”خالہ! دروازہ کھولیں، مجھے اندر تو آنے دیں۔ میری بات تو سنیں۔ میں آپ کو سب کچھ بتاتی ہوں۔ آپ دروازہ تو کھولیں۔” وہ دروازہ کے باہر کھڑی منت سے کہہ رہی تھی۔
”میں نے تم سے کہا نا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ۔ مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی۔” نسیم نے ایک بار پھر وہی بات دہرائی۔
”میں نہیں جاؤں گی، میں آپ سے ملے بغیر نہیں جاؤں گی۔” زینی نے بے حد ضدی انداز میں کہا۔
”تو پھر کھڑی دروازہ بجاتی رہو۔” نسیم نے بے حد غصے سے کہا۔
زینی پوری قوت سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں سے اس دروازے کو بجانے لگی۔ ذلت یہ بھی ہوتی ہے، وہ اب جا ن رہی تھی۔ اور یہ کبھی ایک جگہ سے یا ایک ہی انداز میں نہیں ملتی۔ اسے یہ بھی پتہ چل گیا تھا۔
وہ تب تک دروازہ بجاتی رہی جب تک گلی کے دوسرے گھروں سے لوگ باہر نہیں نکلنے لگے اور شاید ابھی نہ جانے کب تک دروازہ بجاتی رہتی اگر ربیعہ اور نفیسہ زبردستی اسے آکر وہاں سے نہ لے جاتیں۔ جو بات شاید اگلے چند دنوں میں محلے والوں کو پتہ چلتی، وہ چند منٹوں میں پتہ چل گئی تھی۔
زینی پرشیراز کے گھر کا دروازہ بند ہونا کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھا۔
٭٭٭
”سارا قصور تمہاراہے۔ تم ہی نے اتنی چھوٹ دے رکھی تھی اپنی بیٹی کو۔”
اکبر اب ضیا پر برس رہے تھے۔ ضیا تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے گھر آئے تھے اور گھر پہنچتے ہی انہیں یہ خبر مل گئی تھی۔ وہ اسی طرح الٹے قدموں اکبر کے گھر چلے آئے تھے وہ شیراز سے خود ملنا چاہتے تھے مگر اکبرا ور نسیم دونوں نے یہی ظاہر کیا تھا کہ شیراز وہاں نہیں ہے۔ جبکہ شیراز دوسرے کمرے میں موجود ماں باپ اور ضیا کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔
”سو سو لیکچر دیتے تھے مجھے اخلاقیات اور ایمانداری پر۔ اپنی بیٹی کو دینا کیوں بھول گئے؟” اکبر کو پرانی بھڑاس نکالنے کا موقع مل رہا تھا۔
”اکبر بھائی! میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ زینی کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اس کا قصور ہوتا تو میں کبھی آپ کے ہاں نہیں آتا۔” ضیاء نے لجاجت سے کہا۔
”تمہارا مطلب ہے کہ اس کا قصور نہیں ہے۔ ہم جھوٹے ہیں۔” اکبر نے اسی انداز میں کہا۔ زندگی میں پہلی بار انہیں کسی پر برسنے، کسی پر حاکمیت جتانے کا موقع مل رہا تھا اور وہ بھی اپنے اس چھوٹے بھائی پر جس کی سرکاری نوکری اور عزت سے وہ ہمیشہ سے خار کھاتے تھے۔
”خدا نخواستہ میں ایسا کیوں کہوں گا اکبر بھائی! یہ سب کچھ کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ ورنہ آپ جانتے ہیں زینی کو… وہ بھلا اس طرح کا کوئی کام کیسے کر سکتی ہے۔”
”کسی دوسرے کی اولاد کے بھیدوں کو ہم کیسے جان سکتے ہیں۔” نسیم نے بے حد تلخی سے کہا۔ ”ماں باپ کا تو کام ہی پردے ڈالنا ہوتا ہے۔ تم اس کی حمایت کر کے کون سا انوکھا کام کر رہے ہو۔ تم اپنے منہ سے یہ اقرار کیسے کرو گے کہ تمہاری بیٹی کا کردار ٹھیک نہیں ہے۔”
”بھابھی! میری بیٹی کے کردار کے بارے میں ایک لفظ بھی مت کہیے گا۔” ضیاء نسیم کی یہ بات برداشت نہیں کر سکے تھے۔
”چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم ہمارے گھر بیٹھے ہو ہم تمہارے گھر نہیں بیٹھے۔” اکبر نے بلند آواز میں ضیاء سے کہا۔ ”سارے زمانے کی آوارہ لڑکی ہمارے بیٹے کے لیے ہی رہ گئی ہے۔”
”آپ کو رشتہ ختم کرنا ہے، کر دیں لیکن میری بیٹی کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔”
ضیاء نے یک دم کہا۔ اکبر اور نسیم کی باتیں اور انداز اب ان کے لیے واقعی ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔
”ارے اچھا ہوا۔ ہمیں یہ سب پہلے پتا چل گیا۔ شادی کے بعد پتا چلتا تو میرے بیٹے کی کتنی بدنامی ہوتی۔” نسیم نے کہا۔
”واقعی بہت اچھا ہوا کہ یہ سب کچھ مجھے بھی پہلے پتہ چل گیا۔ شادی کے بعد اس طرح کی کوئی تہمت آپ میری بیٹی کے دامن پر لگاتے تو میں کیا کرتا۔”
”ہمارے بیٹے کی عزت تمہاری بیٹی کی عزت سے کئی گنا زیادہ اور قیمتی ہے۔ معاشرے میں اس کا مقام ہے۔ تمہاری بیٹی کیا ہے اور خود تم کیا ہو۔” اکبر نے بے حد حقارت سے کہا۔
”ٹھیک کہتے ہیں آپ! آپ کے بیٹے کا معاشرے میں ایک مقام ہے۔ وہ سرکاری افسر ہے۔ اسے شرم آئے گی ایک کلرک کی بیٹی کو اپنی بیوی بناتے ہوئے۔ مجھے تو یہ سب پہلے ہی جان لینا تھا۔ کچھ تو تھا نا اس کے اور آپ کے دل میں کہ اکیڈمی جانے کے بعد وہ ایک بار اس چچا کے گھر نہیں آیا، جہاں وہ مہینے میں کئی کئی بار آتا تھا۔ میری بیٹی پر کوئی تہمت لگانے کے بجائے صرف یہ کہہ دیتے کہ اب آپ کے بیٹے اور میری بیٹی کا جوڑ نہیں رہا۔ اتنا لمبا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ کی چیزیں میں صبح بھجوا دوں گا۔”
ضیاء نے کھڑے ہوتے ہوئے آخری چند لفظ ان سے کہے اور پھر ان کے گھر سے نکل آئے۔
کندھوں پر انہیں اتنا بوجھ محسوس نہیں ہو رہا تھا جتنا دل پر۔ یہ ان کے خونی رشتے تھے۔ ان کے ماں جائے۔ وہ فہمیدہ آپا ہوتیں یا اکبر… ان کے لیے دونوں سانپ سے زیادہ زہریلے ثابت ہوئے تھے۔ دونوں کی آنکھوں پر حرص وہوس کی پٹی بندھی تھی جس نے انہیں اندھا کررکھا تھا۔
٭٭٭
ضیا بہت دیر تک اکبر کے گھر پر رہے تھے اور اس سارے عرصے میں زینی جلے پاؤں کی بلی کی طرح صحن کے چکر کاٹتی رہی تھی۔ صرف وہی نہیں، ربیعہ، نفیسہ اور سلمان بھی بے حد پریشانی کے عالم میں صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔
ضیا بالآخر جس وقت شیراز کے گھر سے واپس آئے، اس وقت رات کافی ڈھل چکی تھی۔ دروازے پر ان کے دستک دیتے ہی زینی بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف گئی۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا اور ضیا کے تاثرات نے جیسے اس کے بدترین خدشات کی تصدیق کر دی تھی۔
”کوئی بات نہیں بیٹا! ایک منگنی ختم ہونے سے زندگی ختم نہیں ہوتی۔ اللہ تمہیں شیراز سے بہتر شخص کی رفاقت دے۔”
ضیا نے نم آنکھوں کے ساتھ زینی کے سر پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا اورجیسے اسے زندہ قبر میں درگور کر دیا۔ وہ بے یقینی سے باپ کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ہر بار جب وہ زہرہ کا مسئلہ حل کرنے جاتے تھے تو اس کا مسئلہ حل کر کے ہی آتے تھے۔ ہمیشہ اچھی خبر لاتے تھے۔ وہ بھی ایسی ہی اچھی خبر کی توقع لیے بیٹھی تھی اور یہ کیسے ہو گیا تھا کہ اسے زندگی میں پہلی بار مسئلے کا سامنا کرنا پڑا اور باپ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکا اور اب اسے منگنی کے خاتمے پر صبر کی تلقین کر رہا تھا۔ زینی پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ ضیاء کو دیکھ رہی تھی۔ جو نفیسہ سے کہہ رہے تھے۔
”صبح منگنی کا سامان واپس دے آنا۔ اچھا ہوا، ان لوگوں کا اصلی چہرہ سامنے آگیا، ورنہ کل کو زہرہ کی طرح وہ زینی کو بھی تنگ کرتے۔” وہ کہتے ہوئے اندر کمرے میں چلے گئے۔
نفیسہ دوپٹہ منہ پر رکھ کر رونے لگی تھیں۔ شاید وہ بھی زینی کی طرح ضیا کے وہاں جانے سے کوئی آس لگائے بیٹھی تھیں۔ زینی اسی طرح صحن کے دروازے کے پاس کھڑی ماں، بہن اور بھائی کو دیکھ رہی تھی۔ یہ سب کچھ کوئی خواب تھا، کوئی بھیانک خواب۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ زینی نے کبھی زندگی میں کوئی بھیانک خواب تک نہیں دیکھا تھا۔ کوئی آسمان سے زمین پر کس طرح گرتا ہے، یہ زینب ضیاسے زیادہ بہتر نہ تو کوئی محسوس کرسکتا تھا، نہ بتا سکتا تھا۔
”زینی! اس طرح کھڑی مت ہو، بیٹھ جاؤ۔” ربیعہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بے حد نرمی سے کہا۔ زینب کو یکدم جیسے ہوش آگیا۔ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے وہ تیزی سے ضیا کے کمرے میں چلی گئی وہ پریشانی کی حالت میں اپنے پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ زینب کے اندر آنے پر چونکے۔
”آپ نے شیراز سے بات کی؟” زینی نے اند رآتے ہی ضیا سے پوچھا۔
”نہیں، وہ گھر پر نہیں تھا۔ اکیڈمی چلا گیا تھا۔” ضیا نے مدھم آواز میں کہا۔
”ابو! آپ شیراز سے بات کریں۔ ان کو یہ سب پتہ نہیں ہو گا۔ مجھے یقین ہے وہ۔۔۔۔” زینب نے لجاجت سے کہا۔
”اس کو سب پتا ہو گا۔ انہوں نے اسی کے کہنے پر یہ منگنی توڑی ہے۔” ضیا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں یہ مان ہی نہیں سکتی۔ آپ شیراز سے بات کریں یا مجھے اکیڈمی لے جائیں۔ میں ان سے بات کروں گی۔”
”نہیں، اب شیراز سے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ نہ میں نہ تم۔” ضیا نے شاید زندگی میں پہلی بار زینب سے سختی سے بات کی۔
”ابو! صرف ایک بار ان سے بات کریں، ایک بار۔” وہ ضیا کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگی۔ وہ روئے گی اور ضیا مان جائیں گے اسے یقین تھا۔ آخر باپ نے زندگی میں اس کے آنسو کب دیکھے تھے۔ اس بار اس کا یہ یقین بھی باطل ثابت ہوا۔
”نہیں زینی! جب رشتہ ختم ہو گیا تو ہو گیا۔ میں ان سے کہہ آیا ہوں کہ اب وہ چاہیں گے تو بھی تمہارا رشتہ انہیں نہیں دوں گا۔” ضیا نے اسی سختی سے کہا۔
”آپ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے آپ جانتے ہیں شیراز میرے لیے کیا ہیں۔” وہ اب بلک بلک کر رونے لگی تھی۔
”جب عزت پر حرف آنے لگے تو محبت کو چھوڑ دینا چاہیے۔ میں یہ کبھی برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی تمہارے کردار پر کیچڑ اچھالے، تہمت لگائے۔”
ضیا کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اسے اس طرح روتے دیکھ کر ان کے اندر چاہے جو ہو رہا تھا، ان کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی یا فرق نہیں پڑا تھا۔
”ایک بار ابو! صرف ایک بار۔۔۔۔”
”جو چیز اللہ نہ دے زینی! اسے انسانوں سے نہیں مانگنا چاہیے۔”
”اسے اللہ نے ہی مجھے دیا ہے ابو!”
”دیا تھا۔” ضیاء نے اپنے لفظوں پر زور دے کر کہا۔ ”جو چلا گیا اس کے لیے مت روؤ۔”
”آپ اتنے ظالم کیوں بن رہے ہیں ابو! میری زندگی کا سوال ہے اور آپ کو احساس تک نہیں ہے۔” وہ اسی طرح روتی رہی۔
”احساس ہے مجھے، اسی لیے کہہ رہا ہوں اسے بھول جاؤ۔ اللہ تمہیں۔۔۔۔” زینی نے روتے ہوئے ناراضی سے ان کی بات کاٹی۔
”نہیں بھول سکتی میں۔ آپ مجھے اس سے ملنے دیں۔”
”تا کہ پہلے انہوں نے تمہارے ماں باپ کی بے عزتی کی ہے اب تمہاری کریں۔”
”وہ سب کچھ خالہ نے اور باقی گھر والوں نے کیا ہے۔ شیراز ایسے نہیں ہیں۔ وہ میرے ساتھ یہ سب نہیں کر سکتے۔”
”انہوں نے تم پر اپنے گھر کا دروازہ تک بند کر دیا۔ تم کیا سوچ کر اس گھر میں جانا چاہتی ہوں۔”
”شیراز نے تو دروازہ نہیں بند کیا تھا۔ وہ دروازہ بند کرتے تو۔۔۔۔”
ضیا نے اس کی باقی بات نہیں سنی تھی۔ وہ اپنے دونوں گھٹنوں پر دھرے اس کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے اسے اسی طرح چھوڑ کر اٹھ کر باہر چلے گئے تھے۔ یہ آج زینی کے لیے دوسرا دھچکا تھا۔ ایساکب ہوا تھا کہ باپ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ہو، اس کی بات نہ مانی ہو۔ کیا ان کو اس کا احساس ہی نہیں تھا۔
٭٭٭