من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

”تھک جاتی ہوں میں اس کے ساتھ دکانوں پر پھرتے ہوئے گھنٹوں پھرتی ہے وہ بازار میں، میں نے اچھا خاصا بہانا بنایا تھا اور تم اندر سے نکل آئیں۔”
وہ ناراضی سے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ دھونے لگی۔
”اب میں پہلے کپڑے تبدیل کروں پھر بال بنا کر اس کے ساتھ جاؤں۔” وہ بے حد بیزاری اور کوفت کے عالم میں کہہ رہی تھی۔
”نہیں تم اسی طرح اس کے ساتھ چلی جاؤ۔”
ربیعہ نے اس کے بڑبڑانے پر اسے ڈانٹا۔
”ہاں ٹھیک ہے اسی طرح چلی جاتی ہوں کیا فرق پڑتا ہے۔” زینی کو طنزیہ انداز میں دیا ہوا اس کا مشورہ بے حد مناسب لگا۔
”ہاں کوئی فرق نہیں پڑتا بس یہ ہو گا کہ اگر گلی میں شیراز سے ملاقات ہو گئی تو وہ بے حد ناراض ہو گا۔ تم کو پتاہے نا اسے تمہارا اس طرح کا حلیہ کتنا برا لگتا ہے۔” ربیعہ نے جیسے اسے خبردار کیا۔
”کچھ نہیں ہوتا اور ویسے بھی شیراز اس وقت کہاں گلی میں مل سکتے ہیں۔” زینی نے لاپروائی سے کہا اور کمرے میں گھس گئی۔ ربیعہ نے اس بار اسے کچھ نہیں کہا۔
وہ دس منٹ بعد کمرے سے نکلی۔ ربیعہ نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔ اس نے کپڑے تبدیل کرکے بال سنوار لیے تھے۔ ربیعہ نے بے اختیار اپنی مسکراہٹ چھپائی۔
٭٭٭
”آپ مجھے جوتا مت پہنائیں میں خود پہن لوں گی۔” سیلز مین نے اس کے پاؤں میں جوتا پہنانے کی کوشش کی تو زینی نے جیسے کرنٹ کھا کر اپنا پاؤں پیچھے کیا۔
”آپ کو ایک بار کہی ہوئی بات سمجھ میں نہیں آتی میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے میرے پاؤں کو ہاتھ مت لگائیں میں خود پہن لوں گی۔”
اس نے غصے سے سرخ ہوتے ہوئے ایک بار پھر اپنا پاؤں بے حد طیش کے عالم میں پیچھے کیا۔ سلیز مین نے اس کے روکنے کے باوجود ایک بار پھر ڈھٹائی کے ساتھ اسے جوتا پہنانے کی کوشش کی تھی اور زینب بے حد برہم ہو گئی تھی۔ اس بار اس کی آواز قدرے بلند اور تلخ تھی اور سلیز مین اس کی توقع نہیں کررہا تھا وہ ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔
”کیا ہے زینی! کیا ہو گیا ہے؟… جوتا ہی تو پہنا رہاتھا بے چارہ۔” اس کے ساتھ بیٹھی جمیلہ نے اسے کہنی سے ہلکا سا ٹہوکا دیتے ہوئے کہا۔
”میں نے کب کہا ہے کہ مجھے جوتا پہنائے جب منع کیا ہے تو۔” زینی نے غصے میں بات مکمل کرنے کے بجائے پاؤں میں پہنا ہوا جوتا جھٹکے سے اتار دیا۔




اس کا موڈ یک دم بے حد خراب ہو گیا تھا وہ جوتا قطعاً ایسا نہیں تھا جیسے پہننے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت پڑتی اور زینب ہمیشہ اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ محتاط تھی کوئی بھی جوتا ٹرائی کرنے سے پہلے ہی وہ دکان دار یا سلیز مین سے کہہ دیا کرتی تھی کہ وہ جوتا خود پہنے گی اسے مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جمیلہ کے اصرار پر جوتوں کی اس چھوٹی سی دوکان پر آئی تھی۔ اور وہ دکان میں داخل ہوتے ہی زینب کو سیلز مین اور دکان دار دونوں کے انداز اور نظروں سے بے اختیار وحشت ہوئی تھی۔ وہ اپنے آدھے چہرے کو چادر سے چھپائے ہوئے تھی۔ وہ اس کے باوجود وہ اسے ایک ٹک دیکھ رہے تھے۔ ان کے بات کرنے کا انداز بھی ضرورت سے زیادہ بے تکلفانہ تھا۔ جمیلہ ساتھ نہ ہوتی تو زینب ایک منٹ کے لیے اس دکان میں نہ بیٹھتی لیکن جمیلہ بڑے آرام کے ساتھ دکان دار اور سلیز مین سے گپ شپ میں مصروف ہو کر جوتے نکلوانے لگی تھی، دو جوتوں کے جوڑے پسند کرنے اور بھاؤ تاؤ کرنے کے دوران دکان دار اور جمیلہ کے دوران بے تکلفی کا یہ عالم ہو چکا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسر ے پر معنی خیز انداز میں جملے کس رہے تھے اور سیلز مین اس دوران اسے جوتے دکھانے کی کوششوں کا آغاز کرچکا تھا۔ جمیلہ کے اصرار پر اس نے ایک جوتا نکلوایا اور جوتا نکلواتے ہی سیلز مین کو دوٹوک انداز میں بتا دیا کہ اسے جوتا پہننے کے لئے کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود سیلز مین نے ڈبے سے جوتا نکال کر اس کے پاؤں کے پاس رکھتے ہی جان بوجھ کر اس کے پاؤں کو چھوا زینی نے اپنا پاؤں بے اختیار پیچھے کھینچتے ہوئے اسے ایک بار پھر منع کیا۔ وہ فرش پر بیٹھے بیٹھے کچھ پیچھے ہٹ گیا۔ مگرجیسے ہی زینی دوبارہ جوتے پہننے کے لیے اس کا اسٹریپ اوپر کرنے کے لیے نیچے جھکی سیلز مین نے دانستہ طور پر ایک بار پھر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اسٹریپ اوپر کرنے کی کوشش کی اور زینب کے لیے اب معاملہ برداشت سے باہر ہو چکا تھا۔ اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ نہیں آتا تھا مگر جب غصہ آجاتا تو پھر اس سے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا۔
”کیا ہوا باجی؟ آپ تو ناراض ہو گئی ہیں۔” اسے جوتا پاؤں سے جھٹکتے اور اٹھ کر کھڑا ہوتے دیکھ کر سلیز مین بھی بے اختیار کھڑا ہو گیا۔
”بس کافی جوتے لے لیے ہیں۔ اب آگے کسی دکان پر دیکھ لینا۔” اس نے بے حد سختی سے جمیلہ سے کہا، جو دکان دار کے ساتھ اب تیسرے جوتے کے لیے بھاؤ تاؤ کر رہی تھی۔
”اتنا غصہ باجی! جاؤ باجی کے لیے بوتل اور چاٹ لے کر آؤ۔” دکاندار نے بڑے نارمل انداز میں ہنستے ہوئے زینب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
”کیا کرتی ہیں باجی؟ پڑھتی ہیں؟” دکان دار نے اب جمیلہ سے پوچھا اس سے پہلے کہ زینی کچھ کہتی جمیلہ نے بڑے آرام سے کہا۔
”ہاں کالج میں پڑھتی ہے، بیٹھ جاؤ زینی! اب چاٹ کھا کر جائیں گے۔”
”توپھر تم بیٹھ کر کھاؤ میں جا رہی ہوں” زینب کا پارہ اب آسمان کو چھو رہا تھا۔ اسے اب دکان دار اور سلیز مین کے ساتھ ساتھ جمیلہ پر بھی غصہ آرہا تھا۔
”اچھا… اچھا چلتے ہیں۔” جمیلہ بھی یک دم کچھ گڑبڑا کر کھڑی ہوگئی۔ ”بس یہ جوتا لے لوں دو سو لے لیں اس کے؟” وہ دکاندار سے کہہ رہی تھی۔
”نہیں باجی! ڈھائی سو سے کم نہیں ہوں گے۔”
دکان دار نے اس بار بے حد عجیب سے انداز میں زینی کو دیکھا۔ جو اب دکان کے دروازے کے قریب پہنچ چکی تھی۔
”نہیں بھائی دو سو۔”
زینی نے جمیلہ کی بات کاٹ دی۔ ”منّت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، نہیں دے رہا دو سو کا تو رہنے دو کوئی ضرورت نہیں ہے پچاس روپے کے لیے منتیں کرنے کی۔”
اس بار جمیلہ اور دکاندار نے بیک وقت اسے دیکھا پھر دکاندار نے یک دم بے حد بدلے ہوئے لہجے میں جمیلہ سے کہا۔
”ڈھائی سو سے ایک پیسہ بھی کم نہیں لوں گا لینا ہے تو لیں ورنہ رکھ دیں۔” اس بار اس کے لہجے میں چند لمحے کی وہ بے تکلفی اور گرم جوشی غائب ہو چکی تھی۔ جس کا مظاہرہ وہ جمیلہ کے ساتھ کرر ہا تھا۔ جمیلہ نے بے حد ناگواری کے عالم میں زینی کو دیکھا پھر جوتا رکھ دیا۔
دوسرے دو جوتوں کی ادائیگی کرتے ہی وہ زینی کے پاس آئی اور اس نے دانت پیستے ہوئے اس سے کہا۔
”کیا تکلیف ہو گئی بیٹھے بٹھائے تمہیں؟ تمہاری وجہ سے دو سو کا جوتا دیتے دیتے اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔”
”میری بات کان کھول کرسن لو تم، خبردار آئندہ کسی دکان پر تم نے میرا نام لیا یا دکان دار سے میرے بارے میں کچھ کہا۔” زینب نے تقریباً غراتے ہوئے کہا۔
”آخر ہو کیا گیا تمہیں؟”
”تمہارے سامنے اس نے میرا پاؤں چھوا پھر میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا اور تم۔۔۔۔”
جمیلہ نے اس کی بات کاٹ دی ”تو کیا قیامت آگئی؟ تم اتنی خوبصورت ہو کہ کس کا دل نہیں چاہے گا تمہیں ہاتھ لگانے کو۔” جمیلہ نے بے حد عامیانہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔
”بند کرو اپنی بکواس یہ سب تمہاری اس بکواس کانتیجہ ہے۔ چھچھوری اور بے ہودہ باتیں کر رہی تھیں تم اس دکاندار اور سلیز مین کے ساتھ آخر تمہیں مذاق کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کے ساتھ؟ تمہاری باتوں کی وجہ سے اسے شہہ ملی، اسی لیے اس نے یہ حرکت کی” اس نے جمیلہ کو بری طرح جھڑک دیا۔
”ان ہی چھچھوری اور بیہودہ باتوں کی وجہ سے اس نے جوتوں کی قیمت کم کر کے دی ہے یہ ہنسی مذاق نہ کرتی تو وہ پانچ سو والے جوتے تین تین سو میں دیتا؟” جمیلہ نے بڑے فخر سے کہا۔
”اگر تم مہنگے والے جوتے نہیں خرید سکتی تھیں تو تمہیں انہیں نکلوانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ سو دو سو روپے کے لیے تم اس کی بے ہودہ باتیں سنتی رہی۔” زینی کو اور غصہ آیا۔
”سو دو سو نہیں پورے چار سو روپے کی بچت ہوئی ہے اور تم نے نخرہ دکھایا تو کیا مل گیا تم ایک جوتا تک نہیں خرید سکی ہو، بچث تو دور کی بات ہے اور اچھا بھلا وہ سیلز مین بوتل اور چاٹ لینے کے لیے گیا تھا۔ وہ تک نہیں کھانے دی۔” جمیلہ نے بے حد ڈھٹائی سے کہا۔
”میں لعنت بھیجتی ہوں اس طرح کی چاٹ اور بوتل پر۔” زینی کی برداشت جواب دے رہی تھی۔
”تم بھیجتی ہو گی میں تو نہیں، اللہ رزق دے رہا ہے تو ناشکری کیوں کریں۔” جمیلہ نے بے حد اطمینان سے کہا۔ ”مت کرو لیکن آئندہ مجھے ساتھ لانے کی کوشش مت کرنا میں نہیں آؤں گی تمہارے ساتھ بازار کچھ بھی لینے۔”
”تمہیں پتا ہے زینی! تمہارے ساتھ آنے کی وجہ سے دکان دار کتنی رعایت دے دیتے ہیں مجھے؟” جمیلہ روانی میں کہہ گئی اور گویا زینب کے سر پربم پھوڑ دیا۔
وہ بے اختیار چلتے چلتے رک گئی۔
”کیا مطلب؟”
”کوئی مطلب نہیں، ویسے ہی بتا رہی ہوں تمہیں کہ تمہارے ساتھ آنے کا کتنا فائدہ ہوتا ہے مجھے ایمان داری کی بات ہے جب تم ساتھ نہیں آتیں تو مجھے اتنی رعایت نہیں ملتی جتنی تمہارے ساتھ ہونے کی وجہ سے ملتی ہے کئی دکان دار تو اب تمہارے بارے میں باقاعدہ پوچھتے ہیں مجھ سے، جب تم ساتھ نہیں آتیں۔”
وہ مزے سے بتا رہی تھی۔ اور اس وقت زینب کے جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں تھا۔ اسے بے حد ہتک اور ذلت کا احساس ہوا تھا۔ وہ بازاروں میں جانے کی شوقین نہیں تھی مگر جمیلہ پچھلے تین ماہ سے اسے باقاعدگی سے ہفتے میں ایک دو بار بازار لے آیا کرتی تھی۔ وہ سوچتی تھی ، وہ بچپن کی دوستی کی وجہ سے اسے اپنی شادی کی تیاریوں میں شریک کر رہی ہے لیکن اسے اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ اس کی خوبصورتی کو استعمال کر رہی تھی۔ اسے یقین تھا ان سب دکانوں پر دکاندار اس کا نام بھی جمیلہ کے طفیل جانتے ہوں گے۔ چہرہ نہ بھی پہچانتے ہوں لیکن اس چادر میں لپٹے جسم کو تو باآسانی شناخت کر لیتے ہوں گے۔
ایک لفظ بھی کہے بغیر وہ چلنے لگی۔ وہاں بازار میں کھڑے ہو کر جمیلہ سے کچھ کہنا بے کار تھا لیکن یہ بات طے تھی، اسے دوبارہ اس کے ساتھ کبھی بازار نہیں جانا تھا۔
جمیلہ اگلے دن اسے منانے کے لیے آئی تھی۔
”آخر اس میں اتنا ناراض ہونے والی کیا بات ہے دکان دار کو جو گاہک اچھا لگتا ہے۔ وہ اسے رعایت دیتا ہے اور دوسروں سے زیادہ رعایت دیتا ہے۔ یہ تو ہماری دنیا میں ہوتا ہے۔”
”میں بازار میں دکاندار کو اچھا لگنے نہیں جاتی اور نہ یہ چاہتی ہوں کہ کوئی مجھے دوسرں سے زیادہ رعایت دے۔” زینی کو اس کی بات پھر بری لگی۔
”دیکھو زینی! یہ تو مانو تم کہ خوبصورت لڑکیوں کو سارے مرد رعاتیں دیتے ہیں اور خوبصورت عورتیں رعاتیں لیتی ہیں۔”
”پر میرے ماں باپ نے مجھے یہ تربیت نہیں دی کہ میں اپنی خوبصورتی اور ادائیں استعمال کر کے کسی سے رعایت لیتی پھروں۔” زینی کو اس کا پرغصہ آیا۔
”تم میری بات کا پھر غلط مطلب نکال رہی ہو۔” جمیلہ نے اسے برہم دیکھ کر صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔
”اس لیے کہ تمہاری اس بات کا مطلب نکلتا ہی غلط ہے۔ تم دوبارہ کبھی مجھے اپنے ساتھ کہیں لے جانے کے لیے مت آنا۔ تمہارا وقت ضائع ہو گا۔ ” زینی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”دیکھو زینی! آخر ہرج کیا ہے۔ دکان دار کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے میں یا بقول تمہارے اسے تھوڑی بہت ادائیں دکھانے میں، آخر ہمارا جاتا ہی کیا ہے اس میں۔ بلکہ الٹا کچھ مل ہی جاتا ہے۔ میں تو اسے عورت کی سمجھ داری سمجھتی ہوں کہ وہ اس طرح دکان دار سے کچھ رعاتیں لے لیتی ہے۔”
”جسے تم سمجھ داری کہتی ہو، میں اسے بے حیائی کہتی ہوں اور میر ے ما ں باپ نے مجھے یہ نہیں سکھایا کہ میں دکان دار کے ساتھ چار بے ہودہ جملوں کے تبادلے کے بعد سو روپے کا دوپٹہ اسی روپے میں لے کر اسے بڑی کامیابی سمجھوں۔ مجھے ایسی ”رعایتی چیزوں” میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
جمیلہ کے منہ سے پھر ایک بھی لفظ نہیں نکلا۔ زینی اس کے پاس سے اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔
”افسر بن جائے گا اس کا منگیتر، اس لیے اتنی پارسا بنی پھرتی ہے۔ اس محلے میں ساری عمر ایسی زندگی جینی پڑتی تو میں دیکھتی اتنے نخرے کے ساتھ کیسے رہتی۔”جمیلہ بے حد غصے میں سوچتے ہوئے چلی گئی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!