من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

ربیعہ نے بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ پہلی دفعہ اسے ایسی باتیں کرتے ہوئے سن رہی تھی۔
”تم نے سنا نہیں، آج نعیم بھائی نے ابو کو کیسی باتیں کہیں۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ دکھ سے زیادہ غصہ آیا۔ شیراز نہ کہتے تو وہ زہرہ آپا کو لینے ہی نہ آتے؟ بس یہ وقعت رکھتے ہیں ابو، زہرہ آپا نعیم بھائی کی نظروں میں؟”
”اب تمہیں پتہ چلا، مجھے غصہ کیوں آتا ہے۔ نعیم بھائی اور فہمیدہ پھوپھو پر۔” ربیعہ نے سر جھٹک کر کہا۔
زینی نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ چپ چاپ ناخن کاٹتی سرجھکائے بیٹھی رہی۔ ربیعہ اس سے مسلسل کچھ کہہ رہی تھی لیکن زینب کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اس کا ذہن بے حد الجھا ہوا تھا۔
*****
دروازے پر دستک کے ساتھ ہی اندر سے کسی کی آواز کا انتظار کیے بغیر کمرے کا دروازہ کھل گیا تھا۔ کمرے میں موجود اپنے اپنے کاموں میں مصروف تینوں افراد نے چونک کر دروازے سے اندر آنے والے ٹم فضل دین اور اس چوبیس پچیس سالہ نوجوان کو دیکھا تھا جسے ٹم فضل دین کمرے کے اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔
”Come in. Come in.۔ تمہاری اپنی ہی جگہ ہے۔” ٹم فضل دین نے بے حد بناوٹی امریکن انگلش میں اس کو اندر آنے کا اشارہ کیا پھر خود اندر داخل ہو گیا۔
”Every body ok?” (سب ٹھیک ہے)
وہ اب کمرے میں موجود تینوں افراد سے بے تکلفی کا اظہار کر رہا تھا جبکہ تینوں افراد نے ایک دوسرے کے ساتھ نظروں کا تبادلہ کرتے ہوئے ٹم فضل دین کی ہیلو، ہائے کا جواب دینے کے بجائے ایک بار پھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے تھے۔ یا دوسرے لفظوں میں انہوں نے ٹم فضل دین کو گھاس بھی نہیں ڈالی تھی مگر اس چیز نے ٹم فضل دین کی ڈھٹائی آمیز مسکراہٹ پر کوئی اثر نہیں ڈالا لیکن کمرے کے دروازے میں کھڑے کھڑے اس کو ایک ہی نظر میں کمرے کے ”حالات کی کشیدگی” کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ اب ا پنے دونوں سوٹ کیس اندر لانے سے جھجک رہا تھا۔
”Every body busy” (سب مصروف ہیں)
ٹم فضل دین نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کمرے کے اندر موجود تینوں افراد کے اس کو گھاس نہ ڈالنے والے رویہ کی جیسے توجیہہ پیش کی۔
”You come in.”




ٹم نے ایک بار پھر اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ اس بار اس نے جھجکتے ہوئے اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ اس بار وہ جھجکتے ہوئے سوٹ کیس اٹھائے اندر آگیا۔ اندر موجود تینوں مردوں نے اپنے کام میں مصروف ایک لمحہ کے لیے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
ان کی نظروں میں بے حد سرد مہری تھی۔
”You like the room?” (تمہیں یہ کمرہ پسند آیا)
ٹم فضل دین نے بے حد فخریہ اور اشتیاق بھرے لہجہ میں اس سے کہا۔ اس نے بے اختیار کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑا کر اس کو پسند کرنے کی کوئی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ ایک نظر تو کیا وہ دس سال بھی وہاں رہ کر ایسی کوئی وجہ تلاش نہیں کر سکتا تھا۔ بے حد مختصر قدرے مستطیل شکل کے اس کمرے کی تین دیواروں کے ساتھ تین میٹریس پڑے تھے۔ اور ہر دیوار پر بے شمار کھونٹیوں پر ہر طرح کا سامان لٹکا ہوا تھا۔ صاف نظر آتا تھا کہ ہر دیوار کی کھونٹیوں کے ساتھ میٹریس بچھایا ہوا تھا۔ کمرے کی چوتھی دیوار میں کمرے کا داخلی دروازہ ایک اور چھوٹا دروازہ جو بعد میں باتھ روم ثابت ہوا تھا اور ایک اسٹوو پڑا ہوا تھا۔ اسٹوو کے ارد گرد کی جگہ یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ ”کمرے کا کچن” تھا۔
اس نے قدرے مایوسی کے ساتھ ٹم کو دیکھا۔ زبانی طور پر اس نے یہاں کا جو نقشہ کھینچا تھا یہ جگہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ ٹم کی آنکھوں کی چمک یک دم بڑھ گئی۔
”مجھے پتہ تھا you will like it (یہ تمہیں پسند آئے گا) ٹم نے بے حد فخریہ انداز میں کہا۔
”The cheapest place in NY.”
ٹم نے دایاں ہاتھ اٹھا کر بے حد جذباتی انداز میں کہا۔
”نیو یارک کی گھٹیا ترین جگہ۔” ایک میٹریس پر بیٹھا ہاتھ میں شیشہ پکڑے شیو کرتا شخص ترجمہ کرتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس کے ساتھ ساتھ یقینا ٹم فضل دین نے بھی یہ ”ترجمہ” سنا ہو گا مگر اس نے مکمل طور پر یوں ظاہر کیا جیسے اس نے کچھ نہیں سنا۔
”Meet him. — He is Tanvir.”(اس سے ملو، یہ تنویر ہے۔)
ٹم فضل دین نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو اسٹوو پر ایک چھوٹی سی دیگچی رکھے بڑے انہماک سے کچھ پکانے میں مصروف تھا۔
”This is Mujahid.” (یہ مجاہد ہے) ٹم فضل دین نے اب شیو کرتے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ تیس پینتیس سا ل کا تھا۔
”And this is Sabir.” (اور یہ صابر ہے) ٹم فضل دین نے اس تیسرے شخص کی طرف اشارہ کیا جو اپنے میٹریس پر بیٹھا اب ایک شرٹ پر بٹن لگانے میں مصروف تھا۔ وہ قدرے فربہ اور ادھیڑ عمر تھا۔ ٹم اب ان تینوں سے اس کا تعارف کروا رہا تھا۔ اس کی اس پوری ”مشق” کے دوران ان تینوں میں سے کسی نے بھی ایک لمحہ کے لیے نظر اٹھا کر اسے اور ٹم کو نہیں دیکھا تھا۔ نہ اپنا نام سننے پر نہ اس کا نام سننے پر۔ وہ تینوں مکمل طور پر اپنے کام میں مصروف تھے۔ وہ کچھ شرمندہ ہو گیا ۔ ٹم فضل دین نہیں۔
اس کے خاموش ہونے پر بٹن ٹانکتے ہوئے صابر نے سراٹھا کر بڑے تیکھے انداز میں ٹم سے پوچھا۔
”فضل دین! یہ جو تم ایک اور نمونہ اٹھا کر لے آئے ہو، اسے رکھو گے کہاں؟ یہاں کوئی جگہ نظر آرہی ہے تمہیں؟”
اس کے جملے سے زیادہ اس کے لہجے کی کاٹ نے اسے خجل کیا مگر ٹم فضل دین نے بے حد ناراضی سے صابر کو گھورتے ہوئے کہا۔
”فضل دین میرا باپ تھا۔ میرا نام ٹم ہے۔”
”حالانکہ تمہارا کوئی باپ نہیں ہونا چاہیے تھا۔” صابر نے اسی کاٹ دار لہجے میں کہا۔ کمرے میں پہلے سے موجود باقی دونوں افراد نے پہلی بار اس ساری گفتگو میں کوئی دلچسپی لی۔ اس کا خیال تھا، ٹم اب آگ بگولہ ہو جائے گا۔ آخر وہ ”مالک مکان” تھا۔ یہ پراپرٹی اس کی ملکیت تھی اور صابر اس کا کرایہ دار تھا۔
مگر ایسا نہیں ہو اتھا۔ اس کے خدشات کے بالکل برعکس ٹم فضل دین نے بے حد تحمل برداشت اور اعلا ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے جملے کو مکمل طو رپر نظرا نداز کیا۔
”یہ جگہ ہے۔یہاں میٹریس ڈالوں گا میں اس کا۔” تینوں افراد کے ساتھ ساتھ اس نے بھی چونک کر اپنے قدموں کے نیچے اس جگہ کو دیکھا۔ جہاں وہ اشارہ کر رہا تھا۔ وہ کمرے کے درمیان میں موجود بمشکل ایک میٹریس جتنی جگہ کی طرف ہی اشارہ کر رہا تھا اور اس وقت وہ خود اس کے ساتھ وہیں کھڑا تھا۔
صابر کے گلے سے پہلے ایک غراہٹ نکلی پھر ایک شاندار گالی۔ ٹم فضل دین نے پہلے جیسی اعلا ظرفی کا مظاہرہ ایک بار پھر کرتے ہوئے ان دونوں چیزوں کو نظر انداز کیا اور کمرے میں موجود واحد کھڑکی کی طرف بڑھ گیا۔
”یہاں بھی میٹریس بچھا کر بندہ سلا دے گا تو ہم گزریں گے کیسے، اس کے اوپر سے کود کر جایا کریں گے کیا ایک دوسرے کے پاس؟ تیری صرف شکل ہی نہیں، کرتوت بھی دوزخیوں والے ہیں فضل دین۔”
صابر اب دانت پیس رہا تھا۔ جبکہ وہ خود ہکا بکا اپنے پیروں کے نیچے اس فرش کی نظروں ہی نظروں میں پیمائش کرنے میں مصروف تھا جہاں اس کو سونا تھا اور ٹم فضل دین برداشت اور اعلا ظرفی کی حدوں کو چھو رہا تھا وہ اب کھڑکی کے پاس پہنچ چکا تھا۔
”See. It has a window
When you open it…..”
(یہاں ایک کھڑکی ہے اسے کھولو تو)




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!