اس رات ضیا کے گھر میں کھانا پکا تھا نہ ہی کوئی رات کو سویا تھا۔ ہر ایک آنے والے وقت کے بارے میں خدشات لیے جاگتا رہا تھا۔ زینب کی نظروں کے سامنے دوپہر سے رات تک کئی واقعات فلم کی طرح بار بار چل رہے تھے۔ ضیا اور نفیسہ کے کانوں میں اکبر اور نسیم کی کہی ہوئی باتیں۔
صبح ہونے تک زینی تیز بخار میں پھنکنے لگی تھی۔ ضیا آفس جاتے ہوئے اسے دیکھنے آئے تھے۔ زینی نے آنکھیں نہیں کھولیں، نہ ان کی کسی بات کا جواب دیا۔ وہ اپنی آنکھوں پر بازو رکھے چت لیٹی رہی۔ ضیا کا دل کٹنے لگا۔
”آج منگنی کاسامان ان لوگوں کے گھر بھجوا دینا۔” ضیا نے بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے نفیسہ سے کہا۔
”آپ ناشتہ نہیں کریں گے۔”
”نہیں بھوک نہیں ہے۔”
”میں سوچ رہی تھی اگر ایک بار خاندان کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کر کے شیراز اور اس کے گھر والوں سے بات۔۔۔۔”
نفیسہ نے بے حد لجاجت آمیز انداز میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔ ضیا نے ان کی بات کاٹ دی۔
”تم چاہتی ہو، جو باتیں انہوں نے ہم سے زینی کے بارے میں کہی ہیں، وہ انہیں پورے خاندان کے سامنے دہرائیں؟ مجھے یہ منظور نہیں ہے۔ چند دن گزریں گے پھر زینی ٹھیک ہو جائے گی۔”
وہ کہتے ہوئے سائیکل لے کر صحن سے باہر نکل گئے۔
٭٭٭
”امی کہہ رہی ہیں، ہمیں منگنی کا سامان بھجوانا ہے۔”
ربیعہ ضیا کے گھر سے جانے کے تھوڑی دیر بعد نفیسہ کے کہنے پر اس کے پاس آئی تھی۔ وہ اپنے بستر پر اسی طرح چت پڑی ہوئی تھی۔ اسے بہت تیز بخار تھا۔ مگر اب وہ رو نہیں رہی تھی نہ ہی آنکھیں بند کیے ہوئے تھی۔ بے حد ماؤف ذہن کے ساتھ وہ چھت کو تک رہی تھی۔ بخار نے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا تھا اور شاید اس ذہنی حالت میں یہ اس کے لیے بہتر ہی ہوا تھا۔
”بھیج دیں۔” اس نے خالی نظروں سے ربیعہ کو دیکھ کر کہا۔
”یہ بھی چاہیے۔” ربیعہ نے جھجکتے ہوئے اس کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔
”کیا؟” زینب کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا، وہ کیا چیز مانگ رہی تھی۔
”منگنی کی انگوٹھی۔” ربیعہ نے بالآخر کہا۔
زینب اب بھی اس طرح سپاٹ نظروں سے اس کو دیکھتی رہی۔
ربیعہ کچھ دیر منتظر رہی پھر اس نے جھک کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی انگلی سے وہ انگوٹھی اتار لی تھی۔ زینب نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔ وہ بالکل بے جان انداز میں اسے اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتارتے دیکھتی رہی۔ وہ انگوٹھی اتنے سالوں میں اس کے وجود کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ وہ سونے کا وہ واحد زیور تھا جو پچھلے چار پانچ سالوں سے زینب کے جسم پر تھا اور اب اسے اس سے الگ ہونے میں چند سیکنڈز بھی نہیں لگے تھے۔
”میں تمہارے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں، ساتھ کوئی میڈیسن بھی دیتی ہوں۔ بخار اور تیز ہو رہا ہے تمہارا۔” ربیعہ نے قدرے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔
”کچھ مت لانا، میں کچھ نہیں کھاؤں گی۔” زینی نے کروٹ لیتے ہوئے اپنے آپ کو سر سے پاؤں تک چادر میں چھپا لیا۔
٭٭٭
وہ اگلے تین دن اسی طرح بخار میں جھلستی گم صم اپنے بستر پر پڑی رہی ۔ ربیعہ اور نفیسہ زبردستی اسے تھوڑا بہت کھلاتی رہیں۔ ضیا کے کئی بار کوشش کرنے پر بھی اس نے ان سے بات نہیں کی۔ اسے اگر شیراز کے گھر والوں کے علاوہ کسی اور سے گلہ تھا تو وہ ضیا ہی تھے۔ وہ رشتہ ختم ہو جانے میں انہیں بھی موردا الزام ٹھہرا رہی تھی۔ ”اگر زہرہ آپا کے لیے وہ فہمیدہ پھوپھو کے سامنے ہاتھ جوڑ سکتے ہیں تو میرے لیے کیوں نہیں؟” اس کا ذہن ایک ہی بات سوچتا رہتا۔
پھر ایک موہوم سی امید اس کے اندر جاگنے لگتی کہ شیراز جلد یا بدیر اپنے ماں باپ کو دوبارہ رشتہ جوڑنے کے لیے ان کے گھر بھیجے گا۔ آخر یہ ہو کیسے سکتا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے زینی سے قطع تعلق کر لیتا۔ وہ سارا دن اپنے بستر پر لیٹی پتہ نہیں کیا کیا سوچتی رہتی۔
اس کی منگنی ٹوٹنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی تھی۔ سارا دن نفیسہ محلے کی عورتوں کو منگنی ٹوٹنے کی وجوہات بتاتی رہتیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ شیراز اب افسر تھا اور کوئی بھی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ شیراز جیسے لائق اور شریف نوجوان نے بغیر کسی وجہ کے زینی کو چھوڑ دیا تھا۔ ہر عورت نفیسہ سے سارا قصہ سننے کے بعد جیسے تصدیق کے لیے شیراز کے گھر بھی جاتی جہاں پر نسیم اور نزہت انہیں یہ واقعہ مرچ مسالے کے ساتھ بتاتیں۔ وہ عورتیں دوبارہ ان باتوں کو بتانے یا شاید ان پر نفیسہ کی رائے لینے کے لیے زینی کے گھر آتیں اور پھر ان کا اصرار ہوتا کہ وہ زینی سے ملنا چاہتی ہیں تا کہ اس سے ہمدردی کر سکیں اور زینی کمرے میں بند صحن میں ہونے والی باتیں سنتی رہتی۔
”میں نے تو جب سے زینب کی منگنی ٹوٹنے کا سنا ہے، تب سے میرا جی برا ہورہا ہے۔ آخر ہو اکیا تھا؟” یہ ہر عورت کے ابتدائیہ جملے ہوتے۔
”بس سمجھ لیں، قسمت خراب تھی زینی کی۔” نفیسہ کا گہرا سانس اور جوابی جملہ۔
”پر محلے میں تو کچھ اور شور مچا ہوا ہے۔” اگلا تیر۔
”کیسا شور؟” نفیسہ کی پریشانی۔
”نسیم تو کہہ رہی ہے کہ زینب کے لڑکوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ شیراز نے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے اسے کسی لڑکے کے ساتھ۔” روح فرسا الزام یا انکشاف۔
”جھوٹ بول رہی ہے، تہمت لگا رہی ہے میری بیٹی پر۔ خدا کا خوف نہیں ہے اسے۔” نفیسہ کا واویلا۔
اور زینی اندر بستر پر پڑی یہ سب کچھ سوچ کر اور ادھ موئی ہوئی جاتی۔ اس کا کمرے سے باہر نکل کر کسی سے سامنا کرنے کا حوصلہ اکٹھا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا۔ کل تک جو عورتیں اپنی بیٹیوں کا نام اس کے نام پر رکھتے ہوئے اس کی قسمت پر رشک کرتی تھیں۔ آج وہی اس پر ترس کھانے یا اس کا تماشا دیکھنے چلی آرہی تھیں۔
زینب ضیا نے آج تک اپنی قسمت کے اچھا ہونے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ لوگ سوچتے تھے اور لوگ کہتے تھے لیکن آج اپنی قسمت کے خراب ہونے کے بارے میں اسے کوئی شک نہیں تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ واقعی بہت بدقسمت ہے زہرہ آپا سے زیادہ۔ محلے کی ہر مطلقہ، بیوہ عورت سے زیادہ۔
اسے اب اس لڑکے پر بھی غصہ نہیں آتا تھا۔ اسے لگتا، وہ لڑکا نہیں تھا۔ بدقسمتی تھی جو اس دن اس کے اور شیراز کے درمیان آکر کھڑی ہو گئی تھی ۔
سارا دن وہ کمرے میں بستر پر چپ چاپ پڑی رہتی اور ساری ساری رات صحن میں ننگے پاؤں پھرتی رہتی یا پھر کسی جگہ بیٹھی رہتی۔ جب تہجد کے وقت ضیا اپنے کمرے سے باہر نکلتے تو وہ چپ چاپ صحن سے اٹھ کر واپس کمرے میں چلی جاتی۔ نہ وہ پہلے کی طرح ضیا سے بات کرتی، نہ وضو کرواتی، نہ چائے کا پوچھتی۔
ضیا نے بہت بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر زینی کے پاس ایک چپ کے سوا اورکچھ تھا ہی نہیں۔ وہ باپ سے یہ نہیں کہنا چاہتی تھی کہ اسے صرف اور صرف ان ہی سے گلہ تھا اور کسی سے نہیں۔ شیراز یا اس کے گھر والوں سے بھی نہیں۔
مگر اس سب کے باوجود اسے ابھی بھی کوئی آس تھی کہ کچھ دن اور گزرنے پر شیراز کسی نہ کسی طرح اس سے رابطے کی کوشش کرے گا، وہ اسے یاد کرے گا اور سب کچھ پھر پہلے کی طرح ہو جائے گا۔ سب کچھ۔
٭٭٭
اس رات بھی وہ اسی طرح صحن میں بیٹھی ہوئی تھی جب ربیعہ باہر آکر اس کے پاس بیٹھ گئی۔
”سو جاؤ زینی! کب تک اس طرح جاگتی رہو گی؟”
”مجھے ایک بار شیراز سے ملنا ہے۔” زینی نے جواب دیا۔
”کیا کرو گی ا س سے مل کر، ابو نے کہا تو ہے، وہ سب ایک جیسے ہیں۔”
”نہیں وہ باقی لوگوں جیسے نہیں ہیں۔” زینی نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔
”زینی۔۔۔۔”
اس نے ربیعہ کی بات کاٹ دی۔ ”میں انہیں منا لوں گی۔ جتنا بھی ناراض ہوں مگر وہ میرے سامنے مجھے دیکھ کر ناراض نہیں رہ سکتے۔ تمہیں پتہ تو ہے۔”
”انہوں نے منگنی توڑی ہے اور شیراز کی مرضی سے توڑی ہے۔”
”غصے میں، صرف غصے میں۔ ورنہ شیراز میرے بغیر کیسے رہیں گے۔” زینی نے بے چارگی سے کہا۔
”جیسے مرضی رہے ہمیں کیا ہم سے تو رشتہ ختم ہو گیا ان لوگوں کا۔ ابو نے کہا ہے نا کہ تمہیں انشاء اللہ تعالیٰ شیراز سے بہتر آدمی ملے گا۔”
”نہیں۔ شیراز نہیں تو کوئی بھی نہیں۔” زینی نے یک دم دوٹوک انداز میں کہا۔
”زینی۔۔۔۔”
”میں ان کی جگہ کسی کو نہیں دے سکتی۔”
”ابھی نئی نئی بات ہے، کچھ وقت گزرے گا تو وہ تمہارے دل سے نکل جائے گا۔”
”نہیں نکلے گا، سو سال بھی گزر جائیں تو بھی وہ میرے دل سے نہیں نکلے گا۔ کوئی اس طرح دل سے کیسے نکل سکتا ہے۔”
”تم اسے نکال دو گی تو نکل جائے گا۔”
”تم عمران کو اپنے دل سے نکال سکتی ہو؟”
”ہاں، اگر وہ مجھے اس طرح اپنی زندگی سے نکال دے تو میں بھی اسے اپنی زندگی سے نکال دوں گی۔” ربیعہ نے اسی انداز میں کہا۔
”یہ فرق ہوتا ہے تعلق میں اور محبت میں۔ میں تو شیراز کو کسی بھی قیمت پر اپنے دل سے نہیں نکال سکتی اور نہ نکالوں گی اور میں اب کسی اور سے شادی بھی نہیں کروں گی۔ ”
زینی نے دوٹوک انداز میں کہا اور اٹھ کر اندر چلی گئی۔
٭٭٭