من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

”کون فاران بھائی؟” زینب نے الجھ کر کہا۔
”پچھلی بار جب تم میرے گھر آئی تھیں تو جاتے جاتے وہاں اپنے ایک کزن سے ملوایا تھا میں نے۔ خیر تمہیں یاد نہیں ہو گا۔ فاران بھائی ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی چلا رہے ہیں۔ اس دن تمہیں دیکھنے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم ماڈلنگ میں انٹرسٹڈ ہو؟ ان کے پاس ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی Campaign ہے۔ آج کل انہیں ایک نیا چہرہ چاہیے اور۔۔۔۔”
”اس سب سے میرا کیا تعلق ہے؟” زینب نے بے حد خشک لہجے میں رمشہ کی بات کاٹی۔
”تعلق بن سکتا ہے۔ فاران بھائی ایک لاکھ میں سائن کریں گے اس ماڈل کو اور زینی ایک لاکھ سے تمہارے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔”
”آگے ایک لفظ بھی مت کہنا۔ ” زینب بے حد غصے کے عالم میں سرخ چہرے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔
رمشہ بوکھلا گئی ”زینی! میں۔”
”مجھے تم سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی تم مجھے اس طرح کی سمجھتی ہو؟”
”زینی! آج کل ماڈلنگ بہت اچھی فیملیز کی لڑکیاں بھی کرتی ہیں۔ بہت عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں۔”
”ہم اس طرح کے ”عزت دار” نہیں ہیں۔ میرا باپ مسجد میں امامت کرواتا ہے اور تم چاہتی ہو، میں چار پیسوں کے لیے اپنا چہرہ اور اپنی ادائیں بیچوں؟”
زینب نے بے حد غصے اور صدمے سے کہا۔ اسے وہاں کھڑے جمیلہ کی باتیں یاد آنے لگی تھیں۔ وہ اس کی بیسٹ فرینڈ نہیں تھی۔ رمشہ تھی۔ اور رمشہ کی بات نے اسے جمیلہ کی باتوں سے زیادہ تکلیف دی تھی۔
”ایک لاکھ چار پیسے نہیں ہوتے زینی۔”
‘ایک لاکھ، ایک کروڑ، ایک ارب بھی ہو تب بھی زینب ضیا اپنے آپ کو لوگوں کی تفریح کے لیے تماشا نہیں بنائے گی۔” زینب نے بے حد تندوترش لہجے میں رمشہ کی بات ایک بار پھر کاٹی۔
”تم مجھے غلط مت سمجھو یہ صرف ایک آفر تھی۔” رمشہ نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔




”اور ایسی آفرز دوست لے کر نہیں آتے۔” زینب نے مزید کچھ کہے بغیر اپنا بیگ اٹھایا اور تیز قدموں سے وہاں سے چلی آئی۔
”میری بات سنو زینی! دیکھو مجھے غلط نہ سمجھو، زینی پلیز۔”
رمشہ نے اسے روکنے کی بے حد کوشش کی تھی۔ مگر وہ ناکام رہی تھی اس نے زینب کو اتنے سال کی دو ستی میں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
زینب کو واقعی زندگی میں کبھی اتنا غصہ نہیں آیا تھا۔ غصے سے زیادہ یہ دکھ اور صدمہ تھا کہ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اسے اور اس کے گھرانے کو جاننے کے باوجود رمشہ اسے اس طرح کی پیش کش کرے گی۔ جتنی ہتک اسے پچھلے ان چند ہفتوں میں نعیم اور فہمیدہ کے زہرہ کے ساتھ سلوک اور جمیلہ کے بازار والے واقعہ سے محسوس ہوئی تھی ویسی ہی ہتک اسے رمشہ کی بات سے محسو س ہوئی تھی۔
کالج سے نکلتے ہوئے یہ غصہ ایک بار پھر آنسوؤں کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اسے سڑک پر چلنے کا احساس نہ ہوتا تو وہ شاید ہچکیوں کے ساتھ روتی لیکن سڑک پر چلتے ہوئے وہ بار بار اپنی آنکھوں کو خشک کرتی رہی۔
بس اسٹاپ پرکھڑے بس کے آنے سے پہلے ہی کسی بھکاری عورت نے اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ زینب کے سامنے کوئی ہاتھ پھیلاتا اور وہ اسے بھیک نہ دیتی مگر آج اس کے پاس صرف پانچ روپے کا ایک ہی نوٹ تھا اور وہ جتنی اپ سیٹ تھی جلد سے جلد گھر پہنچ جانا چاہتی تھی۔
”آج پیسے نہیں ہیں بس یہ پانچ روپے ہیں بس کا کرایہ” اس نے مٹھی میں بھنچے نوٹ کو اس عورت کو دکھاتے ہوئے قدرے بے چارگی سے کہا۔
”اللہ تیرا مقدر کھولے۔ تیرے ساتھی کو لمبی حیاتی دے۔ تجھے راج کروائے۔”
زینب نے چونک کر اس عورت کو دیکھا۔
وہ کہہ رہی تھی ”تیرے ساتھی کولمبی گاڑی اور بنگلہ دے۔”
زینب قدرے بے بسی سے مسکرائی اور اس نے ہاتھ میں پکڑا نوٹ اس عورت کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ وہ شیراز کو دعائیں دے رہی تھی۔ اور زینب کے لیے اب اسے نظر انداز کرنا مشکل تھا۔
کرایہ اس عورت کے ہاتھ میں تھما دینے کے بعد اس دن وہ پیدل اسٹاپ سے گھر آئی بس پر وہ فاصلہ پندرہ منٹ میں طے ہوتا تھا آج وہ پینتالیس منٹ میں گھر آئی تھی اور پینتالیس منٹ کے اس سفر میں اس نے زندگی میں پہلی بار سڑک پر بھاگتی ان بڑی گاڑیوں اور راستے میں اکادکا آنے والے ان بڑے بنگلوں کو دیکھا جنہیں اس سے پہلے اس نے کبھی دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
وہ سرکاری بنگلے تھے۔ وہ جانتی تھی، دس پندرہ سالوں میں شیراز کے کسی بڑے عہدے پر پہنچنے کے بعد ایسے ہی کسی بڑے بنگلے میں وہ بھی ہو گی۔ سبز رنگ کی نمبر پلیٹ والی ایسی ہی کوئی سرکاری گاڑی اس کے اور شیراز کے زیر استعمال ہو گی۔ دس پندرہ سال شاید بیس سال۔ اس نے ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ اسے ایسی گاڑی اور ایسا بنگلہ حاصل کرنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ وہ آج گاڑی اور بنگلے کے بغیر صرف شیراز کے ساتھ کی خوشی میں جتنی سرشار ہوتی کل بھی اتنی ہی سرشار ہوتی۔
اس نے کچھ گھنٹہ پہلے رمشہ کے کہے ہوئے جملوں کو ذہن میں ایک بار پھر دہرایا۔ ایک بار پھر اسے تکلیف ہوئی۔ اس نے ایسا سوچا بھی کیوں تھا کہ زینب پیسے کے لیے اتنا گر سکتی ہے اسے چند ہفتے پہلے جمیلہ کی باتیں یاد آئیں۔ اس کی تکلیف میں اضافہ ہوا۔
”روپیہ اور رعائتیں حاصل کرنے کے لیے زندگی میں عورت کو یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے یا کرنا چاہیے۔” اس نے جیسے دہل کر سوچا تھا۔
”اور اس کے علاوہ روپیہ حاصل کرنے کا دوسرا راستہ کون سا ہے۔ کوئی مرد جو باپ، بھائی یا شوہر کے رشتے سے عورت پر اپنا روپیہ خرچ کرتا ہو۔”
سکون اطمینان کی ایک لہر سی اس کے اندر سے اٹھی۔ اس کے پاس پہلے دونوں رشتے تھے۔ باپ کم سہی پر اس پر پیسہ خرچ کرتا تھا۔ بھائی کم عمر تھا۔ بڑا ہو کر کمانے لگتا تو وہ بھی اس کی ذمہ داری اٹھاتا اور شوہر شیراز کی صورت میں وہ بھی اسے ملنے والا تھا۔ اسے پیسہ حاصل کرنے کے لیے کوئی غلط کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور بہت پیسہ نہ سہی کم بھی ٹھیک تھا زیادہ کی کیا ضرورت ہے۔ آخر کرنا کیا ہے بہت سارے روپے پیسے کا! وہ مطمئن ہو گئی۔
اپنی گلی سے آج کل وہ بڑے اطمینان سے گزرتی تھی وہاں وہ لڑکا اب نہیں ہوتا تھا شاید اس نے سوچا ہو گا زینب نے مستقل طورپر باہر نکلنا بند کر دیا ہے۔
اس کے گھر کا دروازہ کھلا تھا صحن میں سے شور کی آواز آرہی تھی۔ وہ کچھ حیران ہوتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ اندر صحن میں نسیم نزہت کے ساتھ بے حد خوشی اور جوش کے عالم میں باتیں کرتی نظر آئیں وہ مٹھائی کا ڈبہ لیے صحن کے تخت پر بیٹھی تھیں۔ ان کے ارد گرد نفیسہ، ربیعہ اور زہرہ بھی کھڑی تھیں۔ اس نے سب کے ہنستے ہوئے چہروں کو حیرانی کے عالم میں دیکھا۔ پہلا خیال اس کے ذہن میں یہی آیا تھا کہ شاید زہرہ اور نعیم کا مسئلہ حل ہو گیا۔
اس کے اندر داخل ہونے کی آواز سنتے ہی سب نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر جیسے نسیم مٹھائی کا ڈبہ لیے اڑتے ہوئے اس کے پاس آئیں اور اسے لپٹا لیا۔
”کیا ہوا خالہ؟” زینی نے نسیم کے گلے سے لگے اس کے عقب میں سب لوگوں کے ہنستے چہروں کو دیکھا۔
”میری دھی آگئی۔ میں تو انتظار کر رہی تھی۔ ارے شیراز پاس ہو گیا۔ میں نے کہا میں سب سے پہلے زینی کا منہ میٹھا کرواؤں گی۔” نسیم نے بڑے جوش کے عالم میں ڈبہ کھولتے ہوئے اسے بتایا۔
زینب کا دل جیسے خوشی سے اچھلا۔ ”رزلٹ آگیا ان کا؟”
”ہاں۔ پوزیشن آئی ہے۔” نسیم نے ہنستے ہوئے اس کے منہ میں برفی کا ایک ٹکرا ڈالا۔
”پہلی؟” زینب نے بے اختیار پوچھا۔
”نہیں دوسری۔” نسیم نے کہتے ہوئے ڈبہ پیچھے کھڑے لوگوں کی طرف بڑھا دیا۔
٭٭٭
”اتنی شاندار کامیابی کی توقع کر رہے تھے آپ؟” رپورٹر نے چائے کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے کپ رکھا۔
”جی ہاں۔ میں نے بہت محنت کی تھی اور میں تو پہلی پوزیشن کی توقع لیے ہوئے تھا۔”
شیراز نے بے حداطمینان کے ساتھ اس رپورٹر سے کہا جو اس سے سوال کرنے کے ساتھ ساتھ اس گھر کا بھی گہری نظروں سے جائزہ لے رہا تھا جہاں وہ آکر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ہر سال اسی طرح کے سیلف میڈ لوگوں کے انٹرویو لیا کرتا تھا۔ شاندار تعلیمی کامیابیاں حاصل کرنے والے ۔ جو اس وقت بڑے جوش وخروش کے ساتھ اسے انٹرویو دیتے بلند وبانگ دعوے کرتے اور اپنی فیلڈ میں آنے کے بعد اسے پہچانتے بھی نہیں تھے۔ اس لیے اس نے ایسے نوجوانوں کے دعووں، باتوں اور ارادوں سے متاثر ہونا چھوڑ دیا تھا۔
”آخر آپ نے انکم ٹیکس کا شعبہ ہی کیوں چنا؟” اس نے شیراز سے سوال کیا اور اس کے منہ کھولنے سے پہلے دل ہی دل میں اس جواب کو دہرایا جو شیراز کبھی اپنے منہ سے نہ کہتا۔
”پیسہ بنانے کے لیے۔”
”ہمارے ملک میں ٹیکسیشن کے نظام میں بہت زیادہ بہتری اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور میں اس ڈپارٹمنٹ میں جانا چاہتا تھا جہاں ہر روز میرے لیے نیا چیلنج ہو اور جہاں پر کام کرنے میں یہ اطمینان محسوس کروں کہ میں اپنی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کر رہاہوں۔”
شیراز نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ جیسے کچھ رٹے رٹائے جملے ادا کیے۔ رپورٹر نے اسی سنجیدگی کے ساتھ شارٹ ہینڈ میں جیسے ان جملوں کو ڈی کوڈ کیا۔
”ہمارے ملک میں ٹیکسیشن کے نظام میں سب سے زیادہ سقم اور خامیاں ہیں اور میں ان خامیوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے اس ڈپارٹمنٹ میں جانا چاہتا تھا۔ جہاں میں ماہانہ کے بجائے روزانہ کسی فائل کے ذریعے پیسہ بنا سکوں اور جہاں کام کر کے مجھے یہ اطمینان محسوس ہو کہ میں آ پنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کر کے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال بنا سکتا ہوں۔”
رپورٹر کو اپنی اس ”ڈی کوڈنگ” پر جیسے خود ہنسی آئی۔ شیراز اسے مسکراتا دیکھ کر خود بھی مسکرایا۔
رپورٹر نے انٹرویو کے اختتام پر اپنی جیب سے ایک وزٹینگ کارڈ نکال کر شیراز کی طرف بڑھایا۔
”یہ میرا وزیٹنگ کارڈ ہے شیراز صاحب! امید ہے بندے کو یاد رکھیں گے اب آپ افسر بن جائیں گے تو ہو سکتا ہے بندہ کبھی کسی خدمت کے لیے آپ کے پاس حاضر ہو۔”
”جی، جی بالکل۔ مجھے خوشی ہو گی آپ کا کوئی کام کر کے۔ ” شیراز نے بے اختیار کارڈ پکڑ کر کہا۔
”آپ دیکھئے گا۔ کتنی نمایاں جگہ پر آپ کا انٹرویو اور تصویر لگاتا ہوں۔ پہلی پوزیشن والے نے تو گھاس ہی نہیں ڈالی ہمیں۔ یہ امیر لوگوں کی اولادیں اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ آپ بھی دیکھئے گا۔ ہمارے ادارے کے انگلش اور اردو دونوں اخباروں میں آپ کو ہی زیادہ کوریج ملے گی۔ اس کو بس اتنی ہی کوریج ملے گی۔ جتنی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی پریس ریلیز کے ذریعے ملی ہے۔”
رپورٹر اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے اب پہلی پوزیشن پر آنے والے امیدوار کے لّتے لے رہا تھا جو سپریم کورٹ کے کسی جج کا بیٹا تھا۔ اور جس نے اس رپورٹر کی انٹرویو لینے کی درخواست میں دلچسپی نہیں لی تھی۔
شیراز اس رپورٹر کو دروازے تک چھوڑنے گیا اور واپس اپنے کمرے میں آتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑا وزیٹنگ کارڈکوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ شیراز اکبر کے لیے نئی زندگی کا آغاز ہو چکا تھا۔ پاکستان کی کروڑوں کی آبادی میں سے ان منتخب شدہ 170لوگوں میں شامل ہونے والا تھا جنہیں حکومت پاکستان نے اس سال عوام کی خدمت کے لیے طاقت کے استعمال کا اختیار سونپنا تھا۔ اور اسی عوام سے تعلق رکھنے والے شیراز اکبر نے اس طاقت کے لیے چھبیس سال انتظار کیا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!