مصطفیٰ — اُمِّ زینب

رات ساڑھے دس بجے مصطفی کا میسج آیا ”میں گھر آگیا ہوں۔” میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھرکچھ دیر بعد اس نے کال کی۔
”یاد آگئی ہوں میں تمہیں؟ وہ تمہارے ساتھ چپکی ہوئی تھی جو تم مجھے ایک میسج بھی نہیں کر سکے؟” میں نے فون اٹھاتے ہی ناراضی کہا۔
”آج اس نے پھر شادی کی بات کی تھی؟” میں نے کسی قدر پریشانی سے پوچھا۔
”ہاں۔” مصطفی نے صرف اتنا ہی کہا میں تو جیسے سکتے میں آگئی۔
”وہاں میں ان کے ساتھ انتظامات میں مصروف تھا تمہیں کال یا میسج نہیں کر سکا۔”
”کیوں؟ وہ تمہارے ساتھ ہی رہی تھی سارا ٹائم؟ اور کوئی نہیں تھا؟ کیا کہا اس نے شادی کے بارے میں۔” میرے تو جیسے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی۔
”پہلے تم لڑائی پوری کر لو پھر بتاتا ہوں۔” مصطفی کی آواز میں پریشانی تھی جسے میں صاف محسوس کر سکتی تھی، مگر میں بھی کیا کرتی، مجھے لگ رہا تھا سب کچھ میرے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے۔




”آج وہاں سہیل انکل کی کال آئی، و ہ بہت چیخ چیخ کر میری بے عزتی کر رہے تھے۔ میڈم بھی پاس ہی تھیں، فون سے آواز باہر آرہی تھی۔ فون بند ہوا تو انہوں نے کہا میری بات مان لو تو تمہاری لائف بدل جائے گی۔
تمہاری ہر خواہش پوری ہو گی اگر تم میری آفر قبول کر لو۔ آج رات کو میں تمہارے جواب کا انتظار کروں گی۔ پلیز عائزہ میں بہت مشکل میں ہوں، میں کسی صورت تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔ میں ابھی بھی باہر ہوں گھر جانے کو دل ہی نہیں کر رہا اور تم بھی میرے ساتھ لڑ رہی ہو۔”وہ روہانسا ہو رہا تھا۔
”تم پریشان نہ ہونا، مگر مصطفی یہ یاد رکھنا کہ میں تمہاری ہوں اور تم نے مجھے چھوڑ بھی دیا تو میں پھر بھی تمہاری ہی رہوں گی۔” میں رونے لگی۔
” پلیز مجھے مزید پریشان متکرو میں نے شادی کر تو نہیں لی۔” مصطفی نے چیخنے کے انداز میں کہا۔ میں نے فون بند کر دیا۔
”مصطفی تم اس سے شادی کر لو اس سے تمہارے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔”یہ میرا مصطفی کو آخری میسج تھا۔ مصطفی نے فوراً مجھے کال کی، مگر میں اتنا رو رہی تھی کہ میں نے کال اٹینڈ نہیں کی اور میں کرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اب حالات اور وقت کا یہی تقاضا تھا۔ میں نے اپنا فون آف کر دیا۔ اگلے دن جب میں اسٹور گئی تو مصطفی اور ملیحہ دونوں ہی نہیں آئے۔ میں نے اسٹور مینیجرکوبتا دیا کہ میں جاب چھوڑ رہی ہوں۔ جب میں اسٹور سے نکلی تو مجھے لگا ساری فضا میرے ساتھ سوگ وار ہے۔
سارا دن میں نے فون آن نہیں کیا۔ رات کو میں نے فون آن کیامگر مصطفی کا کوئی میسج نہیں آیا تھا۔ what’s app پر بھی کل رات کا Last seen شو ہورہا تھا۔
”مصطفی تم تو کہتے تھے کہ تم میرے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مصطفی میں تمہیں ایک بار بھی یاد نہیں آئی؟ تم نے شادی کر لی۔ تم اتنے بے وفا نکلے۔” میں مصطفی کو میسج کرتی جا رہی تھی اور روتی جارہی تھی میسج کرنے کے بعد میں نے اپنی سم نکال کر چولہے میں ڈال دی، مجھے رونا بھی نہیں آرہا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ بس مجھے کچھ یاد نہ رہے۔
انیتا نے مجھے بتایا کہ اس کا فلیٹ بند ہے پھر اس کے بعد میں نے نہ تو مصطفی کا پتا معلوم کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس سے رابطہ کیا۔ انہی دنوں میری امی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی اور ایک رات وہ بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر سے دنیا چھوڑ کر چلی گئیں، مگر یہ شاید میرے ضبط کی آخری حد تھی۔ میں اس دن اتنا روئی کہ مجھے لگتا تھا کہ میرے آنسو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ یہ امی کے اس دنیا سے چلے جانے کے آنسو تو تھے ہی ساتھ میں میرا مان ٹوٹ جانے کے بھی آنسو تھے۔ یہ کیسے رُکتے؟
میری ہمسائیاں اور میری چھوٹی بہن مجھے تسلیاں دے رہی تھیں۔
میں نے بعد میں اسی بلڈنگ میں ایک کمرے والا فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ جاب چھوڑ دی اور امی کا زیور بیچ کر پیسے بینک میں جمع کروا دیے جس کے پرافٹ سے ہمارا گزارا ہونے لگا۔ پہلے تو امی کی دوائیوں کا خرچ زیادہ تھا لیکن اب یہ بھی نہیں رہا تھا۔
ان مشکل حالات میں مجھے انیتا کا بہت سہارا تھا۔ وہ اکثر آفس ٹائم کے بعد آجاتی اور کوئی نہ کوئی فلم لگا لیتی ہر طرح سے اِدھر اُدھر کی باتوں سے میرا دل لگانے کی کوشش کرتی۔ بس مجھے یہ سمجھاتی کہ کسی کے پیچھے اپنی زندگی برباد نہیں کرتے۔
”عائزہ آج میں تمہاری ایک بات بھی نہیں سنوں گی۔ یہ دیکھو یہ ہمارے آفس میں ایک نیا بندہ آیا ہے دبئی سے اس کی بیوی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئی تو یہ اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان آگیا ہے۔ ابھی ایک مہینا بھی نہیں ہوا، تم کہو تو میں تمہاری بات کروں؟” ایک دن وہ گھر آئی اور مجھ سے اصرار کرنے لگی ساتھ ہی اپنے موبائل سے مجھے اس کی تصویریں دکھا رہی تھی۔
”انیتا میں تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ جو باتیں میں مُصطفی سے کر چکی ہوں وہ کسی اور سے کروں بھی۔” میں نے دُکھ سے کیا۔
”عائزہ پلیز! یہ لیلیٰ مجنوں کا دور نہیں ہے، تم نے پوری زندگی گزارنی ہے۔ شادی تو تمہیں کرنی ہو گی۔ کل کو جب آمنہ کی شادی کر دو گی، تو تم اکیلی ہو جائو گی اور مصطفی نے تو تمہیں مُڑ کر دیکھنا بھی نہیں۔” میرے اس جواب پر اس نے چڑ کر کہا۔ وہ کہہ تو ٹھیک رہی تھی، مگر میں مصطفی کے بعد کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔




میں اکثر ہی رات کو سونے سے پہلے مصطفی کے دیے ہوئے تحائف اپنے بیڈ پر رکھ لیتی اور اپنی انگلیوں کے پوروں سے انہیں چھوتی۔ مصطفی کے لمس کو اور اس کی محبت کو محسوس کرتی، ہر وہ موقع یاد کرتی جب جب مصطفی نے مجھے وہ دیے تھے۔ آج بھی مجھے ان میں مصطفی کی خوش بو آتی میری محبت میں آج بھی کوئی کمی نہیں تھی، مگر مصطفی تمہیں میں کبھی یاد نہیں آئی یہ سوال ہر وقت میرے ذہن میں رہتا۔
کچھ دن بعد انیتا کی کال آئی کہ تم آج شام میرے ساتھ چائے پیو، آمنہ کو بھی ساتھ لے آنا میرے گھر۔ میں نے اس سے وجہ دریافت کی تو وہ بولی کہ کوئی خاص بات ہے، تمہیں کسی سے ملوانا ہے۔ میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ میں سمجھ گئی تھی۔
” پلیز عائزہ! اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے تمہارا گھر بس جائے گا اور وہ آمنہ کو بھی ساتھ رکھنے کو تیار ہے میری بات ہو گئی ہے۔”
”نہیں میں نہیں آئوں گی” میں نے غصے سے کہا۔
” میں نے شادی نہیں کرنی یہ بات کان کھول کر سُن لو، میں مصطفی کی ہوں۔”
”عائزہ اُسے واپس نہیں آنا، اسے سب کچھ مل چکا ہے اب اسے تمہاری ضرورت نہیں اور تم اس کا انتظار کر رہی ہو۔”
”میں اس کا انتظار نہیں کر رہی، مگر میں کسی اور سے محبت نہیں کر سکوں گی۔” میں نے گلو گیر آواز میں کہا۔
”اچھا پلیز! اب میں نے ان لوگوں کو بلا لیا ہے، تم میری عزت کے لیے آجائو۔”
” اچھا آجاتی ہوں۔” میں نے بددلی سے کہا۔ میرا ارادہ آج بھی کسی چٹان کی طرح مضبوط تھا۔ میں نے ہلکا سا میک اپ کیا اور آمنہ کے ساتھ انیتا کے گھر چلی گئی۔




Loading

Read Previous

موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

Read Next

جادوئی جنگل | سمیعہ علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!