی تھی اور اس کی آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑے ہوئے تھے، مگر اس کے چہرے کے گرد بے حد سکون اور اطمینان تھا جو انہوں نے کتنے دن بعد آج پہلی بار دیکھاتھا۔
”پاؤں کو کیا ہوا؟” ضیا نے اس کے پاؤں کے گرد بندھی پٹی دیکھ کر کہا۔
”کچھ نہیں، معمولی چوٹ لگ گئی۔” اس نے لاپروائی سے کہا۔ پہلے وہ باپ کو چوٹ کی تفصیل سنانے بیٹھ جاتی تھی۔ انگلی میں ایک معمولی سوئی لگنے پر بھی زینی کئی دن اپنی انگلی پکڑے بیٹھی رہتی۔ ساتھ ضیاء کو روز درد میں کمی بیشی کے بارے میں بتاتی رہتی۔ بعض دفعہ ضیا کو ان معمولی چوٹوں پر اس کی تکلیف، سنجیدگی، پریشانی اور تفصیل پر ہنسی بھی آجاتی تھی مگر وہ زینی تھی جس کی ہر بات سننا اور اس پر سر ہلانا ضیا کی جیسے عادت بن گئی تھی۔
اب وہ یہی توقع کر رہے تھے کہ وہ انہیں کچھ اور بتائے گی لیکن اس نے کچھ نہیں کہا۔ پانی کا خالی گلاس لیکر وہ واپس چلی گئی۔
”آج تو زینی بالکل ٹھیک لگ رہی ہے۔” ضیاء نے نفیسہ سے کہا۔
”ہاں، آج ماشاء اللہ اسی طرح کام کرتی پھر رہی ہے۔ کھانا بھی پکایا تھا۔ کئی ہفتوں کے بعد ساری نمازیں پڑھی ہیں۔” نفیسہ نے پاس بیٹھے ہوئے کہا۔ ”ورنہ میں تو بے حد پریشان ہو رہی تھی کہ اب پتا نہیں وہ کیا کرے گی۔”
”کیوں؟”
”شیراز کی منگنی ہو گئی ہے۔”
ضیاء ان کے انکشاف پر چونکے نہیں۔ وہ جانتے تھے، جلدی یا بدیر یہ ہونا ہی تھا مگر زینی کے رد عمل نے انہیں بے حد مطمئن کر دیا تھا۔
نفیسہ اس عورت سے معلوم ہونے والی باتیں انہیں بتاتی رہیں۔
”یہی ہونا تھا، منگنی اسی لیے توڑی تھی انہوں نے۔ اچھا ہوا، ان کا لالچ پہلے ہی ہمارے سامنے آگیا اور میری بیٹی ماشاء اللہ اسی طرح ٹھیک رہے تو مجھے کوئی غم نہیں ہے۔ وہ جہاں چاہے اپنے بیٹے کو بیاہ دیں۔”
ضیا اس دن زینی کا بدلا ہوا رویہ د یکھ کر بے حد مسرور ہو رہے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ ان کے کندھوں سے کوئی بوجھ ہٹ گیا۔
”کچھ دن گزر جائیں توپھر میں دوبارہ خالد سے رشتے کی بات کروں گا۔ مجھے یقین ہے، اب زینی کوئی اعتراض نہیں کرے گی۔”ضیا نے اسے کھانا لاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
٭٭٭
نفیسہ نے ٹھیک کہا تھا۔ زینی واقعی نارمل ہو گئی تھی۔ وہ اس رات ضیا سے پہلے تہجد پڑھنے کے لیے بیٹھی ہوئی تھی۔ ضیا نے بے حد خوشی سے اسے تہجد کے لیے باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ وہ کئی ہفتوں سے زینی کے ٹھیک ہونے کی دعا کر رہے تھے اور ان کی دعائیں بالآخر رنگ لا رہی تھیں۔
کئی ہفتوں کے بعد اس نے باپ کو وضو کروایا پھر ہمیشہ کی طرح ان کے پاس بیٹھ گئی۔ انہوں نے سلام پھیرا تو اس نے کہا۔
”میرے لیے دعا کریں ابو!” ضیانے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ بے حد پرسکون اور سنجیدہ تھی۔
”میں تو پہلے ہی بہت دعائیں کرتا ہوں آ پنی زینی کے لیے۔” ضیا نے ہمیشہ کی طرح اسے بڑے پیار سے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
”بہت نہ کریں، صرف ایک دعا کریں۔” زینی نے اسی پرسکون انداز میں کہا۔
”کیا؟” ضیا نے چونک کر اسے دیکھا۔
”میں جلدی مر جاؤں۔” ضیا لرز گئے تھے۔
”زینی۔”
”نہیں مروں گی توآپ کے لیے بہت مسئلہ ہوگا، اس لیے آپ دعا کریں کہ زینی جتنی جلدی مر سکتی ہے، مر جائے۔”
وہ بے حد پرسکون انداز میں ان کے ہاتھ میں آیک تسبیح دے کر کھڑی ہو گئی وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں سر اٹھائے اسے دیکھتے رہے۔ ایک عجیب سا خوف ان کے اندر پیدا ہواتھا۔
”زینی! کوئی غلط کام نہ کرنا۔” وہ خود بھی نہیں جانتے تھے، وہ اس سے کس غلط کام کا کہہ رہے تھے۔
”نہیں ابو! کوئی ”غلط کام” نہیں کروں گی۔ اب میں ہر کام بالکل ”ٹھیک” کروں گی جیسے کہ اس کو ہونا چاہیے۔
اس نے اسی پر سکون انداز میں کہا پھر اندر چلی گئی۔ ضیا نے گردن موڑ کراسے اندر جاتے ہوئے دیکھا۔ انہیں ایک عجیب سی بے چینی ہوئی تھی۔
٭٭٭
ربیعہ نے خوشگوار حیرت سے صبح صبح زینی کو کالج جانے کے لیے تیار ہوتے دیکھا۔
”تم کالج جا رہی ہو؟”
”ہاں۔” اس نے مختصر جواب دیا۔ اور بیگ بند کرتے ہوئے اس کی طر ف مڑی۔
”کچھ پیسے ہیں تمہارے پاس؟” اس نے ربیعہ سے پوچھا۔
”کتنے۔؟”
”جتنے بھی دے سکو، دے دو۔”
”تم کیا کروں گی اتنے پیسوں کا؟”
”پیسے دینے سے پہلے حساب لے رہی ہو؟”
اس نے سنجیدگی سے کہا۔ ربیعہ اس کی بات پر قدرے شرمندہ ہو گئی۔
”اور آج کالج سے کچھ دیر ہو جائے گی۔”
”کیوں؟” ربیعہ نے اپنے بیگ سے رقم نکالتے ہوئے کہا۔
”رمشہ کے گھر جاؤں گی۔” زینی نے اس سے پیسے لیے اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭
فاران نے بے حد حیرت سے اپنے سامنے کھڑی زینب کو دیکھا پھر یک دم اٹھ کھڑا ہو گیا۔
”زینب آپ…؟” وہ توقع بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اندر آنے والی زینب، زینب ضیاء ہو سکتی ہے۔
”پلیز بیٹھیں؟” زینب کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ وہ رمشہ سے اس کا ایڈریس لے کر وہاں آئی تھی۔
”کیا لیں گی آپ؟” فاران نے انٹر کام کا ریسیور اٹھاتے ہوئے کہا۔
”بہت کچھ۔” وہ مدھم آواز میں بڑ بڑائی۔
”جی…؟ ” فاران نے اس کی بڑبڑاہٹ سن لی تھی۔
”فی الحال کچھ نہیں۔ آپ نے کچھ عرصہ پہلے رمشہ کے ذریعے مجھ تک ایک آفر پہنچائی تھی۔” وہ فوراً موضوع پر آگئی۔
”جس پر آپ نے بہت بری طرح ری ایکٹ کیا تھا۔” فاران نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”جی۔ وقت وقت کی بات ہے۔” وہ مسکرائی۔ ”میں اب وہ آفر قبول کرنا چاہتی ہوں۔”
”مگر رمشہ نے تو بتایا تھا کہ کچھ عرصہ میں آپ کی شادی ہونے والی ہے۔” فاران کو یاد آیا۔
” اب نہیں ہو رہی۔” زینی کی مسکراہٹ یک دم غائب ہو گئی۔ ایک بار پھر کہیں ایک ٹیس اٹھی تھی۔
”ماڈلنگ کے ذریعے ایک سال میں کتنا پیسہ کما سکتی ہوں میں؟” اس نے فاران کے مزید کچھ پوچھنے سے پہلے ہی موضوع بدلا۔
It depends” مگر مجھے یقین ہے کہ آپ عنقریب ایک اسٹار بن جائیں گی۔ آپ میں بہت پوٹیشنل ہے۔”
”مجھے اسٹار نہیں بننا، صرف پیسہ کمانا ہے۔ یہ واحد چیز ہے جس میں مجھے دلچسپی ہے۔”
”اگرآپ کو فوری طور پر ضرورت ہے تو میں آپ کو دے سکتا ہوں آپ بعد میں مجھے واپس کر دیں۔ آخر کتنا روپیہ چاہیے آپ کو؟ دس ، بیس ہزار، لاکھ دو لاکھ۔۔۔۔” فاران نے بے حد لاپروائی سے کندھے جھٹک کر کہا۔ وہ زینب کی مالی حیثیت کے بارے میں جانتا تھا۔
”مجھے کروڑوں روپیہ چاہیے۔”
زینب نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ فاران اس کے جملے پر چونکا۔
”ماڈلنگ کے ذریعے؟”
”کسی بھی چیز کے ذریعے۔”
فاران اس کو دیکھتا رہ گیا۔
*****