من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

زندگی کے آخری لمحوں میں اس نے ایک بار پھر اپنی موت کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی، وہ ناکام رہی۔ وہ اس کے پیروں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھ سکی تھی۔ فرش پر چلتے پھرتے اس کے پیر۔ وہ وارڈ روب کی طرف جا رہا تھا۔ بلند آواز میں کچھ کہتے ہوئے۔ کیا کہہ رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اس کے ذہن نے ایک دم الفاظ کا مفہوم سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔ ہر آواز اس کے لیے شور بن گئی تھی۔ ایک بے معنی، بے ہنگم، بے مقصد شور۔
وہ فرش پر اس کے پیروں کے قریب وارڈ روب میں موجود کپڑوں کو گرتے دیکھ رہی تھی۔ وہ اب بھی کچھ کہہ رہا تھا۔ پھر اس نے اپنے بیڈ سائیڈ ٹیبل کی دراز کی طرف اسے جاتے دیکھا۔ وہ کمرے میں ہر طرف کسی چیز کو تلاش کر رہا تھا۔ زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ جانتی تھی کہ اسے کس شے کی تلاش تھی۔ پیسے کی اور اس تلاش میں شاید اسے یہ احساس بھی نہیں رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے اس نے جسے بری طرح زدو کوب کیا تھا۔ وہ مر رہی تھی یا مرنے والی تھی۔ ورنہ آخر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اسے مرنے دیتا۔ آخر وہ اس کا شوہر تھا۔ آخر وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ شوہر؟ محبت؟ محبت؟ شوہر؟
اس کا ذہن اب جیسے کسی شے کو، کسی لفظ کو کوئی مفہوم دینے میں ناکام ہو رہا تھا۔ اوندھے منہ فرش پر گری وہ بے حد کوشش کے باوجود بھی کراہ نہیں پا رہی تھی۔ بے حد کوشش کے باوجود بھی اپنے وجود کو حرکت دینے میں ناکام ہو رہی تھی۔ صرف اس کا سانس تھا جو ابھی چل رہا تھا۔ کیوں چل رہا تھا؟ کیا رہ گیا تھا؟
موت اس کے کمرے کے فرش پر ابھی بھی ادھر سے ادھر چل رہی تھی۔ اس نے بے یقینی سے ایک آخری بار جیسے سوچنے کی کوشش کی تو کیا اتنے سالوں سے وہ اپنی موت سے محبت میں مبتلا تھی؟ وہ اتنے سالوں سے کیا وہ اپنے موت کے ساتھ ایک ہی گھر میں، ایک ہی کمرے میں ،ایک ہی بستر پر رہتی آرہی تھی؟
زرّی کو آخری سانس لینے تک یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس شخص کے ہاتھوں مر رہی تھی جو اس کی زندگی تھا۔
٭٭٭





اس نے بے یقینی سے سامنے بیٹھے وکیل کو دیکھا۔ پھر اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو مٹھیوں کی صورت میں بھینچ لیا۔ا سے شرمندگی ہو رہی تھی۔ وکیل اس کی حالت دیکھ کر کیا سمجھ رہا ہو گا۔
وہ کچھ سمجھ رہا تھا یا نہیں۔ بہر حال اس وقت اس کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ صرف ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے سر سے پاؤں تک بری طرح لرزتے کانپتے اس تیس سالہ نوجوان کے لیے شاک تھا مگر خود اس وکیل کے پچیس سالہ کیرئیر میں یہ سب کچھ بہت بار ہو چکا تھا۔
”دوبارہ پڑھ کر سنا سکتے ہیں؟”
اس نے اپنی زبان اور جسم کی لرزش پرقابو پاتے ہوئے کہا۔ وکیل اسے دیکھ کر مسکرایا۔ پھر بے حد میکانکی انداز میں ایک بار پھر وہی سب کچھ دہرانے لگا۔
اس نے پلکیں جھپکائے بغیر، دم سادھے پوری توجہ سے ان دس لائنز کو سنا۔ وہ تسلی کرنا چاہتا تھا کہ اسے سننے میں کچھ غلطی تو نہیں ہوئی۔ پچھلے ہفتے بھی اسی جگہ اس وکیل کے آفس میں بیٹھے اس کو اس نے پانچ بار سنا تھا۔ اگر وکیل کے ساتھ اس کی اپائنمنٹ ختم نہ ہو جاتی تو شاید وہ اس وکیل کو پانچ بار اور وہی کاغذ اور وہی چند لائنیں پڑھنے کے لیے کہتا۔
اس نے پورا ویک اینڈ ڈھنگ سے کچھ کھائے پیئے بغیر گزار دیا تھا۔ جمعہ کو اس کی وکیل سے ملاقات ہوئی تھی۔ آج پیر تھا۔ اس نے زندگی میں ہمیشہ ویک اینڈ کے آنے کا انتظار کیا تھا۔ کبھی اس طرح اس کے گزرنے کا نہیں جمعے اور ہفتے کی رات کو وہ سو نہیں سکا۔ اس کی نیند یکدم پتا نہیں کہاں غائب ہو گئی تھی۔ اور اتوار کی رات کو وہ نیند میں کوئی بے حد برا خواب دیکھ کر ایک بار پھر جاگ گیا تھا۔ پھر باقی کی رات اس نے بستر میں بیٹھے کھڑکی کو گھورنے یا کمرے کے چکر لگاتے گزار دی۔
پیر کی صبح وہ اس لاء فرم کے کھلنے سے بھی پہلے جا کر وہاں بیٹھ گیا تھا جس کے ساتھ وہ وکیل منسلک تھا۔
اس کی اپوائنٹ منٹ ساڑھے گیارہ بجے تھی۔ وہ تب تک سخت سردی میں پارکنگ لاٹ میں بیٹھا رہا۔ یوں جیسے اسے ڈر ہو کہ وہ وہاں سے ہٹا تو یہ سب کچھ کسی خواب کی طرح غائب ہو جائے گا۔
اور اب وہ دس منٹ سے وہاں بیٹھا ہوا تھا۔
”آپ اور کافی لیں گے؟” وکیل نے جیسے اس کاغذ کو ایک بار پھر پڑھنے سے بچنے کے لیے کہا۔
”ہاں۔” اس نے اپنے سامنے پڑے خالی ڈسپوزبل کپ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
وکیل نے خود اٹھنے کے بجائے انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر اپنی سیکرٹری کو اندر بلایا۔ وہ کمرے کے ایک کونے میں ہی پڑے کافی میکر سے کافی کے دو کپ ان دونوں کے سامنے رکھ گئی۔ وکیل نے ایک سائیڈ ٹیبل پر پڑا کو کونٹ کو کیز کا چھوٹا سا جار اٹھا کر اس کا ڈھکن کھولتے ہوئے اس نوجوان کے آگے کیا۔ اس نے ایک دفعہ اپنے دائیں ہاتھ کو پوری قوت سے کھولنے اور دوبارہ بھینچنے کے بعد جار میں ہاتھ ڈال کر ایک کوکی نکال لی۔ وکیل نے خود بھی ایک کوکی نکالتے ہوئے جار کو دوبارہ بند کر کے اسی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
سامنے بیٹھے نوجوان نے کوکی کا آدھے سے زیادہ حصہ دانتوں سے کاٹ کر کافی کا ایک گھونٹ لیا اور ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے وکیل سے کہا۔
”آپ اس کاغذ کو ایک بارپھر پڑھیں۔” وکیل کا دل چاہا، وہ اب اپنا سر پیٹ لے۔
٭٭٭
”یہ کیا ہے؟” شیراز نے حیرانی سے اس قیمتی پرفیوم کودیکھا جو زینب اس کی طرف بڑھا رہی تھی۔
وہ اگلے دن اکیڈمی جانے والا تھا اور اس دن اسے لے کر باہر کھانا کھلانے آیا تھا۔ کوئی دوسری بیٹی ہوتی تو ضیا اسے کبھی اس طرح منگیتر کے ساتھ باہر جانے نہ دیتے مگر یہ زینی تھی اور اس کی ضد پر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ وہ زندگی میں پہلی بار شیراز کے ساتھ اکیلی کہیں باہر جا رہی تھی۔
ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد وہ اسے ایک پارک میں لے آیا تھا۔ پارک کی بینچ پر بیٹھے باتیں کرتے ہوئے زینب نے اپنے بیگ سے وہ پرفیوم نکال کر شیراز کے ہاتھ میں تھمایا تھا۔
”آپ کے لیے ہے یہ۔” زینب نے مسکراتے ہوئے شیراز سے کہا۔ ”آپ کو بہت پسند تھا نا۔”
وہ چار چھ ماہ پہلے کسی دوست کے گھر سے وہ پرفیوم لگا کر زینب کے گھر آیا تھا۔
”ارے! میں کہاں اس طرح کے مہنگے پرفیوم خرید سکتا ہوں۔ یہ تو ایک دوست کے گھر گیا تھا وہیں استعمال کر لیا۔”
اس نے تب زینب کے پوچھنے پر بتایا تھا۔ وہ شرٹ اس نے اگلے چند ہفتے دوبارہ نہیں پہنی بلکہ اسے اپنی دوسری شرٹس کے ساتھ رکھ دیا جن میں سے اسی پرفیوم کی مہک آنے لگی تھی اور وہ اگلے کئی دن ان دوسری شرٹس کو استعمال کرتا رہا۔ زینب کو اس نے ہنسی ہنسی میں یہ بات بتائی تھی۔
”کتنے کا ہو گا یہ پرفیوم؟” زینب نے تب بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
”دو ڈھائی ہزار کا۔” شیراز نے بتایا پھر اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہا تھا۔ ”یہ کوئی شرٹ، رومال اور گھڑی نہیں ہے زینب بی بی! جو تم مجھے فوراً لا دو گی۔”
وہ جانتا تھا۔ زینی اس سے اس پرفیوم کی قیمت کیوں پوچھ رہی تھی۔ زینب نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ دو ڈھائی ہزار واقعی معمولی رقم نہیں تھی۔
اور اب اتنے ماہ کے بعد ہیوگو باس شیراز کے ہاتھوں میں تھا۔
”لیکن اتنے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس؟” شیراز اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔
”یہ مت پوچھیں۔” زینب نے بے اختیار کہا۔
”پھر بھی۔۔۔۔” شیراز نے اصرار کیا۔
”میں نے کہا نا۔ یہ مت پوچھیں۔” وہ اسے یہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ اس نے پچھلے کئی ماہ سے اپنے لئے کپڑوں کا ایک جوڑا بھی نہیں بنوایا تھا۔ وہ ضیا سے جیب خرچ کے طور پر ملنے والے روپے تک جمع کرتی رہی تھی۔ اپنے چھوٹے موٹے اخراجات اور کالج آنے جانے کا کرایہ وہ ٹیوشن سے نکال لیتی تھی اور اتنے ماہ میں بہت کم ایسا ہوا تھا کہ اس نے کالج میں کینٹین سے کچھ کھایا تھا۔ اگر شیراز ان مہینوں میں وقتاً فوقتاً اس سے ادھار رقم نہ لیتا رہا ہوتا تو زینب بہت پہلے اسے وہ پرفیوم خرید کر دے دیتی۔
شیراز اب پیکنگ کھول کر قدرے جوش کے عالم میں وہ پرفیوم لگا رہا تھا۔ زینی اس کے چہرے پر پھیلی خوشی کو دیکھ رہی تھی۔ اسے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے تھا کہ وہ خوش تھا۔ اس کے دیے گئے کسی تحفے نے اسے مسرور کیا تھا۔
”تم بہت عجیب ہو زینی!” اس نے پرفیوم دوبارہ ڈبے میں رکھتے ہوئے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کہا۔
”کیوں عجیب کیوں ہوں؟” زینی نے چونک کر اسے دیکھا۔
”محبت میں اس طرح تو مرد کرتے ہیں کہ عورت کی زبان پر کسی چیز کا مطالبہ آئے اور وہ سرد ھڑ کی بازی لگا کر اس کو پورا کر دیں۔ ایسی عورتیں نہیں د یکھیں جو یہ کرتی ہوں۔” شیراز اس بار بے حد سنجیدگی کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”محبت میں یہ کہاں لکھا ہے ۔ کون کس کے لیے کیا کرے گا اور کس کو کس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ بس یہ دل کی بات ہے۔ میں وہ کرتی ہوں جو میرا دل مجھ سے کہتا ہے اور آپ کو اس خوشی کا اندازہ تک نہیں ہو سکتا جو مجھے ہوتی ہے جب میں آپ کے لیے کچھ کرتی ہوں۔ آپ کے لیے، نہیں کرنا تو پھر اور کس کے لیے کرنا ہے۔”
شیراز کے ہاتھ سے پرفیوم لے کر اس نے بڑے قرینے اور سلیقے کے ساتھ پیک کیا۔ شیراز نے اسے قدرے بے ڈھنگے انداز میں پیک کیا تھا۔
”میں تمہارے لیے بہت کچھ کروں گا زینی! بہت کچھ تم… تم میرے گھر میں ملکہ کی طرح رہو گی۔”
شیراز نے یک دم اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ اسے واقعی اس وقت زینی پر بے حد پیار آرہا تھا۔
”گھر میں ملکہ بنا کر چاہے نہ رکھیں مگر دل میں کنیز بن کر ضرور رہنے دیں۔”زینی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ضرور کنیز بنا کر رکھتا اگر تم اتنی خوبصورت نہ ہوتیں۔” وہ اب اسے چھیڑ رہا تھا۔ ”لیکن اب اتنی خوب صورت لڑکی کو کوئی کنیز تھوڑی بناتا ہے۔”
”میں بہت اداس ہو جاؤں گی آپ کے بغیر۔” زینی نے یک دم اداس ہوتے ہوئے کہا۔ اسے یاد آگیا تھا کہ وہ اگلے دن اکیڈمی جا رہا تھا۔
”اداس ہونے والی کیا بات ہے۔ میں دو ہفتے میں ایک بار تو آہی جایا کروں گا۔” شیراز نے اسے تسلی دی۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!