شیراز کا وہ رقعہ پکڑنا اس کے اور اس کے گھر والوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا تھا۔ زینی کے رشتے سے جان چھڑانا شیراز کو جتنا مشکل لگ رہا تھا وہ اتنا ہی آسان ہو گیا تھا۔
اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے شیراز کے گھر والوں نے جی بھر کر زینی کے کردار کے بارے میں محلے اور خاندان میں باتیں کی تھیں۔ کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جس نے ان کی باتوں پر اعتبار نہ کیا ہو اور منگنی توڑنے کو صحیح قدم قرار نہ دیا ہو۔
کون تھا جو ایک سی ایس پی آفیسر کے خاندان کی کسی غلط بات کو غلط کہہ کر اس سے دشمنی یا ناراضی مول لیتا۔ ہر ایک کو مستقبل قریب یا بعید میں شیراز اور اس کے سرکاری عہدے کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔
پھر زینب ضیا ایک چیونٹی سے زیادہ اہمیت کہاں رکھتی تھی۔ لڑکیوں کی منگنیاں ہوتی رہتی ہیں ٹوٹتی رہتی ہیں صحیح یا غلط کسی بھی وجہ سے پھر اب کیا خاص بات ہو گئی تھی۔
اور زینب کی منگنی ختم ہونے سے پورے خاندان کے لیے شیراز اکبر ایک بار پھر سے اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ پورے خاندان کے لوگوں کی نظریں ایک بار پھر سے اکبر کے گھرانے پر آکر ٹک گئی تھیں کہ اب قرعہ کس خوش قسمت لڑکی کے نام نکلتا ہے۔ چار پانچ سال سے جس لڑکی کو خاندان کی خوش قسمت ترین لڑکی کے خطاب سے نوازا جا رہا تھا وہ یک دم اس خطاب سے محروم کر دی گئی تھی۔ اب کسی اور کی باری تھی اور ہر ایک کو اپنی بیٹی ہی شیرازکا مناسب ترین جوڑ لگ رہی تھی۔
ضیا کو دکھ اس بات کا تھا کہ محلے اور خاندان کے کسی فرد نے ان سے اس رشتہ کے ختم ہونے پر اظہار افسوس نہیں کیا تھا۔ ہر ایک نے ان سے صرف اس لڑکے کے قصے کے حوالے سے وضاحت ہی مانگی تھی۔ محلے کا کوئی مرد زینی کا نام نہیں جانتا تھا اور اب وہ ہر ایک کے ہونٹوں پر یہ نام سن رہے تھے۔ کسی باپ کے لیے اپنی بیٹی کا نام غیر لوگوں کی زبان پر اس طرح سننا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔ یہ وہی جانتے تھے۔
اور اس سے بھی تکلیف دہ چیز زینی کا رویہ اور اس کی حالت تھی۔ وہ دنوں کے اندر بدل گئی تھی۔ وہ کئی بار رات کو صحن میں اس کے قدموں کی آواز سنتے اور جاگ جاتے اور اس کے بعد پوری رات سو نہیں پاتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ساری ساری رات صحن میں بیٹھی رہتی ہے۔ شیراز سے اس کی جذباتی وابستگی کو کوئی ان سے زیادہ اچھی طرح نہیں جانتا تھا اور اب اس کی ذہنی کیفیت کو کوئی ان سے زیادہ بہتر طور پر نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ان کے بس میں ہوتا تو وہ ہر قیمت پر شیراز کے ساتھ اس کارشتہ جوڑ دیتے مگر یہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں نہیں تھا اور وہ یہی چیز زینی کو سمجھانے سے قاصر تھے۔ وہ پہلے کی طرح ان سے جیب خرچ لیتی تھی نہ ان کی لائی ہوئی کھانے کی کسی چیز کو ہاتھ لگاتی تھی۔ اس نے ضیا کے سامنے آنا تک چھوڑ دیا تھا۔ رشہ ٹوٹنے سے شیراز کے گھر کو کچھ نہیں ہوا تھا مگر ضیا کے گھر میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔
٭٭٭
شیراز اور اس کے گھر والوں کو اسی ویک اینڈ پر شینا کے گھر جانا تھا مگر اچانک سعید نواز نے اسے شینا کے دو ہفتے کے لیے اسلام آباد جانے کا بتایا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ جیسے ہی وہاں سے واپس آتی ہے وہ اس کے گھر والوں کوکھانے پر بلوائیں گے۔ شیراز کو اچانک خدشات تنگ کرنے لگے تھے۔ کیونکہ اگلے کچھ دن سعید نواز سے اس کا رابطہ بالکل نہیں ہو سکا تھا۔ دوسری طرف اس کے گھر والے اس سے بار بار شینا کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ شیراز کو یہ خوف محسوس ہوا کہ کہیں سعید نواز کا اچانک ارادہ نہ بدل گیا ہو۔
اس نے بہانے بہانے جواد سے شینا اور اس کے اسلام آباد جانے کے بارے میں پوچھا۔ جواد کو اس بارے میں کچھ پتا نہیں تھا مگر اس نے شیراز کو یہ تسلی ضرور دی کہ شینا اکثر ٹریول کرتی رہتی ہے اور اس کے اکثر سفر کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ہوتے ہیں۔ شیراز مطمئن تو خیر کیا ہوتا مگر اس نے جواد کو سعید نواز کے پروپوزل کے بارے میں بتا دیا۔
جواد نے بے حد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مبارک باد دی مگر شیراز کو یو ں محسوس ہوا جیسے سعید نواز اسے پہلے ہی اس بارے میں بتاچکے تھے۔ مبارک باد دینے کے ساتھ ہی جواد نے اس سے اگلا سوال اس کی پچھلی منگنی کے بارے میں پوچھا اور شیراز نے اس سے جھوٹ بولتے ہوئے کہاکہ وہ کئی ہفتے پہلے اس رشتہ کو ختم کر چکا تھا۔ جواد نے اس پر اسے ایک بار پھر مبارک باد دی۔
منگنی ٹوٹنے کے اگلے دو ہفتوں میں آ سے یکے بعد دیگرے زینب کے تین طویل خط اکیڈمی کے ایڈریس پر ملے۔ اس نے صرف پہلا خط پڑھا اس میں زینب نے اس لڑکے کے تنگ کرنے کے احوال کے ساتھ ساتھ اس سے معذرت کی تھی اور التجاکی تھی کہ وہ ایک بار اس سے مل لے۔
شیراز نے اگلے دونوں خطوں کو پڑھے بغیر پھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ زینب ضیا اب اس کے ماضی کا ایک گم گشتہ باب تھا جسے وہ بند کر چکا تھا۔ اس کی زندگی کا اگلا سنہری باب شینا سعید نواز کے وجود سے سجایا جانے والا تھا اور اسے اس وقت صرف اسی کی فکر تھی۔
دو ہفتے وہ مسلسل سعید نواز سے کسی طرح رابطے کی کوشش کرتا رہا مگر اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ وہ اسے گھر پر نہیں ملے اور دو ہفتے کے بعد جب وہ بے حد فرسٹرٹیڈ ہو چکا تھا تو بالآخر سعید نواز کی طرف سے اسے اور اس کے گھر والوں کو کھانے کی دعوت مل گئی۔ شیراز کا دل بے اختیار سجدے میں گر جانے کو چاہا۔
اس نے اپنے گھر والوں کو اس دعوت کی اطلاع دینے کے ساتھ ہی سعید نواز کے دیے گئے پیسوں سے منگنی کا سامان بھی خرید لیا تھا۔
سعید نواز کی بھجوائی ہوئی شاندار ائیر کنڈیشنڈ گاڑی میں شیراز، اس کے ماں باپ اور بہنوں نے زندگی میں پہلی بار اکٹھا سفر کیا تھا۔ وہ نئے خریدے ہوئے بہترین لباس میں ملبوس تھے۔ انہیں دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے جار ہے ہوں۔ منگنی کی تقریب ان کے لحاظ سے شادی ہی کی تقریب تھی اور وہ سوچ رہے تھے کہ سعید نواز کے گھر بھی اسی طرح کا اہتمام ہو گا اور ان کا شاندار استقبال ہو گا۔
ان کی توقعات غلط ثابت ہوئی تھیں۔ سعید نواز کے ہاں وہ اور سنیعہ ان کی سابقہ بیوی کے علاوہ ان کو ریسیو کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا وہ دونوں میاں بیوی خود بے حد بلکہ کسی حد تک عام لباس میں ملبوس تھے۔ گاڑی پر پہلے چکر میں شیراز اکبر، نسیم اور نزہت آئے تھے اور سعید نواز اور ان کی بیوی نے صرف انہیں ہی ریسیو کیا تھا۔ دوسرے چکر میں آنے والی شیراز کی دو بہنوں کو ریسیو کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ انہیں خود شیراز ہی اندر لایا تھا اور سعید نواز اور سنیعہ انہیں دیکھ کر قدرے حیران ہوئے تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شاید صرف اکبر، نسیم اور نزہت ہی رسم کے لیے آئے تھے۔
سعید نواز اور سنیعہ اگر شیراز اور اس کے گھر والوں کے بھڑکیلے ملبوسات دیکھ کر حیران ہو رہے تھے تو دوسری طرف شیراز کے گھر والے خاص طور پر اکبر اور نسیم سنیعہ کے سلیولیس بازوؤں والی شرٹ اور ٹراؤزر نما پاجامے کو دیکھ کر اسی طرح ہکا بکا نظر آرہے تھے۔ باقی کی کسر اس گھر اس کے ڈرائنگ اور ڈائننگ روم میں نظر آنے والے سامان کو دیکھ کر پوری ہو گئی تھی۔ شیراز کے گھر والے سعید نواز اور سنیعہ سے باتیں کم کر رہے تھے اور کمرے میں رکھے سامان کو زیادہ گھور رہے تھے۔ نتیجتاً سعید نواز اور سنیعہ کی زیادہ تر گفتگو شیراز سے ہی ہوتی رہی جو دونوں خاندانوں کے درمیان اس قدر نمایاں فرق کو ہر طرح سے چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ ڈنر جو کسی دوسری فیملی کے انوائٹ کیے جانے پر بہت دیر بعد شروع ہوتا، وہ سعید نواز نے شیراز کی فیملی کے آنے کے پندرہ منٹ بعد ہی سرو کرنے کا کہہ دیا تھا۔
”لیکن بھائی صاحب! پہلے آپ بیٹی کو بلوا لیتے اور ہم لوگ رسم کر لیتے تو اچھا تھا۔” نسیم نے کہا تھا۔
”شینا ابھی ڈنر پر ہمیں جوائن کر لے گی اور رسم کی کوئی بات نہیں، اتنی فارمیلٹیز کی ضرورت نہیں ہے۔ بس دونوں خاندانوں کے درمیان بات طے ہوگئی یہ کافی ہے” سعید نواز نے ہنستے ہوئے انہیں ڈائننگ ٹیبل کی طرف لے جاتے ہوئے کہا۔
ڈائننگ ٹیبل پر سب کے بیٹھنے کے کچھ دیر بعد ہی شینا بالآخر آگئی تھی۔ نسیم اور شیراز کی بہنوں کو لڑکی کی شکل و صورت کے بارے میں جو خدشات پچھلے کئی دنوں سے ستا رہے تھے وہ یک دم غائب ہو گئے تھے۔ شینا زینی جیسی خوبصورت بے شک نہ سہی مگر خوبصورت تھی اور اس کے انداز اور حلیے نے اسے بے حد اٹریکٹو بنا دیا تھا۔
واحد جھٹکا جو نسیم کو اسے دیکھ کر لگا تھا، وہ اس کا جینز اور ایک مختصر سی شرٹ میں ملبوس ہونا تھا۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ وہ باقاعدہ طور پر کسی دلہن کے حلیے میں دوپٹہ سے سرڈھانپے ان کے سامنے نمودار ہو گی اور وہ پھر رسم کریں گے۔ یہاں شینا ہیلو کہہ کر نسیم کے بالمقابل ٹیبل کے دوسرے طرف اپنی ماں کے برابر میں بیٹھ گئی تھی۔ سعید نواز اب شینا سے شیراز اور اس کی فیملی اس کا تعارف کروا رہے تھے۔ اور اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ باری باری ان سب چہروں کو دیکھا تھا جو اس کے آنے کے بعد سے مسلسل اسے گھور رہے تھے یا شاید اشتیاق بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ شینا فوری طور پر دونوں میں تفریق نہیں کر سکی۔
نسیم نے ”ماشاء اللہ” کہتے ہوئے بالآخر شینا کی تعریف کی تھی جس پر شینا نے ایک اور اچٹتی سی نظر ان پر ڈالی۔ ملازم اب کھانا سرو کررہے تھے۔ اور میز پر پڑی آدھی سے زیادہ ڈشز کو شیراز کا خاندان پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ یہی حالت ٹیبل پر پڑی کراکری اور کٹلری کی تھی۔ شیراز کے علاوہ ان میں سے کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ کون سے برتن کا صحیح مصرف کیا تھا۔ نتیجہ اتنا ہی برا نکلا جتنا شیراز کو خوف تھا۔
اس کے باپ اور ایک چھوٹی بہن نے سوپ کے لیے رکھے ہوئے پیالوں میں سوپ سرو کیے جانے کا انتظار کرنے سے پہلے ہی چکن کری کا سالن ڈال لیا تھا۔ نزہت اور دوسری بہن نے ملازم کے سوپ سرو کرنے پر سوپ پیالے میں تو ڈال لیا تھا مگر اسے یخنی سمجھ کر چپاتی کے ٹکڑے اس میں ڈبو ڈبو کر کھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ تھائی سوپ تھا۔
نسیم نے سوپ پیالے میں ڈال لیا تھا۔ مگر اسے چھوڑ کر اس نے ”چکن فرائیڈرائس” اپنی پلیٹ میں ڈالے اور پھر ٹیبل پر پڑی خشک بھنی ہوئی ”دال” کو ان چاولوں پر ڈال کر وہ ہمیشہ کی طرح اپنے ہاتھوں سے چاول کھانے لگی۔ اس نے ہمیشہ چاول ہاتھ سے ہی کھائے تھے۔ چمچہ کا استعمال اس نے اپنے گھر میں کبھی نہیں کیا تھا تو یہاں کس طرح کرتیں۔ سعید نواز اور سنیعہ نے کمال تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل پر شیراز کے گھر والوں کی بدحواسیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور یوں ظاہر کیا جیسے انہوں نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔ وہ مسلسل شیراز سے باتیں کرتے رہے۔
دو دفعہ ٹیبل پر وائن گلاس میں سرو کیا ہوا مشروب باری باری میز پر گرا۔ پہلی بار اکبر سے، دوسری بار نزہت سے۔ چمچہ سے چاول کھانے کی کوشش میں کانٹا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہر ایک کی پلیٹ کے ارد گرد چاولوں کی ایک چھوٹی دیوار بن گئی تھی۔ صرف نسیم کی پلیٹ کے گرد ایسا نہیں تھا کیونکہ وہ ہاتھ سے لقمے لے رہی تھی۔ اس رات اکبر نے ”چکن چلی ڈرائی” کو چپاتی کے ساتھ کھایا۔ نزہت نے چکن پائن ایپل میں سے پائن ایپل کے ٹکڑے مربہ سمجھ کر نکال دیے جبکہ شبانہ نے چکن آلمنڈ میں سے صرف بادام ہی چن کر کھائے۔ صرف اتنا ہی نہیں تھا ان سب نے آخر میں گرین ٹی کے قہوے کے لیے دودھ منگوا کر پہلی بار ملازموں کو بھی حواس باختہ کیا تھا۔
ڈائننگ ٹیبل کا ماحول اتنا فارمل تھا کہ ان میں سے کسی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ میز پر پڑی ڈشز کا نام یا کھائے جانے کا طریقہ بھی پوچھنے کی ہمت کر سکتے۔ وہ صرف جلد از جلد کھاپی کر اس مشکل مرحلے سے گزر جانا چاہتے تھے۔
ٹیبل پر صرف شینا تھی جو بالکل خاموشی سے ان سب لوگوں کو کھانا کھاتے ہوئے بغور دیکھ رہی تھی۔ وہ بے حد ”سنجیدہ” تھی اور صرف شیرازتھا جواب ان سب کو اکٹھے وہاں لے آنے پر ”شرمندہ” تھا۔
کھانے کے فوراً بعد واپس ڈرائنگ روم میں آنے پر منگنی کی مختصر رسم ہوئی۔ نسیم نے شینا کو وہ انگوٹھی پہنانے کی کوشش کی جو وہ ساتھ لے کر آئی تھیں مگر سعید نواز اور سنیعہ نے انہیں منع کر دیا۔
”ہمارے یہاں انگوٹھیوں وغیرہ کا تبادلہ نہیں ہوتا، صرف بات طے ہوتی ہے۔ یہ انگوٹھی ہماری طرف سے آپ رکھ لیں۔”
سنیعہ نے کہا تھا۔ انہوں نے منگنی کا وہ دوسرا سامان بھی یہی کہہ کر نہیں رکھا تھا جو شیراز کے گھر والے لائے تھے۔ صرف وہ پانچ ہزار روپیہ لے لیا تھا جو اکبر شینا کو دینا چاہتا تھا۔ شینا مزید نہیں رکی، وہ فوراً اٹھ کر چلی گئی۔
جبکہ سعید نواز نے شیراز اور اس کے گھر والوں کو رخصت کرتے ہوئے ایک بار پھر تحائف اور سامان کا ایک انبار ان کے ساتھ کر دیا تھا۔
واپسی پر سعید نواز نے اپنی ایک گاڑی کے دو چکر لگوانے کے بجائے اپنی دو گاڑیوں میں انہیں گھر بھجوایا تھا۔
وہ رات شیراز کے گھر والوں کی زندگی کی سنہری راتوں میں سے ایک تھی۔ ان سب کو شینا کا گھر اور ماں باپ دونوں بہت اچھے لگے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر شینا کی سادگی اور خاموشی اچھی لگی تھی۔ شیراز فخریہ انداز میں شینا اور سعید نواز کی یہ تعریفیں یوں سنتا رہا جیسے وہ واقعی اسی کی دریافت تھے۔ کچھ گھنٹوں پہلے کی شرمندگی کا اب کہیں نام ونشان بھی نہیں رہا تھا۔
٭٭٭