”بہت اچھے لوگ ہیں لڑکا ابھی جونئیر کلرک بھرتی ہوا ہے ہمارے ہی محکمہ میں۔ خالد صاحب تو بہت ہی شریف آدمی ہیں۔ بیٹا بھی ان جیسا ہی ہے۔ زینی کے بارے میں سن کر بہت تسلی دی مجھے پھر آج رشتہ کی بات کی۔ کہہ رہے تھے کہ میں نے اگر پہلے زینی کا رشتہ نہ کر دیا ہوتا تو وہ پہلے ہی زینی کے سلسلے میں مجھ سے بات کرتے۔ پچھلے سال جب گھر آئے تھے تو زینی سے ملے تھے۔ بہت خوش ہوئے تھے۔”
ضیا بے حد خوشی او ر جوش کے عالم میں نفیسہ کو بتا رہے تھے۔ آج منگنی ٹوٹنے کے بعد پہلی بار ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی تھی۔
”دیکھ لو، میرا مولا کتنا رحیم ہے۔ ایک دروازہ بند کیا ہے تو فوراً ہی دوسرا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس نے۔ میں تو ابھی شکرانے کے نفل ادا کروں گا مسجد جا کر کہ اس نے مجھے اور میری بیٹی کو اس تکلیف سے نجات دی۔”
نفیسہ بھی بے حد خوشی سے ان کی بات سن رہی تھی۔ ضیا کے اس دفتر کے کولیگ اور دوست کو وہ بہت عرصے سے جانتی تھیں۔ انہوں نے ضیا سے ان کا کافی ذکر سنا تھا۔ وہ واقعی ان ہی کی طرح کے شریف لوگ تھے اور اب ان حالات میں چند ہفتوں میں ہی اس رشتہ کا آجانا ان کے لیے معجزے سے کم نہیں تھا۔ شیراز اور اس کے گھر والے زینب کے کردار پر اتنا کیچڑ نہ اچھالتے تو خالی منگنی ٹوٹنے کی صورت میں خاندان اور محلے کے کئی گھر زینب کے رشتے کے خواہش مند ہوتے۔ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے لیکن اب جو حالات ہو چکے تھے ۔ ان میں ایسا اچھا رشتہ آجانا ان کے یے واقعی رحمت کی طرح تھا۔
وہ دونوں صحن میں بیٹھے یہ باتیں کرتے ہوئے یہ نہیں جانتے تھے کہ زینب نے ان کی گفتگو سن لی تھی۔ ایک آتش فشاں تھا جو اس نے باپ کے خلاف اپنے اندر پھٹتے محسوس کیا۔ آخر کتنے دن ہوئے تھے اس کی منگنی ختم ہوئے ؟ اور کتنی آسانی سے شیراز کی جگہ کسی دوسرے کی بات کرنے لگے تھے وہ دونوں اس سے پوچھے بغیر۔ یوں جیسے وہ جانور تھی یا کوئی بے جان شے۔
”اس گھر میں میرے لیے اب کوئی نہ آئے اور اگر آئے گا بھی تو میں کسی کے سامنے نہیں آؤں گی۔”
اس کی چپ بالآخر ٹوٹ گئی تھی۔ اتنے دنوں میں پہلی بار زینب نے باپ کو مخاطب کیا تھا۔ وہ ضیا اور نفیسہ کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی تھی۔ زندگی میں کبھی اس طرح وہ ماں باپ کے سامنے کھڑے نہیں ہوئی تھی۔
ضیا اور نفیسہ کے چہرے پر جھلکنے والی خوشی یک دم غائب ہو گئی۔
”تم اندر جاؤ زینی! میں آکر تم سے بات کرتی ہوں۔” نفیسہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”میں اندر نہیں جاؤں گی، جو بات ہو گی، یہیں ہو گی۔” اس نے تندی سے کہا ضیا گنگ اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
”اب شیراز کے لیے ہم نے تم کو بٹھائے تو نہیں رکھنا۔ کہیں نہ کہیں بیاہنا توہے۔” نفیسہ کو غصہ آگیا۔
”میں ساری عمر شیراز کے نام پر بیٹھ سکتی ہوں۔” زینی نے تند آواز میں کہا۔
”جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس۔۔۔۔” زینی نے ماں کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”جو کچھ ہوا، وہ شیراز کا قصور نہیں تھا۔ شیراز نے کیا کیا ہے؟”
”یہ رشتہ۔۔۔۔”
زینی نے ایک بار پھر نفیسہ کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”میں آ ب کسی سے شادی نہیں کروں گی۔”
”زینی! میں تمہارا باپ ہوں۔ تمہارے بھلے۔۔۔۔” ضیا نے اس دوران پہلی دفعہ کچھ کہنے کی کوشش کی۔ زینی نے ان کی بات بھی کاٹ دی۔
”کیسا بھلا…؟ کون سا بھلا…؟ بھلا تو آپ صرف زہرہ آپا کا کرتے رہے میرے لیے کیا کیا آپ نے؟ میری تو زندگی تباہ کر دی آپ نے۔”
”باپ سے اس طرح بات کرتے ہیں۔” نفیسہ نے بے حد غصے سے اسے ٹوکا مگر ضیا نے انہیں روک دیا۔
”کہنے دو اسے۔ یہ بولے گی تو اس کے دل کا غبار اور بوجھ کم ہو جائے گا۔”
”کوئی بوجھ ، کوئی غبار نہیں میرے دل پر۔ صرف حقیقت ہے۔ آخر آپ نے زینی کے لیے کیا کیا؟ آپ کو صرف اپنی عزت پیاری تھی، اس لیے آپ شیراز کے سامنے نہیں جھکے۔ آپ اس سے نہیں ملے، اس سے بات کرنے کی کوشش کے بجائے آپ میرے لیے رشتے ڈھونڈ رہے ہیں۔ زہرہ آپا کی طرح مجھ پر ترس کیوں نہیں آیا آپ کو؟ کتنی منتیں کی تھیں میں نے آپ کی۔”
وہ بے حدتلخ لہجے میں بولتی جا رہی تھی۔ اس کے اندر کا زہر باہر نکل رہا تھا۔
”شیراز برا ہوتا تو وہ یہ سب کچھ آپ سے کہتا، مجھ سے کہتا۔ اس نے تو کچھ نہیں کہا۔ کوئی ایک بات بھی نہیں کی۔ وہ ناراض ہی ہوتا اور آپ کی جگہ جو باپ اپنی بیٹی سے واقعی محبت کرتا وہ اس کے پیچھے جاتا اس سے ملتا۔ اس کو مناتا۔”
”تم سمجھتی ہو، میں اس کے پاس نہیں گیا۔” زینی کو یک دم جھٹکا لگا تھا۔ وہ بات کرنا بھول گئی تھی۔
ضیا نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ”گیا تھا اس کے پاس۔ تمہارے لیے گیا تھا۔ اس کووضاحت دینے اور صفائی پیش کرنے۔”
”آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟” زینی کی زبان پہلی بار لڑکھڑانے لگی تھی۔
”کیا بتاتا کہ اس کو اب تمہارے باپ کی چادر میں لگے پیوند نظر آنے لگے ہیں۔ وہ وہاں اکیڈمی میں بیٹھ کر ان چیزوں کو گننے لگا ہے جو اسے میری بیٹی سے شادی کر کے نہیں مل سکتی تھیں۔”
”آپ کو کوئی غلط فہمی۔۔۔۔” زینی نے رکے ہوئے سانس کے ساتھ کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”میں نے بھی اپنے آپ سے یہی کہا تھا کہ جو کچھ میں نے شیراز کی زبان سے سنا، وہ میرے کانوں کا دھوکا ہے۔ لیکن اس کی آواز کی گونج ابھی تک ہلکی نہیں ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا آپ کی بیٹی ”جہیز” کے نام پر کچھ نہیں لائے گی مگر کم از کم ”عزت” تو لے کر آئے۔’ ‘
زینی کو لگا کسی نے بھرے بازار میں اس کے سر سے چادر کھینچ کر اتار دی ہو۔ بے حس وحرکت وہ باپ کو دیکھتی رہی۔ پلکیں جھپکائے بغیر سانس لیے بغیر۔
خاموشی کا ایک لمبا طویل وقفہ اس کے اور ضیا کے بیچ آیا تھا۔ خاموشی، خاموشی، خاموشی… لگتا تھا ساری کائنات ساکت ہو گئی تھی۔
پھر زینی نے بالآخر کہا۔
”میں یقین نہیں کر سکتی۔” اس کی آواز بے حد مستحکم تھی مگر وہ اس ایک جملے کے بعد وہاں ٹھہری نہیں تھی، وہ یک دم پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
ضیا کو لگا، ان کی چہیتی اولاد انہیں ”جھوٹا” کہہ گئی تھی۔
٭٭٭
”میری بیٹی بہت لگژریز کی عادی ہے۔” گالف کورس پر اس کے ساتھ گیند کے تعاقب میں جاتے ہوئے سعید نواز شیراز سے کہہ رہے تھے۔ جو بے حد فرماں برداری اور تابع داری سے ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
”تمہیں تو ہمارے لائف اسٹائل سے پتا چل ہی گیا ہو گا کہ شینا کو کس طرح کی زندگی گزارنے کی عادت ہے۔”
”جی!” شیراز نے اپنا پسندیدہ جواب دیا۔
”شینا کو کسی اور چیز پر اعتراض نہیں ہے سوائے اس محلے کے جس میں تم رہتے ہو۔” شیراز کا دل چاہا، وہ خود اپنے محلے کو جا کر آگ لگا دے۔ اسے شینا سے ”زیادہ” اپنے محلے پر ”اعتراض” تھا۔
”اسی لیے میں سوچ رہا تھا کہ شینا کو اپنا ایک بنگلہ شادی پر گفٹ کر دوں۔”
شیراز اس بار ”جی” بھی نہیں کہہ سکا۔ خوشی سے جیسے اس کی آواز ہی بند ہو گئی تھی۔ آخر اس نے یہ کہاں سوچا تھا کہ شادی پر شینا کو جہیز میں ”گھر” ملے گا۔
سعید نواز اب شیراز کو ڈیفنس کا وہ فیز بتا رہے تھے۔ جہاں ان کا وہ بنگلہ تھا اور شیراز سابقہ دن کے اخبار میں ڈیفنس کے گھروں کی قیمتوں کو ذہن میں دہرانے کی کوشش کر رہاتھا جو اس نے اتفاقاً ہی دیکھی تھیں۔
”تمہیں سرکاری گھر تو ملے گا مگر ایک جونئیر آفیسر کو جس طرح کا گھر ملے گا، اس میں شینا تو کبھی نہیں رہے گی، اسی لیے میں سوچ رہا تھا کہ تم لوگ اس گھر میں شفٹ ہو جاؤ۔ تم ایک دو دن میں فارغ ہو کر وہاں جاؤ اور دیکھو۔ اگر کچھ آرائش اور مرمت کی ضرورت ہے تو مجھے بتاؤ۔ شینا سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی وہاں ایک چکر لگائے اور ہاں، تم اپنے لیے گاڑی بھی پسند کر کے بک کروا لو۔ یہ تمہارے لیے شادی کا تحفہ ہو گا۔” وہ اس بار پھر جی کہنا چاہتا تھا، ایک بار پھر جی نہیں کہہ سکا۔
”جس شوروم سے میں اور شینا گاڑی وغیرہ خریدتے اور بدلتے رہتے ہیں، وہاں کل ڈرائیور کے ساتھ تمہیں بھجوا دوں گا۔”
سعید نواز گالف کورس پر ہول کے آس پاس کے علاقے میں گیند تلاش کر رہے تھے۔ شیراز کو لمبی گھاس میں گیند نظر آگئی تھی۔ وہ اس وقت جس ممنونیت اور مرعوبیت کی گرفت میں تھا، اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کتے کی طرح بھاگتا ہوا جائے اور اپنے منہ میں گیند دبائے لا کر سعید نواز کے قدموں پر رکھ دے۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ اپنی زبان سے ان کے پیروں کو بھی چاٹنا چاہتا تھا۔ اس کے اپنے باپ نے ستائیس سال میں اس کے لیے وہ سب کچھ نہیں کیا تھا جو یہ شخص سات دن میں کر رہا تھا شینا سے اس کے عشق میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔
وہ اپنے دل میں عزم کر رہا تھا وہ ساری عمر شینا کو سر پر بٹھا کر رکھے گا۔ کبھی اس سے ناراض نہیں ہو گا۔ کبھی کوئی سخت لفظ نہیں کہے گا۔ کبھی شینا سے کوئی کام نہیں لے گا۔ کبھی شینا پر کوئی پابندی نہیں لگائے گا۔ کبھی شینا کو کسی کام سے نہیں روکے گا۔ ہمیشہ اس کا بہت خیال رکھے گا۔ پوری تنخواہ لا کر اسے دے دیا کرے گا۔ پھر اسی سے اپنے اخراجات کے لیے پیسے لیا کرے گا اس کی سالگرہ اور ویڈنگ اینور سری ہمیشہ یاد رکھا کرے گا۔ اسے وقتاً فوقتاً تحائف دیتا رہے گا۔ اس کے لیے پھول لا یا کرے گا۔
گیند کی طرف جاتے ہوئے وہ بے حد جذباتی انداز میں ان ممکنہ تمام اقدامات کو طے کررہا تھا جو اسے کرنا تھے اور ابھی وہ ڈیر، ڈارلنگ، سویٹی، جان، ہنی میں سے اس نام کا انتخاب کر رہا تھا جس سے وہ مستقبل میں شینا کو مستقل مخاطب کرنا چاہتا تھا، جبکہ سعید نواز نے اسے دوبارہ مخاطب کیا۔
”اور شیراز! میں چاہتا ہوں۔ شادی بہت مختصر اور سادہ سی ہو۔ صرف تمہارے اور میرے گھر والے اس میں شامل ہوں۔ میں بے حد سادہ او رپرانے خیالات کا آدمی ہوں اور شینا بھی ایسی ہی سوچ رکھتی ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ دونوں خاندان کسی قسم کی فضولیات میں نہ پڑیں۔” سعید نواز نے جیسے شیراز کی آخری مشکل بھی آسان کر دی تھی۔
”جی… جی … جی… میں بالکل متفق ہوں آپ ٹھیک کہتے ہیں انکل!” شیراز خود بھی ایسی کوئی تقریب منعقد نہیں کروانا چاہتا تھا جس میں آ تنی مشکل سے چھپایا ہوا اس کا خاندان اور خاندانی بیک گراؤنڈ منٹوں میں بیوروکریسی کے جم غفیر میں اسے زیر کر دیتے۔ اسے ابھی منگنی کا احوال ازبر تھا۔
”جیسے ہی تمہاری ٹریننگ ختم ہوتی ہے، ہم ایک سادہ سی تقریب میں شینا اور تمہاری شادی کر دیں گے۔” سعید نواز نے اس کے رسپانس سے بے حد خوش ہوتے ہوئے جیسے فیصلہ سنایا۔
”اور ایک بات اور… تم نے دو چار بار شینا کو گھر پر کال کی ہے۔ شینا نے مجھ سے ذکر کیا۔ بیٹا! میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میں بہت پرانے خیالات کا مالک ہوں اور خود شینا بھی ان چیزوں کو پسند نہیں کرتی۔”
شیراز کے ماتھے پر شرمندگی سے پسینہ آگیا۔ سعید نواز کا لہجہ بے حد نرم مگر دو ٹوک تھا۔ وہ ان سے یہ بھی نہیں کہہ سکا کہ شینا سے بات کرنے کی ان کوششوں میں سے کسی ایک کو بھی کامیابی نہیں ہوئی۔
”سوری۔” اس نے بالآخر ”جی” کے علاوہ کچھ کہا۔ وہ اس وقت یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ مستقبل میں اس کا دوسرا پسندیدہ ترین جواب بننے والا تھا۔
سعید نواز نے مسکراتے ہوئے اس کی پشت تھپتھپائی اور گیند کے پاس پہنچ گئے۔
٭٭٭