من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

”کہاں ہے بھئی یہ تمہاری بہن؟”
زینی کرنٹ کھا کر چادر اتارتے ہوئے بستر سے اٹھ گئی۔ وہ شیراز کی آواز تھی، وہ صحن میں ربیعہ سے پوچھ رہا تھا۔
”بہن تو سو رہی ہے۔” ربیعہ نے صحن کا بیرونی دروازہ بند کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”سو رہی ہے تو جا کر اٹھاؤ اسے۔ یا پھر میں اٹھاؤں؟” شیراز نے مسکراتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑا لفافہ ربیعہ کی طرف بڑھایا۔
”یہ کیا ہے؟” ربیعہ نے کچھ حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
”سموسے… گھر کے لیے لایا تھا تو سو چا زینی کے لیے بھی لے جاؤں۔”
”تو پھر ایک ہی لاتے نا۔ اگر بیگم کے لیے لائے ہیں تو… خوا مخواہ چھ لانے کی زحمت کیوں کی؟” ربیعہ نے اس کی بات کا برا مانتے ہوئے لفافہ کھول کر دیکھا۔
”میں نے سوچا شاید زینی کو زیادہ کھانے ہوں۔” شیراز نے اسے چھیڑا۔
”چھ تو خیر وہ بھی نہیں کھا سکتی۔”
”نہیں تو میں بھی تو کھاؤں گا اس کے ساتھ۔” شیراز نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”تو یوں کہیں نا شام کی چائے پینے آئے ہیں یہاں۔” ربیعہ کچھ اور ناراض ہوئی۔
”یہ ہی سمجھو۔”
”ویسے اتنے دنوں بعد ہمارا خیال آکیسے گیا آپ کو؟ پہلے تو پھر بھی کبھی کبھار آجاتے تھے۔ اب تو جیسے عید کا چاند ہو گئے ہیں شیراز بھائی۔” ربیعہ نے اسے جتایا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا زینی اپنے بال لپیٹتی دوپٹے سے سر چھپاتی باہر نکل آئی۔
”دیکھا آپ کی ہونے والی بیگم کو تو نیند میں بھی آپ کی آمد کی خبر ہو جاتی ہے۔ کسی کو جگانا پڑا ہے بھلا؟” ربیعہ کہتے ہوئے باورچی خانہ کی طرف چلی گئی۔
”میں پہلے ہی جاگ رہی تھی۔”زینی نے ربیعہ کو گھورتے ہوئے کہا جو بڑے معنی خیز انداز میں اسے مسکراہٹ دیتی ہوئی گئی تھی۔
”آپ کیسے ہیں؟” زینی نے اس مسکراہٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے شیراز سے پوچھا۔ ساتھ ہی اس نے محسوس کیا کہ وہ ابھی تک صحن میں کھڑا ہے۔
”آپ بیٹھیں… ربیعہ نے ابھی تک بیٹھنے تک کے لیے نہیں کہا آپ سے۔” وہ سوال کا جواب لینے سے پہلے ہی صحن میں تخت کے پاس پڑی کرسیوں کی طرف جاتے ہوئے بولی۔




”میں ٹھیک ہوں لیکن تم اتنے دنوں سے کہاں غائب ہو؟” شیراز نے ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”میں…میں وہ… ماہا اور مائرہ یہاں پر ہیں تو ان ہی کے ساتھ مصروف ہوں۔” زینی نے… نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”اتنی مصروف تھیں کہ میرا خیال تک نہیں آیا؟” شیراز نے گلہ کیا۔
”آپ بھی تو بہت مصروف ہیں آج کل۔ گھر پر کہاں ہوتے ہیں۔” زینی نے مدھم آواز میں کہا۔
”تمہیں اچھی طرح پتا ہے کب میں گھر پر ہوتا ہوں اور کب نہیں۔ سیدھی طرح کیوں نہیں کہتی زینی کہ تم مجھ سے ناراض تھیں۔” زینی نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”نہیں… آپ سے ناراض کیسے ہو سکتی ہوں میں؟” زینی نے ایک بار پھر اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”اس دن میں کچھ غصے میں آگیا تھا۔ خوا مخواہ تم کو ڈانٹا میں نے۔ بعد میں بہت پچھتایا۔ اس دن کے بعد سے انتظار ہی کرتا رہا کہ تم آؤ تو میں تم سے ایکسکیوز کروں لیکن تم آئی ہی نہیں۔”
”کوئی ضرورت نہیں آپ کو ایکسکیوز کرنے کی۔” زینب نے بے اختیار اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”میں آپ کے خلاف کبھی اپنے دل میں کچھ نہیں رکھتی اور غصہ تو بالکل بھی نہیں۔”
”شکایت بھی نہیں؟”
”شکایت تھی بھی تو اب ختم ہوگئی ہے۔ آپ کبھی یہ سوچیں بھی نہ کہ آپ کو مجھ سے ایکسکیوز کرنا چاہیے۔” اس نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”شکر ہے، میں تو سوچ رہا تھا پتا نہیں تم کتنی ناراض ہو کہ گھر آناہی چھوڑ دیا تم نے۔”
شیراز نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔ زینی مسکرائی، اسے خوشی ہوئی تھی وہ اس کا خیال رکھتا تھا۔
”اتنے دن سے تمہارے ہاتھ کی کوئی چیز کھانے کو ترس گیا ہوں۔ تم نے تو کچھ بھیجنا بھی بند کر دیا ہے۔”
شیراز نے بے حد بے تکلفی سے کہا۔ زینی بے اختیار شرمندہ ہوئی۔ اس نے واقعی اتنے دنوں میں شیراز کے لیے گھر میں پکنے والی کوئی چیز نہیں بھجوائی تھی۔
”آپا کی وجہ سے اتنی پریشانی ہے کہ بس مجھے خیال ہی نہیں رہا۔” اس نے کہا۔ ”آپ مجھے بتا دیں ، کیا کھانا چاہتے ہیں۔ میں رات کو بنا کر بھجوا دیتی ہوں۔”
”اپنی مرضی کی کوئی بھی چیز۔” شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”اور زہرہ آپا کا مسئلہ ابھی بھی حل نہیں ہوا؟” اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”نہیں۔” زینی ایک بار پھر اداس ہو گئی۔ ”وہ ابو سے موٹر سائیکل مانگ رہے ہیں۔”
شیراز یک دم ہنسا۔ زینب کو اس کی ہنسی بری طرح کھلی۔
”سائیکل مانگتے تو چچا شاید اپنی سائیکل ہی دے آتے۔” شیراز نے قہقہے کے ساتھ کہا مگر زینی کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کو دیکھ کر وہ یک دم پھر سنجیدہ ہو گیا۔
”بے وقوف ہے وہ… میں ابو سے کہوں گا، وہ جا کر نعیم کو سمجھائیں۔”
زینب نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ چپ بیٹھی رہی۔ چند لمحے پہلے چھانے والی سرشاری اور خوشی یک دم ایک بار پھر کہیں غائب ہو گئی تھی۔
”کم از کم اب اس طرح منہ بنا کر تو مت بیٹھو کہ مجھے لگے تمہیں میرے آنے کی کوئی خوشی نہیں ہے۔” شیراز نے بے ساختہ کہا۔
زینی نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”آپ کو لگتا ہے، مجھے آپ کے آنے سے کوئی خوشی نہیں ہوئی؟”
”تمہارے چہرے کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے۔”
شیراز سنجیدہ ہو گیا۔ ”میں تو سوچ رہا تھا تم بہت خوش ہو گی، ہنسو گی، باتیں کرو گی لیکن تم بالکل چپ بیٹھی ہو۔” اس نے گلہ کیا۔ اس سے پہلے کہ زینی کچھ کہتی، ربیعہ چائے کی ٹرے لے کر صحن میں آگئی۔
”آپ کو پتا تو ہے شیراز بھائی!یہ تو اس کی شروع سے عادت ہے۔ مجال ہے اس میں کوئی تبدیلی آجائے۔” اس نے شیراز کی بات سن لی تھی۔
”بہت بری عادت ہے اور زینی کو پتہ ہے مجھے یہ عادت پسند نہیں ہے۔” شیراز نے زینی کو دیکھتے ہوئے جتانے والے انداز میں کہا۔ ربیعہ کچھ کہنے کے بجائے ٹرے رکھ کر چلی گئی۔
زینی نے شیراز کو پلیٹ تھمائی۔ ”خالہ کیسی ہیں؟” اس نے شیراز سے نسیم کے بارے میں پوچھا۔ ”امی ٹھیک ہیں۔ وہ بھی تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھیں” شیراز نے ایک سموسہ اپنی پلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا۔
”میں کل آؤں گی۔” وہ شیراز کی پلیٹ کے ایک طرف چٹنی ڈالتے ہوئے بولی۔
”اور نفیسہ خالہ نظر نہیں آرہیں؟” شیراز کو کافی دیر بعد نفیسہ کا خیال آیا۔
”وہ اندر ہیں۔ نماز پڑھ رہی ہیں، ابھی آجاتی ہیں۔” زینی نے چائے کا کپ اس کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔
”ارے میں نے تمہیں بتایا کہ ابو بحال ہو گئے ہیں۔” شیراز نے یک دم کہا۔
زینی نے چونک کر اسے دیکھا پھر بے ساختہ مسکرائی۔
”کب؟” اس نے بے حد گرم جوشی سے پوچھا۔
”کل۔”
”اللہ کا شکر ہے، میں توبہت دعائیں کر۔۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے بے اختیار رکی۔ اسے یاد آیا، وہ پچھلی بار ایسی ہی کسی بات پر نارا ض ہوا تھا۔ شیراز نے اس بار ایسا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
”دعا کے ساتھ دوا بھی ضروری ہوتی ہے زینی! چچا کے افسر نے سفارش کی ہے ابو کے محکمے میں ،ورنہ کیا خالی دعاؤں سے بحال ہو جاتے؟ ارے تم بھی تو سموسہ لو نا میں تمہارے لیے لایا تھا۔” شیراز کو بات کرتے یک دم خیال آیا۔
”میںلے رہی ہوں، جو بھی ہے بس شکر ہے کہ تایا ابو کا مسئلہ تو حل ہو گیا۔ خالہ بھی اتنی پریشان تھیں۔” زینی نے دوسری پلیٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔
وہ اب شیراز کے اچھے موڈ کی وجہ کو باآسانی سمجھ سکتی تھی۔ اس نے اپنے کندھوں سے یک دم جیسے کچھ بوجھ ہلکا ہوتا محسوس کیا تھا کیونکہ شیراز کے کندھوں سے ایک بڑا بوجھ ختم ہو گیا تھا۔
بہت دنوں کے بعد اس وقت شیراز کے پاس بیٹھے چائے پیتے ہوئے اس نے بہت ساری باتیں کیں اور بہت دنوں کے بعد کسی بات پر ہنسی۔ خود اس نے شیراز کو بھی انٹرویو کے بعد آج پہلی بار اتناپرسکون اور مطمئن دیکھا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!